جاسمن

لائبریرین
کتابیں (گلزار)
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے

بڑی حسرت سے تکتی ہیں

مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں

جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں' اب اکثر

گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر

بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں

انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے

بڑی حسرت سے تکتی ہیں

جو قدریں وہ سناتی تھیں

کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے

وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں

جو رشتے وہ سناتی تھیں

وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں

کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے

کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں

بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ

جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے

بہت سی اصطلاحیں ہیں

جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں

گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا

زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا

اب انگلی کلک کرنے سے بس اک

جھپکی گزرتی ہے

بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر

کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے

کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے

کبھی گودی میں لیتے تھے

کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر

نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے چھوتے تھے جبیں سے

وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آئندہ بھی

مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول اور

مہکے ہوئے رقعے

کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے

ان کا کیا ہوگا

وہ شاید اب نہیں ہوں گے
 
آخری تدوین:

زیرک

محفلین
ہماری بے جہتی کا کوئی جواب نہیں
یہ دکھ تو ان کا ہے جن کی کوئی کتاب نہ ہو
پروین شاکر
 

محبوب الحق

محفلین
ﮐﺘﺎﺏ ﺳﺎﺩﮦ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ﮐﺐ ﺗﮏ، ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﺁﻏﺎﺯ ﺑﺎﺏ ﮨﻮﮔﺎ
ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺴﺘﯽ ﺍُﺟﺎﮌ ﮈﺍﻟﯽ ، ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﺍُﻥ ﮐﺎ حساب ہو گا
 

زیرک

محفلین
پڑھنا ہے تو انسان کو پڑھنے کا ہنر سیکھ
ہر چہرے پہ لکھا ہے کتابوں سے زیادہ
فارغ بخاری
آج 11 نومبر مرحوم کا یومِ ارتحال ہے
 

زیرک

محفلین
کسی کو تحفے میں دے دی ہے یوسفی کی کتاب
کہ ہم نے کون سا اب مسکرانا ہوتا ہے
اعجاز توکل
 

زیرک

محفلین
کبھی وصل میں محسن دل ٹوٹا کبھی ہجر کی رُت نے لاج رکھی
کسی جسم میں آنکھیں کھو بیٹھے، کوئی چہرہ کھلی کتاب ہوا
محسن نقوی​
 
Top