اس کے لیے محفل پر پوچھنے کے بجائے حدیث اور اصول حدیث سے متعلق مستند کتابوںکا مطالعہ کیجیے
یا اس فن کے ماہر حضرات کے پاس جاکر زانوئے تلمذطے کریں
اسلامی علوم کے ساتھ سب سے بڑی بد قسمتی یہی رہی کہ مجھ جیسے ہرجاہل نے اس کو تختہ مشق بنایا اور آج اپنے تئیںہر کوئی مجتہد بنا بیٹھا ہے
ہمارے بچے کو اللہ نہ کرے کینسر ہوتو ماہر ڈاکٹر کے پاس جاکر پوچھتے ہیںجو اس فن کا ماہر اور اسپیشلسٹ ہو کسی عطائی ڈاکٹر یا راہ چلتے عامل سے مشورہ نہیںلیتے
لیکن اسلامی علوم پر جس کا جو جی چاہے وہ بول دے اس پر کوئی پائریسی نہیںہے کوئی پابندی نہیںہے ۔
آپ حدیث اصول حدیث کے ماہرین سے اس کا سوال کریںتو وہ زیادہ تسلی اور تشفی بخش جواب دیںگے
کیا یہ کتب اصلی حالت میں موجود ہیں؟ اگر ہیںتو کون کون سی لائبریریوں میںہیں۔ اگر اس بارے میں بھی آپ کے پاس کچھ معلومات ہوںتو انہیںبھی شئیر کریں۔پہلے 250 سال کی سنہری تاریخ کی مشہور کتب احادیث جو اب بھی مطبوعہ شکل میں دستیاب ہیں۔
1۔ الموطا (امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ ) 93۔179 ہجری
2۔ المسند(امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ) 241 ہجری
3۔ مصنف عبدالرزاق 11 جلد (عبدالرزاق بن ہمام رحمۃ اللہ علیہ ) 136۔221 ہجری
4۔ مصنف (ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ ) 150 ہجری
5۔ جامع (معمر بن راشد رحمۃ اللہ علیہ ) 95۔153 ہجری
6۔ کتاب الآثار(امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ) 150 ہجری
7۔ السہدہ(محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ) 151 ہجری
8۔ کتاب الزہد(عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ) 118۔181 ہجری
9۔ کتاب الزہد 3 جلد (وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ ) 196 ہجری
10۔ المسند(زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ ) 76۔122 ہجری
11۔ المسند(امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ) 150۔204 ہجری
12۔ السیر(عبدالرحمٰن اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ) 88۔157 ہجری
13۔ المسند(عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ) 118۔181 ہجری
14۔ المسند(ابوداؤد طیالسی رحمۃ اللہ علیہ ) 204 ہجری
15۔ کتاب الام(امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ) 150۔204 ہجری
16۔ السنن(امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ) 150۔204 ہجری
واضح رہے یہ فہرست اس سنہرے دور کی مطبوعہ کتب کا ایک معروضی جائزہ ہے حتمی اور مکمل فہرست نہیں ہے بلکہ تحقیق پر مزید کتب کے اضافے کا امکان غالب ہے اور ان کتب کا اسلوب پختہ اور ترقی یافتہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اپنے موضوع کی اولین کتب نہیں ہیں اور چند ایک کتب دس سے زائد ضخیم جلدوں پر مشتمل ہیں اور ان کی ترتیب بتاتی ہے کہ ان دنوں میں تدوین حدیث مستحکم اور ترقی یافتہ مرحلہ میں پہنچ چکی تھی۔
ان کتب سے اس دور کے اعلٰی ترین علمی اور تحقیقی کاموں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
کتبِ تاریخ اورمؤرخین موضوع سے تعلق نہیں رکھتے
ہر کسی کا کام بولتاہے،اگر وہ ایرانی نسل تھے تو بھی ان احادیث کی کتابوںکو اولیت اس وجہ سے نہیں دی جاتی کہ یہ ایرانیوں نے لکھی تھیں،بلکہ ان لوگوں نے احادیث کو جمع کرنے کا معیار اتنا اعلیٰ رکھا تھا کہ کوئی بھی اس کا انکار نہیں کر سکا ،اور یہ تو نہیںتھا کہ اس وقت کوئی اور محدث نہ ہو اور انہوں نے یا بعد میں آنے والوں نے ان کتابوں کی خامیوں کو نظر اندازکر دیا ہو۔بلکہ معیار ہی اتنا اونچا رکھا گیا کہ باقیوں کو ان کو ایک معیار بنانا پڑھا ،اور انہوں نے جومعیار بنایا وہ آج بھی کوئی چھپا ہوا نہیں ہے کہ انہوں نے کونسی کسوٹی رکھی جس پر پرکھ کر وہ احادیث کو صیحمانتے تھے۔یہ حقیقت کافی نویلی ہے نو کے نو مشہور محدثین ایرانی النسل تھے۔ جن میں سے 6 سنی تھے، جن کی احادیث کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ اور 3 محدثین شیعہ تھے۔ اتفاق سے ان سب کا تعلق شکست خوردہ ایرانی سلطنت سے تھا۔
ان کتب روایات کی معتبریت کے لئے درج ذیل تواریخ بھی اچھی روشنی ڈالتی ہیں۔ ان میںسے تمام حوالے لنکس کو کلک کرکے چیک کئے جاسکتے ہیں۔ یہ وضح کردینا چاہتا ہوں کہ کمزور دل حضرات اس کو نہ پڑھیں ۔
اسلام کی مشہور شخصیتوں کے ادوار
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 570-632
حضرت ابوبکر صدیق 573-634
حضرت عمر فاروق 583-644
حضرت عثمان 583-656
حضرت علی ابن طالب 600-661
شیعہ امام:
1۔ علی ابن طالب 600-661
2۔ حسن بن علی 625-670
3۔ حسین بن علی 626-680
4۔ زین العابدین بن حسین 659-712
5۔ محمد باقر بن زین 676-731
6۔ جعفر صادق بن باقر 702-765
7۔ موسی کاظم بن جعفر 746-799
8۔ علی رضا بن موسی کاظم 765-818
9۔ محمد جواد تقی بن رضا 811-835
10۔ علی ھادی نقی بن تقی 846-868
11۔ حسن عسکری بن نقی 846-870
12- ابو القاسم محمد المنتظر امام الزماں المہدی (اثناء العشری حضرات یقین رکھتے ہیں کی و 254 یا 255 ہجری میں پیدا ہوکر4 یا 5 سال کی عمر میں غائب ہوگئے اور قیامت سے پہلے ظاہر ہونگے )
حضرت معاویہ 604-680
یزید بن معاویہ 645-683
ایرانی النسل مؤرخین اور سنی محدثین کی تاریخ وفات:
امام ابن جریر طبری - اولین مفسر اور مؤرخ 310ھ 923ع
امام محمد اسماعیل بخاری 256ھ 870ع
امام مسلم بن حجاج القشیری 261ھ 875ع
ابو عبداللہ ابن یزید ابن ماجہ 273ھ 886ع
سلیمان ابو داؤد 275ھ 888ع
امام ابو موسی ترمذی 279ھ 883ع
امام عبدالحمٰن نسائی 303ھ 915ع
ایرانی النسل شیعہ مؤرخین اور محدثین کی تارخوفات:
شیخ محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی 329ھ 941ع
شیخ صدوق ابو جعفر بن علی طبرسی 381ھ 993ع
شیخ ابو جعفر محمد ابن حسن طوسی 460ھ 1071ع
فقہہ کے امام(Jurists)، تاریخ وفات:
امام مالک ابن انس 179ھ
امام ابو حنیفہ 150ھ
امام احمد بن حنبل 241ھ
امام شافی 204ھ
ان تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ابن طبری نے پہلی پہل تاریخ،حضورپرنور(ص) کی وفات کے تقریباَ 250 سال بعد لکھی۔ اسی نے واقعہ کربلا کے 225 سال بعد اس واقعہ کوقلمبند کیا۔ اس سے پہلے اس واقعہ کی کوئی مشہور تحریر نہیں ملتی، اور اس نے اس واقعہ کا کوئی مستند ریفرنس نہیںفراہم کیا، یہ روایت بھی سنی سنائی شہادتوںپر مشتمل ہے اور چشم دید گواہ ایک بھی نہیں اس تحریر کا۔
یہ نوٹکرنا اہم ہے کہ کتب روایات کے تمام مصنفین، طبری/کلینی دور سے تعلق رکھتے ہیں، جوکہ حضور (ص) وفات کے 250 سال بعد شروع ہوا۔ ان تمام تصنیفات کے ریفرنس 9 سے 10 نسل در نسل بعد سنے سنائے ہیں کہ اصحابہ کرام میں سے کوئی زندہ نہیں تھا۔ پہلے 250 سال کی سنہری تاریخ کی کسی مشہور کتاب کا سراغ نہیںملتا۔ کلینی اور طبری سے پیشتر (تقریباَ سنہ 250 ھجری سے پیشتر) شیعہ اور سنی فرقہ کا سراغ بھی نہیں ملتا۔ ان دونوں فرقوںکا ابتدائی سراغ تقریباَ 250 ھجری کے قریب وجود میں آنے کا ملتا ہے۔ جبکہ واقعہ کربلا 10 محرم 61 ھجری بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680 میں پیش آیا۔
یہ حقیقت کافی نویلی ہے نو کے نو مشہور محدثین ایرانی النسل تھے۔ جن میں سے 6 سنی تھے، جن کی احادیث کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ اور 3 محدثین شیعہ تھے۔ اتفاق سے ان سب کا تعلق شکست خوردہ ایرانی سلطنت سے تھا۔
مسلمانوں نے فارس 633-651 کے درمیان فتح کیا اور ساسانی سلطنت کا خاتمہ سعد ابی وقاص کی قیادت میںلڑی جانے والی جنگ قادسیہ سے ہوا۔ لیکن زورستانی مذہب ختم نہ ہوا بلکہ اس ریفرنس سے لگتا ہے کہ ' ایک نمبر دو اسلام ' میں،تبدیل ہو گیا۔ لگ بھگ 200 سال بعد سامنے آنے والے اس نمبر دو اسلام پر ۔۔۔۔ زورستانی مذہب اور اس کی کتاب "پاژند " کے گہرے اثرات کے علاوہ اسرائیلی اور عیسائی روایات کے اثرات ان کتب روایات میں بہت واضح ہیں۔
اس آرٹیکل کے تمام تواریخ اور بیانات حوالہ جات کے ساتھ فراہم کئے گئے ہیں۔ مناسب جگہ پر کلک کرکے ان حوالہ جات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹائپنگ کی غلطی کی نشاندہی فرمائیں، بخوشی درست کروں گا۔
والسلام
بڑے سائز میں مطلب اس میں ان سے زیادہ احادیث ہیں ؟ لیکن ہمارے پاس وہ کیا معیار ہے کہ ترکی کا نسخہ صیحہے۔میرا مطلب یہ ہے کہ ہم کس نسخے کو صیح کہ سکتے ہیںاور کیوں ؟بخاری شریف کا صحیح ترین کتابی نسخہ ترکی سے شائع ہوا ہے
بڑے سائز میںپاکستان میںبہت اکا دکا ہی ملتا ہے
حدیث سوفٹ وئیر پر کامل اعتماد کے بجائے کتابوںکے نسخوںپر اعتماد کیا جائے تو زیادہ اچھا ہوگا
صحیح البخاری بیروت کا جو کتابی نسخہ ہے اس کو بھی دیکھیں
اس کی بجائے آپ یہ بیان کر دیتے کہ فلاں حدیث فلاں فلاں نسخے میں موجود ہے اور دوسرے میں نہیں تو بھی کوئی بات تھی۔ آپ کی باقی باتوں کا جواب بار بار دیا جا چکا ہے۔بہت زمانے سے یہی بات میں یہاں لکھ رہا ہوں کہ حدیث کی کتب کی ترقیم، ترتیب، تعداد اور متن لوگوں کی منشاء کا ہے۔
مجھے پہلے نام یاد نہیںآرہا تھا اب یاد آگیا
صحاح ستہ کے وہ نسخے جو مصطفی دیب البغا کی تحقیق اور تحشیے کے ساتھ ہیںوہ سب سے بہترین اور مستند ہیں
لیکن اس کو نیٹ پر تلاش کے بجائے اصل کتاب کودیکھا جائے
میرے خیال میں آپ بات سمجھے نہیں ، میںیہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ کیا امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی اپنی لکھی ہوئی کتا ب اب موجود نہیںہے؟اگر نہیںہےتو ان سے جن لوگوںنے سنی یا سن کر یاد کی مطلب ان سے جس نے روایت کی ہے کیا وہ راوی بھی اسی طریقے سے محدیثین کے اعلیٰ معیار پر پورے اترتے ہیں؟ اور ان کا ریکارڈ بھی اسی طریقے سے محفوظ ہے جس طرح سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے راویوں کو اپنی کتاب میںمحفوظ کیا ۔ کیونکہ اگر اصل کتاب موجود نہیںتو پھر تو جس نے بھی آگے روایت کی وہ بھی بس ایک راوی ہے اور اس کو بھی اسی چھلنی سے گذرنا چاہیے جس چھلنی سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے راویوںکو گذارا تھا۔ورنہ ہم کیسے فیصلہ کر سکتے ہیںکہ وہ معیار برقرار رہا جو امام بخاری نے مقرر کیا تھا۔السلام علیکم، اصل میں حدیث کی کتابوں میں گنتی کے کئی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف نسخوںمیں دیے گئے نمبر میں فرق آ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے ایک متن والی حدیث کو ایک ہی گنا ہے چاہے وہ ایک سے زیادہ اسناد کے ساتھ لکھی گئی ہو اور کسی دوسرے نے ہر سند کو الگ الگ نمبر دے دیا ہے۔ کچھ علماء نے حدیث کے ساتھ بیان ہونے والے صحابہ کے اقوال وغیرہ پر بھی نمبر لگا دیے ہیں۔ چنانچہ اصل فرق صرف گنتی کے طریقے کا ہے جس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ احادیث میں کمی بیشی ہے۔
حدیث کا ریفرنس دینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ نمبر کی بجائے کتاب اور باب کا نام درج کر دیا جائے۔ لیکن اگر نمبر ہی لکھنا چاہیں تو ساتھ وضاحت کر دینی چاہیے کہ کونسا ترقیمی نظام اختیار کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کے دو مشہور ترقیمی نظام یعنی گنتی کے طریقے ہیں، ایک ترقیم العالمیۃ ہے اور دوسری فواد عبدالباقی رحمہ اللہ کی ترقیم۔
والسلام علیکم