کائناتی شعور سے کیا مراد ہے؟ اردو شاعری میں کائناتی شعور کی بلند سطح کے حاملین شعراء کون کون ہیں؟

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ھاھاھاھاھاھاھا
بلال بھائی آپ مانتے ہیں نا فراز صاحب کو ، میں بھی مانتا ہوں ، بلکہ مانتے سب ہیں، اور یہ بھی ہے کہ کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے فراز کے شاعرانہ مرتبے میں ہر گز کمی نہیں ہوسکتی، مگر در اصل یہاں بات کائناتی شعور کی ہو رہی ہے، اس لیے ہم خوب سے خوب تر کی بات کر رہے ہیں
میر یقیناً استاد الاساتذہ ہیں، اور غالبؔ کے حوالے سے میں بھی ان کا معتقد ہوں، مگر کائناتی شعور کی بات چیت میں میرؔ کا ذکر میں بھی بے جا سمجھوں گا

غالبؔ کو تمنا کا دوسرا قدم رکھنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی اور اقبال ستاروں سے آگے اور جہان دیکھ رہے تھے
اور کوئی مثال ہے اردو میں اس کے علاوہ؟؟ حالیؔ تھے مگر وہ صرف مذہب و ملت تک محدود ہو کر رہ گئے
خالق ، مخلوق ، اور تخلیق پر سوچنے کی فرصت تو صرف غالبؔ اور اقبال کو ملی، باقی سب تو شمع، بلبل، خال، رخسار میں الجھے پڑے ہیں
پتا نہیں کس کا طنزیہ مصرعہ ہے "بے چارے کے ذہن پہ ہے عورت سوار"
غالبؔ کی شاعری تو شاعری ہوئی، امریکہ، روس میں ان کے خطوط نے بھی ان کو پاگل کیا ہوا ہے، آخر کچھ تو یونیورسل ہوگا جو غالبؔ ہر خطے میں غالبؔ ہے، میر مہدی مجروح کو سیدھی سادھی زبان میں لکھے گئے خطوط کو انگریز پڑھ پڑھ پاگل ہوئے جا رہے ہیں، کیا بلا وجہ ہی؟
ویسے آپ نے زیادتی کی ہے غالبؔ کا موازنہ فراز سے کر کے، غالبؔ اور اقبال کو تو متعصب سے متعصب ترین نقاد بھی لامحدود ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے
اور اگر ہماری بے جا عقیدت سمجھ کر اس بات کو نظر انداز کرنا بھی چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی


میں نے کسی کا کسی سے موازنہ نہیں کیا ہے، میں نے اپنے سب سے پہلے رپلائی میں یہی کہا تھا کہ غالب اور اقبال کی جگہ تو پکی ہے، اور فراز کا غالب سے موازنہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ خود فراز نے کہا ہے کہ وہ غالب کو بہت مانتے ہیں۔ جبکہ آگے چل کر میں نے یہ کہا تھا کہ موجودہ دور میں غالب اور اقبال کو ہم ویسے نہیں پڑھ رہے جیسے پڑھنے کا حق ہے، ہماری نئی نسلیں ان سے نا واقف ہوتی جا رہی ہیں، کم از کم ساہیوال جیسے چھوٹے شہروں میں تو ایسا ہی ہے۔ اگر میں میری بات سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں میرا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں تھا اور نہ ہی میں غالب کے مرتبے میں شک کر رہا ہوں، جب اقبال جیسا شاعر بھی غالب کی تعریف کر سکتا ہے تو پھر غالب کے غالب ہونے میں کیا شک ہے۔
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں​
آج غالب غزل سرا نہ ہوا​
دوسری بات آپ نے بلا شک و شبہ بالکل درست فرمائی ہے کہ غالب اور اقبال کے علاوہ تقریباَ تمام شعراء بلبل و رخسار کی گرہوں میں الجھے ہوئے نظر آتے ہیں، چند ایک ہیں جنہوں نے محدود پیمانے پہ دوسرے نظریات کو بھی فروغ دیا ہے جن میں حالی، اکبر اور حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسلام قابل ذکر ہیں۔​
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ایک بات کی وضاحت ضروری ہے ۔۔۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے کلاسیکی شعراء کے ہاں محض گل و بلبل کی حکایتیں ہیں ۔۔۔ اقبال نے تو شعری انداز میں کسی حد تک مبالغے سے کام لیتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ ہند کے ادیبوں اور شاعروں کے سر پر عورت سوار ہے ۔۔۔ ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی یہ بات جزوی طور پر ہی درست ہے اور چونکہ شعر میں مبالغہ روا ہوتا ہے اس لیے ان کی بات کو حرفِ آخر نہ سمجھ لینا چاہیے ۔۔۔ آخر میر، غالب اور اقبال کے علاوہ ہمارے پاس ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی، نظیر اکبر آبادی، خواجہ میر درد، مومن خان مومن، میر انیس، مصحفی، آتش جیسے شعراء بھی تو موجود ہیں ۔۔۔ بعض کے نام لینا بھول گیا ہوں گا لیکن یہ چند مثالیں ہیں ۔۔۔ کچھ اور نام بھی یاد آ گئے ۔۔۔ حالی، اکبر الہ آبادی کہاں گئے؟ ۔۔۔ اصغر گونڈوی بھی تو ہیں ۔۔۔ اسی طرح بعد میں اقبال کے بعد نظم کے ایسے شعراء آئے کہ جن کے نام نہ لینا زیادتی ہو گی ۔۔۔ مجید امجد، ن م راشد سے لے کر ابرار احمد، ثروت حسین تک ۔۔۔ نہ جانے کتنے نام ہیں ۔۔۔۔۔ اور پھر اپنے ناصر کاظمی سے لے کر موجودہ زمانے تک بیشتر شعراء ہیں جن کے کلام میں ایسے اشعار موجود ہیں ۔۔۔ جن پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں ۔۔۔ خیر، وہیں سے بات شروع ہو تو اچھا ہو گا جہاں تک یہ بحث پہنچ چکی تھی ۔۔۔ یعنی کہ یہ سوال سامنے آیا تھا ۔۔۔۔۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے ایک مسئلہ سامنے آ گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ضروری تو نہیں کہ جس شعر میں فلسفہ کا بیان ہو وہ شعر کائناتی شعور کا بھی حامل ہو ۔۔۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ صاحبان کے خیال میں کسی شعر میں وہ کون سا عنصر یا پھر کون سے عناصر پائے جائیں تو ہم اس شعر کی بابت یہ کہہ سکیں گے کہ اس شعر میں کائناتی شعور کی جھلک موجود ہے ۔۔۔ ۔۔ سوال اتنا سیدھا بھی نہیں ہے ۔۔۔ جتنا دیکھنے میں لگ رہا ہے ۔۔۔ کیا خیال ہے؟
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایک بات کی وضاحت ضروری ہے ۔۔۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے کلاسیکی شعراء کے ہاں محض گل و بلبل کی حکایتیں ہیں ۔۔۔ اقبال نے تو شعری انداز میں کسی حد تک مبالغے سے کام لیتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ ہند کے ادیبوں اور شاعروں کے سر پر عورت سوار ہے ۔۔۔ ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی یہ بات جزوی طور پر ہی درست ہے اور چونکہ شعر میں مبالغہ روا ہوتا ہے اس لیے ان کی بات کو حرفِ آخر نہ سمجھ لینا چاہیے ۔۔۔ آخر میر، غالب اور اقبال کے علاوہ ہمارے پاس ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی، نظیر اکبر آبادی، خواجہ میر درد، مومن خان مومن، میر انیس، مصحفی، آتش جیسے شعراء بھی تو موجود ہیں ۔۔۔ بعض کے نام لینا بھول گیا ہوں گا لیکن یہ چند مثالیں ہیں ۔۔۔ کچھ اور نام بھی یاد آ گئے ۔۔۔ حالی، اکبر الہ آبادی کہاں گئے؟ ۔۔۔ اصغر گونڈوی بھی تو ہیں ۔۔۔ اسی طرح بعد میں اقبال کے بعد نظم کے ایسے شعراء آئے کہ جن کے نام نہ لینا زیادتی ہو گی ۔۔۔ مجید امجد، ن م راشد سے لے کر ابرار احمد، ثروت حسین تک ۔۔۔ نہ جانے کتنے نام ہیں ۔۔۔ ۔۔ اور پھر اپنے ناصر کاظمی سے لے کر موجودہ زمانے تک بیشتر شعراء ہیں جن کے کلام میں ایسے اشعار موجود ہیں ۔۔۔ جن پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں ۔۔۔ خیر، وہیں سے بات شروع ہو تو اچھا ہو گا جہاں تک یہ بحث پہنچ چکی تھی ۔۔۔ یعنی کہ یہ سوال سامنے آیا تھا ۔۔۔ ۔۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے ایک مسئلہ سامنے آ گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ضروری تو نہیں کہ جس شعر میں فلسفہ کا بیان ہو وہ شعر کائناتی شعور کا بھی حامل ہو ۔۔۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ صاحبان کے خیال میں کسی شعر میں وہ کون سا عنصر یا پھر کون سے عناصر پائے جائیں تو ہم اس شعر کی بابت یہ کہہ سکیں گے کہ اس شعر میں کائناتی شعور کی جھلک موجود ہے ۔۔۔ ۔۔ سوال اتنا سیدھا بھی نہیں ہے ۔۔۔ جتنا دیکھنے میں لگ رہا ہے ۔۔۔ کیا خیال ہے؟

واقعی یہ بہت پیچیدہ سوال ہے، اب تقریباَ ہے بڑے چھوٹے شاعر کا نام اس دھاگے میں آئے گا۔ اساتذہ اس بارے میں زیادہ بہتر رائے دے سکتے ہیں۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ غالبؔ اور اقبال کے علاوہ کسی میں کائناتی شعور نہیں ہے، لیکن دھاگے کا عنوان ہے کہ بلند ترین کائناتی شعور کے حاملین شعرا کون کون ہیں
میں نے عنوان کے مطابق صرف بلند ترین شعور کے حامل شعرا کی بات کی
اس بات بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کرنا چاہوں گا۔
شاہد آفریدی نے آتے ہی تیز ترین سنچری بنا کر دھوم مچا دی۔ مگر کیا اس کی سنچریوں یا کم از کم دھواں دھار بیٹنگ میں سچن ٹنڈولکر کا سا تسلسل ہے؟ (غیر جانبدار ہو کر سوچیئے)
جب عظیم کھلاڑیوں کی فہرست بنے گی تو جاوید میانداد، عمران خان، سعید انور، رمیز راجہ، انضمام الحق کے ساتھ آپ مصباح الحق کا ذکر کریں گے؟
شاعروں کی جب لسٹ بنائی جائے گی تو للو پنجو ترین شاعر کا نام بھی لکھا جائے گا۔ لیکن جب مقبول شاعروں کی لسٹ بنے گی تو صرف ان شعرا کے نام آئیں گے جو مقبول ہوں۔ جیسے کہ مصحفی سے وصی شاہ تک اور وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب بین الاقوامی شعرا کی لسٹ بنے گی تو غالبؔ، اقبال، فیض اور پروین شاکر کے علاوہ چند گنے چنے نام ہونگے
اسی طرح جب ہم عالمی ادب میں اردو کی فخریہ پیشکش نامی لسٹ بنائیں گے تو غالبؔ اور اقبال ہونگے
امید ہے اب میری بات سمجھ گئے ہونگے کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔ شاعری میں فلسفہ تو آ ہی جاتا ہے کسی میں شعوری طور پر تو کہیں لاشعوری طور پر، مگر جس طرح غالبؔ اور اقبال کی شاعری کا موضوع انسان کو بنایا، اور اسے کائنات کا مرکز قرار دے کر مظاہر قدرت پرجس تسلسل سے سول جواب کیے ، وہ تسلسل ہی در اصل انہیں بلند ترین کائناتی شعور کے حاملین شعرا کی فہرست میں لاتا ہے
غالبؔ اور اقبال میں صرف شاعرانہ مماثلت نہیں ۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ غالبؔ اور اقبال کا مذہبی مسلک الگ تھا، اقبال نے اردو میں غالبؔ کو ہی اپنی فکر و نظر کیلئے معیار بنایا۔ اور جتنا ان کا بلند پرواز شعور تھااس کو مطمئن صرف نیرنگِ غالبؔ ہی کر سکتا تھا۔ اقبال اور غالبؔ میں ایک نہیں ہزاروں مماثلات ہیں۔بس فرق یہ ہے اقبال کا پیغام واضح ہے، مگر غالبؔ کی اٹکھیلیاں اللہ کی پناہ
غالبؔ اپنا نظریہ ٹھونسنے کی بجائے اس پر سوالیہ نشان لگا کر انسانی ذہن کو مہمیز کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آلسی ذہن اقبال کی حل شدہ پرائمری گائیڈمیں پناہ لیتے ہیں
انگور کھٹے ہیں مزاج کے لوگوں کیلئے دیوانِ غالبؔ محض ہی ہی ہی ہی ہے۔ لیکن محمد وارث بھائی سے پوچھ لیجئے تو نوائے سروش ہے
اب ایک اور مسئلہ بھی ہے یہاں، کہ جیسے ہی کسی کا شعور بالغ ہوتا ہے وہ چاہے وصی شاہ کو پڑھ رہا ہو، یا پروین و فراز کو، وہ بڑی آسانی سے اقبال کو پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔ لیکن غالبؔ سے پنگا لینے کیلئے صرف شعور کی بلوغت کافی نہیں، ایک عدد کامل استاد اور درست راستہ کا علم ہونا بھی لازمی ہے، ورنہ بقول سعدی" غالبؔ کو پڑھنا اور برمودا ٹرائی اینگل کا سفر کرنا برابر ہے" تو غالبؔ تک پہنچنے کا رستہ اردو میں صرف اقبال سے ہو کر گزرتا ہے، ڈائریکٹ جو بھی پڑھے گا گمراہ ہو گا، یا غالب ؔ سے متنفر ہو جائے گا
غالبؔ کے ذتی افعال و اعمال پر بحث یہاں مناسب نہیں ، ورنہ
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا٭٭ بن گیا رقیب آکر جو تھا راز داں اپنا
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ماشاءاللہ ۔۔۔ آپ کی غالب فہمی قابل رشک معلوم ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ خیر سوال اب بھی یہی سامنے آ رہا ہے کہ آپ صاحبان کے خیال میں کسی شعر میں وہ کون سا عنصر یا پھر کون سے عناصر پائے جائیں تو ہم اس شعر کی بابت یہ کہہ سکیں گے کہ اس شعر میں کائناتی شعور کی جھلک موجود ہے ۔۔۔ ۔۔ سوال اتنا سیدھا بھی نہیں ہے ۔۔۔ جتنا دیکھنے میں لگ رہا ہے ۔۔۔ کیا خیال ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
کائناتی شعور کے متعلق تو میں کہہ چکا ہوں کہ میں وہی آفاقیت مراد لیتا ہوں۔ یوں موٹے موٹے الفاظ میں ناقدین کرام کچھ بھی آئیں بائیں شائیں کرتے رہیں۔
غالب کی عظمت تو مسلم ہے ہی۔ میں تو اقبال کو بھی بہت محدود مانتا ہوں۔ اتنی اہمیت پاکستان میں ان کو دے دی گئی ہے، کہ ہر ایرا غیرا اقبال کے اشعار سناتا رہتا ہے، جیسے وہ واقعی سمجھتا ہے!! اقبال اچھے شاعر تھے، اس میں شک نہیں، لیکن ان کو ’پاپولر‘ بنانے میں سیاست کا ہاتھ ہے۔ آپ متاثر ہو سکتے ہیں اقبال کی شاعری سے، اس پر سر نہیں دھن سکتے!!
ویسے محفلینوں کو مجھ سے غیر متفق ہونے کا اختیار ہے!!
زیادہ تر لوگ تو پسندیدہ کلام میں ایسی غزلیں بھی لگاتے ہیں جن میں کئی الفاظ نہ صرف غلط لکھے ہوتے ہیں، اور کوئی مطلب نہیں نکلتا، پتہ نہیں کیسے لوگوں کا ’پسندیدہ کلام‘ بن جاتا ہے ایسا کلام! اور مزے کی بات یہ ہے کہ کسی شعر کی صحت کے بارے میں دیکھنے کے لئے گوگل کیا جائے تو ساری فورموں میں وہی غلطی اور املا نظر آتی ہے۔ رات ہی ایک لفظ ’نمط‘ سودا کے کلام میں نظر آیا، مجھے بھی معلوم نہیں تھا، جھوٹ کیوں بولوں، لغت دیکھنی پڑی۔ لیکن کیا ایسا شعر پسندیدہ کہا جا سکتا ہے جو سمجھ میں ہی نہ آیا ہو؟ کہیں ’منحصر‘ کو ’مخصر‘ لکھا گیا ہو تو سب جگہ وہی کاپی پیسٹ ہو گا انٹر نیٹ پر، معلوم نہیں پوسٹ کرنے والوں نے کیا سمجھا ہو گا۔
بات پروین شاکر اور احمد فراز کی بھی ہو رہی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ یہ لوگ آفاقی شاعر نہیں ہیں، آج سے پچاس سال بعد ان کا کلام طاق نسیاں میں ملے گا۔ اور سو ڈیڑھ سو سال بعد فاخرہ بتول، وصی شاہ کا کلام بھی۔ ان کا نام میں نے تو کم از کم اردو محفل سے ہی سنا تھا!!
 

محمد امین

لائبریرین
چھوٹا غالب بھائی ۔۔۔ وصی شاہ، پروین شاکر اور فراز سے اقبال تک جمپ لگانا اتنا آسان تو نہیں ہے :) ۔۔ دراصل اقبال غالب جیسے مشکل پسند نہیں ہیں مگر موضوعات کے اعتبار سے اقبال غالب کے مقابلے میں زیادہ وقیع ہیں کیوں کہ جدید علوم و فلسفے اور مغربی افکار کو سمیٹا ہے انہوں نے۔ تو جیسے غالب کو سمجھنے کے لیے انسان کا مشرقی شعراء اور فلاسفہ کو سمجھنا ضروری ہے ویسے ہی اقبال کو سمجھنے کے لیے مغربی و مشرقی دونوں طرح کی تاریخ، فلسفہ اور شخصیات کو سمجھنا ضروری ہے جو کہ پروین اور وصی کے دیوانوں میں اتنی آسانی سے نہیں آسکتا۔۔۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ امید ہے برا نہیں لگا ہوگا۔ غلط کہا ہو تو اصلاح فرما دیجے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
"کائناتی شعور" میں "آفاقیت" تو موجود ہوتی ہی ہے لیکن "آفاقیت" "کائناتی شعور" کا متبادل ہو سکتی ہے یا نہیں، اس پر کچھ رہنمائی مل جائے تو عنایت ہو گی ۔۔۔۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
غالب کی عظمت تو مسلم ہے ہی۔ میں تو اقبال کو بھی بہت محدود مانتا ہوں۔ اتنی اہمیت پاکستان میں ان کو دے دی گئی ہے، کہ ہر ایرا غیرا اقبال کے اشعار سناتا رہتا ہے، جیسے وہ واقعی سمجھتا ہے!! اقبال اچھے شاعر تھے، اس میں شک نہیں، لیکن ان کو ’پاپولر‘ بنانے میں سیاست کا ہاتھ ہے۔ آپ متاثر ہو سکتے ہیں اقبال کی شاعری سے، اس پر سر نہیں دھن سکتے!!
ویسے محفلینوں کو مجھ سے غیر متفق ہونے کا اختیار ہے!!

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا ٭٭٭ میں نے یہ جانا گویا یہ بھی میرے دل میں

اقبال کا نام لینا نمبر بنانے کیلئے اور بات ہے مگر جیسا کہ سر اعجاز نے لکھا ان کو سمجھنا اور بات ہے، اگر مجھ پر لعن طعن نہ کی جائے تو میں اقبال کی عظمت کا اعتراف کرنے کےساتھ یہ بھی کہوں گا کہ اقبال سے سیاست اور "چلو چلو حرم چلو" نما نعرہ نکال دیا جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال نے اس وقت وہ شاعری کی جس کی اس وقت کی ضرورت تھی، اور وہ چھا گئے
لیکن میں غالبؔ کا اس لیے معتقد ہوں کہ ان کی زندگی میں اور شاعری میں کسی قسم کا ترغیبی عنصر نہیں ہے ، انہوں نے اس وقت وہ شاعری کی جس کا قدر دان سوائے روح القدس کے کوئی اور نہ تھا، حتیٰ کہ حالی کو مطمئن کرنے کیلئے غالبؔ "جز نالہ جگر سوختہ" کہنا پڑتا تھا
اقبال کا اقبال بلند ہے شاعری کے تمام لوازمات کے ساتھ، مگر تمام تر عقیدت کے باوجود ہم ان سے کوئی رشتے داری نہیں بنا سکتے
مگر غالبؔ اپنی تمام تر مشکل پسندی کے باوجود "جگ چچا" ہیں
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ہمارے خیال میں غالب کی شاعری انسانی نفسیات کے زیادہ قریب ہے ۔۔۔ چچا غالب بات کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن اقبال اپنی بات منوانے پر بضد رہتے ہیں ۔۔۔ دلائل بھی لاتے ہیں اور عموماً بات منوا کر ہی دم لیتے ہیں ۔۔۔۔۔ غزل میں چچا غالب کسی کو کم ہی آگے نکلنے دیتے ہیں جب کہ نظم میں اقبال بھی کسی سے کم نہیں ۔۔۔۔۔ خیر ہمارے سوالات اب بھی جوابات کے طلب گار ہیں!!!
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
امین بھائی، بالکل برا نہیں لگا، کیونکہ میں چھوٹا غالبؔ ہوں، اور "مرا مسلک ہے صلح کل"
بلکہ سچ کہوں تو اب خوشی ہو رہی ہے کہ دو دن پہلے ویران پڑے دھاگے میں رونق لگی ہوئی ہے، آپ کی دلچسپی صاحبِ دھاگہ کیلئے تو ہو گی ہی میری بھی مسرت کا باعث ہے
اب آتے ہیں آپ کی کنفیوژن کی طرف
میں ایک لفظ لکھا تھا، شعوری بلوغت،
جیک اینڈ جل، ٹوئنکل ٹوئنکل ، ٹوٹ بٹوٹ پڑھنے والوں کا اگلا پڑاؤ وصی شاہ ، اور اسی قبیل کے دیگر شعرا کے کوچے میں ہوتا ہے
پھر ان کو پڑھتے پڑھتے بھی انسان 18 یا 21 سال کی عمر تک پہنچ ہی جاتا ہے، اور تب تک اقبال کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہوتا
اقبال کی جس شاعری کو عظیم کہا جاتا ہے وہ ان کے پی ایچ ڈی کے بعد سے شروع ہوتی ہے،اور پی ایط ڈی کرنے کے بعد تو کوئی گاما ماجھا بھی کم از کم واجبی سی شاعری کر سکتا ہے مگر میں قربان غالبؔ کی غالبیت کے کہ کبھی سکول کالج مدرسے کا منہ نہ دیکھا، شاعری میں بے استادے ہیں، مگر 19 سال تک کی عمر تک وہ جو کچھ کہہ چکے تھے اس کو سمجھنے کیلئے کسی سفید بالوں والے ڈاکٹر کی لکھی شرح کے بغیر بڑے سے بڑا پھنے خان بھی نہیں سمجھ سکتا
اور وہی ان کی بچپن کی لکھی شاعری بقول اقبال ، غالبؔ کو براوننگ اور ہیگل جیسے فلسفیوں سے آگے گوئٹے کے مدمقابل جا کھڑا کرتی ہے

اس سب کے باوجود میں اقبال کی عظمت کا بھی قائل ہوں، لیکن سر جائے یا رہے ، نہ رہیں پر کہے بغیر
 

محمد امین

لائبریرین
چھوٹے غالب بھائی درست فرمایا۔ اقبال نے جدید تعلیم کے ذریعے اپنی شاعری میں دلائل شامل کیے۔ جبکہ غالب متقدمین کے یہاں زانوئے تلمذ طے کیے بیٹھے تھے۔ بہرحال یہ کہنا تو غلو ہوگا کہ غالب تلمیذ الرحمٰن تھے۔ کیوں کہ بہت سے اگلوں کے مضامین کو غالب نے بہتر طور سے باندھا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غالب ان پڑھ نہیں تھے۔ غیر رسمی تعلیم اور روایتی طریقِ تدریس سے انہوں نے یقیناً کماحقہ استفادہ کیا ہوگا۔ اسی چیز کو اگر جدید تعلیم کے ساتھ پیش کیا جائے تو غالباً اقبال نظر آنے لگتے ہیں۔ جو کہ ایک phenomenon ہے۔ اقبال ۔۔غالبیت کا ایک فینومینن ہے شاید۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
کائناتی شعور کے متعلق تو میں کہہ چکا ہوں کہ میں وہی آفاقیت مراد لیتا ہوں۔ یوں موٹے موٹے الفاظ میں ناقدین کرام کچھ بھی آئیں بائیں شائیں کرتے رہیں۔
غالب کی عظمت تو مسلم ہے ہی۔ میں تو اقبال کو بھی بہت محدود مانتا ہوں۔ اتنی اہمیت پاکستان میں ان کو دے دی گئی ہے، کہ ہر ایرا غیرا اقبال کے اشعار سناتا رہتا ہے، جیسے وہ واقعی سمجھتا ہے!! اقبال اچھے شاعر تھے، اس میں شک نہیں، لیکن ان کو ’پاپولر‘ بنانے میں سیاست کا ہاتھ ہے۔ آپ متاثر ہو سکتے ہیں اقبال کی شاعری سے، اس پر سر نہیں دھن سکتے!!
ویسے محفلینوں کو مجھ سے غیر متفق ہونے کا اختیار ہے!!
زیادہ تر لوگ تو پسندیدہ کلام میں ایسی غزلیں بھی لگاتے ہیں جن میں کئی الفاظ نہ صرف غلط لکھے ہوتے ہیں، اور کوئی مطلب نہیں نکلتا، پتہ نہیں کیسے لوگوں کا ’پسندیدہ کلام‘ بن جاتا ہے ایسا کلام! اور مزے کی بات یہ ہے کہ کسی شعر کی صحت کے بارے میں دیکھنے کے لئے گوگل کیا جائے تو ساری فورموں میں وہی غلطی اور املا نظر آتی ہے۔ رات ہی ایک لفظ ’نمط‘ سودا کے کلام میں نظر آیا، مجھے بھی معلوم نہیں تھا، جھوٹ کیوں بولوں، لغت دیکھنی پڑی۔ لیکن کیا ایسا شعر پسندیدہ کہا جا سکتا ہے جو سمجھ میں ہی نہ آیا ہو؟ کہیں ’منحصر‘ کو ’مخصر‘ لکھا گیا ہو تو سب جگہ وہی کاپی پیسٹ ہو گا انٹر نیٹ پر، معلوم نہیں پوسٹ کرنے والوں نے کیا سمجھا ہو گا۔
بات پروین شاکر اور احمد فراز کی بھی ہو رہی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ یہ لوگ آفاقی شاعر نہیں ہیں، آج سے پچاس سال بعد ان کا کلام طاق نسیاں میں ملے گا۔ اور سو ڈیڑھ سو سال بعد فاخرہ بتول، وصی شاہ کا کلام بھی۔ ان کا نام میں نے تو کم از کم اردو محفل سے ہی سنا تھا!!

چاچو اقبال کی ایران میں مقبولیت کے بارے میں کیا رائے ہے آپ کی؟ ویسے میں فارسی سے نا بلد ہوں تو اقبال کے فارسی کلام کے بارے میں مجھے کچھ بھی علم نہیں۔ مگر سنا یہ ہے کہ اقبال ایران میں نے حد مقبول ہیں۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اقبال اچھے شاعر تھے، اس میں شک نہیں، لیکن ان کو ’پاپولر‘ بنانے میں سیاست کا ہاتھ ہے۔
--------------------------------------------

اگر اقبال کو پاپولر بنانے میں سیاست کا ہاتھ ہے تو پھر وہ سیاست آج بھی تو ہو رہی ہے اور آنے والے سینکڑوں سالوں تک ہوتی رہی گی۔ اقبال اور غالب کے فلسفے میری نظر میں تو مختلف ہیں، ان دونوں میں شاعری کے فلسفے کی بنیاد پہ موازنہ نہیں کیا جا سکتا، یہاں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو کسی سکالر کی زبان سے سنا تھا کہ
1920-21 میں اقبال سے ملنے کچھ غیر ملکی نوجوان آئے تو اقبال نے ان کو کہا تھا کہ مسلمانوں کی آنے والی نسلیں میری مٹھی میں ہیں، کئی مشاہدات اقبال کو ایسے کروائے گئے تھے کہ جن کو سمجھنا غالب سے زیادہ مشکل ہے۔ اگر بعض جگہوں پہ غالب کا معیار اوپر ہے اقبال کو سیاست کی بنیاد پہ کسی طور غالب سے پیچھے نہیں رکھا جا سکتا ہے۔
دونوں کا اپنا اپنا حلقہ احباب ہے اگر ہندوستان میں غالب زیادہ مقبول ہے تو بلا شک و شبہ پاکستان میں اقبال زیادہ مقبول ہے، اقبال کے پیغام کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن پاک کی اس آیت تشریح ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو اقبال کے کلام میں آفاقیت زیادہ نظر آتی ہے۔
باقی بقول شہزاد بھائی کہ غزل میں غالب کا طوطی بولتا ہے تو نظم میں اقبال کسی کو آگے نکلنے نہیں دیتے، یہ ایک بہت بحث طلب موضوع ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
چاچو اقبال کی ایران میں مقبولیت کے بارے میں کیا رائے ہے آپ کی؟ ویسے میں فارسی سے نا بلد ہوں تو اقبال کے فارسی کلام کے بارے میں مجھے کچھ بھی علم نہیں۔ مگر سنا یہ ہے کہ اقبال ایران میں نے حد مقبول ہیں۔۔

یہ تو میں نے بھی سنا ہے کہ اقبال ایران میں بہت مقبول ہیں، مگر یہ بھی تو کہتے ہیں کہ اقبال اور غالب کو اپنی فارسی شاعری پہ بہت ناز تھا اور یہ اردو سے مقدار کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے مگر مشہور دونوں کو ان کی اردو شاعری نے ہی کروایا ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
بلال۔ اقبال کے کلام میں زیادہ آفاقیت اس لیے نہیں ہے کہ وہ ایک زمانے کی امتداد پر کی گئی شاعری تھی۔ گو کہ اقبال نے تاریخ کو بھی سمویا ہے مگر مقصد ایک زمانے میں مسلمانوں کا احیاء تھا۔ آفاقی شاعر کا فیصلہ کرنا تو بہت مشکل ہے غالباً۔۔۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
امین بھائی آپ کی بات کو مکتبی، یا سنی سنائی کہا جا سکتا ہے، ذاتی تجربہ نہیں
سات یا آٹھ سال کی عمرمیں لکھی گئی پتنگ والی مثنوی اکتسابی بہرحال نہیں تھی، غالب کی فارسی شاعری کو مکتبی قسم کے نقاد 21 سال کے بعد کی شاعری کہتے ہیں مگر ایسے عینی شاہدین بھی ریکارڈ پر ہیں جن کے مطابق غالبؔ نے ایک فارسی غزل لکھ کر شیخ معظم صاحب کو دکھائی جس کی ردیف "کُو چِہ" تھی، شیخ صاحب نے فرمایا کہ یہ مہمل ہے، مگر کچھ دن بعد اس بچے نے ظہوری کی ایک غزل لا کر دکھائی جس کی ردیف بھی "کُو چِہ" تھی،

مولانا حضرات چاہے قبر کو باغ یا جہنم کا کنواں کہتے رہیں ، کڑوا سچ تو یہ ہے اصل حقیقت سے واقف بہرحال مردہ ہی ہوگا
اول الذکر غلو ہے، کیونکہ جو کچھ انہوں نے آنکھوں سے نہیں دیکھا، وہ کہتے ہیں
لیکن مردے کی بات کو غلو کہنا پاگل پن اور حقیقت سے انکار ہے
غالبؔ اور اقبال اگر جاوید ہیں تو صرف اپنی عدم تقلید والی روش سے
آپ کی بات کو سچ مان لوں کہ غالبؔ نے متقدمین کے آگے زانوئے تلمذ بچھایا ہوتا تو غالبؔ کو 1900 کے بعد کوئی جانتا بھی نہ ہوتا
اقبال اگر غالبؔ ہی کے اسیر رہتے تو کبھی کے غروب ہو گئے ہوتے، مگر ان دو مجاہدوں نے اپنے لیے ایک الگ راستہ بھی بنایا ور اس پر چل کر بھی دکھایا
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
امین بھائی آفاقی شاعر کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے اور یہ مشکل غالب اور اقبال میں فرق کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔ جب تک اس فرق کو کوئی واضح طور پہ زیر بحث نہ لائے اور اکثریت بھی اس سے متفق نہ ہو تب تک آفاقی شاعر کا فیصلہ ہوتا ہوا کم از کم مجھے تو نظر نہیں آ رہا ہے۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
جانِ جگر بلا ل بھائی
اقبال کو سب نے سنا، کہ قراں کی آیات کی تشریح ہے
کاش کوئی غالبؔ کو بھی تو پڑھنے کی ہمت کرتا
مگر یہاں سعدی غالب کو کوئی لائے تو وہ آپ کے سامنے غالبؔ میں قرآنیات کے دریا بہا دیں
میں زیادہ لمبی لمبی تو نہیں چھوڑ سکوں گا مگر ایک مثال ذاتی مشاہدہ ہے
غالبؔ :۔ نا کردہ گناہوں کی حسرت کی بھی ملے داد ٭٭ یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
قرآن مجید:۔ (سورۃ النازعات) "و اما من خاف مقام ربہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
 

محمد امین

لائبریرین
امین بھائی آپ کی بات کو مکتبی، یا سنی سنائی کہا جا سکتا ہے، ذاتی تجربہ نہیں
سات یا آٹھ سال کی عمرمیں لکھی گئی پتنگ والی مثنوی اکتسابی بہرحال نہیں تھی، غالب کی فارسی شاعری کو مکتبی قسم کے نقاد 21 سال کے بعد کی شاعری کہتے ہیں مگر ایسے عینی شاہدین بھی ریکارڈ پر ہیں جن کے مطابق غالبؔ نے ایک فارسی غزل لکھ کر شیخ معظم صاحب کو دکھائی جس کی ردیف "کُو چِہ" تھی، شیخ صاحب نے فرمایا کہ یہ مہمل ہے، مگر کچھ دن بعد اس بچے نے ظہوری کی ایک غزل لا کر دکھائی جس کی ردیف بھی "کُو چِہ" تھی،

مولانا حضرات چاہے قبر کو باغ یا جہنم کا کنواں کہتے رہیں ، کڑوا سچ تو یہ ہے اصل حقیقت سے واقف بہرحال مردہ ہی ہوگا
اول الذکر غلو ہے، کیونکہ جو کچھ انہوں نے آنکھوں سے نہیں دیکھا، وہ کہتے ہیں
لیکن مردے کی بات کو غلو کہنا پاگل پن اور حقیقت سے انکار ہے
غالبؔ اور اقبال اگر جاوید ہیں تو صرف اپنی عدم تقلید والی روش سے
آپ کی بات کو سچ مان لوں کہ غالبؔ نے متقدمین کے آگے زانوئے تلمذ بچھایا ہوتا تو غالبؔ کو 1900 کے بعد کوئی جانتا بھی نہ ہوتا
اقبال اگر غالبؔ ہی کے اسیر رہتے تو کبھی کے غروب ہو گئے ہوتے، مگر ان دو مجاہدوں نے اپنے لیے ایک الگ راستہ بھی بنایا ور اس پر چل کر بھی دکھایا

مکتبی یا سنی سنائی تو نہیں۔ میں نے وہی پیش کیا جو میرے محدود مطالعے اور تجزیے نے میرے سامنے رکھا :) ۔ بہرحال آپ کی رائے مقدم ہے کیوں کہ آپ کا مطالعہ مجھ سے زیادہ وسیع ہے اور اس موضوع میں میرے کود پڑنے کا مقصد بھی اپنے علم میں اضافہ اور تصحیح تھا۔۔ امید ہے اختلافِ رائے کو ٹھنڈے دل سے لیں گے حتیٰ کہ میں اپنی اصلاح کر کے تائب ہوجاؤں :)۔
 
Top