کلام ضیاء مجبوری

فاخر رضا

محفلین
الطاف بھائی نے ٹی وی پر ایک تقریر کرتے ہوئے ایک جملہ کہا تھا جو بہت مشہور ہوا
میٹھا میٹھا ہپ ہپ
کڑوا کڑوا تھو تھو

ایک آیت یاد آگئی

بے شک جو لوگ اللہ اور رسول کا انکار کرتے ہیں اور خدا اور رسول کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کریں گے اور چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے درمیان سے کوئی نیا راستہ نکال لیں
سورہ نساء
آیت 150
نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ
یہ بہت پرانا طریقہ ہے بیوقوف بنانے کا، کوئی نیا طریقہ لائیے
 
شاید آپ کو مزید قرآن فہمی کی ضرورت ہے۔۔۔ ادوارِ قدیم کے علماء کی تفاسیر کا مطالعہ کیجئے۔ ادوارِ جدید تو پر فتن ٹھہرے۔۔۔
زمن بر صوفی و مُلا سلامے
کہ پیغامِ خُدا گفتند ما را
ولے تاویلِ شاں در حیرت انداخت
خُدا و جبرئیل ومصطفیٰ ﷺ را
(اقبال)
صُوفی وملا کو ہمارا سلام کہ ان نے ہمیں پیغامِ خدا توسنایا مگر اس کی ایسی تشریح و توضیح کی اور اس سے ایسے مفاہیم برآمد کئے کہ جن نے خدا جبرئیل اور مصطفیٰ ﷺ کو بھی حیرت میں ڈال دیا کہ ان کا منشاء و مقصود تو ہر گز یہ نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی ایک مثال تفسیرِ معوذتین ہے جس میں قدماء نے بخاری کی ایک غلط روایت سے استدلال کیا کہ نعوذ باللہ حضور ﷺ پر جادو ہوا تھا۔ یہ روایت امام بخاری نے ھشام بن عروة بن زبیر بن عوام سے نقل کی تھی جن کا دماغ 71 سال کی عمر میں خلیفة ولید بن عبدالملک سے ایک تنازعہ کے بعد عراق میں سکونت کے دوران خراب ہوا تو امام مالک نے اپنا استاذ اور ثقہ راوی ہونے کے باوجود ان سے روایت لینا ترک کر دیا تھا اور دوسروں کو بھی ان سے روایت کرنے سے منع کر دیا تھا مگر ان کے تقریبا سو برس بعد امام بخاری نے ان کو ثقہ راوی سمجھتے ہوئے ان سے روایت قبول کرکے اپنی صحیح میں درج کر لی۔ مفسرین نے بھی اپنے رسول ﷺ کی عزت و ناموس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پاگل شخص کی گھڑی ہوئی روایت کو مِن و عن قبول کر لیا۔ متقدمین سے تو کیا شکوہ ، متاخرین نے بھی یہی کیا مثلا سید مودودی نے بھی معوذتین کی شرح میں یہی غلطی دہرائی۔ جب امین احسن اصلاحی نے تدبر قرآن کی آخری جلد لکھی تو اس میں سید مودودی کی اس لغزش پر سخت تنقید کی کہ آں جناب نے یہ بھی نہ دیکھا کہ روایت ایک پاگل شخص کی گھڑی ہوئی ہے اور یہی دیکھ لیتے کہ الفلق اور الناس مکی سورتیں ہیں مگر ان کا شانِ نزول مدنی دور کے اواخر کے اس من گھڑت واقعہ سے جوڑا جا رہا ہے۔ عمر احمد عثمانی نے فقہ القرآن میں اور حبیب الرحمان کاندھلوی نے مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت میں یہی تحقیق کی ہے۔ان کے علاوہ اور بہت سے محققین کی یہی تحقیق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن مجید اپنی تفسیر و تشریح و تعبیر کے لئے کسی خارجی ذریعہ کا محتاج نہیں ہے۔ ثم ان علینا بیانہ(القرآن) کا مطلب ہی یہ ہے کہ خود اللہ تعالی ہی اس کو واضح کرے گا۔ تمام مکاتیب فکر کے علماء کے نزدیک [ یفسر بعضہ بعضہ (کہ قرآن ہی کی آیات اس کی دیگر آیات کی شارح ہیں) کے مصداق] قرآن مجید کی بہترین تفسیر وہی ہے جس کے لئے دلائل و براہین خود قرآنِ مجید ہی سے فراہم کئے جائیں ورنہ بقول شبلی نعمانی تفسیری روایات کی کچھ اصل نہیں ہے اور بقولِ امین احسن اصلاحی قرآنِ مجید کو شانِ نزول کی بیڑیاں پہنانا ناروا ہے۔
پیغام تیرے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا دیتے ہیں پازند
مُلا و مکتب و اسرارِ کتاب
کورِ مادر زاد و نُورِ آفتاب

(اقبال)
 

سید عمران

محفلین
ڈاکٹر بننے کے لیے کالج کی ضرورت...
پروفیسروں کی ضرورت...
امتحان دے کر اپنی قابلیت منوانے کی ضرورت..
ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت...
شاعر بننے کے لیے باقاعدہ شاعری کا فن بحر، اوزان، قافیے ردیف اور بے تحاشہ لوازمات سیکھنے کی ضرورت....
کسی اچھے استاد شاعر سے اصلاح لے کر ان سے تربیت کرانے کی ضرورت...
اور دین میں فتوی بازی کے لیے کسی چیز کی نہیں ضرورت!!!
 
ڈاکٹر بننے کے لیے کالج کی ضرورت...
پروفیسروں کی ضرورت...
امتحان دے کر اپنی قابلیت منوانے کی ضرورت..
ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت...
شاعر بننے کے لیے باقاعدہ شاعری کا فن بحر، اوزان، قافیے ردیف اور بے تحاشہ لوازمات سیکھنے کی ضرورت....
کسی اچھے استاد شاعر سے اصلاح لے کر ان سے تربیت کرانے کی ضرورت...
اور دین میں فتوی بازی کے لیے کسی چیز کی نہیں ضرورت!!!
محترم یہ فتاویٰ میرے نہیں۔۔۔۔۔
بلکہ
جید علماء کے حوالے ہیں۔ ۔۔۔۔۔
جہاں تک اقبال کے حوالوں کا تعلق ہے تو اس بارے میں ہمارے قائدِاعظم کا یہ فرمان ہم اہلِ پاکستان کے لئے حجت ہے کہ فی زمانہ اسلام کو اقبال سے بہتر کسی بھی اور نے نہیں سمجھا۔
 
ڈاکٹر بننے کے لیے کالج کی ضرورت...
پروفیسروں کی ضرورت...
امتحان دے کر اپنی قابلیت منوانے کی ضرورت..
ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت...
شاعر بننے کے لیے باقاعدہ شاعری کا فن بحر، اوزان، قافیے ردیف اور بے تحاشہ لوازمات سیکھنے کی ضرورت....
کسی اچھے استاد شاعر سے اصلاح لے کر ان سے تربیت کرانے کی ضرورت...
اور دین میں فتوی بازی کے لیے کسی چیز کی نہیں ضرورت!!!
محترم یہ فتاویٰ میرے نہیں۔۔۔۔۔
بلکہ
جید علماء کے حوالے ہیں۔ ۔۔۔۔۔
جہاں تک اقبال کے حوالوں کا تعلق ہے تو اس بارے میں ہمارے قائدِاعظم کا یہ فرمان ہم اہلِ پاکستان کے لئے حجت ہے کہ فی زمانہ اسلام کو اقبال سے بہتر کسی بھی اور نے نہیں سمجھا۔
مثلا کون سی احادیث من گھڑت ہیں؟؟؟
مثلا کون سی احادیث من گھڑت ہیں؟؟؟
مثلا کون سی احادیث من گھڑت ہیں؟؟؟
ایصالِ ثواب والی اور دیگر بھی بہت سی
 

فاخر رضا

محفلین
قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے. اس کی احادیث کو مستند مانا جاتا ہے. اس کے بارے میں شک پیدا کررہے ہیں.
قائداعظم کا کسی کی دینی قابلیت پرکھنے کا معیار کیا تھا اور وہ کون سے مدرسے کے عالم فاضل تھے.
 
ڈاکٹر بننے کے لیے کالج کی ضرورت...
پروفیسروں کی ضرورت...
امتحان دے کر اپنی قابلیت منوانے کی ضرورت..
ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت...
شاعر بننے کے لیے باقاعدہ شاعری کا فن بحر، اوزان، قافیے ردیف اور بے تحاشہ لوازمات سیکھنے کی ضرورت....
کسی اچھے استاد شاعر سے اصلاح لے کر ان سے تربیت کرانے کی ضرورت...
اور دین میں فتوی بازی کے لیے کسی چیز کی نہیں ضرورت!!!
تربیت کرانے کی ضرورت...
اور دین میں فتوی بازی کے لیے کسی چیز کی نہیں ضرورت!!!
صرف عربی سیکھنے اور بار بار خالی الذہن ہو کر قرآنِ مجید میں غوطہ زن ہونے یعنی اس میں تدبر و تفکر و تعقل کی ضرورت ہے۔ الدین یسر دین آسان ہے میڈیکل اور انجینئرنگ کی طرح کوئی تکنیکی شے یا Rocket سائینس نہیں ہے کہ اس کے لئے ہر فرقے اور ہر مسلک کے علیہدہ علیہدہ مدرسے کھول کر ان مخصوص فرقوں کے صوفی و ملا پیدا کر ے لوگوں کا دماغ روایاتی و خرافاتی بنایا جائے۔ جس طرح پانی پینا جسمانی ضرورت ہے بعینہ دین بھی روحانی سماجی اور اخروی ضرورت ہے کوئی technical شے نہیں کہ اس کے لئے پیر و ملا کو پروان چڑھایا جائے۔ لقد یسرنا القرآن لزکر فھل من مدکر ہم نے قرآن کو یاددہانی کے لئے آسان بنایا ہے پس ہے کوئی جو اس سے یاددہانی حاصل کرے یعنی یہ دینی راہنمائی کے لئے کوئی پیچیدہ کتاب تو ہے نہیں۔ تفصیلا کل شیءِِ یہ تو ہر شے کا فیصلہ بھی ہے اور تفصیل بھی اور یھدی للتی ھی اقوم یہ راستہ بھی وہ دکھاتی ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے لیکن اس کے لئے اس میں بار بار تدبر و تفکر و تزکر کی ضرورت ہے ورنہ دلوں کی عقدہ کشائی غیرممکن ہے۔ آنحضرت ﷺ کے تقریبا 100 سال بعد بھی ہسپانیہ تا سندھ مسلمانوں کی اس قدر وسیع و عریض سلطنت میں سوائے قرآنِ مجید کے مسلمانوں کے پاس اور کوئی بھی کتاب نہ تھی ۔ امام ابو حنیفہ اس وقت 10 سال کے بچے تھے اور امام مالک طفلِ شیر خوار تھے۔ باقی آئمہ جو عجم زادے تھے یعنی بخارا کے امام اسماعیل اور نیشاپور کے ایرانی امام مسلم وغیرہ وہ تو عدم سے وجود ہی میں اس کے بھی سو سال بعد آئے تھے ۔لہذا جب اس وقت بخاری و مسلم کے بغیر نظمِ اجتماعی محض قرآن کے سہارے چل سکتا تھا توآج کیوں نہیں۔ علامہ اقبال اہنے خطبات میں فرماتے ہیں کہ آج ہمیں عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ جیسی جرات و ہمت درکار ہے جن نے دربارِ رسالت میں عرض گزاری تھی کہ حسبنا کتاب اللہ (ہمارے لئے صرف اللہ کی کتاب ہی کافی ہے)۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ فرض ضروری اور لازم ہے وہ ابدالآباد تک کتاب اللہ کی زینت ہے مگر جہاں تک غیر ضروری فقہی بندشوں اور موشگافیوں کا تعلق ہے وہ اس دستورِ آزادگاں میں نہیں ملیں گی:
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
(اقبال)​
بہرطور میں نے تو بڑے جید علماء کے تحقیقاتی حوالے اور اقبال کا نکتہ نظر دیا تھا اپنے پاس سے تو دمڑی بھی نہیں دی تھی۔
 

سید عمران

محفلین
یہ ساری کی ساری لفاظی انتہائی سطحی علم کی غماز ہے...
الدین یسر...
دین آسان ہے عمل کرنے کے لیے...
یعنی دین ایسی کسی بات کا حکم نہیں دیتا جس پر عمل کرنا ناممکن ہو...
یہ مطلب نہیں کہ مشکل اور پیچیدہ مسائل کا حل کرنا بھی ہر ایک کے لیے آسان ہے...
یسرنا القرآن لذکر میں لفظ '' ذکر'' خود بتا رہا ہے کہ قرآن نصیحت پکڑنے کے لیے ہر کسی کے لیے آسان ہے...
نہ کہ پیچیدہ مسائل کا حل ہر کس و ناکس کے حوالے کردیا جائے...
اور اس '' ذکر'' کے اعلی درجہ کے لیے بھی فرمادیا...
فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون...
دین کو یونہی ہر ان پڑھ غیر عالم کے حوالے لاوارث نہیں چھوڑا گیا...
صحابہ کے دور میں بھی ہر صحابی فتوے نہیں دیتا تھا...
جو اس کا اہل ہوتا تھا وہی مسائل بیان کرتا تھا اور دیگر صحابہ اسی سے رجوع کرتے تھے چاہے وہ خود صحابی نہ ہو...
ویسے میرا سوال ہنوز جواب طلب یے...
ابھی تک من گھڑت احادیث پیش نہیں کی گئیں!!!
 
آنحضرت ﷺ کے تقریبا 100 سال بعد بھی ہسپانیہ تا سندھ مسلمانوں کی اس قدر وسیع و عریض سلطنت میں سوائے قرآنِ مجید کے مسلمانوں کے پاس اور کوئی بھی کتاب نہ تھی ۔ امام ابو حنیفہ اس وقت 10 سال کے بچے تھے اور امام مالک طفلِ شیر خوار تھے۔ باقی آئمہ جو عجم زادے تھے یعنی بخارا کے امام اسماعیل اور نیشاپور کے ایرانی امام مسلم وغیرہ وہ تو عدم سے وجود ہی میں اس کے بھی سو سال بعد آئے تھے ۔لہذا جب اس وقت بخاری و مسلم کے بغیر نظمِ اجتماعی محض قرآن کے سہارے چل سکتا تھا توآج کیوں نہیں۔
اس وقت تک صحابہ اور تابعین رہنمائی کے لیے موجود تھے اور احادیث سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی تھیں۔ بعد کے زمانہ کے لیے ان کا مرتب ہونا کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے۔
جب قرآن مجید میں خود اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے کہ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول
اور قُل ان كنتم تُحبّون اللهَ فاتّبعونی یُحببكمُ اللهُ
ذرا ان آیات کا مفہوم بھی سمجھا دیں۔ کہ رسول کی اطاعت اور اس کی اتباع سے کیا مراد ہے؟
 

ربیع م

محفلین
آج ہمیں عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ جیسی جرات و ہمت درکار ہے جن نے دربارِ رسالت میں عرض گزاری تھی کہ حسبنا کتاب اللہ (ہمارے لئے صرف اللہ کی کتاب ہی کافی ہے)۔۔۔۔۔۔۔
حسبنا کتاب اللہ پر بڑی دلچسپ گفتگو ہو سکتی ہے اگر صاحب تحریر أجازت دیں تو۔۔۔۔
 
حسبنا کتاب اللہ پر بڑی دلچسپ گفتگو ہو سکتی ہے اگر صاحب تحریر أجازت دیں تو۔۔۔۔
نیکی اور
حسبنا کتاب اللہ پر بڑی دلچسپ گفتگو ہو سکتی ہے اگر صاحب تحریر أجازت دیں تو۔۔۔۔
اجازت ہے
مگر
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
 
اس وقت تک صحابہ اور تابعین رہنمائی کے لیے موجود تھے اور احادیث سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی تھیں۔ بعد کے زمانہ کے لیے ان کا مرتب ہونا کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے۔
جب قرآن مجید میں خود اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے کہ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول
اور قُل ان كنتم تُحبّون اللهَ فاتّبعونی یُحببكمُ اللهُ
ذرا ان آیات کا مفہوم بھی سمجھا دیں۔ کہ رسول کی اطاعت اور اس کی اتباع سے کیا مراد ہے؟
اس میں کیا شک ہے اطاعت ہے رسول اللہ کی فرض
پر بخاری میں بھی کچھ تحقیق لازم ہے میاں
دیکھنا ہے یہ بھی کہ تھا کیا سیاق اور کیا سباق
عہدِ نو سے اس کی کچھ تطبیق لازم ہے میاں
تقلید اندھی تو کبھی نہ فرض تھی پہلے نہ اب
راستے کی عقل سے تخلیق لازم ہے میاں
ہر روایت بالمعانی ہے نہیں اقوال اصل
اس سمجھ کی بھی تو کچھ توفیق لازم ہے میاں
ہم تو کہتے ہیں ضیاءؔ کہ فرقے سارے ختم ہوں
اور وہ کہتے ہیں کہ تفریق لازم ہے میاں
 
پہلے جو آپ جانتے ہیں وہ بتا دیجئے شاید ہمارے علم میں اضافہ ہو جائے۔
کہئے!
آپ کا اشارہ غالبا حدیثِ قرطاس اور اس کی مختلف فرقوں کی اپنی اپنی توجیہات کی طرف ہے جبکہ میں حضرتِ اقبال کی توجیہ کو سب سے بہتر سمجھتا ہوں جو ان نے اپنے خطبات میں پیش کی ہے۔ آگے۔۔۔۔
لا علم لنا الا ما علمتنا
آپ ہی بتائیے ہم تو جانتے نہیں
لوگ ہار کر بھی کیوں ہار مانتے نہیں
کچھ تو منہ سے بولیئے
آپ کھو گئے کہاں ؟؟؟؟؟
 
یہ ساری کی ساری لفاظی انتہائی سطحی علم کی غماز ہے...
الدین یسر...
دین آسان ہے عمل کرنے کے لیے...
یعنی دین ایسی کسی بات کا حکم نہیں دیتا جس پر عمل کرنا ناممکن ہو...
یہ مطلب نہیں کہ مشکل اور پیچیدہ مسائل کا حل کرنا بھی ہر ایک کے لیے آسان ہے...
یسرنا القرآن لذکر میں لفظ '' ذکر'' خود بتا رہا ہے کہ قرآن نصیحت پکڑنے کے لیے ہر کسی کے لیے آسان ہے...
نہ کہ پیچیدہ مسائل کا حل ہر کس و ناکس کے حوالے کردیا جائے...
اور اس '' ذکر'' کے اعلی درجہ کے لیے بھی فرمادیا...
فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون...
دین کو یونہی ہر ان پڑھ غیر عالم کے حوالے لاوارث نہیں چھوڑا گیا...
صحابہ کے دور میں بھی ہر صحابی فتوے نہیں دیتا تھا...
جو اس کا اہل ہوتا تھا وہی مسائل بیان کرتا تھا اور دیگر صحابہ اسی سے رجوع کرتے تھے چاہے وہ خود صحابی نہ ہو...
ویسے میرا سوال ہنوز جواب طلب یے...
ابھی تک من گھڑت احادیث پیش نہیں کی گئیں!!!
عمران بھائی
فاسئلوا اھل الذکر کو آپ نے بھی سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا ہے۔۔۔ یہاں اہل الذکر سے مراد اہل کتاب کے واقعی علماء ہیں نہ کہ ہمارے پیر و ملا
 

ربیع م

محفلین
آپ کا اشارہ غالبا حدیثِ قرطاس اور اس کی مختلف فرقوں کی اپنی اپنی توجیہات کی طرف ہے جبکہ میں حضرتِ اقبال کی توجیہ کو سب سے بہتر سمجھتا ہوں جو ان نے اپنے خطبات میں پیش کی ہے۔ آگے۔۔۔۔
لا علم لنا الا ما علمتنا
آپ ہی بتائیے ہم تو جانتے نہیں
لوگ ہار کر بھی کیوں ہار مانتے نہیں
کچھ تو منہ سے بولیئے
آپ کھو گئے کہاں ؟؟؟؟؟

اپ اس بات تک نہیں پہنچ سکے جو سمجھانا چاہتا ہوں، پہلی بات تو یہ ہے کہ کتاب کا اس حدیث میں مفہوم کیا ہے اور عمر رضی اللہ عنہ کتاب کس کو سمجھتے تھے؟
اور قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت احادیث اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اقوال میں الکتاب سے کیا مراد لیا گیا ہے؟

پر بخاری میں بھی کچھ تحقیق لازم ہے میاں
بالکل تحقيق لازم ہے میاں اور اس فن کے ماہرین نے اس پر تحقیق کر کے بالإجماع اسے صحیح قرار دیا ہے۔
روایت امام بخاری نے ھشام بن عروة بن زبیر بن عوام سے نقل کی تھی
اس روایت کی صرف ایک سند ہی نہیں
بلکہ اسے امام بخاری امام مسلم رحمہ اللہ امام ابن ماجہ اور ابن حبان رحمھم اللہ نے اپنی کتب میں نقل کیا اور یہ تواتر کے درجے تک پہنچتی ہے۔
باقی ہشام بن عروۃ بن زبیر پر ائمہ جرح و تعدیل کا حکم ملاحظہ کیجئے۔
 

سید عمران

محفلین
عمران بھائی
فاسئلوا اھل الذکر کو آپ نے بھی سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا ہے۔۔۔ یہاں اہل الذکر سے مراد اہل کتاب کے واقعی علماء ہیں نہ کہ ہمارے پیر و ملا
واہ بھائی...
اہل کتاب کے علماء کو علماء مانتے ہو...
جبکہ جس قرآن کا حوالہ دیا جا رہا ہے اس نے پچھلے تمام مذاہب منسوخ کردئیے....
منسوخ مذاہب کے علماء علماء اور ناسخ کےعلماء پیر و ملا کے تحقیر آمیز الفاظ کے حق دار...
کیا واقعی امت محمدیہ علماء کے لحاظ سے بانجھ ہے؟؟؟
ویسے ہمیں جواب ابھی تک نہیں ملا...
یعنی من گھڑت احادیث بیان کی جائیں!!!
 
Top