کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں
ان کے خط میں مجھے غیروں کے"کلام" آتے ہیں
پاکستان سے ہائی اسکول کے ایک دوست نے کہ جن سے مدتوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا ، کئی ماہ پہلے ایک غزل مجھے بھیجی ۔ معلوم یہ ہوا کہ اُن کی سالی کے ماموں کی خالہ کے ایک بھتیجے وغیرہ کو شاعری کا شوق ہے اور اصلاح کے لئے کسی شاعر کی تلاش میں ہے۔ میرے ان دوست کو تو شاعری سے ذرا علاقہ نہیں ، نرے کاروباری آدمی ہیں ، لیکن اتفاق سے کسی خاندانی تقریب میں شاعر سے ان کی بات ہوئی تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کوئی مسئلہ نہیں ، میرا دوست ہے امریکا میں اور بچپن سے شاعری کرتا ہے ، میں اسے بھجوادیتا ہوں ، وہ بتادے گا۔ بعد ازاں انہوں نے کسی سے میرا ایمیل کا پتا لے کر مجھے غزل بھیجی اور رومن اردو میں لکھا کہ یار اس بچے کو شاعری کا شوق ہے ، تم بھی شاعری کرتے ہو تو ذرا " ٹیک کیئر" کرلینا ۔
انہوں نے تو سسرال میں رعب ماردیا لیکن مجھے ایک عجیب مصیبت میں ڈال دیا۔ خیر ، غزل دیکھی اور دیکھتا ہی رہ گیا ۔ دیکھنے کے بعد خاصا غور و خوض کیا ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کیا جائے ۔ پھر استخارہ کیا ۔ پھر ایک مشترکہ دوست کو پاکستان فون کیا اور ساری صورتحال بتائی اور کہا کہ ۔۔۔۔۔ نے مصیبت میں ڈال دیا ہے ، کیا کروں۔ غزل سننے کے بعد اس نے مشورہ دیا کہ ۔۔۔۔ سے کہو لڑکے کی جاسوسی کرے اور پہلی فرصت میں بلبل کے ہاں رشتہ بھجوائے ۔ اسے ڈانٹا کہ تجھے مذاق سوجھ رہا ہے اور یہاں جان پر بنی ہے ۔ اگر غزلیں آنے کا یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو میں بے موت مارا جاؤں گا۔ تِس پر اُس مردِ معقول نے یہ زریں مشورہ دیا کہ ۔۔۔۔ سےکہہ دیا جائے کہ لڑکے کی شاعری فنی لحاظ سے بہت پیچیدہ ہے جسے کوئی ماہرِ فن ہی سلجھا سکتا ہے۔ چنانچہ غزل کو اصلاح کے لئے بڑے استادوں کے پاس بھیج دیا ہے۔ جیسے ہی کسی کی سمجھ میں کچھ آیا اور جواب موصول ہوا فوراً مطلع کردیا جائے گا۔ سو میں نے ان دوست کو یہی لکھا اور اپنی کم مائیگی کا عذر پیش کیا ۔ اور کہہ دیا کہ لڑکے کو سمجھادیں کہ اسے کسی بزرگ استاد کی ضرورت ہے جو پاس بٹھا کر پیچیدہ فنی مسائل کو حل کرسکے ۔
سو اب میں ڈرتے ڈرتے یہ غزل آپ بڑے استادوں کی خدمت میں رکھ رہا ہوں ۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں!
غزل
مجھے تیری قسم بلبل میں گلشن چھوڑ دوں گا
کسی دن تنگ آکر باغباں کو پھوڑ دوں گا
زمانے نے میری بلبل پر بٹھا رکھے ہیں پہرے
کسی دن پہریداروں پر میں کتے چھوڑ دوں گا
میں گلشن کے برابر میں کھڑا ہوں سینہ تانے
اگر آیا کوئی طوفاں تو میں رخ موڑ دوں گا
مری بلبل بہت معصوم ہےمیں کیا بتاؤں
نہ گھبرا میری بلبل تیرا پنجرا توڑ دوں گا
کسی دن لائے گا ناصر بہار اس آشیاں میں
مری بلبل میں تجھ سے اپنا رشتہ جوڑ دوں گا
(نوٹ: رازداری کی خاطر شاعر کا تخلص تبدیل کردیا گیا ہے)