کراچی : ہم جنس پرستوں کے ایک گروہ کی پریڈ

arifkarim

معطل
انا للہ واناعلیہ راجعون۔۔۔

شائد انہی باتوں کی وجہ سے یہ ملک اتنے برے حالات میں ہے۔ اللہ عزوجل ہم سب کے حال پر رحم کرے اور ان لوگوں کو عقل عطا فرمائے جوقانون فطرت سے تصادم کی راہ پر ہیں۔ آمین



مہوش بہن، آپ کے کہنے پر میں نے اس آڈیو ٹریک کو سنا، ورنہ اس سے پہلے میں نے اس خبر کو دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی تھی، خیر ۔۔۔ آپ کا موقف اپنی جگہ پر، لیکن کیا آپ اس آڈیو ٹریک کو خود غور سے سنا ہے؟ جو بات اس آڈیو میں موجود نمائندہ شخصیت کہہ رہی ہے اس کے بعد آپ کے موقف کی بھی جگہ نہیں بچتی۔ یہ لوگ صرف اپنی بیمار ذہنیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔۔۔ اور کچھ نہیں

مغرب میں Pedophilia کو ’’بیمار‘‘ ذہنیت کہا جاتا ہے۔ عجیب کمال ہے۔ ہزاروں سال قبل یونان میں اسکندر اعظم کے زمانہ میں نہ صرف یہ جائز تھا بلکہ بڑھتے ہوئے بچوں کی جنسی نشونما کیلئے اچھا تصور کیا جاتا تھا :rollingonthefloor:
ناروے میں ۱۹۷۲ تک ہم جنس پرستی پر باقائدہ سزا ملتی تھی۔ اور اسکو آپکے کہنے کے مطابق ذہنی بیماری کہا جاتا تھا ۔آج قریباً ہر مغربی ملک میں اسکی کھلی چھٹی ہے۔ مغرب میں آج بھی جانوروں اور ہر الٹ پٹانگ طریقہ سے جنسی حوس کو پوجا جاتا ہے۔
جب معاشرہ بے معنی ہو تو یہ سب کچھ معمول بن جاتا ہے۔ چاہے جتنی مرضی مادی ترقی کر لیں! :laughing:
 

ماسٹر

محفلین
جب تک کوئی برائی انفرادی طور پر اور چھپ کر چوری چوری ہو ، اس وقت تک واپسی کا دروازہ بھی کھلا رہتا ہے - مگر جب برائی کو ایک حق کے طور پر تسلیم کر لیا جائے تو اصلاح کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتا ہے - اور تباہی کا دروازہ چوپٹ کھل جاتا ہے -
 

عسکری

معطل
کیا غلیظ موضوع ہے کیا اس پر بات کرنا باقی ہے یا آپ میں سے کسی نے قصص انبیا علیہ السلام میں قوم لوط کے بارے میں نہیں پڑھا؟
 

arifkarim

معطل
جب تک کوئی برائی انفرادی طور پر اور چھپ کر چوری چوری ہو ، اس وقت تک واپسی کا دروازہ بھی کھلا رہتا ہے - مگر جب برائی کو ایک حق کے طور پر تسلیم کر لیا جائے تو اصلاح کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتا ہے - اور تباہی کا دروازہ چوپٹ کھل جاتا ہے -

برائی تو برائی ہے۔ اس سے نبٹنے کیلئے لائحہ عمل بنا کر کام کرنا چاہئے۔ ظاہر ہے قانون بنا کر تو کوئی مسئلہ حل ہو نہیں‌سکتا۔ اور نہ آجتک ہوا ہے۔ بس پولیس اور علما ء کا کمیشن نکلوانے کا بہانہ ہے ،بس۔ یا ڈاکٹروں کی فیس!
جسنے برائی کرنی ہے وہ رات کو چھپ چھپا کر کر لے گا۔ یا اگر امیر و طاقت ور ہوگا تو دن دہاڑے میں کرکے پیسے دیکر فارغ! :(
برائی کو برائی تسلیم کرلینے سے معاملہ 50 / 50 نہیں ہو جاتا ۔ جب تک اسکو ختم کرنے کیلئے کوئی عملی کاروائی نہ کی جائے۔ ہم جنسی اور اس قسم کے تمام وحشی فحشی خیالات و عادتوں کا تعلق انسانی نفسیات، روحانیات اور اخلاقیات سے ہے۔ ڈنڈے کے زور پر ایک ایلو پیتھک دوائی کی طرح یہ مرض دب تو سکتا ہے پر دنیا سے مٹ نہیں سکتا۔
مغربی ماہرین کے مطابق ہر بچہ فطری طور پر متضاد جنس کی طرف کھنچتا ہے۔ مگر اس کےبچپن میں ہونے واقعات و حالات و صحبتوں کا اثر لڑکن و جوانی تک اسکی قدرتی پریفرنس تبدیل کرسکتا ہے۔
 

ماسٹر

محفلین
میرے نزدیک تو اس کو حق نہیں سمجھنا چاہیے - اور نہ ہی اس کو تحفظ دینے کا کوئی جواز ہے -
اسلام کی تعلیم سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے -
 

سویدا

محفلین
ہمارے ملک میں‌یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبوں اور سازشوں کے تحت ہورہا ہے ، کئی افراد اس وقت ہمارے ملک میں‌اس کے لیے کام کررہے ہیں‌، بیگم نوازش علی جیسے کافی کردار اس وقت معاشرے میں فعال پرزے بنے ہوئے ہیں‌، اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو اسلامی اسکالر کہلانے والی ایک معروف شخصیت اور ان کی تنظیم بھی اسی ایجنڈے کی تکمیل میں‌مصروف عمل ہے ،
اس موضوع کی مناسبت سے ایک نہایت ضروری اور اہم بات آپ سب کے علم میں‌لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کے معروف "اسکالر" جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کی تنظیم بھی ہم جنس پرستی کی حامی ہیں ، غامدی صاحب کی تنظیم کا ماہانہ جریدہ اردو میں‌"اشراق" کے نام سے شائع ہوتا ہے ، اس کے علاوہ ان کا جریدہ انگریزی زبان میں بھی renaissance کے نام سے شائع ہوتا ہے ، انگریزی رسالے سن 2005 کے ماہ اگست کے شمارے میں‌ہم جنس پرستی کی حمایت میں‌کافی تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے مضمون کا عنوان ہے :whither homosexuality ، میں‌اگر اب کچھ بھی کہوں‌گا تو یار لوگ اسے طالبانیت اور شدت پسندی پر ہی محمول کریں‌گے ، جن صاحب کو اگر اب بھی کوئی شک ہو تو ذیل کے لنک میں‌جا کر اس مضمون کو خود اپنی آنکھوں‌سے پڑھ لیں‌اور اس مضمون کے مندرجات سے بھی آگاہی حاصل کرلیں‌:
http://www.monthly-renaissance.com/issue/content.aspx?id=187
اب آپ خود سوچیں کہ کیوں‌ہمارے ملک کے سارے بڑے چینل میڈیا اس وقت غامدی صاحب کو کیوں‌اور کس کے اشاروں پر فروغ دے رہا ہے ، اپنی عقل ، شعور ، سوچ اور فکر کو استعمال کرنا چاہیے ، اب ہوسکتا ہے کہ کوئی میری اس بات کو بھی ملائیت کا عنوان دے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے کو تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے ، ملک میں‌روشن خیال اور شدت پسند کے نام سے دو طبقے بنادیے گئے اور یہ دونوں‌باہم دست وگریباں‌ہیں‌
 

سویدا

محفلین
رہی بات علمائے کرام کی تو کیا ہر کام علما ہی کے ذمے ہیں‌کیا علما کے علاوہ باقی مسلمان اس ملک میں نہیں‌ہیں ؟؟

اور پھر جب علما کوئی کام یا بات کرتے ہیں تو عوام ہی ان کا ساتھ نہیں‌دیتی

عوام ہی ان پر ملا ازم اور طالبان کی آوازیں کسنا شروع کردیتی ہے

واضح‌رہے کہ یہاں‌علمائ سے میری مراد ہرگز وہ چند سیاسی علما نہیں‌ہیں جو سیاست کی گند میں‌شامل ہوکر علم اور اسلام کو بدنام کررہے ہیں‌۔

یہ بھی ہمارا المیہ ہے کہ چند سیاسی علما کی خرابی کی وجہ سے پورے طبقہ علما کو برا بھلا کہہ دیا جاتا ہے

بہرحال میری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ علما کے بجائے کچھ نیک کام عوام کو بھی کرلینے چاہیے
 

مہوش علی

لائبریرین
ہمارے ملک میں‌یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبوں اور سازشوں کے تحت ہورہا ہے ، کئی افراد اس وقت ہمارے ملک میں‌اس کے لیے کام کررہے ہیں‌، بیگم نوازش علی جیسے کافی کردار اس وقت معاشرے میں فعال پرزے بنے ہوئے ہیں‌، اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو اسلامی اسکالر کہلانے والی ایک معروف شخصیت اور ان کی تنظیم بھی اسی ایجنڈے کی تکمیل میں‌مصروف عمل ہے ،
اس موضوع کی مناسبت سے ایک نہایت ضروری اور اہم بات آپ سب کے علم میں‌لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کے معروف "اسکالر" جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کی تنظیم بھی ہم جنس پرستی کی حامی ہیں ، غامدی صاحب کی تنظیم کا ماہانہ جریدہ اردو میں‌"اشراق" کے نام سے شائع ہوتا ہے ، اس کے علاوہ ان کا جریدہ انگریزی زبان میں بھی renaissance کے نام سے شائع ہوتا ہے ، انگریزی رسالے سن 2005 کے ماہ اگست کے شمارے میں‌ہم جنس پرستی کی حمایت میں‌کافی تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے مضمون کا عنوان ہے :whither homosexuality ، میں‌اگر اب کچھ بھی کہوں‌گا تو یار لوگ اسے طالبانیت اور شدت پسندی پر ہی محمول کریں‌گے ، جن صاحب کو اگر اب بھی کوئی شک ہو تو ذیل کے لنک میں‌جا کر اس مضمون کو خود اپنی آنکھوں‌سے پڑھ لیں‌اور اس مضمون کے مندرجات سے بھی آگاہی حاصل کرلیں‌:
http://www.monthly-renaissance.com/issue/content.aspx?id=187
اب آپ خود سوچیں کہ کیوں‌ہمارے ملک کے سارے بڑے چینل میڈیا اس وقت غامدی صاحب کو کیوں‌اور کس کے اشاروں پر فروغ دے رہا ہے ، اپنی عقل ، شعور ، سوچ اور فکر کو استعمال کرنا چاہیے ، اب ہوسکتا ہے کہ کوئی میری اس بات کو بھی ملائیت کا عنوان دے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے کو تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے ، ملک میں‌روشن خیال اور شدت پسند کے نام سے دو طبقے بنادیے گئے اور یہ دونوں‌باہم دست وگریباں‌ہیں‌


سویدا بھائی صاحب،
میں نے آپ کے بتائے ہوئے غامدی صاحب کے ادارے کے اس مضمون کو پڑھا ہے۔ اور اسکے بعد میں کچھ حیران ہوں۔
کیا آپ بتلا سکتے ہیں کہ آپ کو اس آرٹیکل کی کس بات پر اعتراض ہے اور کہاں سے آپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ غامدی صاحب ہم جنس پرستی کی حمایت کر رہے ہیں؟ (براہ مہربانی وہ اقتباسات پیش کر دیجئے)

میرے خیال میں غامدی صاحب کے ادارے والوں کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ انہوں نے میڈیکل سائنس کے حوالے سے جن لوگوں کو فطری مسائل درپیش ہیں، ان کو روشنی میں لاتے ہوئے انکی اس پرابلم کو قبول کیا ہے۔ جبکہ ہمارا روایتی مذہبی طبقہ تنگ نظری کے اُس دھانے پر ہے جہاں وہ ان حقیقتوں کا نام لینا، انہیں قبول کرنا اپنے روایتی اسلام سے بغاوت کرنا سمجھتا ہے۔

سویدا بھائی صاحب، مجھے علم ہے کہ آپ کو پہلے ڈر ہے کہ آپ پر طالبان کا فتوی نہ لگ جائے۔ میرے لہجے میں تلخی ہو تو معاف کیجئے گا، مگر یہ روایتی طبقہ غلطی کر رہا ہے۔ میڈیکل سائنس کو مذہب کے نام پر جھٹلانا کبھی کامیاب چیز ثابت نہیں ہو سکتی۔ آخر میں یہ اُسی زمرے میں جا گرے گی جہاں مذہب کے نام پر سورج کو زبردستی زمین کے گرد گردش کروایا گیا اور اس پر اسلام کا مضحکہ اڑا۔

بہت اچھی بات ہے کہ ہمیں نہیں چاہیے کہ آپ پر طالبانیت کا کوئی فتوی لگائیں۔ مگر دوسری طرف میرے بھائی، کیا میں آپ سے درخواست کر سکتی ہوں کہ اگر غامدی صاحب یا کوئی اور مسلم شخص فطرت اور معاشرے کی ان حقیقتوں کو قبول کر کے ان مسائل کو بیان کرتا ہے تو آپ بھی ایسے شخص پر روشن خیالی کا فتوی نہ لگائیں، اور نہ اسکے پیچھے "سازشی تھیوریوں" کا جال لگا کر انہیں دشمن کا آلہ کار ہونے کا اور غدار اسلام ہونے کا الزام لگائیں۔

آپ سب لوگوں سے بھی گذارش ہے کہ غامدی صاحب کے متعلق کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اس آرٹیکل کو ایک دفعہ خود پڑھ لیں۔
****************

آج جب میں نے اپنے معاشرے اور پھر اس تھریڈ کو دیکھا تو مجھے لگا کہ کوئی ہیں جو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے کھڑے ہو گئے ہیں۔
افسوس کے آپکی آنکھیں بند کر لینے سے مصیبت ٹلنے والی نہیں۔

انسانی عقل خدا کا شاید سب سے بڑا تحفہ ہے۔ خدارا اسے استعمال کیجئے۔
 

زیک

مسافر
اس موضوع کی مناسبت سے ایک نہایت ضروری اور اہم بات آپ سب کے علم میں‌لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کے معروف "اسکالر" جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کی تنظیم بھی ہم جنس پرستی کی حامی ہیں ، غامدی صاحب کی تنظیم کا ماہانہ جریدہ اردو میں‌"اشراق" کے نام سے شائع ہوتا ہے ، اس کے علاوہ ان کا جریدہ انگریزی زبان میں بھی renaissance کے نام سے شائع ہوتا ہے ، انگریزی رسالے سن 2005 کے ماہ اگست کے شمارے میں‌ہم جنس پرستی کی حمایت میں‌کافی تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے مضمون کا عنوان ہے :whither homosexuality ، میں‌اگر اب کچھ بھی کہوں‌گا تو یار لوگ اسے طالبانیت اور شدت پسندی پر ہی محمول کریں‌گے ، جن صاحب کو اگر اب بھی کوئی شک ہو تو ذیل کے لنک میں‌جا کر اس مضمون کو خود اپنی آنکھوں‌سے پڑھ لیں‌اور اس مضمون کے مندرجات سے بھی آگاہی حاصل کرلیں‌:
http://www.monthly-renaissance.com/issue/content.aspx?id=187


اچھا ہوا آپ نے مضمون کا لنک دے دیا تاکہ ہر کوئ جا کر پڑھ سکے اور جان سکے کہ آپ نے اس مضمون بارے جو لکھا ہے وہ کتنا غلط یا صحیح ہے۔ :rolleyes:
 

فخرنوید

محفلین
سویدا بھائی صاحب،
میں نے آپ کے بتائے ہوئے غامدی صاحب کے ادارے کے اس مضمون کو پڑھا ہے۔ اور اسکے بعد میں کچھ حیران ہوں۔
کیا آپ بتلا سکتے ہیں کہ آپ کو اس آرٹیکل کی کس بات پر اعتراض ہے اور کہاں سے آپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ غامدی صاحب ہم جنس پرستی کی حمایت کر رہے ہیں؟ (براہ مہربانی وہ اقتباسات پیش کر دیجئے)

میرے خیال میں غامدی صاحب کے ادارے والوں کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ انہوں نے میڈیکل سائنس کے حوالے سے جن لوگوں کو فطری مسائل درپیش ہیں، ان کو روشنی میں لاتے ہوئے انکی اس پرابلم کو قبول کیا ہے۔ جبکہ ہمارا روایتی مذہبی طبقہ تنگ نظری کے اُس دھانے پر ہے جہاں وہ ان حقیقتوں کا نام لینا، انہیں قبول کرنا اپنے روایتی اسلام سے بغاوت کرنا سمجھتا ہے۔

سویدا بھائی صاحب، مجھے علم ہے کہ آپ کو پہلے ڈر ہے کہ آپ پر طالبان کا فتوی نہ لگ جائے۔ میرے لہجے میں تلخی ہو تو معاف کیجئے گا، مگر یہ روایتی طبقہ غلطی کر رہا ہے۔ میڈیکل سائنس کو مذہب کے نام پر جھٹلانا کبھی کامیاب چیز ثابت نہیں ہو سکتی۔ آخر میں یہ اُسی زمرے میں جا گرے گی جہاں مذہب کے نام پر سورج کو زبردستی زمین کے گرد گردش کروایا گیا اور اس پر اسلام کا مضحکہ اڑا۔

بہت اچھی بات ہے کہ ہمیں نہیں چاہیے کہ آپ پر طالبانیت کا کوئی فتوی لگائیں۔ مگر دوسری طرف میرے بھائی، کیا میں آپ سے درخواست کر سکتی ہوں کہ اگر غامدی صاحب یا کوئی اور مسلم شخص فطرت اور معاشرے کی ان حقیقتوں کو قبول کر کے ان مسائل کو بیان کرتا ہے تو آپ بھی ایسے شخص پر روشن خیالی کا فتوی نہ لگائیں، اور نہ اسکے پیچھے "سازشی تھیوریوں" کا جال لگا کر انہیں دشمن کا آلہ کار ہونے کا اور غدار اسلام ہونے کا الزام لگائیں۔

آپ سب لوگوں سے بھی گذارش ہے کہ غامدی صاحب کے متعلق کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اس آرٹیکل کو ایک دفعہ خود پڑھ لیں۔
****************

آج جب میں نے اپنے معاشرے اور پھر اس تھریڈ کو دیکھا تو مجھے لگا کہ کوئی ہیں جو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے کھڑے ہو گئے ہیں۔
افسوس کے آپکی آنکھیں بند کر لینے سے مصیبت ٹلنے والی نہیں۔

انسانی عقل خدا کا شاید سب سے بڑا تحفہ ہے۔ خدارا اسے استعمال کیجئے۔
کیا ہر وہ چیز جو آج ہم سائنس کی بنیاد پر مان رہے ہیں مذہب اسلام کے قرآن مجید میں وہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ نے آج سے 14 سو سال پہلے بیان نہیں کر دی ہیں کیا؟ اسلام نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ۔ آج سائنس ثابت نہیں کرر ہی ہے کیا؟ کہ وہ سب انسان کے لئے زہر قاتل ہیں۔
آپ کیا سمجھ رہی /رہے ہیں کہ سائنس پہلے اور مذہب بعد میں ۔
اشک وائی اشک تمہارے فلاسفے پہ
 
کؤءی مانے یا نہ مانے غامدی اینڈ کمپنی کے کچھ مخصوص عزائم ضرور لگتے ہیں۔ ملّا کی جہالت، ہٹ دھرمی اور تنگ نظری اپنی جگہ لیکن یہ لوگ اس بات کو ایکسپلائٹ کرکے اپنا مخصوص ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں۔ میں نے یہ آرٹیکل پڑھا ہے۔ شروع سے ہی اسکی ٹون ہوسٹائل ہے۔ ملّا پر پھبتیاں کسی گئی ہیں لیکن ملّا جن دلائل کی بناے پر بات کرتا ہے انکا نہ تو ذکر کیا گیا ہے اور نہ ہی ان پر بحث کی گئی ہے۔ لے سے دے کر یہی بات بار بار دھرائی گئی ہے کہ ملّا کو ایشو کا مکمل ادراک نہیں ہے اور چند فرضی بیانات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم جنس پرستی کسی جنسی بے راہ روی کو نہیں کہتے بلکہ یہ ایک قدرتی اور فطری عمل ہوتا ہے چند اشخاص کے ساتھ۔ ۔ ۔ آخر مین ان اشخاص کو مشورہ دیا گیا ہے کہ شرمانے کی یا چھپانے کی ضرورت نہیں ہے اللہ آپکا حامی و ناصر ہو:) لیجئیے ایک انقلابی آرٹیکل ختم ہوا۔ قوم کو ملّا کی چیرہ دستیوں سے نجات کا نسخہ ۔
ان صاحب نے اپنی تحقیق کی روشنی میں اس موضوع پر اسلامی حوالے سے تو کوئی بات ہی نہیں کی۔ صرف ملّا کی تنقیص کی گئی ہے کہ ملّا کو 'ان' افراد کے اصل دکھ درد یا المیے کا احساس نہیں ہے۔ ۔ ۔
 

گرائیں

محفلین
محمود صاحب اور سویدا صاحب میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔

مثال کے طور پر یہ ملاحطہ فرمائیے:

question i: Is same gender attraction a choice, or alternatively, is it a natural phenomenon?

Beards: Such a perversion is a by-product of a lewd society. He who is afflicted with this disease is the one to be blamed. In some cases abuse at an early age could be the misleading factor but even then we blame the child for his complicity. End of discussion!

انھوں نے اپنی طرف سے ایک مفروضہ قائم کر کے پھر اس کا جواب ملا کی طرف سے تو دے دیا ہے، مگر حوالہ نہیں دیا کہ کہاں یہ بات کی گئی ہے، اور جیسا کہ پوری تحریر سے جھلک رہا ہے، انھوں نے گویا ٹھانی ہوئی ہے کہ ملاؤں کی بات کو غلط قرار دینا ہی دینا ہے۔


دوسری مثال جس میں انھون نے اپنی طرف سے ایک سوال اٹھا کر پھر اس کا ایک ملا کی طرف سے جواب دیا ہے۔ اس بار بھی کوئی مستند حوالہ نہیں کہ یہ داڑھی والا کون ہے اور اس کی کیا علمی اور معاشرتی حیثیت ہے۔

question ii: Regardless of the nature versus nurture debate, can such a condition be cured?

Beards: Obviously! First and foremost consider such a phenomenon as a disease and a perversion. Read the qur’an, say your prayers, mingle with beards, steer clear from evil influences, join a gym, and get married. Ah! Condition yourself by thinking of sex with a beautiful woman. and if that does not work we will bring in electrocution. So there you go.

ملاحظہ فرمائیے کتنی بدتمیزی سے ایک جواب تشکیل دیا گیا ہے۔

مصنف نے ہم جنس پرستوں کے وہی رتے رٹائے جملے یہاں کہے ہیں۔

nay! Categorizing an otherwise intelligent and well-meaning person as diseased and perverted can be quite demeaning and demoralizing. It is disillusioning simply because, even if the environs or conditions like child abuse were to be blamed, the brutal truth is that some things cannot be helped or changed.

اور پھر اور فضولیات، لیکن یہاں مصنف نے تسلیم کیا ہے ، بغیر کوئی حوالہ دیئے ، کہ ہم جنس پرستی اسلام میں ممنوع ہے۔

the stark truth is that islam has severely condemned sodomy. The various qur’anic verses, the teachings of the prophet (sws) and the opinions of the grand jurists cannot be clearer. The law cannot be changed for then we would be charged with the same heinous crime as those nations before us that defied the divine mandate. However, another area contains enough scope for change. It is that of social prejudices, of family pressures, of categorical statements and of nothing but homophobia.

If we keep dealing with the issue as taboo, as non-existent, as an exclusive western or 21st century phenomenon, or make the client feel diseased or perverted, we will only end up steering many bright and able youth away from the light. Thus, the alternative approach has its roots in understanding, in empathy, in tolerance, in acceptance and nothing but love.

اب ہمارے سامنے دو راستے ہیں۔ اسلام یا غیر اسلام۔ اگر تو ہم اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں ہر اُس چیز کو ٹھکرانا ہوگا جو غیر اسلامی ہے ی انبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات اور عمال سے متصادم ہے۔ میرا نہیں کیال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ہم جنس پرستی کے حق میں دلائل دیتے دیکھ کر خوش ہوں گے۔

وما علی الا البلاغ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محمود صاحب اور سویدا صاحب میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔

مثال کے طور پر یہ ملاحطہ فرمائیے:



انھوں نے اپنی طرف سے ایک مفروضہ قائم کر کے پھر اس کا جواب ملا کی طرف سے تو دے دیا ہے، مگر حوالہ نہیں دیا کہ کہاں یہ بات کی گئی ہے، اور جیسا کہ پوری تحریر سے جھلک رہا ہے، انھوں نے گویا ٹھانی ہوئی ہے کہ ملاؤں کی بات کو غلط قرار دینا ہی دینا ہے۔


دوسری مثال جس میں انھون نے اپنی طرف سے ایک سوال اٹھا کر پھر اس کا ایک ملا کی طرف سے جواب دیا ہے۔ اس بار بھی کوئی مستند حوالہ نہیں کہ یہ داڑھی والا کون ہے اور اس کی کیا علمی اور معاشرتی حیثیت ہے۔



ملاحظہ فرمائیے کتنی بدتمیزی سے ایک جواب تشکیل دیا گیا ہے۔

مصنف نے ہم جنس پرستوں کے وہی رتے رٹائے جملے یہاں کہے ہیں۔



اور پھر اور فضولیات، لیکن یہاں مصنف نے تسلیم کیا ہے ، بغیر کوئی حوالہ دیئے ، کہ ہم جنس پرستی اسلام میں ممنوع ہے۔



اب ہمارے سامنے دو راستے ہیں۔ اسلام یا غیر اسلام۔ اگر تو ہم اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں ہر اُس چیز کو ٹھکرانا ہوگا جو غیر اسلامی ہے ی انبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات اور عمال سے متصادم ہے۔ میرا نہیں کیال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ہم جنس پرستی کے حق میں دلائل دیتے دیکھ کر خوش ہوں گے۔

وما علی الا البلاغ۔

ہر انسان کو خوش کرنا ممکن نہیں۔ غامدی صاحب جیسے مرضی ملا حضرات کی غلطی کو بیان کرتے، جواب میں ان پر یہی اعتراض کیا جانا تھا اور یہی الزامات لگائے جانے تھے۔

بھلا ان صاحب نے ملا حضرات کو کیا اور کہاں برا بھلا کہا ہے؟ مگر جواب میں جو ملا حضرات کے حامی حضرات فورا سے پیشتر ان پر "ایجنڈے" اور "اسلام دشمنی" کے فتوے جاری کرتے ہیں، یہ چیز نظر آنی ختم ہو جاتی ہے اور خود پر ملا حضرات ہزار خون معاف رکھتے ہیں اور انہیں اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا مگر دوسری کی آنکھ کے تنکے پر انہیں اعتراض ہے۔

ایک چھوٹے آرٹیکل میں انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ہر ہر چیز کا احاطہ کر سکے۔ لہذا اس کو بنیاد بناتے ہوئے غیر ضروری اعتراضات کرنا لغو ہے کہ انہوں نے ملا حضرات کے مکالموں کا حوالہ نہیں دیا۔ آرٹیکل میں ملا حضرات کا عمومی رویہ بیان کیا گیا ہے جو سب کو علم ہے۔ یہ بھی علم ہے کہ دینی مدارس میں جس طرح یہ وبا اٹھتی ہے تو پھر کیسے اسے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حتی کہ جب ایک وفاقی وزیر نے اس جرم پر سوال اٹھایا تاکہ اسکا تدارک کیا جائے تو ملا حضرات اُس وزیر کے خلاف ہو گئے کہ مدارس کو بدنام کیے جانے کی سازش کی جا رہی ہے۔
***************
اس مسئلے کے تدارک کے ممکنہ حل
بہرحال، آپ لوگوں کو یہ رویہ مبارک ہو، ہمیں اپنے اللہ کے سامنے خود جوابدہ ہونا ہے۔
اس مسئلے کا ایک حل اوپر آرٹیکل میں غامدی صاحب کی طرف سے پیش کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے ان روایتی ملا حضرات پر اعتراض کیا ہے جو عقل کے دروازے بند رکھتے ہیں اور یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ قدرتی طور پر ایسا شخص پیدا بھی ہو سکتا ہے جسکی فطری خواہشات عام انسان سے مختلف ہو سکتی ہیں۔
غامدی صاحب (یا جو بھی صاحب آرٹیکل ہیں)، انہوں نے پہلے ان معصوم لوگوں کی پرابلم کو قبول کیا ہے، پھر اسکا حل یہ پیش کیا ہے کہ اگرچہ آپ لوگوں کی پرابلم جینوئن ہے، مگر انسان کی یہ زندگی اللہ کی طرف سے امتحان ہے۔ بہت سے لوگ آپ سے بھی زیادہ ایسے امتحانات میں مبتلا ہیں، آپ کو اس امتحان میں پورا اترنا ہے اور خود کی حفاظت کرنی ہے اور اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے، اور پھر اچھی اچھی نصیحتیں کی گئی ہیں کہ خود کو دیگر ایکٹیویٹیز میں مصروف رکھیں۔

دوسرا حل وہ ہے جو ایرانی ملا حضرات نے پیش کیا جس میں میڈیکل کی بنیاد پر جب یہ بات مکمل طور پر ثابت ہو گئی کہ فطرت کی طرف سے چیزیں مختلف ہیں، تو پہلے آفیشلی اس چیز کو درج کیا گیا، پھر انہیں آپریشن سے سیکس چینج کی اجازت دی گئی، پھر کاغذات میں آفیشلی انہیں مخالف سیکس کا فرد تسلیم کرتے ہوئے انہیں شادی کی اجازت دی گئی۔ اور ابتک کی رپورٹوں کے مطابق اس چیز کا معاشرے کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ ایسے لوگوں کا انٹرویو کیا گیا اور انہوں نے بیان کیا کہ وہ چاہیں تو بھی پہلے سوسائٹی میں بطور مرد نہیں حرکت کر سکتے تھے اور انکی حرکتوں سے وہ مردوں سے ہمیشہ الگ ہی نظر آتے تھے۔ سکول میں کالج میں یونیورسٹیز میں ہر جگہ یہ لوگ صاف پہنچانے جاتے تھے اور پھر تنگ کیے جاتے تھے، یہ لوگ اپنی زندگی سے تنگ تھے۔ مگر تبدیلی سیکس کے بعد ان کی کامیاب شادیاں ہوئی ہیں اور یہ لوگ خوش و خرم ازدواجی زندگیاں گذار رہے ہیں۔

ہم لوگوں کا اختلاف تو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ بہرحال، آپ لوگ اس معاملے میں مزید تحقیق کریں۔ گوگل میں آپ Iran Sex Change لکھ کر سرچ کریں گے تو آپ کو بہت سے ایسے لوگوں کے انٹریو پڑھنے کو مل جائیں گے جو اس پراسس سے گذر چکے ہیں۔ انکی کہانی سے ہم یقینا کافی سبق سیکھ سکتے ہیں۔

*******************

فخر نوید بھائی،
اسلام اور سائنس کا ٹکراؤ نہیں ہے۔  بلکہ اسلام میں اجتہاد کی ضرورت ہے اور ہر چیز کو اُس وقت کے حالات کے تحت حل کرنے کی ضرورت ہے۔
 

گرائیں

محفلین
ہر انسان کو خوش کرنا ممکن نہیں۔ غامدی صاحب جیسے مرضی ملا حضرات کی غلطی کو بیان کرتے، جواب میں ان پر یہی اعتراض کیا جانا تھا اور یہی الزامات لگائے جانے تھے۔

بھلا ان صاحب نے ملا حضرات کو کیا اور کہاں برا بھلا کہا ہے؟ مگر جواب میں جو ملا حضرات کے حامی حضرات فورا سے پیشتر ان پر "ایجنڈے" اور "اسلام دشمنی" کے فتوے جاری کرتے ہیں، یہ چیز نظر آنی ختم ہو جاتی ہے اور خود پر ملا حضرات ہزار خون معاف رکھتے ہیں اور انہیں اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا مگر دوسری کی آنکھ کے تنکے پر انہیں اعتراض ہے۔
نشان زد جملے کا حوالہ دے دیں گی آپ؟
 

گرائیں

محفلین
ایک چھوٹے آرٹیکل میں انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ہر ہر چیز کا احاطہ کر سکے۔ لہذا اس کو بنیاد بناتے ہوئے غیر ضروری اعتراضات کرنا لغو ہے کہ انہوں نے ملا حضرات کے مکالموں کا حوالہ نہیں دیا۔ آرٹیکل میں ملا حضرات کا عمومی رویہ بیان کیا گیا ہے جو سب کو علم ہے۔ یہ بھی علم ہے کہ دینی مدارس میں جس طرح یہ وبا اٹھتی ہے تو پھر کیسے اسے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حتی کہ جب ایک وفاقی وزیر نے اس جرم پر سوال اٹھایا تاکہ اسکا تدارک کیا جائے تو ملا حضرات اُس وزیر کے خلاف ہو گئے کہ مدارس کو بدنام کیے جانے کی سازش کی جا رہی ہے۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے محترمہ؟ آپ نے شائد آرٹیکل دیکھا ہی نہیں اور محض اختلاف برائے اختلاف کی بنیاد پر بحث کی قینچی لے کر کترنے بیٹھ گئیں۔ اگر آپ آرٹیکل پڑھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ موصوف نے ہم جنس پرستی کے حق میں کچھ دلائل کے باقاعدہ حالے دئے ہیں، اگر یہ ایک چھوٹا آرٹیکل ہے اور موصوف کو اپنے حق میں دلائل مل سکتے ہیں تو اختلافی نقطہ نظر کے دلائل ڈھونڈنا کونسا مشکل کام ہے۔ پھر موصوف کی زبان دیکھیں، خیر یہ مطالبہ تو مجھے آپ سے کرنا ہی نہیں چاہئے، آپ کو تو اس میں کوئی برائی نظر ہی نہیں آ رہی۔

یاد رکھئے دین کے معاملات میں عمومی روئے نہیں دیکھے جاتے، ورنہ اگر عمومی رویوں کو دیکھنا ہو تو قبروں کو سجدہ کرنا عین اسلام قرار پائے گا۔ اور مردوں سے مانگنا تو حج بیت اللہ سے افضل ہوگا۔ کیسی حیرانی کی بات ہے کہ دنیادی معاملات میں تو متاثرہ فریق کا مؤقف سنے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا مگر جیسے ہی بے چارے ملا کی باری آئی، اُس کا مؤقف سنے بغیر ہی " عمومی رویوں" کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا جاتا ہے ، کہ ہاں ایسا ہونا حق ہے۔ رہ گئی مدرسوں میں اس وبا کے اٹھنے کا، تو یہ وبا تو ہر جگہ ہے، آپ کے اہل کتاب کے کتنے پادریوں کو شرمندہ ہونا پڑا، کتنے کروذ ڈالر چرچ کو معافی تلافی کے سلسلے میں دینے پڑے ، یہتو آپ جانتی ہی ہوں گی۔ کیا خیال یے ان کو بھی سیکس چینج آپریشن کا مشورہ نہ دیا جائے؟

سیکس چینج آپریشن کی اجازت کی وجہ جو مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے :
وکی پیڈیا نے سیکس چینج آپریشن پر کہیں بھی نہیں کہا کہ یہ ہم جنس پرستی کا علاج ہے۔
ہاں ایرانی سیکس چینج آپریشن کا اس نے آ خر میں ذکر کیا ہے مگر ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے
Filmmaker Tanaz Eshaghian discovered that the Iranian government's "solution" for homosexuality is to endorse, and fully pay for, sex reassignment surgery.[14] The leader of Iran's Islamic Revolution, Ayatollah Ruholla Khomeini, issued a fatwa declaring sex reassignment surgery permissible for “diagnosed transsexuals.”[14] Eshaghian's documentary, Be Like Others, chronicles a number of stories of Iranian gay men who feel transitioning is the only way to avoid further persecution, jail and/or execution.[14] The head of Iran's main transsexual organization, Maryam Khatoon Molkara—who convinced Khomeini to issue the fatwa on transsexuality—confirmed that some people who undergo operations are gay rather than transsexual.[15]

یہ باتیں تو آپ کے دعووں کی کافی حد تک نفی کر رہی ہیں مہوش صاحبہ، خصوصا نشان زد جملے کو دیکھ لیں۔ یعنی سزا سے بچنے کے لئے ہم جنس پرست اپنا آپریشن کر والیتے ہیں، گویا ہم جنس پرستی اب بھی ایران میں قابل تعذیر ہے۔

سیک چینج آپریشن ہم جنس پرستی نہیں بلکہ اس حالت کا ایک علاج تصور کیا جاتا ہے۔ جس کی تعریف کچھ یو ں کی گئی ہے:

ntersexuality in humans refers to intermediate or atypical combinations of physical features that usually distinguish male from female. This is usually understood to be congenital, involving chromosomal, morphologic, genital and/or gonadal anomalies, such as diversion from stereotypical XX-female or XY-male presentations, i.e. sex reversal (XY-female, XX-male), genital ambiguity, sex developmental differences. An intersexed individual may have biological characteristics of both the male and female sexes

مزید معلومات یہاں پر مل جائیں گی۔

رہ گئی بات بے چارے مُلا کی تو اس کی پہلے کسی نے سنی ہے جو اب سنے گا؟
 

فخرنوید

محفلین
فخر نوید بھائی،
اسلام اور سائنس کا ٹکراؤ نہیں ہے۔  بلکہ اسلام میں اجتہاد کی ضرورت ہے اور ہر چیز کو اُس وقت کے حالات کے تحت حل کرنے کی ضرورت ہے۔

میرا نہیں خیال ہے کہ جو چیزیں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں چودہ سو سال پہلے طے کر دی ہیں ان کے لئے کسی اجتہاد کی ضرورت ہے۔ ان میں ردو بدل کے لئے بس مذہب بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنہوں نے قرآن کی تعلیمات کے خلاف اجتہاد کرنا ہے تو وہ خود کو پار ہی سمجھیں
 
جن 'معصوم' لوگوں کی یہ 'جینوئن' پرابلم ہے وہ لوگ شاذونادر ہیں معاشرے میں ۔ آٹے مین نمک کا تناسب بھی نہیں ہوگا۔ میرے خیال میں ہم لوگ تین مختلف گروہوں کو آپس میں کنفیوز کر رہے ہیں :
1- جینوئن خواجہ سرا حضرات۔ ۔ جو پیدائشی طور پر نہ ہییوں میں نہ شییوں میں۔ اور جنکا میڈیکل علاج بھی ممکن نہیں۔
2- ادھوری جنسیت کے حامل افراد۔ انکا علاج وغیرہ ممکن ہے ۔انکی بھی تعداد اتنی نہین معاشرے میں جس مناسبت سے شور مچایا جارہا ہے۔
3-جنسی طور پر بے راہ رو طبقہ۔ ۔ ۔ یہی لوگ ہیں جنکی مذمّت کی جاتی ہے اور یہ لوگ درج بالا کیٹیگریز کی آڑ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ جنسی طور پر صحتمند ہوتے ہیں بلکہ کئی لوگ تو بال بچّے دار بھی ہوتے ہین۔
 

گرائیں

محفلین
جی محمود ، میرا بھی یہی خیال ہے کہ مہوش کو یہی مغالطہ ہوا ہے اور وہ ادھوری جنسیت کے حامل افراد کو ہم جنس افراد کے ساتھ گڈ مڈ کر بیٹھی ہیں۔ یہاں پر دو انگریزی اصطلاحات کا استعمال میں مفید سمجھوں گا۔
intersexuality / trans sexuality
Homosexuality

میرا خیال ہے مہوش پہلی والی حالت کو دوسری والی حالت سمجھ بیٹھی ہیں ، حال آنکہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جو حوالے میں نے پیش کئے ہیں ان میں کہیں بھی جنڈر ری اسائنمنٹ آپریشن کا استعمال ہم جنسیت کے لئے نہیں کیا گیا۔
 
Top