پھر اس کے وعدۂ فردا پہ کھا گئے دھوگا
کہ جس کے قول و قسم کا کچھ اعبتار نہ تھا
وہ چار باتوں میں یوں صاف ہو گئے مجھ سے
بشکلِ آئینہ دل میں ذرا غبار نہ تھا
لحد میں کس لئے آخر کھلی رہی آنکھیں
فنا کے بعد کسی کو جو انتظار نہ تھا
پلایا شیخ کو اس وقت جامِ توبہ شکن
خزاں کی فصل نہ تھی، موسمِ بہار نہ تھا
خیالِ زلف میں جب نظم کی غزل کوئی
وہ شعر کون تھا ایسا جو پیچ دار نہ تھا
(التفات رسول ہاشمی)