بہت اچھی اور تعمیری بحث ہورہی ہے، میرے خیال میں اردومحفل کو ایسی ہی تعمیری مباحث کی ضرورت ہے۔
محسن صاحب کا تجزیہ بہت اعلٰی معیار کا ہے۔ لیکن ہمارے سماج میں کچھ ایسے خوف بھی ہیں جن کا تعدد مشاہدہ سے علاج نہیں ہوسکتا۔ بلکہ چشم تصوّر کرنے سے خوف اور زیادہ بھیانک صورت اختیار کرسکتا ہےجیسے ایک مڈل کلاس کے سفید پوش فردکا اپنی سفید پوشی چھن جانے کا خوف جوان بیٹیوں کے رشتے نہ آنے کا خوف دِہاڑی پر گھر چلانے والے کو دِہاڑی نہ لگنے کا خوف وغیرہ وغیرہ وغیرہ
اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری قوم کاواقعی ہر لمحہ کرب میں گزر رہا ہے اور ظلم کی انتہا کہ کوئی نفسیاتی مدد یا ڈھارس ملنے کی بھی کہیں سے امید نہیں۔
آپ نے ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ واقعی لوئر مڈل کلاس کے یہ خوف موجود ہیں اور ان کے سبب بلند فشار خون یا امراض قلب کا شکار بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔ مجھے ان تمام پہلوؤں کے first hand experience and observation کا موقع ملا ہے۔
تاہم نفسیاتی ڈھارس کے لیے ان لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے جنہیں اللہ نے توفیق دی ہے۔ میں ذاتی طور پر پاکستان کے کسی بھی مخیر ادارے سے نہ متفق ہوں نہ مطمئن ہوں۔ ان کے کام محض تصاویر کھچوانے اور خبریں چھپوانے تک محدود ہیں کسی کی امداد کر بھی دیں تو اس کی تصاویر چھاپ چھاپ کر مثال عبرت بنا دیتے ہیں۔ بس اسی واسطے سفید پوش خودکشیاں کر لیتے ہیں لیکن ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ لاہور میں ایک سبزی فروش کی اہلیہ نے ریل کے آگے چھلانگ لگا دی تھی۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سو روپیہ روز کا بھی نہیں کما پاتے۔۔۔ اور کرایوں کے مکانوں میں رہتے ہیں۔۔۔تو دوسری طرف فائیو سٹار ہوٹلوں میں 500 روپے کا ایک کپ چائے منگوانے اور اسے بھی آدھا چھوڑ دینے والے لوگ موجود ہیں۔
میرے ذہن میں کافی منصوبے ہیں اس ضمن میں لیکن اس سلسلے میں پیسہ مکمل طور پر اپنا ہونا چاہئے۔کسی کے روپے پیسے کا میں قائل نہیں۔ اب مساجد میں ہی دیکھ لیجئے۔ جو بڑے میاں سب سے زیادہ چندہ دیتے ہیں، کون سا پنکھا چلے گا وہ کہاں بیٹھیں گے، خطبے میں کیا کہا جائے گا نماز کے اوقات کیا ہوں گے، بیت الخلا میں لوٹے کس رنگ کے ہوں گے جیسے لایعنی معاملات پر بھی انہی کا جزوی اختیار آ جاتا ہے۔ جب کہ میں ذاتی حیثیت میں زندگی کے ہر پہلو میں سود و زیاں سے بے نیاز اس قسم کے بابوں کو کمال ڈھٹائی اور درشتی سے جوتے کی نوک پر رکھتا آیا ہوں۔
اور یہی وجہ ہے کہ ہماری مساجد عوام کے سیاسی وسماجی شعور کے لیے تربیت گاہ نہ بن سکیں لازم ہے کہ خطیب وہی چند احادیث سال بھر دہراتا رہے اور منبر سے کسی کے خلاف کلمہ حق نہ کہنے پائے۔ تو بس پھر مسجد کیا ہے ٹوپیاں ہیں جوتیاں ہیں اور کچھ لپٹی کچھ بچھی ہوئی چٹائیاں ہیں۔۔۔
تاہم یہ میرے ذاتی خیالات ہیں جن کی صحت پر مجھے قطعی اصرار نہیں نیز آپ کا اس رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ موضوع سے ہٹنے کے لیے معذرت، آپ احباب گفتگو جاری رکھیے۔