کائناتی شعور سے کیا مراد ہے؟ اردو شاعری میں کائناتی شعور کی بلند سطح کے حاملین شعراء کون کون ہیں؟

یہ بات تو پہلے بھی ہو چکی ہے کہ شاعری سائنس کا راست بیان نہیں ہوا کرتی ۔۔۔ اور اس بات سے میں بھی اتفاق کروں گا کہ سائنس دان کا سوچنے کا انداز اور ہوتا ہے اور شاعر کا زاویہ نگاہ بوجوہ کافی مختلف ہوا کرتا ہے لیکن یہاں بات چونکہ کائناتی شعور کی ہو رہی ہے تو اسی حوالے سے کچھ عرض کروں گا ۔۔۔ بات یہ ہے کہ کائنات کی اساطیری تعبیرات سے لے کر مذہبی اور فلسفیانہ تعبیرات ہمارے سامنے ہیں ۔۔۔ ۔۔ اور پھر موجودہ دور کا کائناتی شعور بھی جو کہ زیادہ تر سائنس کا ہی عطا کردہ ہے ۔۔ لیکن اس کا بہرصورت یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم صرف سائنسی شعور کے ذریعے ہی کائنات کو جان سکتے ہیں ۔۔۔ بات یہ ہے کہ کائناتی اسرار کو جاننے کی خواہش تو روزِ اول سے انسان کی سرشت میں شامل ہے اور شاعر کے مرغِ تخیل کی رسائی تو ویسے بھی تا کجا ہوتی ہے ۔۔۔ شاعر بھی اسی معاشرے کا ایک فرد ہوتا ہے اور وہ بھی کائناتی حقیقتوں کو سمجھنے کا اتنا ہی متمنی ہوتا ہے جتنا کہ ایک فلسفی یا سائنس دان ۔۔۔ بس شاعر کی تعبیر ذرا مختلف ہوتی ہے ۔۔۔ اور بیان کا انداز بھی جدا ۔۔۔ وہ ان حقائق کو اپنے تخلیقی تجربے کا حصہ بنا کر ان کی تعبیر احساس کی سطح پر کرتا ہے ۔۔۔
شاعر کے سائنسی حوالے کچھ اس قسم کے ہوسکتے ہیں۔۔۔بقول اکبر الٰہ آبادی
تمہارے حسن میں سائنس کا بھی دل الجھتا ہے​
کمر کو دیکھ کے وہ خطِّ اقلیدس سمجھتا ہے:grin:
 

سید ذیشان

محفلین
زمانہ عہد میں اس کے ہے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے

یہ شعر کہیں سے بھی سائنسی نہیں ہے شہزاد بھائی رحم کریں
یا تو اس کے اندر موجود سائنس کی وضاحت کریں، یا پھر کتاب بند کر دیں
ھاھاھاھاھاھا صاف معلوم ہو رہا ہے کہ آپ کوئی کتاب سامنے رکھے بیٹھے ہیں، میری غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے
اس شعر میں نئے ستاروں کے بننے کی بات ہو رہی ہے، جو کہ سائنسی بات ہے۔ 100 سال پہلے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ ستارے سیارے ازل سے ہیں اور اسی طرح رہیں گے۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ ہر مخلوق کی طرح یہ بھی پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اس شعر میں نئے ستاروں کے بننے کی بات ہو رہی ہے، جو کہ سائنسی بات ہے۔ 100 سال پہلے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ ستارے سیارے ازل سے ہیں اور اسی طرح رہیں گے۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ ہر مخلوق کی طرح یہ بھی پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں۔
بات تو یہی ہے لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ غالب کو تو ہرگز ہرگز اس عمل سے آگاہی نہ تھی ۔۔۔ تو پھر یہ شعر اور اس طرح کے اشعار وہ کیسے کہہ گیا؟ ۔۔۔ وجدان کر کرشمہ تھا یا کیا تھا؟
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
مہرِ گردوں ہے چراغِ رہگذارِ باد یاں

اب جیسے یہ شعر ہے جس میں وہ سورج کو ہوا میں رکھا ہوا چراغ کہہ رہا ہے جس نے ایک دن بجھ جانا ہے ۔۔۔ اور سورج بعینہ اسی پوزیشن میں موجود ہے جدید سائنس کی رو سے ۔۔۔ اور سورج بھی ایک ستارہ ہے اور اس کی بھی ایک عمر ہے ۔۔۔ اور یوں بجھ جانا یا زوال اس کا مقدر ہے ۔۔۔ یہ شاعری کی کون سی قسم ہے بھائی؟ ۔۔۔۔۔ یہ کائناتی شعور سائنس کا عطا کردہ نہیں تھا تو اس کے پیچھے کون سا "نالج" تھا؟ ۔۔۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اب کچھ دیر میں ہی آن لائن ہوں گا ۔۔۔ یہ دعدہ رہا کہ سب کے جواب پڑھوں گا ۔۔۔اگر ہوئے تو ۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
مہرِ گردوں ہے چراغِ رہگذارِ باد یاں

اب جیسے یہ شعر ہے جس میں وہ سورج کو ہوا میں رکھا ہوا چراغ کہہ رہا ہے جس نے ایک دن بجھ جانا ہے ۔۔۔ اور سورج بعینہ اسی پوزیشن میں موجود ہے جدید سائنس کی رو سے ۔۔۔ اور سورج بھی ایک ستارہ ہے اور اس کی بھی ایک عمر ہے ۔۔۔ اور یوں بجھ جانا یا زوال اس کا مقدر ہے ۔۔۔ یہ شاعری کی کون سی قسم ہے بھائی؟ ۔۔۔ ۔۔ یہ کائناتی شعور سائنس کا عطا کردہ نہیں تھا تو اس کے پیچھے کون سا "نالج" تھا؟ ۔۔۔
یہ شعر تو واقعی میں حیران کن ہے۔ لیکن شاعروں کے پاس چونکہ تخیل ہوتا ہے اور ان سے ان خیالات کی صحت کے بارے میں باز پرس نہیں کی جاتی تو ان کو کچھ بھی کہنے کی آزادی ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھار وہ اسطرح کی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ میرے ذہن میں کچھ نہیں آ رہا۔
 
ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
مہرِ گردوں ہے چراغِ رہگذارِ باد یاں

اب جیسے یہ شعر ہے جس میں وہ سورج کو ہوا میں رکھا ہوا چراغ کہہ رہا ہے جس نے ایک دن بجھ جانا ہے ۔۔۔ اور سورج بعینہ اسی پوزیشن میں موجود ہے جدید سائنس کی رو سے ۔۔۔ اور سورج بھی ایک ستارہ ہے اور اس کی بھی ایک عمر ہے ۔۔۔ اور یوں بجھ جانا یا زوال اس کا مقدر ہے ۔۔۔ یہ شاعری کی کون سی قسم ہے بھائی؟ ۔۔۔ ۔۔ یہ کائناتی شعور سائنس کا عطا کردہ نہیں تھا تو اس کے پیچھے کون سا "نالج" تھا؟ ۔۔۔
یہ شعر نہ تو کسی سائنسی وجدان کے تحت تھا اور نہ ہی کوئی ایسی پیشین گوئی ہے جسکے تمام حقوق بحقِ غالب محفوظ ہوں۔۔۔سیدھی سیدھی بات ہے جو ہر عیسائی ، مسلمان، یا یہودی بچّے تک کو معلوم ہوتی ہے، بچپن سے بتا دی جاتی ہے کہ یہ دنیا ایک دن فنا ہوجانی ہے ۔۔۔۔۔اب اسی بات کو غالب نے اپنے خوبصورت انداز میں بیان کردیا ہے۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ غالب نے یہ " نالج" قرآن سے ہی لیا ہو۔۔۔۔بے صدا ہوجائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن۔۔۔قرآن میں تو یہ بھی ہے کہ ستارے بجھ جائیں گے۔۔۔۔۔غالب کو غالبِ خستہ ہی رہنے دیجئے، اس کا حسن اسی میں ہے۔۔اسے کھینچ تان کر کچھ اور نہ بنائیے۔۔غالب کی روح بھی یہ کہتی ہوگی کہ ۔۔۔مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا:)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
یہ شعر نہ تو کسی سائنسی وجدان کے تحت تھا اور نہ ہی کوئی ایسی پیشین گوئی ہے جسکے تمام حقوق بحقِ غالب محفوظ ہوں۔۔۔ سیدھی سیدھی بات ہے جو ہر عیسائی ، مسلمان، یا یہودی بچّے تک کو معلوم ہوتی ہے، بچپن سے بتا دی جاتی ہے کہ یہ دنیا ایک دن فنا ہوجانی ہے ۔۔۔ ۔۔اب اسی بات کو غالب نے اپنے خوبصورت انداز میں بیان کردیا ہے۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ غالب نے یہ " نالج" قرآن سے ہی لیا ہو۔۔۔ ۔بے صدا ہوجائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن۔۔۔ قرآن میں تو یہ بھی ہے کہ ستارے بجھ جائیں گے۔۔۔ ۔۔غالب کو غالبِ خستہ ہی رہنے دیجئے، اس کا حسن اسی میں ہے۔۔اسے کھینچ تان کر کچھ اور نہ بنائیے۔۔غالب کی روح بھی یہ کہتی ہوگی کہ ۔۔۔ مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا:)
خیر یہ اتنی سیدھی بات بھی نہیں ہے ۔۔۔ چراغِ رہگذارِ باد بہرحال ایک نئی بات تھی اس زمانے کے حساب سے ۔۔۔ لیکن اس حد تک تو پہلے ہی سے متفق ہوں کہ یہ غالب کے سائنسی شعور کا غماز نہیں ہے لیکن کائناتی شعور کا غماز شعر ضرور کہا جا سکتا ہے ۔۔۔ غالب کو ہم خدانخواستہ سائنس دان نہیں بنا رہے ۔۔۔ وہ اول و آخر شاعر ہی ہیں ۔۔۔ بات یہ ہے کہ ان کے کلام کا اعجاز ایسا ہے کہ وہ مختلف شعبہ ہائے علم کے سامنے معنی آفرینی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے ۔۔۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔۔۔ اور یہ "سائنسی وجدان" کی بھی آپ نے خوب کہی!
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
بات تو یہی ہے لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ غالب کو تو ہرگز ہرگز اس عمل سے آگاہی نہ تھی ۔۔۔ تو پھر یہ شعر اور اس طرح کے اشعار وہ کیسے کہہ گیا؟ ۔۔۔ وجدان کر کرشمہ تھا یا کیا تھا؟
اس بات کا بہترین جواب غالبؔ کی آئین اکبری کی تقریظ میں ہے


جتنے بھی لوگ سمجھتے ہیں کہ غالبؔ صرف شاعر تھے تو وہ ابھی گویا غالبؔ کو دور سے دیکھ رہے ہیں
اقبال ولایت گئے اور غالبؔ سے بہتر طور پر سائنس کے کرشمے دیکھ دیکھ آئے، مگر پیام ِ مشرق میں کہا کہ "تو کارِ زمیں را نکو داختی٭٭ کہ با آسماں پر داختی"
اور بانگِ درا میں اونٹ اور ریل کا مکالمہ نظم پڑھ لیجئے
لیکن غالبؔ صرف کلکتہ گئے اور وہاں سے ان کے مستقبل بین ذہن نے اتنے اثرات قبول کیے کہ وہ سر سید کو مردہ پروردن مبارک کار نیست کہنے سے رہ نہ سکے
اردو میں صرف غالبؔ ہی وہ( شاعر کہہ لیں آپ ) جو مستقبل کا شعور بہت اچھی طرح رکھتا تھا
کاش میں اس بات کو واضح کر پاتا

لیکن میرا ایک سوال ہے کہ غالبؔ کے اشعار میں سائنس کی موجودگی کا اعتراف کر لینے سے کیا کفر ہو جائے گا؟
یا کعبہ کو کنڈ ہو جائے گی؟
بات تو کب کی ختم ہو چکی تھی، اب تو صرف غالبؔ کے شاعر ہونے پر زور دیا جا رہا ہے
سائنسی شعور کائناتی شعور کا ایک جزو ہے، کیونکہ کائنات میں صرف سائنس ہی تو نہیں، اور بھی بہت کچھ ہے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
لیکن میرا ایک سوال ہے کہ غالبؔ کے اشعار میں سائنس کی موجودگی کا اعتراف کر لینے سے کیا کفر ہو جائے گا؟

بات یہ ہے میرے پیارے بھائی! غالب کے اشعار میں سائنس کی موجودگی کا اعتراف کرنے یا نہ کرنے سے بڑا ایشو تو یہ ہے کہ ان کے کلام میں بعض ایسے اشعار موجود ہیں جو کہ انہوں نے سائنسی مطالعے کے بغیر ہی کہہ ڈالے!!! اصل میں کچھ نقاد ان کو محض "تک بازی" قرار دیتے ہیں ۔۔۔ ان کا خیال ہے کہ گہرے سائنسی شعور کے بغیر کوئی ایسا شعر کہہ ہی نہیں سکتا ۔۔۔ اور اگر قدماء کے کلام میں کوئی ایسا شعر مل جائے تو اس کو محض "تکا" ہی تصور کیا جائے ۔۔۔ شاید یہی بات درست ہو!
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
شہزاد بھائی اللہ آپ کو سدا خوش رکھے

لیکن ان باتوں کو دل پر مت لیجئے، ماننا نہ ماننا ہر کسی کا ذاتی حق ہے
اور اس بات کی وضاحت اتنی بار کی جا چکی ہے اب پھر لکھتے ہوئے شرم آتی ہے،
کسی کے کان میں درد ہو تو وہ حتی الوسع کوشش کرے گا کہ کسی سپیشلسٹ سے علاج کروائے ، یا پھر کم از کم کسی ایم بی بی ایس سے مشورہ لے
مگر مذہب اور ادب کے معاملے میں ہر بندہ خود کو بو علی سینا فرض کر لیتا ہے، یا پھر کسی گامے ماجھے کی بات سن کر یقین کر لیتا ہے
اگر کسی کو ہارٹ اٹیک ہو تو آُ اسے کارڈیالوجی وارڈ لے جاؤ گے یا سائیکلوں کے مکینک کے پاس؟؟

میری والدہ آج تک یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے،ھاھاھاھاھاھا مگر دیکھ لیں آج تک زمین اس غم میں رکی نہیں
اکثر جی دار اللہ کے بندے تو غالبؔ کو مسلمان بھی نہیں مانتے، یہ تو پھر بھی چھوٹا سا مسئلہ ہے ھاھاھاھاھاھا

آپ بھی میری طرح ٹینشن نہ لو، کہ دنیا کب چپ رہتی ہے، کہنے دے جو کہتی ہے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
شہزاد بھائی اللہ آپ کو سدا خوش رکھے

لیکن ان باتوں کو دل پر مت لیجئے، ماننا نہ ماننا ہر کسی کا ذاتی حق ہے
اور اس بات کی وضاحت اتنی بار کی جا چکی ہے اب پھر لکھتے ہوئے شرم آتی ہے،
کسی کے کان میں درد ہو تو وہ حتی الوسع کوشش کرے گا کہ کسی سپیشلسٹ سے علاج کروائے ، یا پھر کم از کم کسی ایم بی بی ایس سے مشورہ لے
مگر مذہب اور ادب کے معاملے میں ہر بندہ خود کو بو علی سینا فرض کر لیتا ہے، یا پھر کسی گامے ماجھے کی بات سن کر یقین کر لیتا ہے
اگر کسی کو ہارٹ اٹیک ہو تو آُ اسے کارڈیالوجی وارڈ لے جاؤ گے یا سائیکلوں کے مکینک کے پاس؟؟

میری والدہ آج تک یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے،ھاھاھاھاھاھا مگر دیکھ لیں آج تک زمین اس غم میں رکی نہیں
اکثر جی دار اللہ کے بندے تو غالبؔ کو مسلمان بھی نہیں مانتے، یہ تو پھر بھی چھوٹا سا مسئلہ ہے ھاھاھاھاھاھا

آپ بھی میری طرح ٹینشن نہ لو، کہ دنیا کب چپ رہتی ہے، کہنے دے جو کہتی ہے

نہیں، اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے بھائی! ویسے میرا ذاتی خیال یہ ہے، جو غلط بھی ہو سکتا ہے، کہ فلسفی ہو، سائنس دان ہو یا شاعر، سبھی "تخیل" کے گرد چکر کاٹتے ہیں ۔۔۔ اور شاعر تو یوں بھی اس کام میں زیادہ ہی ماہر ہوتے ہیں ۔۔۔ اس لیے شاید وہ اس تخیلاتی دنیا کی سیر کرتے کرتے کئی "مقامات" سے گزرتے چلے جاتے ہیں اور اس سفر کے دوران کہیں دم لینے کے لیے رکتے ہیں اور اپنے اس "سفری" تجربے کو اپنے مطالعے میں گوندھ کر شعری صورت دے دیتے ہیں اور بعدازاں ان کی کہی گئی بعض باتیں سچ نکل آتی ہیں ۔۔۔ اور اب تو ہمارے پاس "مشاہدے اور تجربے" سے لیس "سائنس" بھی موجود ہے جو اپنی "فیکٹری" سے ان جیسے "تخیلات اور مفروضات" کو گزار کر ان کو اوکے یا ریجیکٹ کرتی ہے ۔۔۔ گو کہ یہ ایک الگ داستان ہے کہ سائنس کی اپنی "حیثیت" کیا ہے؟ ۔۔۔ لیکن میں تو صرف اس "قوتِ محرکہ" کی کھوج میں ہوں جو ان شعراء کو نامعلوم کی دنیا کی سیریں کرواتی ہے ۔۔۔ یعنی اسے "تخیل" ہی کہیں گے نا جناب! یا پھر کچھ اور! ۔۔۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
شہزاد بھائی میں بھی آپ کی مذکورہ بالا بات سے 100٪ متفق تھا
مگر جب میری اس موضوع پر کچھ جغادری غالبوں سے بات چیت ہوئی تو میری سوچ پر بہت سے عقدے کھلے اور بہت سے بند دروازے وا ہوئے

سب سے پہلی غلط فہمی تو یہ ہے ہم سب شاعروں کو ایک لاٹھی سے ہانکتے ہیں
حالانکہ ہمارے سامنے قرآن مجید بھی ایک رہنما اصول پیش کرتا ہے (سورۃ الشعرا) ترجمہ ٹھیک سے یاد نہیں سب دوست وہاں سے دیکھ سکتے ہیں
لیکن وہ اصول یہ ہے کہ سب شعرا جھوٹے نہیں ہوتے، یعنی قرآن شعرا کی دو قسمیں بتاتا ہے
ایک تو جھوٹے اور صرف زبان ہی زبان (بقول غالبؔ :۔ قافیہ اور تک بندی کرنے والے اور کاغذ قلم پر ظلم کرنے والے)
اور دوسرے اعلی اور بلند تخیل کے حامل شعرا، جن کو تلامیذ الرحمن کہا جا سکتا ہے
جب آپ غالبؔ اور اقبال کی صف میں وصی شاہ اور فرحت عباس شاہ جیسی چیزوں کو بھی کھڑا کر دیں گے تو یقینا ایسی ہی غلط فہمیاں پیدا ہونگی
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
لیکن آپ غالبؔ میں سو فیصد سائنس ہونے کا مطالبہ رکھیں کہ تب مانا جائے گا تو یہ بھی بہت بڑی زیادتی ہے
جیسا کہ کوئی کہے کہ میں حضرت امیر خسرو کو کیسے اردو کا پہلا شاعر مان لوں کہ ان کی تو اردو ہی اردو نہیں ، بمشکل ایک دو لفظ اردو کے ملیں گے
تو ہم اس کی بات پر ہنسیں گے، اور اسے کہیں گے کہ اردو کے پہلے شاعر سے کیا امید کرتے ہو کہ وہ میرؔ، غالبؔ، اور فیض والی اردو لکھتے؟
یہ نکتہ اگر سمجھ گئے ہیں تو
اب یہ بھی سمجھنا آسان ہو گیا ہوگا
کہ ان چیزوں کو تنگنائے غزل میں لانے والا امام غالبؔ ہی ہے
کہ اردو غزل کی توجہ شمع، بلبل اور رخسار سے ہٹا کر اس کو خالق اور تخلیق کے رشتے اور کائنات اور کائنات میں اپنے ہونے کا احساس دلانا، اور غیر شاعرانہ مسائل کو بھی شاعری میں سمو دینا کہ وہ بھی شاعری کا حسن بن جائیں

اور اس کوشش میں غالبؔ نے خود پر مہمل گوئی کے طعنے بھی برداشت کیے

(جاری ہے۔۔۔)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
لیکن آپ غالبؔ میں سو فیصد سائنس ہونے کا مطالبہ رکھیں کہ تب مانا جائے گا تو یہ بھی بہت بڑی زیادتی ہے
جیسا کہ کوئی کہے کہ میں حضرت امیر خسرو کو کیسے اردو کا پہلا شاعر مان لوں کہ ان کی تو اردو ہی اردو نہیں ، بمشکل ایک دو لفظ اردو کے ملیں گے
تو ہم اس کی بات پر ہنسیں گے، اور اسے کہیں گے کہ اردو کے پہلے شاعر سے کیا امید کرتے ہو کہ وہ میرؔ، غالبؔ، اور فیض والی اردو لکھتے؟
یہ نکتہ اگر سمجھ گئے ہیں تو
اب یہ بھی سمجھنا آسان ہو گیا ہوگا
کہ ان چیزوں کو تنگنائے غزل میں لانے والا امام غالبؔ ہی ہے
کہ اردو غزل کی توجہ شمع، بلبل اور رخسار سے ہٹا کر اس کو خالق اور تخلیق کے رشتے اور کائنات اور کائنات میں اپنے ہونے کا احساس دلانا، اور غیر شاعرانہ مسائل کو بھی شاعری میں سمو دینا کہ وہ بھی شاعری کا حسن بن جائیں

اور اس کوشش میں غالبؔ نے خود پر مہمل گوئی کے طعنے بھی برداشت کیے

(جاری ہے۔۔۔ )
آپ کے "جاری ہے" نے ٹریفک کو "بلاک" کر دیا ہے جناب!
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
بات کو کچھ مزید آگے بڑھاتے ہیں ۔۔۔ محترم "چھوٹا غالب" تو جھنڈی دکھا گئے ۔۔۔ پلٹ کر ہی نہ آئے ۔۔۔ خیر، بات یہ ہے کہ ہم ایک طویل مضمون لکھنا چاہ رہے ہیں (جو اگر زیادہ طویل ہو گیا تو کتابی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے) ۔۔۔۔۔۔ موضوعِ بحث یہی امور ہیں جن کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے ۔۔۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ عنوان کیا رکھیں ۔۔۔ اردو شاعری میں کائناتی شعور یا اردو شاعری میں تصورِ کائنات ۔۔۔ ان دونوں موضوعات کا دائرہ کار مختلف ہے یا ایک سا ہے ۔۔۔ رائے درکار ہے ۔۔۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
میں تو اس لیے چپ ہو گیا تھاکہ فرمانِ شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ ہے:۔ "اے پسر! ، اگرچہ تجھے معلوم ہو کہ تیری بات سچے موتیوں سے زیادہ قیمتی ہے مگر مجمع میں کسی کو قدر دان نہ پائے تو تیرے لیے خاموشی اختیار کرنا بہتر ہے"

اب جب کہ نیا سوال آیا ہے اور جناب شہزاد بھائی جان نے بلایا بھی ہے تو "بن آئے نہ رہے"

تصور کائنات تو بہت وسیع علاقہ گھیرتا ہے
اور اس میں تو تقریباً ہر بڑا شاعر آئے گا

اور کائناتی شعور کا حلقہ تصور کائنات کی نسبت کچھ محدود ہے
اس میں صرف چند ایک بڑے شاعر ہی آئیں گے

کتاب لکھنا چاہتے ہیں تو تصور کائنات کو موضوع بنائیں
اور اگر ایک مضمون لکھنے کا ارادہ ہے تو کائناتی شعور کو موضوع بنا کر
اللہ کا نام لیں اور شروع کر دیں
 
شاعر اور کائناتی شعور؟ یہ تصور یہ مضحکہ خیز ہے
میرے خیال میں شاعر کے پاس لاشعور کی اگہی تو ہوسکتی ہے مگر کائناتی شعور کی نہیں۔ اگر ہوتی ہے تو اس کی صرف ایک صورت ہوتی ہے جب شاعرخود ایک عارف ہو یعنی بلند پایہ صوفی اور پھر اپنی کائناتی مشاہدوں کو شاعری میں پیش کرے وگرنہ کچھ نہیں
 
Top