وقت کے انہدام میں، دل کی کتاب دب گئی
جانے کہاں لکها تها تُو ، دیکهتے ہیں نکال کر
ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﻠﯿﻞ ﺍﻟﻘﺪﺭ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ " ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﺎ ﭘﭽﺎﺱ ﺑﺮﺱ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻣﻄﺎﻟﻌﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮱ ﻓﻮﺍﺋﺪ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﮰ ۔۔ ۔۔کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
جاسمن جی !!!!!غزل (ظہیر احمد ظہیر)
کب سے لگی ہے اُس کی نشانی کتاب میں
کاغذ مڑا ہوا ہے پرانی کتاب میں
خلقِ خدا میں ٹھہری وہی سب سے معتبر
لکھی نہ جا سکی جو کہانی کتاب میں
طاقت ہے کس قلم میں کہ لکھے حدیثِ عشق
ملتی ہے یہ کسی سے زبانی کتاب میں
اربابِ جہل کر نے لگے شرحِ حرفِ عشق
مت کیجئے تلاش معانی کتاب میں
منشورِ حق کے ہوتے مجھے کیا غرض بھلا
لکھا ہے کیا فلاں نے فلانی کتاب میں
کیسے اٹھے گی دستِ سہولت شعار سے
ناموسِ حرف کی ہے گرانی کتاب میں
کاغذ خراب حال ، عبارت اڑی ہوئی !
دیکھو مری شکستہ بیانی کتاب میں
فیضِ قلم سے آگئی مجھ کو بھی اب ظہیرؔ
اشکوں کی آبشار بنانی کتاب میں
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کاترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
اقبال
چھپی ہے ان گنت چنگاریاں لفظوں کے دامن میں
ذرا پڑھنا غزل کی یہ کتاب آہستہ آہستہ
پریم بھنڈاری
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہچھپی ہے ان گنت چنگاریاں لفظوں کے دامن میں
ذرا پڑھنا غزل کی یہ کتاب آہستہ آہستہ
پریم بھنڈاری
رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا!!!!!!بھلا دیں ہم نے کتابیں کہ اس پری رو کے
کتابی چہرے کے آگے کتاب ہے کیا چیز
نظیر اکبر آبادی