کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

فرخ منظور

لائبریرین
سوائے بے کسی ٹھہرا نہ دم بھر کوئی تربت پر
مری دل سوز تھی اِک شمع روئی میری غربت پر

وہ برہم ہو کے فرماتے ہیں یہ میری شکایت پر
کہا تھا کس نے تم عاشق ہو آ کر میری صورت پر

(مظفر علی کوثر)
 

فرخ منظور

لائبریرین
پڑے اس عشق میں جینے کے لالے
خدا جلد اس مصیبت سے نکالے

نہ مرنے دے نہ جینے دے الٰہی
پڑے ہم ہائے کس ظالم کے پالے

جسے پھانسیں نہ چھوڑیں زندگی بھر
خدا زلفوں کے پھندے میں نہ ڈالے

ہمارا ذکرِ غم سن کر وہ بولے
کہاں کے تم نے یہ قصّے نکالے

کہاں تُو کھو گیا افسوس اے دل
مرے پیارے، مرے نازوں کے پالے

زمانہ تو جفا کرتا ہے تعلیم
کوئی کس منہ سے اب نامِ وفا لے

(کلیم لکھنوی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
چلتا رہا ہمیشہ میں اِک طرزِ خاص پر
یعنی فریب خوردۂ دیر و حرم نہ تھا

احسان ہے طبیعتِ دقت پسند کا
یعنی کہ رہنما کوئی نقشِ قدم نہ تھا

(رضا علی وحشت)
 

فرخ منظور

لائبریرین
جواب اس کا میں کیا دوں پوچھتے ہیں
دل آیا ہے تمہارا کس حسیں پر؟

نہیں اٹھتے ہیں اب فرقت کے صدمے
جو تُم کہہ دو تو مر جائیں تمہیں پر

(راجہ محمد نوشاد)
 

فرخ منظور

لائبریرین
زخمِ دل مت سیو یارو
یوں ہی رکھو کھُلا خدا کے لئے

گرمیِ تپ سے بے قرار ہے دل
کوئی روزن تو ہو ہوا کے لئے

(پنڈت موتی لال گوہر)
 

فرخ منظور

لائبریرین
کعبہ و دیر نہیں کچھ بھی وہاں کیا رکھا ہے
دل میں ہے ان کی جگہ آنکھ میں مسکن ان کا

کون رکھتا ہے عداوت ترے دیوانوں سے
تیری الفت کے سوا، کون ہے دشمن اُن کا

(کنہیا لال، لعل)
 

فرخ منظور

لائبریرین
الٰہی یہ تمنا ہے جو موت آئے تو یوں آئے
کہ دم آنکھوں میں ہو، آنکھیں لگی ہوں روئے جاناں پر

بس اب یہ انتہائے نازشِ حسن و محبّت ہے
کہ تیرے شوق میں جھک جھک گئے ہم پائے درباں پر

ابھی اے مہر، ہمت ہار بیٹھے تم محبت میں
نہیں معلوم کیا کیا مشکلیں پڑتی ہیں انساں پر

(خورشید علی مہر)
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہوس یہ دل کو ہے اے تیر یوں ملیں دونوں
جگر ادھر سے بڑھے اور ادھر سے تو آئے

کہاں سے تیری زیارت کریں دمِ محشر
ہیں لاکھ راستے دیکھیں کدھر سے تو آئے

(التفات رسول ہاشمی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
پھر اس کے وعدۂ فردا پہ کھا گئے دھوگا
کہ جس کے قول و قسم کا کچھ اعبتار نہ تھا

وہ چار باتوں میں یوں صاف ہو گئے مجھ سے
بشکلِ آئینہ دل میں ذرا غبار نہ تھا

لحد میں کس لئے آخر کھلی رہی آنکھیں
فنا کے بعد کسی کو جو انتظار نہ تھا

پلایا شیخ کو اس وقت جامِ توبہ شکن
خزاں کی فصل نہ تھی، موسمِ بہار نہ تھا

خیالِ زلف میں جب نظم کی غزل کوئی
وہ شعر کون تھا ایسا جو پیچ دار نہ تھا

(التفات رسول ہاشمی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہوئی رو رو کے سحر آج اُسے اور مجھے
کوئی جز شمع انیسِ شبِ ہجراں کب تھا

ہو کے مایوس نہ کیوں دیتے مسیحا بھی جواب
دردِ دل آہ مرا قابلِ درماں کب تھا

(منشی درگا پرشاد، لائق)
 

فرخ منظور

لائبریرین
قسمت میں نا امیدی و حسرت ہے کیا کروں
اس بے وفا سے مجھ کو محبت ہے، کیا کروں

کس کو خبر نہیں ہے کہ دیتا ہے وہ فریب
یاں تو فریب کھانے کی عادت ہے کیا کروں

قائل ہوں خوش کلامیِ واعظ کا میں ولے
پیرِ مغاں سے مجھ کو عقیدت ہے کیا کروں

(رضا علی وحشت)
 

فرخ منظور

لائبریرین
میری صبحِ وصل شامِ ہجر کی تمہید ہے
اور شامِ ہجر صبحِ محشر کا آغاز ہے

صید ہے عاجز تو ہے صیاد بھی عاجز نواز
بے پر و بالی مجھے بال و پرِ پرواز ہے

نکتہ پردازی میں وحشت پیروِ غالب ہوں میں
سرمے کو کہتا ہوں دودِ شعلۂ آواز ہے
(رضا علی وحشت)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
جب تلک رہے جیتا چاہیے ہنسے بولے
آدمی کو چپ رہنا موت کی نشانی ہے

تاباں
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
کم نہیں تخت سے فرعون کے کچھ مسند بھی
آدمی اس پہ جو بیٹھا سو خداوند ہوا

تاباں
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
وہ کون دل ہے جہاں جلوہ گر وہ نور نہیں
اس آفتاب کا کس ذرے میں ظہور نہیں

انعام اللہ خان یقین
 
Top