یوں تو کریڈٹ کارڈ کی لیٹ پیمنٹ بھی جرمانہ کہلا سکتی ہے۔لیٹ فیس ایک جرمانہ ہوتا ہے۔
جب کہ سود نقد رقم کا کرایہ لینے کے مترادف ہے۔
یہاں سعودیہ میں حال ہی میں ٹریفک قوانین پر کافی بھاری جرمانے لاگو ہوئے جن کو بر وقت ادا نہ کرنے پر وہ بڑھ جاتے ہیں اس کو کیا کہیں گے ؟یوں تو کریڈٹ کارڈ کی لیٹ پیمنٹ بھی جرمانہ کہلا سکتی ہے۔
ایک دفعہ بڑھتے ہیں یا بار بار؟یہاں سعودیہ میں حال ہی میں ٹریفک قوانین پر کافی بھاری جرمانے لاگو ہوئے جن کو بر وقت ادا نہ کرنے پر وہ بڑھ جاتے ہیں اس کو کیا کہیں گے ؟
غیر سودی بینکاری اور اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں سے متعلق آپ کتنا جانتے ہیں؟ہمیں یہ تسلیم کر کے آگے بڑھنا ہو گا کہ دورِ حاضر میں دیگر بہت سے شعبوں کی طرح اب تک مسلم دنیا کی طرف سے اطمینان بخش متبادل بنکاری نظام وضع نہیں کیا جا سکا ہے۔یہ ایک بہت بڑی کوتاہی ہے جس کے باعث ایسے افراد معلق ہو کر رہ گئے ہیں جو بہرصورت بنکوں کے مروجہ سودی نظام سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
ایک ماہ میں دگنا ہونے کی تو ایک صاحب نے تصدیق کی ۔ جبکہ سنا یہی ہے کہ بار بار بڑھتے ہیں۔ میں تو فورا ہی کردیتا ہوں۔ واللہ اعلم۔ایک دفعہ بڑھتے ہیں یا بار بار؟
عبید بھائی! انفرادی سطح پر بہت کوششیں کی گئی ہیں تاہم ہمارے مراسلے میں 'اطمینان بخش' سے مراد یہی ہے کہ اس حوالے سے جمہور علمائے کرام باہم متفق نہ ہیں جو کہ تشویش ناک امر ہے۔ کیا آپ مختلف مسالک کے معروف علمائے کرام کا نام لے کر بتا سکتے ہیں کہ ان کی اسلامی بنکاری نظام کے بارے میں کیا رائے ہے؟غیر سودی بینکاری اور اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں سے متعلق آپ کتنا جانتے ہیں؟
جمہور علماء کا اتفاق۔عبید بھائی! انفرادی سطح پر بہت کوششیں کی گئی ہیں تاہم ہمارے مراسلے میں 'اطمینان بخش' سے مراد یہی ہے کہ اس حوالے سے جمہور علمائے کرام باہم متفق نہ ہیں جو کہ تشویش ناک امر ہے۔ کیا آپ مختلف مسالک کے معروف علمائے کرام کا نام لے کر بتا سکتے ہیں کہ ان کی اسلامی بنکاری نظام کے بارے میں کیا رائے ہے؟
آپ نے اس حوالے سے اہم معلومات بہم پہنچائیں، شکریہ!جمہور علماء کا اتفاق۔
آہ۔۔۔ ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا۔
یہ کوششیں قیام پاکستان کے آغاز سے ہی جاری ہیں۔ یہ آج سے 25 سال پہلے کی روداد دیکھیے۔
یہ روداد "انفرادی" کوشش کی نہیں بلکہ کسی حد تک اجتماعی کوششوں کی ہے۔ اور ان کوششوں کا ایک طویل سلسلہ اب تک جاری ہے جسے بہت سے لوگ نہیں جانتے۔
اصل الجھن کچھ اور ہے۔
موجودہ معاشی نظام کا اگر آپ مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ موجودہ معاشی (خصوصاً بینکاری) نظام پیچ در پیچ الجھاؤ رکھتا ہے، اس کو سلجھانے، اس کے مقابلے میں اسلامی بینکاری کو کامیاب کرانے اور موجودہ سرمایہ دارانہ نظام پر حاوی یا کم از کم مساوی درجہ دینے میں صرف علماء کرام کا اتفاق بالکل کافی نہیں، بلکہ علماء اور ارباب اقتدار دونوں کا شدید تعاون ضروری ہے۔ اس کے بغیر انتھک سے انتھک کوشش بھی "انفرادی" ہوکر رہ جائے گی۔
خیر لمبی بات نہیں کرتا۔ آپ صرف ان کوششوں کو دیکھ لیں۔
اکنامکس، فنانس اور بیکنگ کے سکالرز اور ایکسپرٹس کی مدد بھی لازم ہے۔اس کو سلجھانے، اس کے مقابلے میں اسلامی بینکاری کو کامیاب کرانے اور موجودہ سرمایہ دارانہ نظام پر حاوی یا کم از کم مساوی درجہ دینے میں صرف علماء کرام کا اتفاق بالکل کافی نہیں، بلکہ علماء اور ارباب اقتدار دونوں کا شدید تعاون ضروری ہے۔
پرمزاح ریٹنگ دینے والوں سے درخواست ہے کہ معاشیات کا کورس کریںPrice discrimination
ظاہر ہے کہ منحصر ہے اس پر کہ بینک اس سے کیا کرتا ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہی ہے کہ ایک بینک پیسے کا کر بھی کیا سکتا ہے ۔ گمان و امید ہے تھوڑا کہے گئے بہت جا نا جائے گا۔جو رقم ہم بچوں کے نام پر بینکوں میں فکس کروا دیتے ہیں اسے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
معاملہ اتنا آسان نہیں۔ مثال کے طور پر آپنے کاروبار کیلئے قرض لیا۔ اس میں منافع ہوا۔ کیا قرض دینا والا اس منافع میں حصہ دار نہیں؟ اگر ہے تو وہ سود تصور ہوگا؟قرض لینا ممنو ع نہیں ،لیکن قرض کا نفع لینا اور دینا ممنوع ہے
حدیث شریف میں ہے
ہر وہ قرض کو نفع جاری کرے وہ سود ہے
ایک اور مسئلہ بھی ہے۔معاملہ اتنا آسان نہیں۔ مثال کے طور پر آپنے کاروبار کیلئے قرض لیا۔ اس میں منافع ہوا۔ کیا قرض دینا والا اس منافع میں حصہ دار نہیں؟ اگر ہے تو وہ سود تصور ہوگا؟
متفق۔ اسی لئے میں مسیحی پروٹیسٹنٹ ریفارم کا حامی ہوں کیونکہ انہوں نے صرف ناجائز سود پر پابندی لگائی تاکہ مالی معاملات کو جدید دور کے مطابق ہم آہنگ کیا جا سکے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج اسلامی سود والا درد سر لئے بیٹھے ہوتےایک اور مسئلہ بھی ہے۔
ایک شخص نے دوسرے کو دس ہزار روپیہ قرض دیا، جس سے اس وقت ایک تولہ سونا خریدا جا سکتا تھا۔ دوسرے شخص نے بیس سال بعد پیسہ واپس کرنا چاہا۔ اس وقت سونا چالیس ہزار روپے کا تولہ ہے۔
اب چالیس ہزار روپیہ واپس لیتا ہے تو اس میں تیس ہزار سود ہو گا یا نہیں۔ اور اگر فقط دس ہزار واپس کیا جائے تو پہلے شخص کا کیا قصور؟
یہ تو میرے خیال میں سکہ رائج الوقت کی قیمت ہوئی۔ایک اور مسئلہ بھی ہے۔
ایک شخص نے دوسرے کو دس ہزار روپیہ قرض دیا، جس سے اس وقت ایک تولہ سونا خریدا جا سکتا تھا۔ دوسرے شخص نے بیس سال بعد پیسہ واپس کرنا چاہا۔ اس وقت سونا چالیس ہزار روپے کا تولہ ہے۔
اب چالیس ہزار روپیہ واپس لیتا ہے تو اس میں تیس ہزار سود ہو گا یا نہیں۔ اور اگر فقط دس ہزار واپس کیا جائے تو پہلے شخص کا کیا قصور؟
اسی سوال کو سونے کی بجائے چاندی، گندم، گائے یا سی شیل کی قیمت کے حساب سے بھی سوچیںایک اور مسئلہ بھی ہے۔
ایک شخص نے دوسرے کو دس ہزار روپیہ قرض دیا، جس سے اس وقت ایک تولہ سونا خریدا جا سکتا تھا۔ دوسرے شخص نے بیس سال بعد پیسہ واپس کرنا چاہا۔ اس وقت سونا چالیس ہزار روپے کا تولہ ہے۔
اب چالیس ہزار روپیہ واپس لیتا ہے تو اس میں تیس ہزار سود ہو گا یا نہیں۔ اور اگر فقط دس ہزار واپس کیا جائے تو پہلے شخص کا کیا قصور؟