تو پھر آپ کے اس فلسفے کا کیا ہوگا ۔ ۔۔۔۔ جس میں آپ کو سب کو خوش رکھنا ہے ۔ہی ہی ہی
ظفری بھیا یہ تو آپ نے اچھی بات بتائی
میں تو سارا دن یہی یوز کرتی ہوں
تو پھر آپ کے اس فلسفے کا کیا ہوگا ۔ ۔۔۔۔ جس میں آپ کو سب کو خوش رکھنا ہے ۔ہی ہی ہی
ظفری بھیا یہ تو آپ نے اچھی بات بتائی
میں تو سارا دن یہی یوز کرتی ہوں
بھیا ابھی میں باتیں کرتے کرتے سو جاؤں گی
کل جاب سے آف ہے ناں
سارا دن سونا ہی ہے
جی بھیا وہ تیمور کے ڈسٹرب نہ ہونے کی وجہ سے استعمال کر رہی ہوںاتنی چھوٹی سکرین پر مسلسل پڑھنا اچھی بات نہیں۔ لیپ ٹاپ استعمال کر لیا کرو۔
اور ہمارے دل میں تو چار سوراخ ہیں ظفری بھائی!دل کی آنکھیں ۔۔۔ اس کے بارے میں تو فاتح صحیح طور پر بتاسکیں گے ۔ شاعر آدمی ہیں ناں ۔ ہمارے تو دل میں چھید ہے ناں ۔ ہم کیا کہیں ۔
ایک ز کم ہو گیا بھیازز میں۔۔۔اوکے بھیازز
بہت سارا خوش رہیں
اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا
شب بخیر
اتنی چھوٹی سکرین پر مسلسل پڑھنا اچھی بات نہیں۔ لیپ ٹاپ استعمال کر لیا کرو۔
اور ہمارے دل میں تو چار سوراخ ہیں ظفری بھائی!
http://www.clepk.org/oud/ViewWord.aspx?refid=9641بھائی ۔۔۔ سوراخ اور چھید میں فرق ہوتا ہے ۔ تم تو شاعر آدمی ہو ۔ یہ فرق تم سے مخفی کیسے رہ گیا ۔ بقول انشاء جی ۔۔۔
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا ۔۔۔
http://www.clepk.org/oud/ViewWord.aspx?refid=9641
جی بالکل فرق ہے لیکن صرف ماخذ زبانوں کا۔۔۔ سوراخ فارسی سے آیا اور چھید سنسکرت سے۔
یوں تو دونوں ہی درست ہیں لیکن اگر جملے کی موجودہ ساخت کے اعتبار سے ہمیں ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو تو ہم سوراخ کا لفظ استعمال کریں گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رنج فارسی کا لفظ ہے اور اس کی مناسبت سے سوراخ کا لفظ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے لیکن اگر یہاں دکھ کا لفظ ہوتا تو میں چھید استعمال کرتا۔معلو مات فراہم کرنے کا بہت شکریہ جناب ۔۔۔
ویسے صورتحال کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کونسا بہتر رہے گا ۔
1 - تم نے وہ رنج و الم دیئے کہ دل میں سو راخ کر دیئے
یا
2- تم نے وہ رنج و الم دیئے کہ دل میں چھید کردیئے
جی فاتح بھیا، ظفری بھیا
میں سمجھ رہی ہوں آپ کی بات
اس لحاظ سے آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں
لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ آپ کی ذات سے وابستہ ایک خوشی اگر آپ کے اپنوں کے لیے تکلیف دہ ہے
آپ کی خوشی سے صرف آپ ہی خوش ہیں جبکہ باقی دس بارہ لوگ جو آپ سے وابستہ ہیں وہ نہیں
تو میں چاہوں گی کہ وہ سب خوش ہوں چاہے میں کتنا بھی دکھی ہوں
مقدس بیٹا! ذرا ایک آسان سی تمثیل دیکھیں کہ کوئی شخص بیمار ہو اور اس کی تیمارداری کرنے والا خواہ اس سے جس قدر بھی پیار کرتا ہو اگر وہ اس کی تیمارداری میں اس قدر غرق ہو جائے کہ خود اپنے کھانے پینے اور سونے جاگنے کو بھول جائے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ شاید دو یا تین روز تک تو وہ غیر ضروری طور پر بے حد تیمارداری کر پائے گا لیکن اس کے بعد؟ وہ خود بیمار پڑ جائے گا اور اس کے لیے ضروری حد تک تیمارداری بھی غیر ممکن ہو جائے گی۔ یہی حال کسی اور کو خوشیاں دینے کا ہے۔