الطاف بھائی تو ایک عرصے سے طالبان کو چیلنج کررہے ہیں کہ کراچی آؤ۔ تم سے نمٹنے کے لیے ہماری قوم کے بوڑھے، جوان، بچے، نومولد بچے، خواتین، زندہ و مردہ، لونڈے اور لفنگے سب تیار ہیں۔ جب سے الطاف بھائی نے یہ بیانات دینا شروع کیے ہیں اسی وقت سے اندازہ کیا جارہا تھا کہ الطاف بھائی کراچی کے پٹھانوں کو بھڑکانا چاہ رہے ہیں۔ الطاف بھائی کی اس مہم میں گورنر ہاؤس نے بھی اپنا حصہ ملایا اور کراچی میں نئے آنے والوں کی رجسٹریشن کا عجیب و غریب فیصلہ کیا گیا۔ ظاہر ہے جہاں نسلی تعصب کی چنگاری پہلے سے موجود ہو وہاں شعلے بھڑکانے کے لیے بہت زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی صرف چند بیانات سے بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے اور الطاف بھائی یہی کررہے تھے اتنے عرصے سے۔ پختونوں کی تنظیم اے این پی بھی قوم پرست جماعت ہے جبکہ ایم کیو ایم بھی عصبیت پسند تنظیم۔ لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایم کیو ایم قوم پرست تنظیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک “دہشت گرد“ مافیا بھی ہے۔ نوے کی دہائی یاد ہے کسی کو۔ جب پنجابی اور پٹھان کراچی میں اپنے علاقوں میں بھی محفوظ نہیں تھے۔ اخبارات کے فرنٹ پیج فائرنگ، جلاؤ گھیراؤ، ہڑتالوں اور لاشوں کی سرخیوں سے بھرے ہوتے تھے۔ بوری بند لاشیں روٹین بن گئی تھیں اور بوریوں سے مہاجروں کی نہیں بلکہ پٹھانوں، پنجابیوں اور فورسز کے افراد کی لاشیں برآمد ہوتی تھیں اور ان بوری بند لاشوں کو پھینکا بھی ایسے ہی علاقوں میں جاتا تھا جہاں غیر مہاجر بستے ہوں۔ خوف کا ایسا عالم تھا کہ پورے ملک سے لوگ کراچی آنے پر تیار نہ ہوتے تھے۔ اور یہ سب ایم کیو ایم کے عروج کے دور میں ہوتا تھا۔ اس کے بعد بے نظیر دور میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن ہوا اور سب قاتل غنڈے یا تو فرار ہوگئے یا چھپ گئے اور گمنامی میں بسر کرنے لگے۔ اس طرح کراچی کو کچھ سکون میسر ہوا لیکن مشرف دور میں ایم کیو ایم کے Reveal کے بعد یہ سب افراد واپس پارٹی میں آگئے ہیں اور اپنی دہشت گردی کی جھلک بھی کئی بار دکھا چکے ہیں۔ پختونوں کو چاہیے کہ اگر وہ کراچی میں اپنی خیریت چاہتے ہیں تو اپنی عزتِ نفس ترک کرکے رہیں، سر جھکا کر خاموشی سے ہر بات مانیں ورنہ دوسری صورت میں انہیں پروفیشنل قاتلوں سے پالا پڑے گا۔ ان قاتلوں کو ریاستی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ اور اب تو یہ تجربے کی بھٹی سے گزر گزر کر ایسے پختہ ہوگئے ہیں کہ وار بھی کریں گے اور رونے بھی نہیں دیں گے۔ یعنی مریں گے بھی آپ اور الزام بھی آپ پر ہی آئے گا۔
خاور، جس طرح کی اندھی نفرت آپ لوگوں کے دلوں میں ہے، اسکو دیکھ لینے کے بعد آپ جیسے حضرات سے کسی انصاف کی توقع نہیں اور یہ کہ متحدہ کو یقینی طور پر خود ہی آگے بڑھ کر اپنے حقوق خود حاصل کرنا ہوں گے اور وہ کبھی ان جیسے طبقات سے کسی بھلائی کی امید نہ رکھے کیونکہ انکے منہ اور آنکھوں پر وہ پردے پڑے ہیں کہ جس کے بعد انہیں مہاجروں پر ہونے والے مظالم کبھی نظر نہیں آئیں گے۔ جو اٹھارہ ہزار متحدہ کے اراکین کو بینظیر اور نواز شریف نے ریاستی دہشتگردی کرتے ہوئے مروا ڈالا، وہ انہیں کبھی نظر نہیں آئے گا۔ اور ابتدا میں جو جمیعت کراچی کے کالجز میں غنڈہ گردی کرتے ہوئے متحدہ کے سٹوڈنٹز کا مارتی تھی وہ نظر نہیں آئے گی۔ اور ابتدا میں جو مہاجر قوم کو کانگڑی اور بزدل سمجھ کر پٹھان غیر قانونی اسلحے کے بل بوتے پر مافیا بنا کر طاقت دکھاتے تھے وہ بھی نظر نہیں آئے گا، جو اندرون سندھ مہاجروں کے ساتھ سلوک ہوتا رہا وہ بھی نظر نہیں آئے گا۔
میں نے کبھی متحدہ کے غلط کاموں کا دفاع نہیں کیا ہے، اور نہ ہی انکی مافیا پرستی کا۔ مگر جب دیگر سب قوموں کو اور حکومتی قتل عام کو معصوم فرشتہ بنا دیا جاتا ہے اور پورا کا پورا الزام مہاجروں کے گلے میں لٹکا دیا جاتا ہے تو پھر مجھے اس ناانصافی پر احتجاج کرنا ہے۔ کراچی کے حالات کی ذمہ دار پوری پاکستانی قوم ہے، نہ کہ صرف ایک دھڑا۔
از خاور بلال:
پختونوں کو چاہیے کہ اگر وہ کراچی میں اپنی خیریت چاہتے ہیں تو اپنی عزتِ نفس ترک کرکے رہیں، سر جھکا کر خاموشی سے ہر بات مانیں
اور یہودیوں کو میں کیوں پروپیگنڈہ کا الزام دوں جب اپنی ہی صفوں میں وہ لوگ موجود ہیں جنہیں آج تک سہراب گوٹھ میں لاقانونیت نظر نہیں آئی۔ بلکہ الٹا سہراب گوٹھ کے پختونوں کو ایسا مظلوم بنا کر پیش کیا کہ شاید ہی کوئی یہودی اسرائیل کو ایسا مظلوم بنا کر پیش کر پاتا ہو۔
اور اگر اندھی نفرت دل میں نہ ہوتی تو انہیں وہ لاکھوں غیر قانونی کلاشنکوفیں اور دیگر اسلحہ شاید سہراب گوٹھ میں نظر آ جاتا۔ اور اندھی نفرت نہ ہوتی تو سہراب گوٹھ کی ہزاروں ناجائز تجاوزات نظر آ جاتیں۔ اور شاید یہ بھی نظر آ جاتا کہ کیسا مافیا بنا رکھا ہے کہ کوئی پولیس والا وہاں داخل نہیں ہو سکتا۔ اور ڈرگز کا مافیا کاروبار نظر آ جاتا۔ جو انہوں نے پختونوں کو قبائلی روایات کے نام پر پاکستان کے قانون سے بالاتر کر رکھا ہے اور اس سے جو فتنے پیدا ہو رہے ہیں، شاید وہ نظر آ جاتے۔ اور ان پختون برادران نے جو کراچی میں ہی علاقہ غیر بنا رکھا ہے، جو سرکلر ریلوے کو علاقے سے گذرنے نہیں دیتے کہ اس سے ہزاروں ناجائز تجاوزات کو گرانا پڑتا ہے، اور جو مافیا کی صورت بندوق کے زور پر زبردستی گورنمنٹ سپر ہائی وے [ٹرنک روڈ] اور دیگر علاقوں میں زبردستی جگہوں پر ناجائز قبضے کرتے ہیں شاید وہ بھی نظر آ جاتا۔
مگر افسوس کہ برا ہو اس اندھی نفرت کا کہ یہ لوگ یہ سب کچھ دیکھنے سے عاری ہو چکے ہیں۔ ان تمام معاملات کی مذمت میں ایک لفظ انکے منہ سے نہیں نکلتا، مگر متحدہ کا نام آتے ہیں پورا گلا پھاڑ کر چیخنا چلانا شروع کر دینا ہی انکا کام ہے۔