سید ابو بکر عمار
محفلین
اردو کتب میں
1۔ زلف و زنجیر
2۔ جنگ جاری رہے گی
3۔ کیمیا گر
4۔ سفرنامے (حکیم الامت احمد یار خان نعیمی
1۔ زلف و زنجیر
2۔ جنگ جاری رہے گی
3۔ کیمیا گر
4۔ سفرنامے (حکیم الامت احمد یار خان نعیمی
دلچسپمیں بھی کچھ شامل کروں؟
میرے گھر میں، بلکہ میرے ماحول میں بھی مطالعہ کرنے کا کچھ رواج نہیں پایا جاتا، لیکن مجھے پڑھنے کا شروع ہی سے شوق رہا، بد قسمتی سے مجھے اچھے اردو ادب کا علم بہت ہی دیر سے ہوا، ورنہ ۔۔۔۔۔۔(کیا ہوجانا تھا؟؟؟)
ہماری امی کے پاس حافظ اسحاق دہلوی کی کتابوں کی کافی بڑی کولیکشن تھی، جب مجھے کچھ پڑھنا آیا، (تب دس سال سے کم عمر تھی) تو میں نے وہ کتابیں پڑھنا شروع کیں، کیا عجب تاثیر تھی،
جلوۂ طور پڑھتے ہوئے مجھے ہر لمحہ فکر کھائے جاتی تھی کہ کہیں فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شیرخواری میں نقصان نہ پہنچا دے
داستان یوسف کا تو کچھ نہ پوچھیے، مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا یوسف علیہ السلام کے بھائی مجھے کنویں میں ڈال رہے ہیں، اور میں اتنا روتا، اتنا روتا کہ میری امی کو مجھ پر بہت رحم آتا۔
اس کے علاوہ اسحاق دہلوی کی ہی بہت سی کتابیں میرا اثاثہ تھیں۔ جن میں "صبر ایوب، قصۂ جرجبیس، طوفان نوح" کے نام یاد ہیں۔
باقی پھر۔۔۔
شکریہ فلک شیر بھائی
جیو وارث بھائی۔ اب ایک درخواست ہے کہ غالب کی شروحات کے نام جو آپ کے علم میں ہیں یہاں لکھ دیں۔ تاکہ ہم ان میں زیادہ سے زیادہ آن لائن تلاش کرسکیں۔یوں تو کئی ایک ایسی کتب ہیں جنہوں نے میرے ذوقِ مطالعہ کو پروان چڑھایا لیکن ان میں سے کچھ کا ذکر جن سے عنوان کے مطابق میں 'متاثر' ہوا۔
'نوائے سروش' اردو دیوانِ غالب کی شرح از مولانا غلام رسول مہر
میری خوش قسمتی تھی کہ یہ کتاب اوائل نوجوانی (فرسٹ ائیر) میں میرے ہاتھ لگ گئی اور اس کتاب نے صحیح معنوں میں میرے ذوقِ شاعری کی پرداخت کی۔ یوں تو بقول یوسفی غالب وہ واحد شاعر ہیں کہ جن کا کلام سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزا دیتا ہے لیکن پھر بھی نوجوانوں کو غالب کے اشعار کی بہتر تفہیم کے لیے کسی شرح کی ضرورت ہوتی ہے۔ غالب کی کئی ایک شروح لکھی گئی ہیں، نوائے سروش سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور پھر کافی بعد میں نے میں نے ان کا مطالعہ بھی کیا۔ کچھ تو محض غالب کی تنقیص کے لیے ہیں جیسے پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی شرح لیکن جو مقام نوائے سروش کا ہے وہ کم ہی کسی شرح کا ہوگا۔ مولانا مہر نے جس تفصیل، لگن، محنت اور محبت سے دیوانِ غالب کی شرح کی ہے وہ انہی کا خاصہ تھا۔ صاف نظر آتا ہے کہ مولانا مہر، خواجہ حالی کی طرح قتیلِ غالب ہیں۔ مولانا مہر نے اس شرح میں نہ صرف غالب کے مشکل اور بظاہر آسان نظر آنے والے اشعار کو صاف کیا ہے بلکہ غالب پر ہونے والے اعتراضوں کا جواب بھی دیا ہے۔ مثلا جہاں جہاں ان کے اردو کلام پر اعتراض تھا کہ یہ کسی فارسی شعر سے ماخوذ ہے وہاں مولانا مہر نے بھر پور توجہ سے ثابت کیا ہے کہ دونوں اشعار میں فرق کیا ہے اور غالب کا شعر کس لحاظ سے بہتر ہے۔ اور اسی ضمن میں فارسی اشعار بھی اس کتاب میں جا بجا موجود ہیں اور میرے فارسی شاعری کے ذوق کا بھی پہلا قاعدہ یہی نوائے سروش ہے۔ مشکل الفاظ کی شرح کے ساتھ ساتھ تاریخ کی اچھی خاصی جھلکیاں بھی اس میں موجود ہیں جیسے غالب کا سہرا کہنا اور بہادر شاہ ظفر اور ذوق کا غالب سے ناراض ہو جانا وغیرہ جیسے واقعات!
یہ نوائے سروش ہی کا فیضان تھا کہ بعد میں، میں اردو شاعری کے بحرِ ذخار میں ڈوبا نہیں اور پھر خوب سے خوب تر ہی کی تلاش رہی۔ یہ کتاب اتنے برس (قریب تین دہائیاں) گزرنے کے بعد بھی میرے پاس موجود ہے اور گاہے گاہے اس سے فیض حاصل کرتا رہتا ہوں۔
کچھ جو اس وقت میرے ذہن میں ہیں، ریختہ پر ان میں سے کچھ یقینا موجود بھی ہونگی:جیو وارث بھائی۔ اب ایک درخواست ہے کہ غالب کی شروحات کے نام جو آپ کے علم میں ہیں یہاں لکھ دیں۔ تاکہ ہم ان میں زیادہ سے زیادہ آن لائن تلاش کرسکیں۔
مولانا مہر نے جس تفصیل، لگن، محنت اور محبت سے دیوانِ غالب کی شرح کی ہے وہ انہی کا خاصہ تھا۔ صاف نظر آتا ہے کہ مولانا مہر، خواجہ حالی کی طرح قتیلِ غالب ہیں۔ مولانا مہر نے اس شرح میں نہ صرف غالب کے مشکل اور بظاہر آسان نظر آنے والے اشعار کو صاف کیا ہے بلکہ غالب پر ہونے والے اعتراضوں کا جواب بھی دیا ہے۔ مثلا جہاں جہاں ان کے اردو کلام پر اعتراض تھا کہ یہ کسی فارسی شعر سے ماخوذ ہے وہاں مولانا مہر نے بھر پور توجہ سے ثابت کیا ہے کہ دونوں اشعار میں فرق کیا ہے اور غالب کا شعر کس لحاظ سے بہتر ہے۔ اور اسی ضمن میں فارسی اشعار بھی اس کتاب میں جا بجا موجود ہیں اور میرے فارسی شاعری کے ذوق کا بھی پہلا قاعدہ یہی نوائے سروش ہے۔ مشکل الفاظ کی شرح کے ساتھ ساتھ تاریخ کی اچھی خاصی جھلکیاں بھی اس میں موجود ہیں جیسے غالب کا سہرا کہنا اور بہادر شاہ ظفر اور ذوق کا غالب سے ناراض ہو جانا وغیرہ جیسے واقعات!
بہت شکریہ وارث بھائیکچھ جو اس وقت میرے ذہن میں ہیں، ریختہ پر ان میں سے کچھ یقینا موجود بھی ہونگی:
نظم طباطبائی کی شرح
مولانا حسرت موہانی کی شرح
پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی شرح
بیخود دہلوی کی شرح
شاداں بلگرامی کی شرح
نوائے سروش
ان میں سےکچھ جو اس وقت میرے ذہن میں ہیں، ریختہ پر ان میں سے کچھ یقینا موجود بھی ہونگی:
نظم طباطبائی کی شرح
مولانا حسرت موہانی کی شرح
پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی شرح
بیخود دہلوی کی شرح
شاداں بلگرامی کی شرح
نوائے سروش
وارث بھائی ریختہ پر موجود تو ہیں۔ کیا ریختہ سے کتابیں ڈاؤن لوڈ کرنا ممکن ہے؟ریختہ پر ان میں سے کچھ یقینا موجود بھی ہونگی:
ریختہ سے تو شاید ڈاؤنلوڈ نہیں ہوتیں۔ آرکائیوز پر یہ ربط دیکھیں، نظم طباطبائی، جوش ملسیانی اور حسرت موہانی کی شروح ڈاؤنلوڈ ہو جائیں گی۔وارث بھائی ریختہ پر موجود تو ہیں۔ کیا ریختہ سے کتابیں ڈاؤن لوڈ کرنا ممکن ہے؟
بقیہ لنک شروح غالبان میں سے
نظم طباطبائی کا لنک تو یہ ہے
باقی کے لنک بھی کوئی دوست بتا دے تو مجھ جیسے بہت سوں کا بھلا ہو۔
فاتح
اس کا میں بھی ذکر کرنے والی تھی۔برٹرنڈ رسل کی کتاب A History of Western Philosophy
گو اس کتاب سے پہلے میں فلسفے کی تاریخ پر کچھ اور کتابیں پڑھ چکا تھا جیسے ول ڈیورنٹ کی 'سٹوری آف فلاسفی' لیکن اس کتاب نے صحیح معنوں میں مجھے تاریخِ فلسفہ سے متعارف کروایا اور حد سے زیادہ متاثر کیا۔ رسل 'جید' مؤرخ نہیں تھا بلکہ فلسفی تھا لیکن اس کتاب میں اُس نے نہ صرف تاریخِ فلسفہ بلکہ سیاسی تاریخ کا بھی بہت حد تک احاطہ کیا ہے۔ مغربی فلسفیوں کا فلسفہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن اس کتاب سے تاریخِ فلسفہ اور فلسفیوں کے عمومی خیالات بہت حد تک جانے جا سکتے ہیں۔ رسل کا اندازِ تحریر بھی دلکش ہے اور برٹش گوروں کے ٹریڈ مارک مزاح اور شگفتگی کے ساتھ ساتھ اس میں کہیں کہیں طنز کی کاٹ بھی ہے۔ فلسفے کے طالب علموں کے لیے باقاعدہ فلسفہ پڑھنے سے پہلے اس کتاب کا مطالعہ میرے نزدیک انتہائی ضروری ہے۔
بہت خوب!برٹرنڈ رسل کی کتاب A History of Western Philosophy
گو اس کتاب سے پہلے میں فلسفے کی تاریخ پر کچھ اور کتابیں پڑھ چکا تھا جیسے ول ڈیورنٹ کی 'سٹوری آف فلاسفی' لیکن اس کتاب نے صحیح معنوں میں مجھے تاریخِ فلسفہ سے متعارف کروایا اور حد سے زیادہ متاثر کیا۔ رسل 'جید' مؤرخ نہیں تھا بلکہ فلسفی تھا لیکن اس کتاب میں اُس نے نہ صرف تاریخِ فلسفہ بلکہ سیاسی تاریخ کا بھی بہت حد تک احاطہ کیا ہے۔ مغربی فلسفیوں کا فلسفہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن اس کتاب سے تاریخِ فلسفہ اور فلسفیوں کے عمومی خیالات بہت حد تک جانے جا سکتے ہیں۔ رسل کا اندازِ تحریر بھی دلکش ہے اور برٹش گوروں کے ٹریڈ مارک مزاح اور شگفتگی کے ساتھ ساتھ اس میں کہیں کہیں طنز کی کاٹ بھی ہے۔ فلسفے کے طالب علموں کے لیے باقاعدہ فلسفہ پڑھنے سے پہلے اس کتاب کا مطالعہ میرے نزدیک انتہائی ضروری ہے۔