کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

فرخ منظور

لائبریرین
کچھ اشارا جو کیا ہم نے ملاقات کے وقت
ٹال کر کہنے لگے دن ہے ابھی، رات کے وقت

گرچہ مے پینے سے کی توبہ ہے، میں نے ساقی
بھول جاتا ہوں ولے تیری مدارات کے وقت

موسمِ عیش ہے یہ عہدِجوانی، انشاؔ
دور ہیں تیرے ابھی زہد و عبادات کے وقت
(انشا اللہ خان انشاؔ)
 

فرخ منظور

لائبریرین

سرنگوں رکھتی ہے یادِ رخِ جاناں اپنا
ہم کو محرابِ عبادت ہے گریباں اپنا

گریۂ دیدۂ پرخوں ہے گلستاں اپنا
خندۂ زخمِ جگر ہے گلِ داماں اپنا

(امیر اللہ تسلیمؔ لکھنوی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
دل کریگا نہ خیالِ رُخِ جاناں خالی
کبھی اس گھر کو نہ چھوڑے گا یہ مہماں خالی

روز و شب لاکھوں ہی ارمان بھرے رہتے ہیں
حسرتوں سے نہیں ہوتا دلِ ناداں خالی

باغ میں دیکھ کے تیرے رُخِ رنگیں کی بہار
ہوگئے رنگ سے گُلہائے گلستاں خالی

وصل کا روز میسر نہیں ہوتاآبادؔ
گھر ہمارا نہیں کرتی شبِ ہجراں خالی

( آبادؔ لکھنوی)​
 

فرخ منظور

لائبریرین

صاف قلقل سے صدا آتی ہے "آمیں!، آمیں!"
اپنے ساقی کو جو ہم رند دعا دیتے ہیں
(میر وزیر علی صبا لکھنوی)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
لاتا ہے کوئے دوست میں مجھ کو ہزار بار
سچ پوچھیے تو دل بھی عجب حیلہ ساز ہے

واعظ سے اتنا سنتے ہی کیا خوش ہوئے ہیں رند
جب تک کھلی ہے آنکھ، درِ توبہ باز ہے

ہم مر گئے مگر نہ ملا اس کا کچھ پتا
گیسوئے دوست یا شبِ فرقت دراز ہے

محشرؔ وداعِ صبر کا ہنگام آ گیا
وہ شوخ آج کھینچے ہوئے تیغِ ناز ہے

(محشرؔ لکھنوی)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
تمنّا دید کی موسیٰ کرے اور طُور جل جائے
عجب دستورِ الفت ہے، کرے کوئی، بھرے کوئی

(شاعر نامعلوم)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہمی ہیں دیر و حرم، اب تو یہ حقیقت ہے
دماغ کس کو ہے ہر در کی جبّہ سائی کا

(میر تقی میرؔ)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
توڑی جو اُن نے تجھ سے تو جوڑی رقیب سے
انشاؔ تو اپنے یار کے یہ جوڑ توڑ دیکھ
(انشاءاللہ خان انشا)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرتِ انسان پر
فعلِ بد تو ان سے ہو، لعنت کریں شیطان پر
(انشاءاللہ خان انشا)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
قطعہ
مے کدے میں وہ بتِ بدمست اے پیرِ مغاں
گردشِ چشم اپنی دکھلانے کبھو گر آئے گا

دیکھنا کیا ہو گی کیفیت کہ زیرِ پائے خُم
شیشہ لَوٹے گا پڑا، چکّر میں ساغر آئے گا

بے طرح دل پنجۂ مژگانِ چشمِ یار میں
جا پھنسا ہے دیکھیے کیوں کر تڑپ کر آئے گا

جان تب آوے گی اپنی جانِ محزوں میں کہ جب
چُنگلِ شہباز سے چھُٹ کر کبوتر آئے گا

(شاہ نصیرؔ)
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرے کوچے میں عدو مضطر و ناشاد رہا
شب خدا جانے کہاں وہ ستم ایجاد رہا

اُس روانی سے ذرا خنجرِ بے داد رہا
بارے اِک دم اثرِ نالہ و فریاد رہا

بے کسی نے نہ دیا ہائے تہِ خاک بھی چین
تا قیامت المِ گریۂ جلّاد رہا

نقدِ جاں تھا نہ سزائے دیت، عاشق حیف
خونِ فرہاد سرِ گردنِ فرہاد رہا

لذتِ جور سے دم لینے کی فرصت نہ رہی
کیا اثر منتظرِ دعوتِ فرہاد رہا

(حکیم مومن خان مومنؔ)​
 
Top