ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے
دیکھو تو تہِ نقاب کیا ہے
میں نے تجھے تُو نے مجھ کو دیکھا
اب مجھ سے تجھے حجاب کیا ہے
آئے ہو تو کوئی دم تو بیٹھو
اے قبلہ یہ اضطراب کیا ہے
مجھ کو بھی گنے وہ عاشقوں میں
اس بات کا سو حساب کیا ہے
اس میکدہ جہاں میں یارو
مجھ سا بھی کوئی خراب کیا ہے
(مصحفی)