تک بندی: کتاب کی واپسی
آج کئی دن بعد اس نے
کتاب مجھے لوٹائی تھی
نیچی پلکوں بوجھل قدموں
سے وہ میرے پاس آئی تھی
یوں تو کوئی بات نہیں تھی
جانے کیوں وہ گھبرآئی تھی
گھر لا کر جب اس کو کھولا
عجب سی خوشبو بسی ہوئی تھی
ہر صفحے پر اسکے لمس کی
نرمی جیسے رچی ہوئی تھی
کیا اس نے چوما تھا اس کو
لبوں کی گرمی بسی ہوئی تھی
سرخ گلابوں کے کچھ پتے
کچھ ورقوں میں دبے ملے تھے
نازک نازک ننھے ننھے
شاید پورے نہیں کھلے تھے
رنگ اور خوش بو تو باقی تھے
لیکن پتے سوکھ چلے تھے
پینسل کی کچھ مٹی مٹی سی
کچھ گوشوں میں تحریریں تھیں
کچھ پنوں پر پھول بنے تھے
کہیں کہیں پر تصویریں تھیں
طرح طرح کے نقش میں پنہاں
میرے نام کی تحریریں تھیں
ایک ورق پہ کچھ دھبے تھے
گولائی میں شکن پڑے تھے
کیا ہو سکتے تھے وہ آخر
شاید کچھ قطرے ٹپکے تھے
آخر ان قطروں میں کیا تھا
شاید کچھ نازک جذبے تھے
پاگل لڑکی تم نے مجھ کو
کیسے یہ پیغام دیے ہیں
میں بیچارہ خزاں رسیدہ
کب میں نے یہ کام کیے ہیں
کیسے تم کو اپناؤں میں
راہ میں میرے بجھے دیے ہیں
میری راہیں بہت کٹھن ہیں
اپنے نازک قدم نہ ڈالو
مت میرے ہمراہ چلو تم
اپنا گھروندا الگ بنا لو
تھوڑا خود کو اور رلا لو
اپنے ان جذبوں کو سلا لو
سعود عالم ابن سعید