اصل میں یہاں کی پرانی آبادی بکھر گوٹھ کی تھی عباس ٹاون اس ہی میں ایک کچی آبادی (اب پکی ہے) کے طور پور کوئی تیس چالیس سال پہلے آباد ہوا ، اس وقت یہا ں کوئی فلیٹ نہیں تھے ، اصل عباس ٹاون اور روڈ کے درمیان راستے کے دونوں جانب رابعہ فلاور اور اقرا سٹی کے فلیٹ بننے ہوے ہیں۔ اقرا سٹی تو اب سے صرف چار پانچ سال پہلے آباد ہوا ہے۔ رابعہ فلاور کوئی بیس سال پہلے۔ جہاں میں نے میرا فلیٹ لکھا ہے یہ ایک بس سٹاپ بھی ہے جو عباس ٹاون کے نام سے ہی مشھور ہے، ویسے یہ پورا علاقہ سکیم 33 کا حصہ ہے اور گلشن ٹاون میں آتا ہے، حیدر عباس رضوی یہاں سے ایم این اے اور فیصل سبزواری ایم پی اے ہیں، بہر حال یہ پورا علاقہ عباس ٹاون ہی کہلاتا ہے۔
اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ آپ کہ سکتے ہیں کہ دھماکا اصل عباس ٹاون میں نہیں ہوا بلکہ اصل عباس ٹاون کے داخلی راستہ پر ہوا، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟۔ اصل نشانہ بہر حال شیعہ ہی تھے۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ اقرا سٹی اور رابعہ فلاور سنی آبادی ہے تو یہ بھی غلط ہے۔ رابعہ فلاور گو کہ ابتدائی طور پر سنی آبادی تھی ، لیکن آہستہ آہستہ یہ بھی ایک شیعہ اکثریتی آبادی بن گئی ہے خاص کر بلاک اے تھر ی اور فور جو عباس ٹاون کی طرف رخ کرتے ہیں میں زیادہ تر شیعہ آباد ہیں، ہاں البتہ اس کی دکانیں زیادہ تر سنیوں کے پاس ہیں، جبکہ اقرا سٹی تو تقریبا سو فیصد شیعہ آبادی پر مشتمل ہے، حتا کہ اقرا سٹی میں اندر کوئی مسجد بھی نہیں ہے۔ ہاں البتہ یہ جگہ پرچون اور سبزی گوشت کا اچھا خاصا بازار ہے لہذا اردگرد کی آبادیوں سے بھی لوگ خریداری کرنے آتے ہیں جن میں سنی بھی ہوتے ہیں۔