واہ بہت عمدہ کاشفی صاحب۔ اگر ہو سکے تو میر مونس کا کوئی مرثیہ ضرور شریکِ محفل کیجیے۔ چاہے چند اشعار ہی کیوں نہ ہوں
مجرائی خلق میں ان آنکھوں سے کیا کیا دیکھا
پر کہیں سبطِ پیمبر سا نہ آقا دیکھا
ظلم اے مجرائی سجاد نے کیا کیا دیکھا
گھر لٹا، قید ہوئے، باپ کا لاشہ دیکھا
کہتی تھی زینبِ مضطر کہ خدا خیر کرے
شب کو یاں خواب میں عریاں سرِ زہرا دیکھا
جب چڑھے دوشِ محمد پہ علی کعبے میں
یک بیک زیرِ قدم عرشِ معلیٰ دیکھا
بعدِ معراج علی نے یہ نبی سے پوچھا
یا رسولِ دو جہاں عرش پہ کیا کیا دیکھا
ہنس کے فرمایا کہ اے نیرِ افلاکِ شرف
ہر جگہ واں بھی ترے نور کا جلوہ دیکھا
گر پڑے سبطِ نبی تھام کے ہاتھوں سے جگر
علی اکبر کو جو ریتی پہ تڑپتا دیکھا
بانو کہتی تھی جواں ہو کے سِدھارے اکبر
وا دریغا نہ دلہن دیکھی نہ سہرا دیکھا
بیڑیاں دیکھیں تو پھیلا دیے عابد نے قدم
سر کو نہوڑا دیا جب طوق کا حلقہ دیکھا
کیا تحمل تھا کہ پیاسے رہے دو روز حُسین
آنکھ اٹھا کر نہ مگر جانبِ دریا دیکھا
بانو رو دیتی تھی منہ ڈھانپ کے اصغر کے لیے
کسی عورت کی جو آغوش میں بچّہ دیکھا
کہتے تھے سیدِ سجاد کہ دیکھے نہ کوئی
ہم نے جو کچھ ستمِ لشکرِ اعدا دیکھا
صدمے کانٹوں کے، جفا طوق کی، ایذائے رسن
ایک بابا کے جدا ہونے سے کیا کیا دیکھا
شام میں لوگ یہ کہتے تھے کہ آج آنکھوں سے
بے ردا ہم نے سرِ دخترِ زہرا دیکھا
ننگے سر خلق نے اُس بی بی کو دیکھا افسوس
جس کی مادر کا کسی نے نہ جنازہ دیکھا
جا کے زینب نے وطن میں یہ کہا صغریٰ سے
کہوں کس منہ سے کہ پردیس میں کیا کیا دیکھا
تین دن بند رہا گرمی میں پانی مجھ پر
کس مسافر نے بتاؤ ستم ایسا دیکھا
سامنے قتل ہوئے مسلمِ بیکس کے پسر
اپنے فرزندوں کو بسمل سا تڑپتا دیکھا
میں نے ماتم کیا لاشے پہ بنے قاسم کے
میں نے اک رات کی بیاہی کا رنڈاپا دیکھا
میں نے دیکھا علمِ شاہ کو آلودهٔ خوں
میں نے عباس کو بے جاں لبِ دریا دیکھا
میں نے دیکھا علی اصغر کا گلا خون سے تر
میں نے زخمی علی اکبر کا کلیجا دیکھا
میں نے دیکھا شہِ مظلوم کو خنجر کے تلے
میں نے نیزے پہ سرِ دلبرِ زہرا دیکھا
ہائے کیوں ہو نہ گئیں کور کہ اِن آنکھوں سے
میں نے بے گور و کفن بھائی کا لاشہ دیکھا
غرض اک دم کہیں فرصت نہ ملی ماتم کی
قید خانے میں سکینہ کا جنازہ دیکھا
پھر گیا آنکھوں میں شہ کا رخِ پُرخوں مونس
جب کہیں مقتلِ شپیر کا نقشہ دیکھا