وہ بزم اپنی تھی میکشی کی، فرشتے ہو جاتے مست و بیخود
جو شیخ جی واں سے بچ کے آتے تو پھر میں ان کو سلام کرتا
جو زلفیں مکھڑے پہ کھول دیتا صنم ہمارا تو پھر یہ گردوں
نہ دن دکھاتا، نہ شب بتاتا، نہ صبح لاتا، نہ شام کرتا
نظیر آخر کو ہار کر میں گلی میں اس کی گیا تھا بکنے
تماشا ہوتا جو لے کے مجھ کو وہ شوخ اپنا غلام کرتا
(نظیر اکبر آبادی)