تو پھر وہ اسلام دین فطرت ہے والا قول کہاں گیا؟ یہ سچ ہے کہ آجکل کچھ ڈاکٹر ختنوں کے حق میں ہیں اور بعض نہیں ہیں۔ میرا صرف یہ کہنا ہے کہ اگر کوئی عضو یا اسکا کچھ حصہ قدرتی طور پر ہمارے جسم کا حصہ ہے اور ہمیشہ سے ہماری ارتقاء کا حصہ رہا ہے تو اسکومذہبی، معاشرتی، سماجی یا ایمانی بنیادوں پر جسم سے جدا کر دینا، خاص کر کے جب وہ بچے کے جسم کو کسی قسم کی تکلیف بھی نہ پہنچا رہا ہو۔ یہ کم از کم مجھے غیر فطری سا عمل لگتا ہے۔ ہاں کسی بیماری کی صورت میں ایسا کرنا سمجھ میں آتا ہے لیکن ہر صحت مند بچے کیساتھ ایسا کرنا میرے خیال میں درست نہیں۔ ایک خاص عمر یعنی جب بچہ ہوش سنبھال لے اور ختنوں کے فوائد و نقصانات سے واقف ہو جائے تو بیشک کروالے۔ کم از کم اس طرح اسکی رضامندی تو شامل ہوگی۔ اس چارٹ کے مطابق زیادہ تر ختنے مسلم دنیا، امریکہ، کوریا، اسرائیل وغیرہ میں ہوتے ہیں:
قبلہ ہم اس معاملے میں صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ جس کے مذہب میں جو چیز شامل ہے وہ اسی طرح کرے گا، اسے کوئی روک تو سکتا نہیں ہے۔ آپ کے مذہب میں نہیں تو بیشک آپ نہ کریں۔ یہ تو اقدار، ثقافت اور ذہنی معاملات سے علاقہ رکھنے والی چیزیں ہیں۔ کوئی مرد کی ختنے کرنے سے خفا ہے، دوسری جگہ عورت کی ختنے بھی ہورہی ہیں۔
کوئی کہتا ہے کہ ناخن تراشو، بالوں کو درست کرو، دوسرا کہتا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں۔ ڈریڈ لوک اس حساب سے بہت زیادہ فطری ہے۔
میرے نزدیک البتہ فطری ہونے کا مطلب کسی چیز کو اپنے حال پر چھوڑ دینا نہیں ہوتا۔
بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے جس کا موضوع لڑی سے غیر متعلق ہے۔