یاز
محفلین
جی بالکل۔ سونے کو ایک مثال کے طور پر ہی لکھا تھا۔ کسی عام استعمال کی کموڈیٹی کے لحاظ سے بھی حساب کتاب کیا جا سکتا ہے۔اسی سوال کو سونے کی بجائے چاندی، گندم، گائے یا سی شیل کی قیمت کے حساب سے بھی سوچیں
جی بالکل۔ سونے کو ایک مثال کے طور پر ہی لکھا تھا۔ کسی عام استعمال کی کموڈیٹی کے لحاظ سے بھی حساب کتاب کیا جا سکتا ہے۔اسی سوال کو سونے کی بجائے چاندی، گندم، گائے یا سی شیل کی قیمت کے حساب سے بھی سوچیں
سوچتے تو سبھی ہوں گے، تاہم ایسے معاملات میں بعض اوقات تعلق اور رشتے مجبور کر دیتے ہیں۔نیز پیسے دیتے وقت سب کچھ سوچیں۔
ایک مرتبہ (ایک ماہ بعد) دگنا ہوتا جاتاہے پھر دو بارہ نہیں بڑھتا ۔ایک دفعہ بڑھتے ہیں یا بار بار؟
ایک اور مسئلہ بھی ہے۔
ایک شخص نے دوسرے کو دس ہزار روپیہ قرض دیا، جس سے اس وقت ایک تولہ سونا خریدا جا سکتا تھا۔ دوسرے شخص نے بیس سال بعد پیسہ واپس کرنا چاہا۔ اس وقت سونا چالیس ہزار روپے کا تولہ ہے۔
اب چالیس ہزار روپیہ واپس لیتا ہے تو اس میں تیس ہزار سود ہو گا یا نہیں۔ اور اگر فقط دس ہزار واپس کیا جائے تو پہلے شخص کا کیا قصور؟
بالکل درست فرمایا جناب۔اس سوال کے ممکنہ جوابات تو احباب نے مختلف پہلو سے دے ہی دئیے ہیں۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اسلام قرضِ حسنہ کی بات کر تا ہے۔ جس میں اللہ کی رضا کے لئے دوسروں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے یا معاشی طور پر مستحکم ہونے کے لئے بلا سود قرض دینا بھی شامل ہے۔
اسلام کہتا ہے کہ مقروض کو ادائیگی کی مہلت دی جائے، اُسے تقاضے کرکر عاجز نہ کیا جائے اور اگر اُس کی واپسی کی گنجائش نہ ہو تو بہتر ہے کہ اُسے قرض معاف کر دیا جائے۔
سو ایک اچھا مسلمان قرض اللہ کی رضا کے لئے دیتا ہے (اور اسے کسب معاش کے لئے کاروبار نہیں بناتا) اور وہ اس سلسلے میں ہر قسم کے نفع (سود) کی توقع اللہ سے (آخرت میں) چاہتا ہے۔
بالکل درست فرمایا جناب۔
بلاشبہ!ساتھ میں ہم یہ بھی عرض کرنا چاہیں گے کہ اسلام قرض لینے والے کو بھی سخت تاکید کرتا ہے کہ قرض لوٹایا جائے۔ حتیٰ کہ فوت ہو جانے والے یا شہید ہو جانے والے کو بھی قرض سے معافی نہیں ہے۔
ہمارا معاشرے میں رشتہ داریوں اور تعلقات کا بندھن ایسا ہے کہ ہم نے لوگوں کو دوسروں سے تقریباً زبردستی قرضہ لیتے بھی دیکھا ہے۔
ایسے کیس بھی دیکھے ہیں جس میں قرضہ دینے کے لئے لوگوں نے خود کسی سے قرض لیا۔
اور پھر یہ بھی دیکھا ہے کہ قرض لینے کے بعد لوگوں نے سالوں بلکہ دہائیوں تک مڑ کے نہ پوچھا واپس کرنے کے لئے۔
اور آخری بات پھر وہی کہ جب قرضہ واپس کریں گے تو اس کو قوتِ خرید کے حساب سے واپس کرنا چاہئے، جس کا ہمارے معاشرے میں تصور ہی نہیں پایا جاتا۔
یاز بھائی کے مراسلے سے گفتگو کا رُخ دوسری جانب مڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا (یا شاید مجھے ایسا لگا کہ بات کریڈٹ کارڈ کی حلت وحرمت کے بجائے جرمانے کو حلال یا حرام سمجھنے کی طرف نہ مڑجائے کیوں کہ اس میں بھی رقم کی ادائیگی مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد سود کی رقم شامل کردی جاتی ہے۔) لہٰذا اپنے تئیں گفتگو کو کریڈٹ کارڈ تک محدود رکھنے اور کسی دوسری بحث میں الجھنے کے بجائے سود کے حوالے سے آپ کا مراسلہ نقل کردیا۔ٹرومین بھائی آپ میرے مراسلے سے کس نتیجے پر پہنچے ہیں؟
کریڈٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈ کا حکم : از احسان اللہ کیانی
ڈیبٹ کارڈ اور کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہے یا نہیں ؟ یہ جاننے کیلئے ضروری ہے ،کہ پہلے ان کے متعلق کچھ اہم باتوں کو سمجھ لیا جائے
ڈیبٹ کارڈ : اس کارڈ کو آپ صرف اس وقت تک استعمال کر سکتے ہیں ،جب تک آپ کے اکاونٹ میں بیلنس موجود ہے ،جب آپ کے اکاونٹ میں بیلنس ختم ہوتا ہے ،آپ اس سے مزید خریداری نہیں کر سکتے یہ کارڈ آپ کو ادھار یا قرض کی سہولت نہیں دیتا ۔
اس کا استعمال بلا شبہ جائز ہے ۔
کریڈٹ کارڈ : اس کارڈ کو آپ اس وقت بھی استعمال کر سکتے ہیں ،جب آپ کے اکاونٹ میں بیلنس نہیں ہوتا ہے،اس وقت یہ کارڈ آپ کو مخصوص مدت کیلئے قرض دیتا ہے ،اس قرض کی شرط یہ ہوتی ہے کہ اگر آپ نے اسے مقرر ہ مدت میں ادا کر دیا ،تو یہی رقم ادا کرنی ہو گی ،ورنہ آپ کو اتنا اتنا سود بھی دینا پڑے گا ۔
کریڈ ٹ کارڈ کے حصول کیلئے ،ہمیں اس معاہدے پر رضا مند ہو کر دستخط کرنے پڑتے ہیں
جی ہاں
اگر میں مقررہ مدت پر قرض ادا نہ کر سکا ،تو سود ادا کروں گا ۔
اس لیے کریڈٹ کارڈ کا استعمال ناجائز ہے
السلام علیکم!
ڈیبٹ کارڈ کس طرح جائز ہو گا جبکہ یہ کارڈ انہی کو ملتا ہے جس کا بینک میں کھاتہ یا اکاؤنٹ ہو؟
تو یہ کارڈ کیسے جائز ہو گا؟
- یہ کارڈ بھی بیلنس نہ ہونے پر رقم کی ادائیگی کرتا ہے جب آپ نے اوور ڈرافٹ پیمنٹس کی سہولت حاصل کی ہوئی ہو،
- جب آپ بینک میں رقم رکھتے ہیں یا تنخواہ کی مد رقم آپ کے اکاؤنٹ میں آتی ہے تو اس سے بینک کو فائدہ حاصل ہوتا ہے آپکی رقم سے ہی بینک سود کا لین دین کرتا ہے۔
- آپ کے اکاؤنٹ سے رقم بھی کاٹی جاتی ہے چند پیسوں کی شکل میں تو کیا یہ بھی سود نہیں۔
==========
کریڈٹ کارڈ میں ہر ایکسٹرا پیمنٹس سود نہیں ہوتی دینی بھائیوں کو سسٹم کا علم نہ ہونے کی وجہ سے یہ سود لگتی ہے۔
جن لوگوں کا خیال ہے کریڈٹ کارڈ پر سود ہے اس لئے یہ جائز نہیں تو اس پر گفتگو کرتے ہیں۔
کچھ ممالک میں کریڈٹ کارڈ پر ایک سال کی فیس لی جاتی ہے، تو یہ فیس سود نہیں ہوتی بلکہ یہ فیس اس لئے لی جاتی ہے کہ اس کارڈ کو انشورڈ کروایا جاتا ہے۔ اس کا دونوں کو فائدہ ہے،
کریڈٹ کارڈ پر جو سال کی فیس لی جاتی یہ کارڈ کی انشورنس فیس ہوتی ہے سود نہیں۔
- جیسے آپ کے کارڈ سے کہیں بھی ہیک کر کے رقم نکلوا لی گئی یا شاپنگ کر لی گئی تو انکوائری سے ثابت ہو گیا کہ یہ کارڈ آپ نے نہیں استعمال کیا تھا تو کارڈ پرووائڈر یہ رقم انشورنس کمپنی سے حاصل کرتا ہے۔
- اگر کسی نے کارڈ استعمال کیا اور دبئی یا سعودی عرب چھوڑ کے اپنے ملک چلا گیا، تو کارڈ پروائیڈر وہ رقم انشورنس کمپنی سے حاصل کر لیتا ہے۔
کریڈٹ کارڈ استعمال پر 60 دن میں رقم واپسی کی مہلت دیتا ہے۔ اس مدت تک رقم واپس کر دیں تو بہتر اس کے بعد کی مدت میں لیٹ فیس چارج لئے جاتے ہیں سود نہیں، اس لئے کہ بینک سے کسی بھی رقم پر سود کی شروع پوچھ لیں کتنی ہے اور اتنی ہی رقم آپ کریڈٹ کارڈ سے استعمال کر لیں اس پر چارج چیک کر لیں فرق خود ہی جان جائیں گے۔
کارڈ پرووائڈر نے پیمنٹس لیٹ ہونے پر جو لیٹ فیس چارجز لینے ہیں، اس پر ایک عملہ کام کر رہا ہوتا ہے ان کی تنخواہیں، اس پر سٹیشنری خرچ ہوتی ہے، سیاہی خرچ ہوتی ہے، کارسپنڈنس ہوتی ہے، پوسٹ کا خرچہ وغیرہ! یہاں کوئی عزیز بوقت ضرورت ادھا نہیں دیتا کسی کو اور کریڈٹ کارڈ جو ضرورت پوری کرتا ہے لیٹ فیس پر چارجز سود نہیں۔ باقی جسے سود لگتا ہے وہ اسے نہ حاصل کریں۔
والسلام
اشتیاق احمدیوں ہی آمد جاری رہی تو لڑیوں کی لڑی بھی تعمیر ہو سکتی ہے۔
ویسے "لڑیوں کی لڑی" تو کسی ناول کا نام بھی ہو سکتا ہے۔ یا "لڑی کا سمندر" بھی اچھا نام رہے گا۔
مجبوری کی بات اور ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کریڈٹ کارڈ بنوانا سودی معیشت کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے، چاہے آپ سود لگنے سے پہلے ہی ادائیگی کرتے رہیں۔
پھر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کسی کو کیا پڑی کہ پکڑ پکڑ کر لوگوں کو اُدھار لینے پر آمادہ کرتا پھرے۔ کچھ تو پھیر ہے نا اس سب کھیل میں۔
میرے پاس ایک کوآپ آؤٹ ڈور سٹور کا کریڈٹ کارڈ ہے۔ اس پر جو خریداری ہوتی ہے اس پر سالانہ ڈیویڈنڈ ملتا ہے جس سے پھر میں ٹینٹ، سلیپنگ بیگ، ہائیکنگ پینٹ اور دیگر اشیا خریدتا رہتا ہوں
اسی طرح کریڈٹ کارڈ بھی ضرورتمند خود ہی حاصل کرتے ہیں اور یہ کر کسی کو نہیں ملتا بلکہ اس میں تنخواہ کی سکیل اور کریڈٹ ریٹنگ چیک کی جاتی ہے، جو ریجیکٹ بھی ہو سکتا ہے اور سلیکٹ بھی، انٹرنیشل ٹریڈ میں اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسے سمجھنے میں آپکو وقت لگے گا۔
اس کا اثر مکان کی مارٹگیج کے حوالے سے سوچیں۔ اکثر گھروں کی قیمتیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ خود خریدنے کے لئے سالہا سال پیسے بچانے پڑتے ہیں۔ اس دوران آپ والدین کے گھر میں رہیں گے یا کرائے کے۔ مارٹگیج کے ذریعہ آپ انہی کرائے کے پیسوں سے گھر میں equity بڑھا رہے ہیں۔کریڈٹ ریٹنگ کی ضرورت کاروبار کی حد تک تو سمجھ آتی ہے لیکن انفرادی حیثیت میں انسان اگر خود کفیل ہوتو زیادہ اچھی بات ہے۔
وقت تو خیر ہر چیز میں لگتا ہے۔
ویسے ہمیں جو بینک ملازمین فون کرکے کریڈٹ کارڈ بنانے کی آفرز کیا کرتے ہیں اُن کو سمجھانے میں بھی وقت لگتا ہے کہ ہم کیوں اُدھار نہیں لینا چاہتے۔
کریڈٹ ریٹنگ کی ضرورت کاروبار کی حد تک تو سمجھ آتی ہے لیکن انفرادی حیثیت میں انسان اگر خود کفیل ہوتو زیادہ اچھی بات ہے۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ قرض دے کے بس بھول جاؤ کہ کوئی واپس بھی کرے گا۔ نہ صرف یہ کہ واپس نہیں کرتے۔۔۔بلکہ تقاضا کرنے پہ خود شرمندگی اپنی پڑتی ہے۔ اکادکا کوئی واپس کر بھی دے تو توڑ توڑ کے دیتا ہے کہ رقم "کھلو بلو" ہو جاتی ہے۔بات یہ ہے کہ اچھے خاصے کھاتے کماتے لوگ قرض لے کر بھول جاتے ہیں اور برسوں مسکرا مسکرا کر ملتے رہتے ہیں۔ شاید جو لوگ تقاضے کرتے ہوں گے اُن کے پیسے واپس کر دیتے ہوں گے اور تقاضے نہ کرنے والوں کے پیسے کھا جاتے ہوں گے۔
مجھے بھی ایک بیرون ملک ادارے کی فیس ادا کرنا تھی۔ بہت طریقے ڈھونڈے، بہت پھرے لیکن سوائے کریڈٹ کارڈ کے کوئی طریقہ نہیں ملا۔ آخر بنوایا۔وہ فیس کیش میں نہیں لیتے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے فیس لیتے ہیں اور