مکتوب کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں
ان کے خط میں مجھے غیروں کے"کلام" آتے ہیں​

پاکستان سے ہائی اسکول کے ایک دوست نے کہ جن سے مدتوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا ، کئی ماہ پہلے ایک غزل مجھے بھیجی ۔ معلوم یہ ہوا کہ اُن کی سالی کے ماموں کی خالہ کے ایک بھتیجے وغیرہ کو شاعری کا شوق ہے اور اصلاح کے لئے کسی شاعر کی تلاش میں ہے۔ میرے ان دوست کو تو شاعری سے ذرا علاقہ نہیں ، نرے کاروباری آدمی ہیں ، لیکن اتفاق سے کسی خاندانی تقریب میں شاعر سے ان کی بات ہوئی تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کوئی مسئلہ نہیں ، میرا دوست ہے امریکا میں اور بچپن سے شاعری کرتا ہے ، میں اسے بھجوادیتا ہوں ، وہ بتادے گا۔ بعد ازاں انہوں نے کسی سے میرا ایمیل کا پتا لے کر مجھے غزل بھیجی اور رومن اردو میں لکھا کہ یار اس بچے کو شاعری کا شوق ہے ، تم بھی شاعری کرتے ہو تو ذرا " ٹیک کیئر" کرلینا ۔
انہوں نے تو سسرال میں رعب ماردیا لیکن مجھے ایک عجیب مصیبت میں ڈال دیا۔ خیر ، غزل دیکھی اور دیکھتا ہی رہ گیا ۔ دیکھنے کے بعد خاصا غور و خوض کیا ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کیا جائے ۔ پھر استخارہ کیا ۔ پھر ایک مشترکہ دوست کو پاکستان فون کیا اور ساری صورتحال بتائی اور کہا کہ ۔۔۔۔۔ نے مصیبت میں ڈال دیا ہے ، کیا کروں۔ غزل سننے کے بعد اس نے مشورہ دیا کہ ۔۔۔۔ سے کہو لڑکے کی جاسوسی کرے اور پہلی فرصت میں بلبل کے ہاں رشتہ بھجوائے ۔ اسے ڈانٹا کہ تجھے مذاق سوجھ رہا ہے اور یہاں جان پر بنی ہے ۔ اگر غزلیں آنے کا یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو میں بے موت مارا جاؤں گا۔ تِس پر اُس مردِ معقول نے یہ زریں مشورہ دیا کہ ۔۔۔۔ سےکہہ دیا جائے کہ لڑکے کی شاعری فنی لحاظ سے بہت پیچیدہ ہے جسے کوئی ماہرِ فن ہی سلجھا سکتا ہے۔ چنانچہ غزل کو اصلاح کے لئے بڑے استادوں کے پاس بھیج دیا ہے۔ جیسے ہی کسی کی سمجھ میں کچھ آیا اور جواب موصول ہوا فوراً مطلع کردیا جائے گا۔ سو میں نے ان دوست کو یہی لکھا اور اپنی کم مائیگی کا عذر پیش کیا ۔ اور کہہ دیا کہ لڑکے کو سمجھادیں کہ اسے کسی بزرگ استاد کی ضرورت ہے جو پاس بٹھا کر پیچیدہ فنی مسائل کو حل کرسکے ۔
سو اب میں ڈرتے ڈرتے یہ غزل آپ بڑے استادوں کی خدمت میں رکھ رہا ہوں ۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں!

غزل


مجھے تیری قسم بلبل میں گلشن چھوڑ دوں گا
کسی دن تنگ آکر باغباں کو پھوڑ دوں گا

زمانے نے میری بلبل پر بٹھا رکھے ہیں پہرے
کسی دن پہریداروں پر میں کتے چھوڑ دوں گا

میں گلشن کے برابر میں کھڑا ہوں سینہ تانے
اگر آیا کوئی طوفاں تو میں رخ موڑ دوں گا

مری بلبل بہت معصوم ہےمیں کیا بتاؤں
نہ گھبرا میری بلبل تیرا پنجرا توڑ دوں گا

کسی دن لائے گا ناصر بہار اس آشیاں میں
مری بلبل میں تجھ سے اپنا رشتہ جوڑ دوں گا


(نوٹ: رازداری کی خاطر شاعر کا تخلص تبدیل کردیا گیا ہے)​
 
آخری تدوین:

بابا-جی

محفلین
کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں
ان کے خط میں مجھے غیروں کے"کلام" آتے ہیں​

پاکستان سے ہائی اسکول کے ایک دوست نے کہ جن سے مدتوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا ، کئی ماہ پہلے ایک غزل مجھے بھیجی ۔ معلوم یہ ہوا کہ اُن کی سالی کے ماموں کی خالہ کے ایک بھتیجے وغیرہ کو شاعری کا شوق ہے اور اصلاح کے لئے کسی شاعر کی تلاش میں ہے۔ میرے ان دوست کو تو شاعری سے ذرا علاقہ نہیں ، نرے کاروباری آدمی ہیں ، لیکن اتفاق سے کسی خاندانی تقریب میں شاعر سے ان کی بات ہوئی تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کوئی مسئلہ نہیں ، میرا دوست ہے امریکا میں اور بچپن سے شاعری کرتا ہے ، میں اسے بھجوادیتا ہوں ، وہ بتادے گا۔ بعد ازاں انہوں نے کسی سے میرا ایمیل کا پتا لے کر مجھے غزل بھیجی اور رومن اردو میں لکھا کہ یار اس بچے کو شاعری کا شوق ہے ، تم بھی شاعری کرتے ہو تو ذرا " ٹیک کیئر" کرلینا ۔
انہوں نے تو سسرال میں رعب ماردیا لیکن مجھے ایک عجیب مصیبت میں ڈال دیا۔ خیر ، غزل دیکھی اور دیکھتا ہی رہ گیا ۔ دیکھنے کے بعد خاصا غور و خوض کیا ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کیا جائے ۔ پھر استخارہ کیا ۔ پھر ایک مشترکہ دوست کو پاکستان فون کیا اور ساری صورتحال بتائی اور کہا کہ ۔۔۔۔۔ نے مصیبت میں ڈال دیا ہے ، کیا کروں۔ غزل سننے کے بعد اس نے مشورہ دیا کہ ۔۔۔۔ سے کہو لڑکے کی جاسوسی کرے اور پہلی فرصت میں بلبل کے ہاں رشتہ بھجوائے ۔ اسے ڈانٹا کہ تجھے مذاق سوجھ رہا ہے اور یہاں جان پر بنی ہے ۔ اگر غزلیں آنے کا یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو میں بے موت مارا جاؤں گا۔ تِس پر اُس مردِ معقول نے یہ زریں مشورہ دیا کہ ۔۔۔۔ سےکہہ دیا جائے کہ لڑکے کی شاعری فنی لحاظ سے بہت پیچیدہ ہے جسے کوئی ماہرِ فن ہی سلجھا سکتا ہے۔ چنانچہ غزل کو اصلاح کے لئے بڑے استادوں کے پاس بھیج دیا ہے۔ جیسے ہی کسی کی سمجھ میں کچھ آیا اور جواب موصول ہوا فوراً مطلع کردیا جائے گا۔ سو میں نے ان دوست کو یہی لکھا اور اپنی کم مائیگی کا عذر پیش کیا ۔ اور کہہ دیا کہ لڑکے کو سمجھادیں کہ اسے کسی بزرگ استاد کی ضرورت ہے جو پاس بٹھا کر پیچیدہ فنی مسائل کو حل کرسکے ۔
سو اب میں ڈرتے ڈرتے یہ غزل آپ بڑے استادوں کی خدمت میں رکھ رہا ہوں ۔ کچھ علاج اس کا بھی چارہ گراں ہے کہ نہیں!

غزل


مجھے تیری قسم بلبل میں گلشن چھوڑ دوں گا
کسی دن تنگ آکر باغباں کو پھوڑ دوں گا

زمانے نے میری بلبل پر بٹھا رکھے ہیں پہرے
کسی دن پہریداروں پر میں کتے چھوڑ دوں گا

میں گلشن کے برابر میں کھڑا ہوں سینہ تانے
اگر آیا کوئی طوفاں تو میں رخ موڑ دوں گا

مری بلبل بہت معصوم ہےمیں کیا بتاؤں
نہ گھبرا میری بلبل تیرا پنجرا توڑ دوں گا

کسی دن لائے گا ناصر بہار اس آشیاں میں
مری بلبل میں تجھ سے اپنا رشتہ جوڑ دوں گا


(نوٹ: رازداری کی خاطر شاعر کا تخلص تبدیل کردیا گیا ہے)​
یہ بُلبُلاتی چُلبُلاتی غزل بِگڑے ہوئے رئیس زادے کے شِدت پسندانہ مزاج کا پتہ دیتی ہے۔
 
کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں
ان کے خط میں مجھے غیروں کے"کلام" آتے ہیں​

پاکستان سے ہائی اسکول کے ایک دوست نے کہ جن سے مدتوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا ، کئی ماہ پہلے ایک غزل مجھے بھیجی ۔ معلوم یہ ہوا کہ اُن کی سالی کے ماموں کی خالہ کے ایک بھتیجے وغیرہ کو شاعری کا شوق ہے اور اصلاح کے لئے کسی شاعر کی تلاش میں ہے۔ میرے ان دوست کو تو شاعری سے ذرا علاقہ نہیں ، نرے کاروباری آدمی ہیں ، لیکن اتفاق سے کسی خاندانی تقریب میں شاعر سے ان کی بات ہوئی تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کوئی مسئلہ نہیں ، میرا دوست ہے امریکا میں اور بچپن سے شاعری کرتا ہے ، میں اسے بھجوادیتا ہوں ، وہ بتادے گا۔ بعد ازاں انہوں نے کسی سے میرا ایمیل کا پتا لے کر مجھے غزل بھیجی اور رومن اردو میں لکھا کہ یار اس بچے کو شاعری کا شوق ہے ، تم بھی شاعری کرتے ہو تو ذرا " ٹیک کیئر" کرلینا ۔
انہوں نے تو سسرال میں رعب ماردیا لیکن مجھے ایک عجیب مصیبت میں ڈال دیا۔ خیر ، غزل دیکھی اور دیکھتا ہی رہ گیا ۔ دیکھنے کے بعد خاصا غور و خوض کیا ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کیا جائے ۔ پھر استخارہ کیا ۔ پھر ایک مشترکہ دوست کو پاکستان فون کیا اور ساری صورتحال بتائی اور کہا کہ ۔۔۔۔۔ نے مصیبت میں ڈال دیا ہے ، کیا کروں۔ غزل سننے کے بعد اس نے مشورہ دیا کہ ۔۔۔۔ سے کہو لڑکے کی جاسوسی کرے اور پہلی فرصت میں بلبل کے ہاں رشتہ بھجوائے ۔ اسے ڈانٹا کہ تجھے مذاق سوجھ رہا ہے اور یہاں جان پر بنی ہے ۔ اگر غزلیں آنے کا یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو میں بے موت مارا جاؤں گا۔ تِس پر اُس مردِ معقول نے یہ زریں مشورہ دیا کہ ۔۔۔۔ سےکہہ دیا جائے کہ لڑکے کی شاعری فنی لحاظ سے بہت پیچیدہ ہے جسے کوئی ماہرِ فن ہی سلجھا سکتا ہے۔ چنانچہ غزل کو اصلاح کے لئے بڑے استادوں کے پاس بھیج دیا ہے۔ جیسے ہی کسی کی سمجھ میں کچھ آیا اور جواب موصول ہوا فوراً مطلع کردیا جائے گا۔ سو میں نے ان دوست کو یہی لکھا اور اپنی کم مائیگی کا عذر پیش کیا ۔ اور کہہ دیا کہ لڑکے کو سمجھادیں کہ اسے کسی بزرگ استاد کی ضرورت ہے جو پاس بٹھا کر پیچیدہ فنی مسائل کو حل کرسکے ۔
سو اب میں ڈرتے ڈرتے یہ غزل آپ بڑے استادوں کی خدمت میں رکھ رہا ہوں ۔ کچھ علاج اس کا بھی چارہ گراں ہے کہ نہیں!

غزل


مجھے تیری قسم بلبل میں گلشن چھوڑ دوں گا
کسی دن تنگ آکر باغباں کو پھوڑ دوں گا

زمانے نے میری بلبل پر بٹھا رکھے ہیں پہرے
کسی دن پہریداروں پر میں کتے چھوڑ دوں گا

میں گلشن کے برابر میں کھڑا ہوں سینہ تانے
اگر آیا کوئی طوفاں تو میں رخ موڑ دوں گا

مری بلبل بہت معصوم ہےمیں کیا بتاؤں
نہ گھبرا میری بلبل تیرا پنجرا توڑ دوں گا

کسی دن لائے گا ناصر بہار اس آشیاں میں
مری بلبل میں تجھ سے اپنا رشتہ جوڑ دوں گا


(نوٹ: رازداری کی خاطر شاعر کا تخلص تبدیل کردیا گیا ہے)​
ظہیر بھائی آپ کا موبائل سسٹم سے ڈی سنک ہوکر چھ ماہ دو دن آگے کی تاریخ دکھا رہا ہے!!!
 

صابرہ امین

لائبریرین
کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں
ان کے خط میں مجھے غیروں کے"کلام" آتے ہیں​

پاکستان سے ہائی اسکول کے ایک دوست نے کہ جن سے مدتوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا ، کئی ماہ پہلے ایک غزل مجھے بھیجی ۔ معلوم یہ ہوا کہ اُن کی سالی کے ماموں کی خالہ کے ایک بھتیجے وغیرہ کو شاعری کا شوق ہے اور اصلاح کے لئے کسی شاعر کی تلاش میں ہے۔ میرے ان دوست کو تو شاعری سے ذرا علاقہ نہیں ، نرے کاروباری آدمی ہیں ، لیکن اتفاق سے کسی خاندانی تقریب میں شاعر سے ان کی بات ہوئی تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کوئی مسئلہ نہیں ، میرا دوست ہے امریکا میں اور بچپن سے شاعری کرتا ہے ، میں اسے بھجوادیتا ہوں ، وہ بتادے گا۔ بعد ازاں انہوں نے کسی سے میرا ایمیل کا پتا لے کر مجھے غزل بھیجی اور رومن اردو میں لکھا کہ یار اس بچے کو شاعری کا شوق ہے ، تم بھی شاعری کرتے ہو تو ذرا " ٹیک کیئر" کرلینا ۔
انہوں نے تو سسرال میں رعب ماردیا لیکن مجھے ایک عجیب مصیبت میں ڈال دیا۔ خیر ، غزل دیکھی اور دیکھتا ہی رہ گیا ۔ دیکھنے کے بعد خاصا غور و خوض کیا ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کیا جائے ۔ پھر استخارہ کیا ۔ پھر ایک مشترکہ دوست کو پاکستان فون کیا اور ساری صورتحال بتائی اور کہا کہ ۔۔۔۔۔ نے مصیبت میں ڈال دیا ہے ، کیا کروں۔ غزل سننے کے بعد اس نے مشورہ دیا کہ ۔۔۔۔ سے کہو لڑکے کی جاسوسی کرے اور پہلی فرصت میں بلبل کے ہاں رشتہ بھجوائے ۔ اسے ڈانٹا کہ تجھے مذاق سوجھ رہا ہے اور یہاں جان پر بنی ہے ۔ اگر غزلیں آنے کا یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو میں بے موت مارا جاؤں گا۔ تِس پر اُس مردِ معقول نے یہ زریں مشورہ دیا کہ ۔۔۔۔ سےکہہ دیا جائے کہ لڑکے کی شاعری فنی لحاظ سے بہت پیچیدہ ہے جسے کوئی ماہرِ فن ہی سلجھا سکتا ہے۔ چنانچہ غزل کو اصلاح کے لئے بڑے استادوں کے پاس بھیج دیا ہے۔ جیسے ہی کسی کی سمجھ میں کچھ آیا اور جواب موصول ہوا فوراً مطلع کردیا جائے گا۔ سو میں نے ان دوست کو یہی لکھا اور اپنی کم مائیگی کا عذر پیش کیا ۔ اور کہہ دیا کہ لڑکے کو سمجھادیں کہ اسے کسی بزرگ استاد کی ضرورت ہے جو پاس بٹھا کر پیچیدہ فنی مسائل کو حل کرسکے ۔
سو اب میں ڈرتے ڈرتے یہ غزل آپ بڑے استادوں کی خدمت میں رکھ رہا ہوں ۔ کچھ علاج اس کا بھی چارہ گراں ہے کہ نہیں!

غزل


مجھے تیری قسم بلبل میں گلشن چھوڑ دوں گا
کسی دن تنگ آکر باغباں کو پھوڑ دوں گا

زمانے نے میری بلبل پر بٹھا رکھے ہیں پہرے
کسی دن پہریداروں پر میں کتے چھوڑ دوں گا

میں گلشن کے برابر میں کھڑا ہوں سینہ تانے
اگر آیا کوئی طوفاں تو میں رخ موڑ دوں گا

مری بلبل بہت معصوم ہےمیں کیا بتاؤں
نہ گھبرا میری بلبل تیرا پنجرا توڑ دوں گا

کسی دن لائے گا ناصر بہار اس آشیاں میں
مری بلبل میں تجھ سے اپنا رشتہ جوڑ دوں گا


(نوٹ: رازداری کی خاطر شاعر کا تخلص تبدیل کردیا گیا ہے)​
یقین کیجیے ایسی "جٹ دا کھڑاک" ٹائپ شاعری کی فیس بک پر بہت مانگ ہے ۔ ۔ لوگ جھوم جھوم جاتے ہیں ۔ ۔ :D
فیس بک پر ہم ایک فورم پر ہیں ۔ ۔ وہاں پر ایسے دل دہلانے والے اشعار ہوتے ہیں کہ بس ۔ ۔ نسبتاً معصوم اشعار ملاحظہ کیجیئے ۔ ۔ ؂

آج موسم کی پہلی بارش ہے
آج پھر اس کا فون آئے گا
اتنی حدت ہے اس کے لہجے میں
سن کے کانوں سے خون آئے گا
--------------------------------------------
وہ پھر سے لے کے آگیا انگلش کی ڈکشنری
شائد کے پھر رومینٹک میسج کرے گا وہ

۔----------------------------------------

اسے بلاک تو کر دوں مگر مصیبت ہے
وہ یاد بھی کبھی آئے نا بات تو تب ہے

---------------------------
کتابوں کے وسیلے سے ہے خط کا سلسلہ قائم
انہی حیلے بہانوں میں پڑھائی ہو ہی جانی ہے
تمہارے ان ڈراموں سے کسی کا کچھ نہیں جانا
کہیں میری کہیں تیری سگائی ہو ہی جانی ہے
--------------------------------------
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
زمانے نے میری بلبل پر بٹھا رکھے ہیں پہرے
کسی دن پہریداروں پر میں کتے چھوڑ دوں گ
ظہیر بھائی!!!!!
السلام علیکم
کیسے مزاج ہیں؟؟؟؟
اِن نام نہاد شاعروں نے ہر جگہ تہلکہ مچایا ہے ۔ اب بتایئے بلبلُ کے پہرے دار بیچاروں پر کتُے چھوڑے جارہے ہیں ۔
یہ تو وہی حا ل ہے
رقیبِ روسیاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔کا بچہ
ابروُِ یار کو کہتا ہے۔ ۔۔ بھو ں
مری بلبل بہت معصوم ہےمیں کیا بتاؤں
نہ گھبرا میری بلبل تیرا پنجرا توڑ دوں گا
جدت پسندی و جواں مردی کیا کہنے ۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ارے صاحب سب سے بہتر مشورہ تو وہی تھا، بلبل کے ہاں رشتہ بھجوانے والا، پھر نہ کوئی بلبل رہے گا اور نہ کوئی بلبل نواز۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے بھی وارث بھائی کی بات سے کُلی اتفاق ہے کہ پہلی فرصت میں اس بلبل کا اتہ پتہ معلوم کر کے اس کے ہاں رشتہ کی بات چلائی جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے تیری قسم بلبل میں گلشن چھوڑ دوں گا
کسی دن تنگ آکر باغباں کو پھوڑ دوں گا​
شاعر اپنی بلبل کو یقین دلا رہا ہے کہ اگر تم مل گئیں تو میں گلشن کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں گا۔ (حالانکہ گلشن بھی تم سے کچھ کم نہیں ہے۔)
اگر تم بھی نہ ملیں اور گلشن بھی ہاتھ سے جاتی رہی تو میں تنگ آ کر باغبان (غالباً کسی غبارے یا کسی گھڑے یا صراحی کا نام ہے) کو پھوڑ ڈالوں گا۔


زمانے نے میری بلبل پر بٹھا رکھے ہیں پہرے
کسی دن پہریداروں پر میں کتے چھوڑ دوں گا
شاعر کہتا ہے کہ ظالم زمانے نے میری بلبل پر پہرے دار بٹھا رکھے ہیں۔ بندہ پوچھے اس مہنگائی کے زمانے میں اپنا خرچہ پورا نہیں ہوتا، پہرے داروں کی تنخواہ کون دیتا ہو گا۔ نیز یہ کہ شاعر نے یہ واضح نہیں کیا کہ پہرے دار کتنے ہیں اور ان پر کتنے کُتے چھوڑے جائیں گے۔ آجکل ایسے کُتوں کا خرچہ عام آدمی کے خرچے سے خاصا زیادہ ہے۔

میں گلشن کے برابر میں کھڑا ہوں سینہ تانے
اگر آیا کوئی طوفاں تو میں رخ موڑ دوں گا
شاعر یہاں پھر گلشن کا طرف دار ہو گیا ہے۔ غالباً اسے خطرہ محسوس ہو گیا ہے کہ بلبل تو ملے گی نہیں، تو گلشن کو ہاتھ سے کیوں جانے دوں۔ شاعر یہ بھی کہہ رہا ہے کہ میں گلشن کے برابر میں سینہ تانے کھڑا ہوں، بندہ پوچھے کہ 20 یا 22 انچ کے سینے کی آجکل وقعت ہی کیا ہے۔ جبکہ گلشن کا اپنا سینہ اس سے دوگنا ہے۔

مری بلبل بہت معصوم ہےمیں کیا بتاؤں
نہ گھبرا میری بلبل تیرا پنجرا توڑ دوں گا
یہ شاعر ہے یا تھالی کا بینگن، پل میں بلبل کی طرف ہوتا ہے اور پل میں گلشن کی طرف لُڑھک جاتا ہے۔ اس شعر میں پھر بلبل کو مسکہ لگا رہا ہے۔ اور اس کا پنجرہ توڑنے کی بات کر رہا ہے۔ جبکہ بلبل خود ہڈیوں کا ایک پنجرہ لگ رہی ہے۔ کہیں وہ اسی پنجرے کی بات تو نہیں کر رہا، یہ اس نے واضح نہیں کیا۔

کسی دن لائے گا ناصر بہار اس آشیاں میں
مری بلبل میں تجھ سے اپنا رشتہ جوڑ دوں گا

کسی دن، اب یہ کسی دن کون سا دن ہو گا، یہ شاعر کو بھی نہیں معلوم اور ہو سکتا ہے کہ یہ "کسی دن" کبھی آئے ہی ناں۔ لیکن بلبل کو پھر امید دلائے جا رہا ہے اور دلاسہ دیئے جا رہا ہے کہ تجھ سے رشتہ جوڑ ہی لوں گا۔
بلبل کو میرا مشورہ ہے کہ اس جھوٹے عاشق پر بالکل بھی اعتبار نہ کرئے اور جو رشتہ اس کے ماں باپ نے طے کیا ہے، اس کو قبول کر لے۔ اور اس جھوٹے شاعر میرا مطلب ہے عاشق کو ہمیشہ کے لیے بھول جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ظہیر بھائی میں نے غزل کی اصلاح تو نہیں کی البتہ اس کی تشریح کر دی ہے اور اصلاح کی اپنی صلاح بھی دی ہے۔ امید ہے "بلبل" کو پسند آئے گی۔
 

احمد محمد

محفلین
بہت خوب ظہیر بھائی۔۔ اس مزیدار شاعری کے ساتھ ساتھ جو آپ روداد قلمبند کی، پڑھ کر مزا آگیا۔ :)

زیادہ لطف اس لیے بھی آیا کہ ایسی ہی ایک پریشانی (جیسے یہ ظہیر بھائی کو درپیش رہی) میں مبتلا ایک دوست اپنی پریشانی سے چھٹکارا پانے اور اس کے ممکنہ حل کی تلاش کے لیے مجھ سے بیان کر رہا تھا۔۔۔ تو یقین جانیئے وہ ظرافت بھری پریشانی سن کر اتنی ہنسی آئی مگر اس کے سامنے اظہار بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ کیا کہے گا کہ میں پریشان ہوں اور اسے مزا آ رہا ہے۔ اور وہ واقعی چہرے سے خاصہ پریشان بھی دیکھائی دے رہا تھا۔ آج یہ تحریر پڑھ کر لگا کہ ویسی ہی حالت ظہیر بھائی کی بھی ہوئی ہوگی۔ :LOL: :ROFLMAO:

اور ظہیر بھائی اس ضمن میں دیگر محفلین کے مشوروں کو بالکل خاطر میں نہ لائیں، اس کا بہت آسان سا حل ہے کہ۔۔۔

اس سے پہلے کہ موصوف کوئی چاند چڑھائے، اس کی جس قدر جلد ہوسکے چھترول کی جائے۔ :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
 

سیما علی

لائبریرین
بہت خوب ظہیر بھائی۔۔ اس مزیدار شاعری کے ساتھ ساتھ جو آپ روداد قلمبند کی، پڑھ کر مزا آگیا۔ :)

زیادہ لطف اس لیے بھی آیا کہ ایسی ہی ایک پریشانی (جیسے یہ ظہیر بھائی کو درپیش رہی) میں مبتلا ایک دوست اپنی پریشانی سے چھٹکارا پانے اور اس کے ممکنہ حل کی تلاش کے لیے مجھ سے بیان کر رہا تھا۔۔۔ تو یقین جانیئے وہ ظرافت بھری پریشانی سن کر اتنی ہنسی آئی مگر اس کے سامنے اظہار بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ کیا کہے گا کہ میں پریشان ہوں اور اسے مزا آ رہا ہے۔ اور وہ واقعی چہرے سے خاصہ پریشان بھی دیکھائی دے رہا تھا۔ آج یہ تحریر پڑھ کر لگا کہ ویسی ہی حالت ظہیر بھائی کی بھی ہوئی ہوگی۔ :LOL: :ROFLMAO:

اور ظہیر بھائی اس ضمن میں دیگر محفلین کے مشوروں کو بالکل خاطر میں نہ لائیں، اس کا بہت آسان سا حل ہے کہ۔۔۔

اس سے پہلے کہ موصوف کوئی چاند چڑھائے، اس کی جس قدر جلد ہوسکے چھترول کی جائے۔ :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
بہت خوب جلد از جلد چھترول کی جائے۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
شاعر اپنی بلبل کو یقین دلا رہا ہے کہ اگر تم مل گئیں تو میں گلشن کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں گا۔ (حالانکہ گلشن بھی تم سے کچھ کم نہیں ہے۔)
اگر تم بھی نہ ملیں اور گلشن بھی ہاتھ سے جاتی رہی تو میں تنگ آ کر باغبان (غالباً کسی غبارے یا کسی گھڑے یا صراحی کا نام ہے) کو پھوڑ ڈالوں گا۔



شاعر کہتا ہے کہ ظالم زمانے نے میری بلبل پر پہرے دار بٹھا رکھے ہیں۔ بندہ پوچھے اس مہنگائی کے زمانے میں اپنا خرچہ پورا نہیں ہوتا، پہرے داروں کی تنخواہ کون دیتا ہو گا۔ نیز یہ کہ شاعر نے یہ واضح نہیں کیا کہ پہرے دار کتنے ہیں اور ان پر کتنے کُتے چھوڑے جائیں گے۔ آجکل ایسے کُتوں کا خرچہ عام آدمی کے خرچے سے خاصا زیادہ ہے۔


شاعر یہاں پھر گلشن کا طرف دار ہو گیا ہے۔ غالباً اسے خطرہ محسوس ہو گیا ہے کہ بلبل تو ملے گی نہیں، تو گلشن کو ہاتھ سے کیوں جانے دوں۔ شاعر یہ بھی کہہ رہا ہے کہ میں گلشن کے برابر میں سینہ تانے کھڑا ہوں، بندہ پوچھے کہ 20 یا 22 انچ کے سینے کی آجکل وقعت ہی کیا ہے۔ جبکہ گلشن کا اپنا سینہ اس سے دوگنا ہے۔


یہ شاعر ہے یا تھالی کا بینگن، پل میں بلبل کی طرف ہوتا ہے اور پل میں گلشن کی طرف لُڑھک جاتا ہے۔ اس شعر میں پھر بلبل کو مسکہ لگا رہا ہے۔ اور اس کا پنجرہ توڑنے کی بات کر رہا ہے۔ جبکہ بلبل خود ہڈیوں کا ایک پنجرہ لگ رہی ہے۔ کہیں وہ اسی پنجرے کی بات تو نہیں کر رہا، یہ اس نے واضح نہیں کیا۔


کسی دن، اب یہ کسی دن کون سا دن ہو گا، یہ شاعر کو بھی نہیں معلوم اور ہو سکتا ہے کہ یہ "کسی دن" کبھی آئے ہی ناں۔ لیکن بلبل کو پھر امید دلائے جا رہا ہے اور دلاسہ دیئے جا رہا ہے کہ تجھ سے رشتہ جوڑ ہی لوں گا۔
بلبل کو میرا مشورہ ہے کہ اس جھوٹے عاشق پر بالکل بھی اعتبار نہ کرئے اور جو رشتہ اس کے ماں باپ نے طے کیا ہے، اس کو قبول کر لے۔ اور اس جھوٹے شاعر میرا مطلب ہے عاشق کو ہمیشہ کے لیے بھول جائے۔
شمشاد بھیا بہتر ین تشریح ۔۔۔۔سلامت رہیے جگ جگ جییں۔۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
ویسے آپ کے اس "مصیبت " سے چھٹکارا پانے کا بھی جواب نہیں ۔ ۔
1۔ خاصا غور و خوض کیا
2- استخارہ کیا
3۔ ایک مشترکہ دوست کو پاکستان فون کیا
4۔ اسے ڈانٹا (یہ آپ نے بلا شبہ بہت اچھا کام کیا ۔ ۔ موصوف کسی کو مشورہ دیتے وقت کم از کم دس مرتبہ تو سوچیں گے کہ مشورے صحیح قافیہ اور بحر میں ہوں اور ان میں بھرتی کے الفاظ قطعی طور پر نہ ہوں ۔ ۔ )
5۔ میں نے ان دوست کو یہی لکھا اور اپنی کم مائیگی کا عذر پیش کیا ۔
6۔ کہہ دیا کہ لڑکے کو سمجھادیں کہ اسے کسی بزرگ استاد کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔

واہ واہ ۔ ۔ بہت خوب ۔ ۔:applause::applause::applause::thumbsup::thumbsup:
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی آپ کا موبائل سسٹم سے ڈی سنک ہوکر چھ ماہ دو دن آگے کی تاریخ دکھا رہا ہے!!!
اچھا ، اب سمجھ میں آئی آپ کی یہ تہ دار بات ! :):):)
خلیل بھائی ، پہلے تو آپ کی بات پر خاصا غور و خوض کیا ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا مطلب ہے ۔ پھر مراقبہ کیا ۔ پھر ایک مشترکہ دوست کو فون کیا اوراُس سے پوچھا ۔ اس دوست نے بھی بالترتیب وہی اعمال دہرائے اور جوابی فون کرکے بتایا کہ خلیل بھائی نے یہ ایک "تاریخی" بات کہی ہے ۔ ان کے الفاظ کا مطلب لغت میں نہیں بلکہ کیلنڈر میں ملے گا۔ :)
خلیل بھائی ، آپ کا خدشہ درست نہیں ۔ یہ واقعہ اصلی ہے ۔ ظاہر ہے کہ زیبِ داستاں کے لئے کچھ نہ کچھ تو ردو بدل کرنا پڑتا ہے ۔ میں اُس ہنسی اور بے بسی میں آپ لوگوں کو بھی شریک کرنا چاہتا تھا کہ جو مجھ پر گزری ۔ :):):)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی!!!!!
السلام علیکم
کیسے مزاج ہیں؟؟؟؟
اِن نام نہاد شاعروں نے ہر جگہ تہلکہ مچایا ہے ۔ اب بتایئے بلبلُ کے پہرے دار بیچاروں پر کتُے چھوڑے جارہے ہیں ۔
یہ تو وہی حا ل ہے
رقیبِ روسیاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔کا بچہ
ابروُِ یار کو کہتا ہے۔ ۔۔ بھو ں

جدت پسندی و جواں مردی کیا کہنے ۔۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔ الحمدللہ ، مالک کا بڑا کرم ہے ۔ سب خیر و عافیت ہے ۔ اللہ کریم آپ کو دین و دنیا کی فلاح نصیب فرمائے ۔

ایسی شاعری تو ہر دور میں ہوتی رہی ہے ۔ اب چونکہ سوشل میڈیا ہر شخص کی دسترس میں آگیا ہے اس لئے ایسی باتیں اب کثرت سے منظرِ عام پر آنے لگی ہیں ۔ سیل فون کی بدولت اب بے تحاشا اداکار ، صداکار ، گلوکار ، مفسر ، معلم ، فلسفی ، دانشور ، ادیب اور شاعر پیدا ہوگئے ہیں ۔ بلکہ ا ن میں سے اکثر خصوصیات ایک ہی شخص میں بیک وقت پائی جاتی ہیں ۔
 
آخری تدوین:
Top