محمود صاحب اور سویدا صاحب میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔
مثال کے طور پر یہ ملاحطہ فرمائیے:
انھوں نے اپنی طرف سے ایک مفروضہ قائم کر کے پھر اس کا جواب ملا کی طرف سے تو دے دیا ہے، مگر حوالہ نہیں دیا کہ کہاں یہ بات کی گئی ہے، اور جیسا کہ پوری تحریر سے جھلک رہا ہے، انھوں نے گویا ٹھانی ہوئی ہے کہ ملاؤں کی بات کو غلط قرار دینا ہی دینا ہے۔
دوسری مثال جس میں انھون نے اپنی طرف سے ایک سوال اٹھا کر پھر اس کا ایک ملا کی طرف سے جواب دیا ہے۔ اس بار بھی کوئی مستند حوالہ نہیں کہ یہ داڑھی والا کون ہے اور اس کی کیا علمی اور معاشرتی حیثیت ہے۔
ملاحظہ فرمائیے کتنی بدتمیزی سے ایک جواب تشکیل دیا گیا ہے۔
مصنف نے ہم جنس پرستوں کے وہی رتے رٹائے جملے یہاں کہے ہیں۔
اور پھر اور فضولیات، لیکن یہاں مصنف نے تسلیم کیا ہے ، بغیر کوئی حوالہ دیئے ، کہ ہم جنس پرستی اسلام میں ممنوع ہے۔
اب ہمارے سامنے دو راستے ہیں۔ اسلام یا غیر اسلام۔ اگر تو ہم اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں ہر اُس چیز کو ٹھکرانا ہوگا جو غیر اسلامی ہے ی انبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات اور عمال سے متصادم ہے۔ میرا نہیں کیال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ہم جنس پرستی کے حق میں دلائل دیتے دیکھ کر خوش ہوں گے۔
وما علی الا البلاغ۔
ہر انسان کو خوش کرنا ممکن نہیں۔ غامدی صاحب جیسے مرضی ملا حضرات کی غلطی کو بیان کرتے، جواب میں ان پر یہی اعتراض کیا جانا تھا اور یہی الزامات لگائے جانے تھے۔
بھلا ان صاحب نے ملا حضرات کو کیا اور کہاں برا بھلا کہا ہے؟ مگر جواب میں جو ملا حضرات کے حامی حضرات فورا سے پیشتر ان پر "ایجنڈے" اور "اسلام دشمنی" کے فتوے جاری کرتے ہیں، یہ چیز نظر آنی ختم ہو جاتی ہے اور خود پر ملا حضرات ہزار خون معاف رکھتے ہیں اور انہیں اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا مگر دوسری کی آنکھ کے تنکے پر انہیں اعتراض ہے۔
ایک چھوٹے آرٹیکل میں انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ہر ہر چیز کا احاطہ کر سکے۔ لہذا اس کو بنیاد بناتے ہوئے غیر ضروری اعتراضات کرنا لغو ہے کہ انہوں نے ملا حضرات کے مکالموں کا حوالہ نہیں دیا۔ آرٹیکل میں ملا حضرات کا عمومی رویہ بیان کیا گیا ہے جو سب کو علم ہے۔ یہ بھی علم ہے کہ دینی مدارس میں جس طرح یہ وبا اٹھتی ہے تو پھر کیسے اسے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حتی کہ جب ایک وفاقی وزیر نے اس جرم پر سوال اٹھایا تاکہ اسکا تدارک کیا جائے تو ملا حضرات اُس وزیر کے خلاف ہو گئے کہ مدارس کو بدنام کیے جانے کی سازش کی جا رہی ہے۔
***************
اس مسئلے کے تدارک کے ممکنہ حل
بہرحال، آپ لوگوں کو یہ رویہ مبارک ہو، ہمیں اپنے اللہ کے سامنے خود جوابدہ ہونا ہے۔
اس مسئلے کا ایک حل اوپر آرٹیکل میں غامدی صاحب کی طرف سے پیش کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے ان روایتی ملا حضرات پر اعتراض کیا ہے جو عقل کے دروازے بند رکھتے ہیں اور یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ قدرتی طور پر ایسا شخص پیدا بھی ہو سکتا ہے جسکی فطری خواہشات عام انسان سے مختلف ہو سکتی ہیں۔
غامدی صاحب (یا جو بھی صاحب آرٹیکل ہیں)، انہوں نے پہلے ان معصوم لوگوں کی پرابلم کو قبول کیا ہے، پھر اسکا حل یہ پیش کیا ہے کہ اگرچہ آپ لوگوں کی پرابلم جینوئن ہے، مگر انسان کی یہ زندگی اللہ کی طرف سے امتحان ہے۔ بہت سے لوگ آپ سے بھی زیادہ ایسے امتحانات میں مبتلا ہیں، آپ کو اس امتحان میں پورا اترنا ہے اور خود کی حفاظت کرنی ہے اور اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے، اور پھر اچھی اچھی نصیحتیں کی گئی ہیں کہ خود کو دیگر ایکٹیویٹیز میں مصروف رکھیں۔
دوسرا حل وہ ہے جو ایرانی ملا حضرات نے پیش کیا جس میں میڈیکل کی بنیاد پر جب یہ بات مکمل طور پر ثابت ہو گئی کہ فطرت کی طرف سے چیزیں مختلف ہیں، تو پہلے آفیشلی اس چیز کو درج کیا گیا، پھر انہیں آپریشن سے سیکس چینج کی اجازت دی گئی، پھر کاغذات میں آفیشلی انہیں مخالف سیکس کا فرد تسلیم کرتے ہوئے انہیں شادی کی اجازت دی گئی۔ اور ابتک کی رپورٹوں کے مطابق اس چیز کا معاشرے کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ ایسے لوگوں کا انٹرویو کیا گیا اور انہوں نے بیان کیا کہ وہ چاہیں تو بھی پہلے سوسائٹی میں بطور مرد نہیں حرکت کر سکتے تھے اور انکی حرکتوں سے وہ مردوں سے ہمیشہ الگ ہی نظر آتے تھے۔ سکول میں کالج میں یونیورسٹیز میں ہر جگہ یہ لوگ صاف پہنچانے جاتے تھے اور پھر تنگ کیے جاتے تھے، یہ لوگ اپنی زندگی سے تنگ تھے۔ مگر تبدیلی سیکس کے بعد ان کی کامیاب شادیاں ہوئی ہیں اور یہ لوگ خوش و خرم ازدواجی زندگیاں گذار رہے ہیں۔
ہم لوگوں کا اختلاف تو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ بہرحال، آپ لوگ اس معاملے میں مزید تحقیق کریں۔ گوگل میں آپ Iran Sex Change لکھ کر سرچ کریں گے تو آپ کو بہت سے ایسے لوگوں کے انٹریو پڑھنے کو مل جائیں گے جو اس پراسس سے گذر چکے ہیں۔ انکی کہانی سے ہم یقینا کافی سبق سیکھ سکتے ہیں۔
*******************
فخر نوید بھائی،
اسلام اور سائنس کا ٹکراؤ نہیں ہے۔ بلکہ اسلام میں اجتہاد کی ضرورت ہے اور ہر چیز کو اُس وقت کے حالات کے تحت حل کرنے کی ضرورت ہے۔