مہدی نقوی حجاز
محفلین
کارِ زارِ عشق
ہم ابھی سوچ رہے تھے کہ کیسے اس عشق سے جان چھڑائی جائے۔ ہماری مثال کچھ ایسی ہے کہ
؏ وصال میں بھی وہی ہے فراق کا عالم
یعنی محبوبہ ہم سے ملتی بھی ہے، بات کرنے سے بھی نہیں گھبراتی، جانبین کے گھر والوں کا بھی پہرا نہیں، ہمیں صبح اٹھتے ہی پیغام بھی بھیجتی ہے، رات کو ہم سے باتیں کرنے اور دردِ دل سن نے کے لیے جاگا بھی کرتی ہے، گفٹ بھی زبردستی لیتی ہے، بیمار پڑ جائیں تو غالبؔ کے مصرع
پڑیے گر بیمار تو۔۔۔
کی سی کیفیت بھی پیدا نہیں ہونے دیتی، کبھی امّی جان کھانا دینے کی منکر ہو جائیں تو یہ کہہ کر بلا بھی لیتی ہے کہ آجاؤ میرے پاس میں کھلا دیتی ہوں، اکثر ہمیں ”miss“ بھی کیا کرتی ہے، ہماری تصاویر اور شخصیت پر کھل کر بری رائے بھی قائم کر لیتی ہے، ہماری محبت آمیز باتوں کا برا بھی نہیں مانتی، کبھی کبھی ہم سے تصدیق بھی کرا لیتی ہے کہ ہمیں اب بھی اس سے پیار ہے کہ نہیں؛ اور جب ہم کہتے ہیں کہ، ہاں! تم ہی میرا پہلا اور آخری پیار ہو، تو فوراً سوال کر لیتی ہے کہ لیکن تمہیں فائدہ کیا ہے مجھ سے محبت کرنے میں؟ اور جب ہم انہیں یہ سمجھا دیتے ہیں کہ محبت کرنے میں فائدہ و نقصان نہیں دیکھا جاتا ۔۔۔۔۔ تو ان قابل شاگردوں کی طرح سر ہلاتی ہے جو استاد کی بات سمجھ جانے کے بعد زور زور سے اوپر نیچے گردن ہلاتے ہیں تا کہ استاد اور زیادہ گہرائی میں جا کر نہ سمجھائے۔
؏ قابلِ کفر نہیں لائقِ اقرار نہیں!
بات در اصل یہ ہے کہ موصوفہ نے ہم سے وعدہ لے رکھا ہے کہ ہم انہیں کبھی ”propose“ نہیں کریں گے، جس کی وجہ وہ محض یہ بتاتی ہیں کہ، ہم ان کی ”type“ کے نہیں ہیں (انکا اشارہ ہمارے غیرِ شاعر نہ ہونے پر ہوتا ہے)، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان سے محبت تو کر سکتے ہیں پر اظہارِ محبت اور ان سے اس بارے دریافت نہیں کر سکتے۔
ایک ہمارا دل ہے کہ ابھی تک بچہ ہے۔ حقائق سے روشناس ہی نہیں ہونا چاہتا۔ اب انکی بے مروتی کا حال بھی سن لیجئے؛ ایک دن جو ہم نے ان سے شکوہ کیا کہ بھئی کیوں کل رات سے جواب نہیں دے رہی؟ پریشان کرنے میں مزہ آتا ہے؟ ارے صاحب برس ہی تو پڑیں۔ کہنے لگیں:
تمہارا مسئلہ کیا ہے؟
- میرا مسئلہ کیا ہے، تم جاننا چاہتی ہو؟
ہاں! آج ”clear“ کر دو۔
- میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں تمہیں چاہتا ہوں۔ تمہاری دوری برداشت نہیں ہوتی۔ سارا دن تمہارے بارے سوچتے ہوئی گزرتا ہے۔ پھر تم ہو کہ دو دو دن تک غائب رہتی ہو۔ پتا ہے، جان حلق میں آجاتی ہے میری۔ سگریٹ جلا کر جو تمہارے خیالوں میں محو ہوتا ہوں تو، جب تک وہ ضائع ہو ہو کر ہاتھ نہ جلانے لگتی، نہیں چونکتا اور پھر ایک کش لے کر اور ہونٹ جلا کر اسے پیروں کے نیچے رکھ لیتا ہوں، اور دوسری جلاتا ہوں۔۔۔۔
؏ روز از نو، روزی از نو
لیکن تم کیوں اتنا سوچتے ہو میرے بارے میں!؟
یعنی ان کا سوال وہیں کا وہیں کھڑا رہتا ہے، اور ہم چلّا اٹھتے ہیں
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے ،کیا؟
البتہ ہمارا حال اردو افسانوں اور شاعری کے دیگر عشاق سے قدرے مختلف ہے۔ یعنی کھانا شوق سے کھاتے ہیں، اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں، کرتے سگریٹ سے نہیں جلاتے، نہا بھی لیتے ہیں، حلیہ بھی ٹھیک ہی رہتا ہے اور خودکشی جیسے مشکل مسائل کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان بھی نہیں ہوتے۔ بس صاحب، وہی کہا ناں! ہم ابھی سوچ رہے تھے کہ کیسے اس عشق سے جان چھڑائی جائے!