لاہور ہائیکورٹ کا نواز شریف کا نام ECL سے نکالنے کا حکم
لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے حکومت کو ان کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا حکم دے دیا ہے۔
گزشتہ روز درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر
لاہور ہائیکورٹ نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ شہباز شریف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست قابل سماعت ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے دورکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت یہیں ہوگی۔
فیصلہ سنانے کے بعد عدالت نے نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہبازشریف کی درخواست کو آج سماعت کے لیے مقرر کیا۔
نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم
جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی جس میں نیب پراسیکیوٹر، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور شہبازشریف کے وکیل درخواست پر دلائل دیے۔
دوران سماعت شہباز شریف کی جانب سے عدالتی حکم پر تحریری ضمانت جمع کرائی گئی جس کے جواب میں سرکاری وکلا کی جانب سے بھی بعض اعتراضات اٹھائے گئے۔
جس پر عدالت نے خود ڈرافٹ تیار کرکے دونوں فریقین کو دیا۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے عدالتی ڈرافٹ کو تسلیم کر لیا گیا جب کہ سرکاری وکلاء نے مؤقف اختیار کیا گیا کہ مسودے میں کوئی ضمانت نہیں طلب کی گئی اس لیے انہیں عدالتی ڈرافٹ پر تحفظات ہیں۔
تاہم، عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو علاج کی غرض سے 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے حکومت کو ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا ہے۔
عدالتی ڈرافٹ کا متن
وقفے کے بعد عدالت کی جانب سے تیار کردہ مجوزہ ڈرافٹ وفاقی حکومت اور شہباز شریف کے وکلاء کو فراہم کیے گئے۔ شہباز شریف اور احسن اقبال نے بھی ڈرافٹ کا جائزہ لیا۔
عدالتی ڈرافٹ کے متن میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے 4 ہفتے کا وقت دیا گیا ہے لیکن اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہو سکتی ہے۔
متن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومتی نمائندہ سفارت خانے کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کر سکے گا۔
ن لیگ نے عدالتی ڈرافٹ قبول، سرکاری وکلاء کا اعتراض
شہباز شریف کے وکیل اشتر اوصاف نے جیو نیوز کو بتایا کہ عدالت نے ن لیگ کی استدعا منظور اور حکومتی مؤقف رد کر دیا ہے۔
عدالتی ڈرافٹ سے متعلق سوال پر اشتر اوصاف نے کہا کہ ہمیں عدالتی ڈرافٹ قبول ہے تاہم ذرائع کا بتانا ہے کہ سرکاری وکیل نے عدالتی ڈرافٹ پر اعتراض اٹھایا ہے اور تھوڑی دیر بعد حکومتی وکلاء عدالت کو اپنے اعتراض سے آگاہ کریں گے۔