کتاب: خدا عظیم نہیں ہے

زیک

مسافر
بلا شك ۔ اسى ليے اس apophatismكو ايك طعنہ قرار ديا ۔
apophatic theology سے یاد آیا کہ جن لوگوں نے مذہب اور خداؤں وغیرہ کے بارے میں سائیکالوجی، ارتقاء اور نیروسائنس پر کام کیا ہے وہ خدا کے متعلق ہماری intuition فرق بتاتے ہیں۔

میری فیورٹ کتابوں میں سکاٹ اٹرن کی In Gods We Trust: The Evolutionary Landscape of Religion اور پاسکل بویر کی Religion Explained: The Evolutionary Origins of Religious Thought ہیں۔
 
فرق يعنى مختلف؟
ميں نے مسلم كلامى مذاہب كے سرسرى اشارے پر اسى ليے اكتفا كيا تھا كہ بات كا رخ نہ بدل جائے۔ ہمارے ہاں فلسفے كے زير اثر مكمل طور پر cataphatic اور بعض حوالوں سے apophatic كلامى مذاہب وجود ميں آئے تھے اور ان كى ايكسٹينشنز آج بھی موجود ہيں ، صوفيه مكمل طور سے apophaticہیں۔ ليكن خالص اسلامى عقيدہ جو قرآن و حديث اور فہم سلف صالح سے ملتا ہے وہ نہ cataphatic ہے نہapophatic نا anthropomorphic يہ تفويض كا عقيدہ ہے اس كو يہ textual ism د يا literalismكا نام دے كر مبہم كر ديتے ہيں ۔۔ اب يہی وہ اور ئينٹلسٹ ايررز بلكہ بلنڈرز ہيں جس ميں وہ بعض لميٹڈ كلچرز كو ديكھ كر اربوں مسلمانوں کے متعلق ايك بات فرض كر ليتے ہيں۔ اسلامى دنيا كى كلچرل ڈائيورسٹی كے متعلق سب كو علم ہے اس كے باوجود ايسى بات قبول كر لى جاتی ہے ۔
پاسكل بوئر كى كتاب كے متعلق صرف ثانوى حد تك سنا ہے پڑھا نہيں ، دوسرى كتاب ميرے ليے نئى ہے ۔ قرآن مجيد کے حساب سے خدائے واحد يا مذهب حق كا تصور ارتقاء كا نتيجہ نہيں ہے اس ضمن ميں واضح ترين آيت : "كان الناس أمة واحدة ..." سورة البقرة 213 ہے ۔ اسى ليے ميں مذاہب کے ارتقاء كے فلسفے كو صرف مطالعے كى حد تك اہميت دے سكتى ہوں۔
 

زیک

مسافر
فرق يعنى مختلف؟
ميں نے مسلم كلامى مذاہب كے سرسرى اشارے پر اسى ليے اكتفا كيا تھا كہ بات كا رخ نہ بدل جائے۔ ہمارے ہاں فلسفے كے زير اثر مكمل طور پر cataphatic اور بعض حوالوں سے apophatic كلامى مذاہب وجود ميں آئے تھے اور ان كى ايكسٹينشنز آج بھی موجود ہيں ، صوفيه مكمل طور سے apophaticہیں۔ ليكن خالص اسلامى عقيدہ جو قرآن و حديث اور فہم سلف صالح سے ملتا ہے وہ نہ cataphatic ہے نہapophatic يہ تفويض كا عقيدہ ہے ۔ اب يہی وہ اور ئينٹلسٹ ايررز بلكہ بلنڈرز ہيں جس ميں وہ بعض لميٹڈ كلچرز كو ديكھ كر اربوں مسلمانوں کے متعلق ايك بات فرض كر ليتے ہيں۔ اسلامى دنيا كى كلچرل ڈائيورسٹی كے متعلق سب كو علم ہے اس كے باوجود ايسى بات قبول كر لى جاتی ہے ۔
پاسكل بوئر كى كتاب كے متعلق صرف ثانوى حد تك سنا ہے پڑھا نہيں ، دوسرى كتاب ميرے ليے بالكل نئى ہے ۔ قرآن مجيد کے حساب سے خدائے واحد يا مذهب حق كا تصور ارتقاء كا نتيجہ نہيں ہے اس ضمن ميں واضح ترين آيت : "كان الناس أمة واحدة ..." سورة البقرة 213 ہے ۔ اسى ليے ميں مذاہب کے ارتقاء كے فلسفے كو صرف مطالعے كى حد تك اہميت دے سكتى ہوں۔
جی ہمارے انسانوں کے ذہنوں میں جو خداؤں کا تصور ہے وہ ان فلسفیانہ مذہبی مباحث سے بہت مختلف ہے۔ میرے نزدیک نیوروسائنس وغیرہ کا مطالعہ انسان (اور مذہب) کو جاننے کے لئے لازم ہے۔ ہچنز کی کتاب سے حوالے سے موضوع پر واپس آتے ہوئے یہ ہچنز کی کتاب کی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ وہ انسان اور مذہب کی سائیکالوجی کو بالکل بھی نہیں سمجھتا۔

ویسے آپ بار بار بات اسلام پر کرتی ہیں جبکہ میرا کم از کم اس تھریڈ میں اسلام پر بالخصوص ڈسکشن کا بالکل ارادہ نہیں ہے۔ :)
 
يه تذكرہ اس ليے كيا كہ اسلام كے متعلق اورئينٹلسٹ ايررز كى بنياد پر ہچنز سميت تمام ناقدين اسلام پر خام اعتراضات كرتے ہيں جب مطالعے كى بنياد ٹيڑھی ہو تو ظاہر ہے اس پر تعمير كيے گئے اعتراضات بھی بے كار مفروضے ہوں گے۔ كسى مطالعے يا تحقيق كى بنياد ديانتدارى ہونى چاہیے ، آپ خواہ كسى مجرم كی بات كر رہے ہوں اس سے وہ منسوب نہ كريں جو اس كے اعمال و افكار نہيں ۔ بصورت ديگر وہ مطالعہ يا تحقيق نہيں الزامات كا پلندہ ہو گا اور اس سے كوئى مفيد نتيجہ برآمد نہيں ہو سكتا ۔ابراھيمى اديان كے متعلق بے بنياد اعتراضات ديكھ كر بھی افسوس ہوتا ہے ، ليكن جوڈاازم اور كرسچيانٹی كے ساتھ ايسى نا انصافياں كم ہيں۔ اسلام كا معاملہ يہ ہے كہ يہ مغرب ميں سب سے منفى انداز ميں پيش كيا گيا مذہب ہے ۔
( الحمدلله ، اسلام ميرا محبوب مذہب ہے اس كا تذكرہ كيے بغير تو ميرى كوئى سانس آسان نہيں ہوتى : )
 

زیک

مسافر
يه تذكرہ اس ليے كيا كہ اسلام كے متعلق اورئينٹلسٹ ايررز كى بنياد پر ہچنز سميت تمام ناقدين اسلام پر خام اعتراضات كرتے ہيں جب مطالعے كى بنياد ٹيڑھی ہو تو ظاہر ہے اس پر تعمير كيے گئے اعتراضات بھی بے كار مفروضے ہوں گے۔ كسى مطالعے يا تحقيق كى بنياد ديانتدارى ہونى چاہیے ، آپ خواہ كسى مجرم كی بات كر رہے ہوں اس سے وہ منسوب نہ كريں جو اس كے اعمال و افكار نہيں ۔ بصورت ديگر وہ مطالعہ يا تحقيق نہيں الزامات كا پلندہ ہو گا اور اس سے كوئى مفيد نتيجہ برآمد نہيں ہو سكتا ۔ابراھيمى اديان كے متعلق بے بنياد اعتراضات ديكھ كر بھی افسوس ہوتا ہے ، ليكن جوڈاازم اور كرسچيانٹی كے ساتھ ايسى نا انصافياں كم ہيں۔ اسلام كا معاملہ يہ ہے كہ يہ مغرب ميں سب سے منفى انداز ميں پيش كيا گيا مذہب ہے ۔
یہ کوئی ایسی عجیب بات بھی نہیں کہ اکثر مسلم دنیا کے علماء جو کتب عیسائیت اور judaism پر لکھتے ہیں ان میں بھی فاش غلطیاں کرتے ہیں۔
 
مذہبی لوگوں کے ڈھائے گئے مظالم کو ہم یہ کہہ کر رد کر سکتے ہیں کہ اس کا ان کے مذہب کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں مگر ایک شخص جو مذہب یا خدا پر یقین ہی نہیں رکھتا اس کے لئے شاید یہ مذہب اور مذہبی لوگوں کو پرکھنے کا اہم ذریعہ ہے۔

جاری ہے۔۔۔
ٹھيك ہے يه توجيہ چلتى ہے كسى حد تك ،
اب ذرا ايك سوال پر غور كريں : معاصر مغربى دنيا مذہب سے جان چھڑا كر سيكيولرزم كا لبادہ اوڑھ چکی ہے ۔ كوئى اس سيكيولر دنيا كے اتحاد كے ہاتھوں بپا ہونے والے قتل عام كے اعدادوشمار كو مذہبى قتل عام سے كم ثابت كر سكتا ہے؟ صرف اس اور گزشتہ صدى كے واقعات پر ايك نظر ڈال ليں اور جواب خود سے مانگيں۔
 

زیک

مسافر
ٹھيك ہے يه توجيہ چلتى ہے كسى حد تك ،
اب ذرا ايك سوال پر غور كريں : معاصر مغربى دنيا مذہب سے جان چھڑا كر سيكيولرزم كا لبادہ اوڑھ چکی ہے ۔ كوئى اس سيكيولر دنيا كے اتحاد كے ہاتھوں بپا ہونے والے قتل عام كے اعدادوشمار كو مذہبى قتل عام سے كم ثابت كر سكتا ہے؟ صرف اس اور گزشتہ صدى كے واقعات پر ايك نظر ڈال ليں اور جواب خود سے مانگيں۔
کسی بھی قتل عام کو یقینا نظریات اور ثقافت سے جوڑا جا سکتا ہے۔ یہ کس حد تک درست ہے یہ ہر کیس میں علیحدہ فیصلہ کرنا پڑے گا۔ میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ایک شخص جو مذہب اور خدا پر یقین ہی نہیں رکھتا وہ مذہب کی theoretical teachings پر تو اعتماد نہیں کرے گا بلکہ اس مذہب کے پیروکاروں کے اعمال سے ہی نتیجہ نکالے گا کہ مذہب کی تعلیمات کا ان پر کیا اثر ہے۔

رہی یہ بات کہ کیا دنیا میں تشدد (violence) میں اضافہ ہوا ہے یا کمی تو اس بارے میں میں کوئ حتمی رائے نہیں رکھتا۔ سٹیفن پنکر نے اپنی حالیہ کتاب میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دنیا میں وقت کے ساتھ violence میں کمی آئی ہے۔ اس کے دلائل مضبوط ہیں مگر ان کے ساتھ کچھ مسائل بھی ہیں۔
 
رہی یہ بات کہ کیا دنیا میں تشدد (violence) میں اضافہ ہوا ہے یا کمی تو اس بارے میں میں کوئ حتمی رائے نہیں رکھتا۔ سٹیفن پنکر نے اپنی حالیہ کتاب میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دنیا میں وقت کے ساتھ violence میں کمی آئی ہے۔ اس کے دلائل مضبوط ہیں مگر ان کے ساتھ کچھ مسائل بھی ہیں۔
ہہہہ تشدد ميں كمى ہوئى ہے صرف قتل عام ميں ذرا سا اضافہ ہوا ہے۔ جب بندے كو سمجھ آنے سے پہلے موت برسا دى جائے تو تشدد كم ہی ہوا نا؟
امريكا ميں بيٹھ كر ايسى ظريفانہ بات كر سكتے ہيں لوگ ، ہمارے ارد گرد روزانہ کے حساب سے درجنوں انسان مر رہے ہيں ۔ ہميں تشدد كم ہوتا نظر نہيں آتا بلكہ اس لامذہبيت كا تحفہ معلوم ہوتا ہے۔
 

طالوت

محفلین
کتاب سے متعلق معلومات و پیغامات دلچسپ ہیں ۔ کاش کتابوں کے تراجم باآسانی دستیاب ہوا کریں۔ بہرحال ایسے موضوعات ایسے ہی لوگ شروع کیا کریں تو کچھ جانا جائے گا ۔
 
جی ہمارے انسانوں کے ذہنوں میں جو خداؤں کا تصور ہے وہ ان فلسفیانہ مذہبی مباحث سے بہت مختلف ہے۔ میرے نزدیک نیوروسائنس وغیرہ کا مطالعہ انسان (اور مذہب) کو جاننے کے لئے لازم ہے۔ ہچنز کی کتاب سے حوالے سے موضوع پر واپس آتے ہوئے یہ ہچنز کی کتاب کی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ وہ انسان اور مذہب کی سائیکالوجی کو بالکل بھی نہیں سمجھتا۔
ہم مصنف كو موضوع كى ، interdisciplinary aspects پر توجہ كى تجاويز تب ديں جب وہ كتاب كے اصل discipline سے انصاف كر چكا ہو ، يہاں تو وہ مذهب پر تحقيق كا حق ہی ادا نہيں كر سكا ۔
 

زیک

مسافر
سولہواں باب: کیا مذہب بچوں سے برا برتاؤ (child abuse) ہے؟

اس باب میں ہیچنز بچوں پر مذہب کے اثر پر بات کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مذہب دوسرے authoritarian systems کی طرح بچوں پر کنٹرول اور زبردستی کا قائل ہے۔ abuse کی مد میں وہ جنہم کے خیال کو ٹارچر سے تعبیر کرتا ہے اور ختنوں کو بھی انتہائی تکلید دہ اور مذہب کا بیکار آئیڈیا گردانتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
سولہواں باب: کیا مذہب بچوں سے برا برتاؤ (child abuse) ہے؟

اس باب میں ہیچنز بچوں پر مذہب کے اثر پر بات کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مذہب دوسرے authoritarian systems کی طرح بچوں پر کنٹرول اور زبردستی کا قائل ہے۔ abuse کی مد میں وہ جنہم کے خیال کو ٹارچر سے تعبیر کرتا ہے اور ختنوں کو بھی انتہائی تکلید دہ اور مذہب کا بیکار آئیڈیا گردانتا ہے۔

باقی بحث اپنی جگہ۔ میرا سوال بچوں تک محدود ہے کہ کس جُرم میں یہودی اور مسلمان بچوں کےزبردستی ختنے کر دئے جاتے ہیں؟ یہی سوال میں اکثر یہودی و اسرائیلی ویبسائیٹس پر پوچھ چکا ہوں اور جواب وہی antisemitism اور islamophobia ۔ مطلب دنیا میں ان ابراہیمی ادیان کے علاوہ لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے بچوں کے ختنے نہیں کرتے اور ہماری طرح ہی زندگی گزارتے ہیں۔ کیا ہم آسمان سے ٹپکے ہیں یا وہ؟
http://en.wikipedia.org/wiki/God_is_not_Great:_How_Religion_Poisons_Everything
 
باقی بحث اپنی جگہ۔ میرا سوال بچوں تک محدود ہے کہ کس جُرم میں یہودی اور مسلمان بچوں کےزبردستی ختنے کر دئے جاتے ہیں؟ یہی سوال میں اکثر یہودی و اسرائیلی ویبسائیٹس پر پوچھ چکا ہوں اور جواب وہی antisemitism اور islamophobia ۔ مطلب دنیا میں ان ابراہیمی ادیان کے علاوہ لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے بچوں کے ختنے نہیں کرتے اور ہماری طرح ہی زندگی گزارتے ہیں۔ کیا ہم آسمان سے ٹپکے ہیں یا وہ؟
http://en.wikipedia.org/wiki/God_is_not_Great:_How_Religion_Poisons_Everything

ختنہ کرنا کسی جرم کے تحت نہیں۔ میرے نزدیک جب آپ کسی دین کو الہامی مانتے ہیں تو آپ یہ بات ذہن میں رکھتے ہیں کہ اگر دین نے اس بات کا حکم دیا ہے تو وہ بظاہر بالکل غیر منطقی ہی ہو، لیکن اس میں کوئی حکمت ہوگی۔
 

arifkarim

معطل
اگر دین نے اس بات کا حکم دیا ہے تو وہ بظاہر بالکل غیر منطقی ہی ہو، لیکن اس میں کوئی حکمت ہوگی۔
تو پھر وہ اسلام دین فطرت ہے والا قول کہاں گیا؟ یہ سچ ہے کہ آجکل کچھ ڈاکٹر ختنوں کے حق میں ہیں اور بعض نہیں ہیں۔ میرا صرف یہ کہنا ہے کہ اگر کوئی عضو یا اسکا کچھ حصہ قدرتی طور پر ہمارے جسم کا حصہ ہے اور ہمیشہ سے ہماری ارتقاء کا حصہ رہا ہے تو اسکومذہبی، معاشرتی، سماجی یا ایمانی بنیادوں پر جسم سے جدا کر دینا، خاص کر کے جب وہ بچے کے جسم کو کسی قسم کی تکلیف بھی نہ پہنچا رہا ہو۔ یہ کم از کم مجھے غیر فطری سا عمل لگتا ہے۔ ہاں کسی بیماری کی صورت میں ایسا کرنا سمجھ میں آتا ہے لیکن ہر صحت مند بچے کیساتھ ایسا کرنا میرے خیال میں درست نہیں۔ ایک خاص عمر یعنی جب بچہ ہوش سنبھال لے اور ختنوں کے فوائد و نقصانات سے واقف ہو جائے تو بیشک کروالے۔ کم از کم اس طرح اسکی رضامندی تو شامل ہوگی۔ اس چارٹ کے مطابق زیادہ تر ختنے مسلم دنیا، امریکہ، کوریا، اسرائیل وغیرہ میں ہوتے ہیں:
Global_Map_of_Male_Circumcision_Prevalence_at_Country_Level.png
 
تو پھر وہ اسلام دین فطرت ہے والا قول کہاں گیا؟ یہ سچ ہے کہ آجکل کچھ ڈاکٹر ختنوں کے حق میں ہیں اور بعض نہیں ہیں۔ میرا صرف یہ کہنا ہے کہ اگر کوئی عضو یا اسکا کچھ حصہ قدرتی طور پر ہمارے جسم کا حصہ ہے اور ہمیشہ سے ہماری ارتقاء کا حصہ رہا ہے تو اسکومذہبی، معاشرتی، سماجی یا ایمانی بنیادوں پر جسم سے جدا کر دینا، خاص کر کے جب وہ بچے کے جسم کو کسی قسم کی تکلیف بھی نہ پہنچا رہا ہو۔ یہ کم از کم مجھے غیر فطری سا عمل لگتا ہے۔ ہاں کسی بیماری کی صورت میں ایسا کرنا سمجھ میں آتا ہے لیکن ہر صحت مند بچے کیساتھ ایسا کرنا میرے خیال میں درست نہیں۔ ایک خاص عمر یعنی جب بچہ ہوش سنبھال لے اور ختنوں کے فوائد و نقصانات سے واقف ہو جائے تو بیشک کروالے۔ کم از کم اس طرح اسکی رضامندی تو شامل ہوگی۔ اس چارٹ کے مطابق زیادہ تر ختنے مسلم دنیا، امریکہ، کوریا، اسرائیل وغیرہ میں ہوتے ہیں:
Global_Map_of_Male_Circumcision_Prevalence_at_Country_Level.png

قبلہ ہم اس معاملے میں صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ جس کے مذہب میں جو چیز شامل ہے وہ اسی طرح کرے گا، اسے کوئی روک تو سکتا نہیں ہے۔ آپ کے مذہب میں نہیں تو بیشک آپ نہ کریں۔ یہ تو اقدار، ثقافت اور ذہنی معاملات سے علاقہ رکھنے والی چیزیں ہیں۔ کوئی مرد کی ختنے کرنے سے خفا ہے، دوسری جگہ عورت کی ختنے بھی ہورہی ہیں۔
کوئی کہتا ہے کہ ناخن تراشو، بالوں کو درست کرو، دوسرا کہتا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں۔ ڈریڈ لوک اس حساب سے بہت زیادہ فطری ہے۔
میرے نزدیک البتہ فطری ہونے کا مطلب کسی چیز کو اپنے حال پر چھوڑ دینا نہیں ہوتا۔
بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے جس کا موضوع لڑی سے غیر متعلق ہے۔ :)
 

arifkarim

معطل
قبلہ ہم اس معاملے میں صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ جس کے مذہب میں جو چیز شامل ہے وہ اسی طرح کرے گا، اسے کوئی روک تو سکتا نہیں ہے۔ آپ کے مذہب میں نہیں تو بیشک آپ نہ کریں۔ یہ تو اقدار، ثقافت اور ذہنی معاملات سے علاقہ رکھنے والی چیزیں ہیں۔ کوئی مرد کی ختنے کرنے سے خفا ہے، دوسری جگہ عورت کی ختنے بھی ہورہی ہیں۔
کوئی کہتا ہے کہ ناخن تراشو، بالوں کو درست کرو، دوسرا کہتا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں۔ ڈریڈ لوک اس حساب سے بہت زیادہ فطری ہے۔

قبلہ آپکی بات سماجیات، ثقافت اور معاشرت کی حد تو درست ہے۔ لیکن بال کٹوانے، ناخن تراشنے سے یہ واپس آ سکتے ہیں لیکن ختنے کرنے کے بعد انسان واپس پہلی والی حالت میں نہیں آسکتا۔ اور جہاں تک عورت کے ختنے ہیں تو وہ تو سراسر ظلم اور جہالت کی خود بولتی تصویر ہے۔ عورت کے ختنے تو کسی ابراہیمی ادیان کی روایات سے بھی ثابت نہیں البتہ چونکہ مردوں کے ختنے ایک مذہبی رسم بن چکی ہے اسلئے میں نے یہاں سوال کیا تھا۔ ہاں طبی نکتہ نگاہ سے کئے جائیں تو وہ ہوش سنبھالنے کے بعد بھی کئے جا سکتے ہیں۔
 
Top