کراچی میں گرمی کی سنگین صورتحال ۔۔۔

’اموات کی وجہ 49 ڈگری ہیٹ انڈکس‘
سارہ حسن بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد23 جون 2015
150623134312_karachi_heat_640x360_epa_nocredit.jpg

راچی میں شدید گرمی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 690 سے تجاوز کر گئی ہے۔
محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ ملک کے ساحلی علاقوں میں شدید گرمی کی وجہ سمندری ہواؤں کا بند ہونا تھا جس کی وجہ سے کراچی شہر میں ہیٹ انڈکس یا محسوس ہونے والی گرمی تقریباً 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گئی۔
کراچی میں گذشتہ چند دنوں سے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ رہا ہے اور شدید گرمی کی وجہ سے اب تک 700 کے قریب ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔
محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد حنیف نے اسلام آباد میں بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی کا یہ موسم کافی حد تک غیر معمولی تھا اور پاکستان کی تاریخ میں اس قسم کے حالات دیکھنے میں نہیں آئے۔
انھوں نے بتایا کہ کراچی میں سنہ 1979 میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 47 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے لیکن اس سال غیر معمولی عوامل زیادہ اموات کی وجہ بنے۔
ڈاکٹر حنیف نے کہا کہ ’اس مرتبہ غیر معمولی بات یہ تھی کہ جو معمول کے مطابق سمندر کی ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں وہ رک گئیں، ہوا میں نمی زیادہ تھی، ہوا کا دباؤ معمول سے بہت کم تھا اور درجہ حرارت تو زیادہ تھا ہی۔ ان تمام عوامل سے ہیٹ انڈکس بہت بڑھ گیا۔‘
درجہ حرارت میں کمی
آج سمندر کی بند ہوا 30 فیصد تک بحال ہونا شروع ہوئی ہے۔ سمندر کی جنوب مشرق سے ہوا چل رہی ہے اور درجہ جرارت جو گذشتہ تین دن سے 43 ڈگری تھا وہ کم ہو کر 41 ڈگری سینٹی گریڈ ہو گیا ہے۔
ڈائریکٹر محکمۂ موسمیات
انھوں نے بتایا کہ گذشتہ کچھ دنوں سے کراچی میں ہیٹ انڈکس 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہا ہے، جس کی وجہ سے شدید حبس اور گھٹن محسوس ہوتی ہے اور سب سے زیادہ اس کا اثر عمر رسیدہ افراد پر پڑا۔
ہیٹ انڈکس کا مطلب وہ درجہ حرارت یا گرمی ہے جو انسان محسوس کرے۔ موسمیات کے مطابق کراچی میں 50 سال کے عمر تک کے افراد کے لیے ہیٹ انڈکس 49 ڈگری تھا لیکن 75 برس کے افراد کے لیے ہیٹ انڈکس 50 ڈگری تک پہنچ گیا تھا۔
ہوائیں بند ہونے کا سبب
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ ملک کی ساحلی پٹی پر سال میں دس ماہ سمندر سے آنے والی ہوائیں چلتی ہیں لیکن سال کے دو مہینے یعنی گرمیوں اور سردیوں کے آغاز میں سمندر کی ہوا بند ہو جاتی ہے اور اسی عرصے کے دوران ساحلی علاقوں میں موسم متعدل رہنے کے بجائے گرم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر حنیف نے بتایا کہ ’اپریل اور ستمبر کے مہینے میں کراچی میں ہوائیں بند ہو جاتی ہیں لیکن اس مرتبہ جون کے مہینے میں سمندری ہوائیں بند ہو گئیں جو کہ بہت خطرناک ہے کیونکہ خشک علاقوں سے گرم ہوائیں چلیں۔‘
150621183944_karachi_heat_wave__624x351_getty.jpg

شدید گرمی کی وجہ سے اب تک 700 کے قریب ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے
موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ کراچی میں سمندری ہوائیں، جو گذشتہ پانچ روز سے بند تھیں، اب کسی حد تک چلنا شروع ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر حنیف نے کہا کہ ’آج سمندر کی بند ہوا 30 فیصد تک بحال ہونا شروع ہوئی ہے۔ سمندر کی ہوا جنوب مشرق سے چل رہی ہے اور درجہ حرارت جو گذشتہ تین دن سے 43 ڈگری تھا وہ کم ہو کر 41 ڈگری سینٹی گریڈ ہو گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ بدھ تک مزید 70 فیصد ہوائیں بحال ہو جائیں گی جس کی وجہ سے آئندہ ایک دو دنوں میں درجہ حرارت مزید کم ہو گا۔
محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی کے جنوب میں یعنی سمندر پر ہوا کا دباؤ زیادہ ہونا چاہیے تھا لیکن غیر معمولی طور پر سمندر پر ہوا کا دباؤ انتہائی کم تھا اور ہوا کا یہی کم دباؤ اب بعض علاقوں میں شدید بارش کی وجہ بنے گا۔
ڈاکٹر حنیف نے کہا کہ ’ہوا کے کم دباؤ کے سبب بھارت کے صوبے گجرات میں آئندہ چند دنوں میں شدید بارش ہو گی اور صوبہ سندھ کے جنوبی علاقوں میں بھی اچھی بارش ہو گی۔ یہی کم دباؤ جو کراچی میں شدید گرمی کی وجہ بنا ہے لیکن اب اس کی وجہ سے تھر کے علاقوں میں موسلادھار بارش ہو گی۔‘
محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں شدید گرمی ماحولیاتی تبدیلی نہیں بلکہ غیر معمولی موسم تھا۔
150622224655_karachi_640x360_afp_nocredit.jpg

کراچی میں ہیٹ انڈکس 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہا اور شدید حبس اور گھٹن کا زیادہ اثر عمر رسیدہ افراد پر ہوا
’یہ معمول کے مطابق موسمیاتی تغیر نہیں ہے بلکہ یہ موسمیاتی خرابیاں ہیں اور ان غیر معمولی موسموں کا پہلے سے پتہ لگانا ماہرین کے لیے چیلنج ہے اور آنے والے چند برسوں میں اس طرح کے شدید موسموں کا امکان زیادہ ہے۔‘
موسمیاتی حکام کا کہنا ہے کہ ٹھٹہ، سجاول، بدین اور میرپور خاص سمیت سندھ کے زیریں علاقوں میں شدید گرم ہواؤں کی وجہ سے زراعت، مقامی پھل اور سبزیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔
محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بارش کے بعد درجہ حرارت کم ہوا ہے اور پنجاب کے بیشتر علاقوں میں پری مون سون بارشیں ہوئی ہیں جبکہ جولائی کے پہلے ہفتے سے باقاعدہ مون سون سیزن شروع ہو جائے گا۔
ڈاکٹر حنیف نے بتایا کہ رواں سال کے دوران مون سون سیزن میں معمول سے کم بارشیں ہو سکتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں ’ایل نینیو‘ موسمیاتی پیٹرن کی وجہ سے کم بارشیں اور شدید موسم کا امکان ہے۔
 
پورئے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب آیا ہوا ہے، گرم موسم میں حکومت کی نااہلی کی وجہ سے زیادہ لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے جسکی وجہ سےاس سال لوگوں کی اموات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔کراچی میں گزشتہ کئی دن سے گرمی کی شدید لہر نے انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر لی ہے۔گذشتہ چاردن میں سرکاری اور غیرسرکاری خبروں کے مطابق کراچی میں گرم موسم ، لوڈ شیڈنگ اور پانی کی قلت کی وجہ سے 1000 افراد کی موت واقع ہوئی ہے، ٹھٹھہ اور تھرپارکر میں شدید گرمی اور حبس سے ہلاکتوں کی تعداد 25 ہو گئی ہے۔ جبکہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی مزید 25 افراد گرمی سے دم توڑ گئے۔ مرکزی حکومت اور اُس کے وزرا یہ کہتے ہوئے نہیں تھک رہے ہیں کہ اُنکی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، وفاقی وزیر عابد شیر علی کا کہنا ہے کہ کوئی گرمی سے مرجائے تو حکومت اسکی ذمہ دار نہیں۔ صوبائی حکومت نے کراچی میں ہونے والی اموات کا سارا ملبہ کے الیکٹرک پرڈال دیا اور کے الیکٹرک مطابق اُس نے تو لوڈ شیڈنگ کی ہی نہیں ، کچھ ٹیکنیکل وجوہات کی وجہ سے کراچی کے کچھ علاقوں میں بجلی ضرور بند ہوئی تھی۔ چلیے چھٹی ہوئی 1000 لوگ مرگئے کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون. اللہ ہم پر اپنا رحم و کرم کرے. آمین!
 
اس وقت تک (ذاتی تخمینہ) کے مطابق پندرہ سو سے ذائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ مریضوں کے لیے پلنگ دستیاب نہیں ہیں، کراچی کے بڑے ہسپتال جن میں جناح ہسپتال کراچی اور آغا خان ہسپتال شامل ہیں مزید مریضوں کی خدمت کرنے سے قاصر ہو چکے ہیں اور باقاعدہ نئے مریضوں کو داخلہ دینے سے انکار کر چکے ہیں۔ اس لیے چھوٹے ہسپتالوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے ۔ جس کو سنبھالنا چھوٹے ہسپتالوں کے بس کی بات نہیں ، ہر اس مریض کو، جسے تشویشناک تصور کیا جاتا ہے، کسی بڑے ہسپتال کی طرف روانہ کر دیا جاتا ہے۔ جو مریض ہسپتالوں میں آرہے ہیں ان میں بڑی تعداد نوجوان لڑکوں اور خواتین کی ہے ۔ جبکہ مرنے والوں میں بڑی تعداد بزرگوں اور بچوں کی ہے ۔ اس چھوٹے سے تضاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے حالات کی سنگینی کا اندازہ مشکل نہیں کہ مریضوں کی تعداد کا اندازہ مرنے والوں کی تعداد سے نہیں لگایا جا سکتا۔ ہسپتال کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں ۔ شہر میں میت کے لیے سرد خانوں کی پہلے ہی کمی تھی مگر اب تو یہ صورتحال ہے کہ ایدھی کی سرد خانے سے تعفن کی خبر کل رات ہی ایک معتبر صحافی دوست نے دی ہے ۔ لوگ اپنی مردوں کو لیے پورے پورے شہر میں مارے مارے گھوم رہے ہیں۔
تیسرا معاملہ قبرستانوں کا ہے، قبر کے لیے جگہ اول تو دستیاب نہیں اور اگر ہے بھی تو اس کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ جو خبریں موصول ہو رہی ہیں ان کے مطابق قبر کی قیمت چالس ہزار سے دو لاکھ تک گئی ہے ۔ میں اس کی تصدیق نہیں کر سکتا مگر یہ طے ہے کہ قیمت بہت بڑھا کر وصول کی جا رہی ہے ۔ شہر میں بجلی اور پانی کا مسئلہ بہرحال اپنی جگہ موجود ہے ۔ سرد خانوں میں میت کے غسل کے لیے پانی ختم ہوجانے پر لواحقین نے واٹر ٹینکر کی لائن میں لگ کر پرچی حاصل کرنے کے بعد پانی لے کر اپنے مردوں کے غسل کا انتظام کیا ۔ یہ وہی پانی ہے جو آنا تو گھر کے نلوں میں چاہیے تھا مگر "ناگزیر" وجوہات کی بنا پر گھروں ، ہسپتالوں اور سرد خانوں میں اس کی ترسیل روک کر انہی جگہوں پر یہ پانی ٹینکر کے زریعے بیچا جا رہا ہے ۔

کہتے ہیں شہر کراچی کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے اس اعتبار سے شہر میں حادثاتی اموات کی تعداد اگر پندرہ سو ہے ، تو یہ شہر کی آبادی کی ایک فیصد بھی نہیں ۔ مگر اس حادثہ سے اس بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انتظامیہ کے پاس کسی بھی طرح کے انسانی المیہ سے نمٹنے کے لیے کس قدر تیاری ہے ۔ ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ خدا نا خواستہ کو وبا پھوٹ نکلے تو شائد شہر میں کوئی ایک ہسپتال بھی ایسا نہ ہو جو کسی مریض کو داخل کر سکے۔ شہر کی آبادی کے لحاظ سے نہ تو یہاں ہسپتال موجود ہیں اور نہ ہی کسی حادثے سے نمٹنے کے لیے تیاری یا سامان موجود ہے۔ کسی بھی آفت ( اللہ نہ کرے) کی صورت میں نقصان ، ہمارے اور آپ کے اندازے سے بے پناہ زیادہ ہو سکتا ہے۔
 
قبروں کیلیے جگہ نایاب، گورکن فی قبر10 سے50ہزار روپے تک وصول کرنے لگے
ناصر الدین بدھ 24 جون 2015
369500-qabrustanneatandcleanpp-1435093269-349-640x480.jpg


میتوں کی تدفین کے لیے حکومت کو خصوصی انتظام اور اضافی عملہ تعینات کرنا چاہیے تھا،شہر کاکوئی وارث نہیں ،شہری فوٹو : پی پی آئی
کراچی: شہر کے قبرستانوں میں تدفین کیلیے قبریں نایاب اور گورکن مافیا سرگرم ہو گئی ہے، قبرستانوں میں قبروں کے حصول کیلیے لوگوں کی لائنیں لگ گئیں جب کہ فی قبر 10 ہزار سے50 ہزار روپے تک وصول کیے جارہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق شہر میں شدید گرمی اور حبس کے نتیجے میں 1200 سے زائد ہلاکتوں کے بعد لوگ اپنے پیاروں کی تدفین کیلیے مارے مارے پھر رہے ہیں، قبرستان قبروں سے مکمل طور پر بھرگئے ہیں اور قبرستانوں میں قبروں کیلیے جگہ دستیاب نہیں ہے، قبرستانوں میں بھی سفارشی کلچر عام ہے اور صرف رشوت دے کر قبروں کیلیے جگہ فراہم کی جارہی ہے۔

گزشتہ کو بھی شہر کے قبرستانوں سخی حسن قبرستان، پاپوش نگر قبرستان ، عیسیٰ نگری قبرستان ، میوہ شاہ قبرستان، ماڈل کالونی قبرستان، ریڑھی گوٹھ قبرستان، ابراہیم حیدری قبرستان، کورنگی قبرستان، نیوکراچی، شاہ فیصل کالونی و دیگر قبرستانوں میں لوگوں کا رش دیکھنے میں آیا۔

لوگ اپنے پیاروں کی تدفین کیلیے قبرستان آئے لیکن ان کو بتایا گیا کہ قبرستان قبروں سے بھرچکے ہیں اور تدفین کیلیے جگہ دستیاب نہیں ہے۔ جس کے بعد لوگ اپنے پیاروں کی میتوں کو لیکر دوسرے قبرستانوں کی طرف روانہ ہوگئے لیکن ان قبرستانوں میں جن لوگوں نے بھاری رشوت دینے کی پیشکش کی گورکنوں نے رشوت لیکر ان کو قبروں کی جگہ فراہم کردی۔ لوگوں نے شکایت کی کہ عیسیٰ نگری قبرستان میں فی قبر50 ہزار روپے تک رشوت وصول کی گئی۔ شہر کے بیشتر قبرستانوں کے باہر بورڈ لگادیے گئے ہیں کہ قبرستان قبروں سے بھرچکے ہیں لہٰذا میتوں کو دوسرے قبرستانوں کو لے جایا جائے۔
 
’اموات کی وجہ 49 ڈگری ہیٹ انڈکس‘
سارہ حسن بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد23 جون 2015
150623134312_karachi_heat_640x360_epa_nocredit.jpg

راچی میں شدید گرمی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 690 سے تجاوز کر گئی ہے۔
محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ ملک کے ساحلی علاقوں میں شدید گرمی کی وجہ سمندری ہواؤں کا بند ہونا تھا جس کی وجہ سے کراچی شہر میں ہیٹ انڈکس یا محسوس ہونے والی گرمی تقریباً 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گئی۔
کراچی میں گذشتہ چند دنوں سے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ رہا ہے اور شدید گرمی کی وجہ سے اب تک 700 کے قریب ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔
محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد حنیف نے اسلام آباد میں بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی کا یہ موسم کافی حد تک غیر معمولی تھا اور پاکستان کی تاریخ میں اس قسم کے حالات دیکھنے میں نہیں آئے۔
انھوں نے بتایا کہ کراچی میں سنہ 1979 میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 47 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے لیکن اس سال غیر معمولی عوامل زیادہ اموات کی وجہ بنے۔
ڈاکٹر حنیف نے کہا کہ ’اس مرتبہ غیر معمولی بات یہ تھی کہ جو معمول کے مطابق سمندر کی ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں وہ رک گئیں، ہوا میں نمی زیادہ تھی، ہوا کا دباؤ معمول سے بہت کم تھا اور درجہ حرارت تو زیادہ تھا ہی۔ ان تمام عوامل سے ہیٹ انڈکس بہت بڑھ گیا۔‘
درجہ حرارت میں کمی
آج سمندر کی بند ہوا 30 فیصد تک بحال ہونا شروع ہوئی ہے۔ سمندر کی جنوب مشرق سے ہوا چل رہی ہے اور درجہ جرارت جو گذشتہ تین دن سے 43 ڈگری تھا وہ کم ہو کر 41 ڈگری سینٹی گریڈ ہو گیا ہے۔
ڈائریکٹر محکمۂ موسمیات
انھوں نے بتایا کہ گذشتہ کچھ دنوں سے کراچی میں ہیٹ انڈکس 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہا ہے، جس کی وجہ سے شدید حبس اور گھٹن محسوس ہوتی ہے اور سب سے زیادہ اس کا اثر عمر رسیدہ افراد پر پڑا۔
ہیٹ انڈکس کا مطلب وہ درجہ حرارت یا گرمی ہے جو انسان محسوس کرے۔ موسمیات کے مطابق کراچی میں 50 سال کے عمر تک کے افراد کے لیے ہیٹ انڈکس 49 ڈگری تھا لیکن 75 برس کے افراد کے لیے ہیٹ انڈکس 50 ڈگری تک پہنچ گیا تھا۔
ہوائیں بند ہونے کا سبب
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ ملک کی ساحلی پٹی پر سال میں دس ماہ سمندر سے آنے والی ہوائیں چلتی ہیں لیکن سال کے دو مہینے یعنی گرمیوں اور سردیوں کے آغاز میں سمندر کی ہوا بند ہو جاتی ہے اور اسی عرصے کے دوران ساحلی علاقوں میں موسم متعدل رہنے کے بجائے گرم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر حنیف نے بتایا کہ ’اپریل اور ستمبر کے مہینے میں کراچی میں ہوائیں بند ہو جاتی ہیں لیکن اس مرتبہ جون کے مہینے میں سمندری ہوائیں بند ہو گئیں جو کہ بہت خطرناک ہے کیونکہ خشک علاقوں سے گرم ہوائیں چلیں۔‘
150621183944_karachi_heat_wave__624x351_getty.jpg

شدید گرمی کی وجہ سے اب تک 700 کے قریب ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے
موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ کراچی میں سمندری ہوائیں، جو گذشتہ پانچ روز سے بند تھیں، اب کسی حد تک چلنا شروع ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر حنیف نے کہا کہ ’آج سمندر کی بند ہوا 30 فیصد تک بحال ہونا شروع ہوئی ہے۔ سمندر کی ہوا جنوب مشرق سے چل رہی ہے اور درجہ حرارت جو گذشتہ تین دن سے 43 ڈگری تھا وہ کم ہو کر 41 ڈگری سینٹی گریڈ ہو گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ بدھ تک مزید 70 فیصد ہوائیں بحال ہو جائیں گی جس کی وجہ سے آئندہ ایک دو دنوں میں درجہ حرارت مزید کم ہو گا۔
محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی کے جنوب میں یعنی سمندر پر ہوا کا دباؤ زیادہ ہونا چاہیے تھا لیکن غیر معمولی طور پر سمندر پر ہوا کا دباؤ انتہائی کم تھا اور ہوا کا یہی کم دباؤ اب بعض علاقوں میں شدید بارش کی وجہ بنے گا۔
ڈاکٹر حنیف نے کہا کہ ’ہوا کے کم دباؤ کے سبب بھارت کے صوبے گجرات میں آئندہ چند دنوں میں شدید بارش ہو گی اور صوبہ سندھ کے جنوبی علاقوں میں بھی اچھی بارش ہو گی۔ یہی کم دباؤ جو کراچی میں شدید گرمی کی وجہ بنا ہے لیکن اب اس کی وجہ سے تھر کے علاقوں میں موسلادھار بارش ہو گی۔‘
محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں شدید گرمی ماحولیاتی تبدیلی نہیں بلکہ غیر معمولی موسم تھا۔
150622224655_karachi_640x360_afp_nocredit.jpg

کراچی میں ہیٹ انڈکس 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہا اور شدید حبس اور گھٹن کا زیادہ اثر عمر رسیدہ افراد پر ہوا
’یہ معمول کے مطابق موسمیاتی تغیر نہیں ہے بلکہ یہ موسمیاتی خرابیاں ہیں اور ان غیر معمولی موسموں کا پہلے سے پتہ لگانا ماہرین کے لیے چیلنج ہے اور آنے والے چند برسوں میں اس طرح کے شدید موسموں کا امکان زیادہ ہے۔‘
موسمیاتی حکام کا کہنا ہے کہ ٹھٹہ، سجاول، بدین اور میرپور خاص سمیت سندھ کے زیریں علاقوں میں شدید گرم ہواؤں کی وجہ سے زراعت، مقامی پھل اور سبزیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔
محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بارش کے بعد درجہ حرارت کم ہوا ہے اور پنجاب کے بیشتر علاقوں میں پری مون سون بارشیں ہوئی ہیں جبکہ جولائی کے پہلے ہفتے سے باقاعدہ مون سون سیزن شروع ہو جائے گا۔
ڈاکٹر حنیف نے بتایا کہ رواں سال کے دوران مون سون سیزن میں معمول سے کم بارشیں ہو سکتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں ’ایل نینیو‘ موسمیاتی پیٹرن کی وجہ سے کم بارشیں اور شدید موسم کا امکان ہے۔

لئیق احمد بھائی اموات کی جو وجہ اس رپورٹ میں بیان کی گئی ہے وہ کسی حد تک تو درست ہو سکتی ہے مگر میرا خیال ہے شائد محکمہِ موسمیات کو اس حوالے سے باقاعدہ اسٹیڈیز کی ضرورت پڑے گی ۔ بحثیت کراچی کے شہری کے میں یہاں کے موسم سے کافی حد تک واقف ہوں ، پھر کچھ ایک عرصے سے شوق بھی رہا ہے کہ اپنے شہر کے موسم ( جو کہ ایک نعمت ہے) کا موازنہ ہر اس شہر اور اس ملک سے کرتا رہتا ہوں جہاں جہاں یا خود گیا ہوں یا وہاں کا مفصل حال پتہ ہو ۔ اس اعتبار سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ گرمی کی لہر نہ تو کراچی کی مقامی گرمی میں شدت تھی نہ ہی یہ درجہ حرارات کا مسئلہ تھا بلکہ یہ کچھ اور تھا جس کی سائنسی اسٹڈیز ہونا ضروری ہے۔ یہ گرمی کراچی میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی ۔ جو لوگ کراچی کی اس گرمی کو سمجھنا چاہیں وہ یہ تصور کریں کہ،
آپ ایک وینڈو ائر کنڈیشن کے ٹھیک پیچھے تین سے چار فٹ کے فاصلے سے کھڑے ہیں اور پھر چوبیس گھنٹے موسم ایسا ہی رہے۔

کراچی کے موسم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ دن خواہ کتنا ہی گرم کیوں نہ ہو بہرحال شام کو گرمی کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور رات ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ یہاں شام کے بعد گرم ہوا کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ حبس ہو جائے اور ہوا بند ہو جائے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ سورج ڈوبنے کے بعد لَو چلے ۔ نسیمِ بحری رک جانا بلکل الگ بات ہے یہ کراچی میں ممکن ہے مگر اس مرتبہ بات کچھ اور تھی۔
 

تلمیذ

لائبریرین
لئیق احمد اس اعتبار سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ گرمی کی لہر نہ تو کراچی کی مقامی گرمی میں شدت تھی نہ ہی یہ درجہ حرارات کا مسئلہ تھا بلکہ یہ کچھ اور تھا جس کی سائنسی اسٹڈیز ہونا ضروری ہے۔
۔
نسیمِ بحری رک جانا بلکل الگ بات ہے یہ کراچی میں ممکن ہے مگر اس مرتبہ بات کچھ اور تھی۔

تو پھر آپ کے خیال میں اس شدید گرمی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔ آپ کا مشاہدہ کیا کہتا ہے؟
 
تو پھر آپ کے خیال میں اس شدید گرمی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔ آپ کا مشاہدہ کیا کہتا ہے؟

تلمیذ بھائی میں خود اسے پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہوں، اور سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے جدید خطوط پر تحقیقات ہوں تو کچھ واضح ہو۔ ہاں یہ بات ہے کہ کسی رپورٹ میں پیش کی گئی وجہ کی تصدیق کرنے یا نہ کرنے کا حق اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو موقع پر موجود ہو۔ :)
 
ایک سازشی تھیوری یہ ہے کہ موسموں کو کنڑول کرنے کی ٹیکنالوجی دشمن استعمال کررہا ہے
میرے خیال میں یہ اللہ کی طرف سے ہے۔

ایچ اے خان بھائی آپ کی بات اپنی جگہ درست ہو سکتی ہے مگر میرا یہ مقصد صرف اتنا ہے کہ میں اس کو سمجھنے سے قاصر ہوں ، باقی جہاں تک اللہ کی مشیت کی بات ہے تو اس پر تو میرا یمان ہے ، کہنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ مشیتِ ربی میں اسباب پر توجہ کی جائے۔ اللہ کے رازوں کو پانا تو کسی انسان کے بس کی بات نہیں
 
دیکھیے اس واقعہ کے تین پہلو ہیں
ایک پاکستانی کی حکومت شہریوں کو کوئی سہولت فراہم نہیں کررہی۔ نہ ہی بجلی پانی اور نہ ہی ہنگامی صورت حال میں کوئی ریلیف۔ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں ایک بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ خود کراچی کے عوام کو کچھ کرنا چاہیے
دوئم۔ کراچی میں گرمی معمول سے زیادہ رہی۔ اسکی جو بھی وجوہات تھیں وہ محکمہ موسمیات کوپہلے ہی عوام کو بتادینا چاہیے تھا تاکہ عوام اپنے طور پر بچاو کرسکیں۔ اس محکمہ کو جدید انداز میں ڈھالنا ہوگا۔ اگر ہارپ یا کسی اور قسم کی ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ ممکن ہے تو یہی محکمہ اس کا سدباب کرے۔
سوم۔ کراچی کے عوام کو اپنے گناہوں کی معافی اجتماعی مانگنی چاہیے اور پاکستان کے عوام کو بھی۔ ایک کے بعد ایک افت ارہی ہے۔
 
عزیزم زبیر مرزا, کے خیال میں گرمی میں اضافہ درختوں کمی کی وجہ سے ہے۔

کراچی میں کونسے گھنے جنگلات تھے جن کے نہ ہونے کی وجہ سے گرمی بڑھے
اگر یہ انڈونیشیا ملائشیا میں ہوتا کہ گھنے جنگلات کٹ جاویں جس کی وجہ سے بارش میں کمی ہو پھر کچھ گرمی بڑھے تو بات سمجھ میں اتی ہے۔ کراچی میں تو درخت بڑھے ہیں مجموعی طور پر۔ ورنہ سندھ کا یہ علاقہ توبیابان ہوتا تھا
 
کراچی میں کونسے گھنے جنگلات تھے جن کے نہ ہونے کی وجہ سے گرمی بڑھے
اگر یہ انڈونیشیا ملائشیا میں ہوتا کہ گھنے جنگلات کٹ جاویں جس کی وجہ سے بارش میں کمی ہو پھر کچھ گرمی بڑھے تو بات سمجھ میں اتی ہے۔ کراچی میں تو درخت بڑھے ہیں مجموعی طور پر۔ ورنہ سندھ کا یہ علاقہ توبیابان ہوتا تھا

ایچ اے خان بھائی ، ہو سکتا ہے آپ ہی کی بات درست ہو مگر مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کراچی میں درخت ( وہ جتنے بھی تھے) بہت بڑی تعداد میں کم ہوئے ہیں۔ اس کا تعلق بارشوں سے بھی ہوگا مگر ایک اور سہولت تھی ان درختوں کی، وہ یہ کہ راہ چلتے لوگ ان کے سایہ میں بیٹھ جاتے تھے کچھ سہارا ہو جاتا تھا۔
 
اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ حکومتی سطح پر دو معاملات کی کوتاہی رہی۔
1- عوام کو وقت سے پہلے غیر معمولی موسمی تبدیلی سے آگاہ کرنا جو محکمہ موسمیات کی ذمہ داری تھی۔
2- ان ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے ہسپتالوں وغیرہ میں طبی امداد کے مناسب انتطامات۔
 
Top