کلام ضیاء مجبوری

ربیع م

محفلین
جبکہ میں حضرتِ اقبال کی توجیہ کو سب سے بہتر سمجھتا ہوں
اب حضرت اقبال کی توجیہہ کو کیوں پکڑیں ان کی توجیہہ کو اختیار کریں جس کا حکم قرآن نے دیا ہے کہ
﴿يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِي الأَمرِ مِنكُم فَإِن تَنازَعتُم في شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الآخِرِ ذلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا﴾
[النساء: ٥٩]
کہ اگر آپس میں تنازعہ پیدا ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی جانب لوٹاؤ!
 

فاخر رضا

محفلین
ہمارے دادا کہتے تھے کہ جب کسی انسان میں شیطان حلول کر جائے تو پھر وہ ہدایت کے قابل نہیں رہتا. میں تو مزید اس لڑی میں آنے والا نہیں. یہ شخص کچھ ادھر اور کچھ ادھر سے لے کر آخر میں قادیانیت پر دلائل دے گا.
 

ربیع م

محفلین
جن کا دماغ 71 سال کی عمر میں خلیفة ولید بن عبدالملک سے ایک تنازعہ کے بعد عراق میں سکونت کے دوران خراب ہوا
ویسے تو ضیاء صاحب نے کاپی پیسٹ سے کام چلایا ہے اور جن صاحب نے یہ لکھا ہے انھیں بھی محدثین کی مخصوص اصطلاح "اختلاط" کا علم نہیں، چنانچہ کم علمی یا تعصب کی بناء پر دماغ خراب ہونا لکھ مارا۔
اگرچہ ہشام بن عروۃ بن زبیر کے بارے میں اختلاط بھی ثابت نہیں،
سب سے پہلے تو ڈاکٹر صاحب کو چاہیے کہ اس بات کا حوالہ دیں کہ اختلاط کے دعوی کا ثبوت فراہم کریں اسی اختلاط کا معنی دماغ خراب کرنے پر حضرات کو ان کے ماخذ و مصدر کی علمی حیثیت یا علمی خیانت کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔
 

La Alma

لائبریرین
نجانے تحقیق کو مذہب کی اساس پر ایک ضرب کیوں خیال کیا جاتا ہے. کیا تحقیق کی ساری ذمہ داری آئمہ کرام کے کندھوں پر ڈال کر امتِ محمدی بری الذمہ ہو گئی ہے؟ اگر واقعتًا قرآن کے بعد احادیث کی کچھ کتب پر تمام علماء کا اجماع ہے. تو پھر یہ فرقہ واریت کہاں کی پیداوار ہے.
کیا کسی بھی مسلمان کی دینی غیرت اور حمیت اس بات کی اجازت دے گی کہ ادنٰی سے ادنٰی درجہ میں بھی کوئی روایت یا قول جو حضورؐ سے منقول نہیں حدیث کا درجہ پا جائے یا کسی بھی حدیث کو اس کا سیاق و سباق بیان کئے بغیر آگے بڑھا دیا جائے. یقیناً نہیں.
تحقیق بدعت کب سے ہو گئی. خدا تو اپنی کتاب میں بھی غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے. کہ خدا کے بندوں کو جب اللہ کی آیات سے یاد دہانی کرائی جاتی ہے تو وہ ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے. اس رو سے دین کے دیگر ماخذ تو زیادہ احتیاط اور تحقیق کا تقاضا کرتے ہیں.
یہ درست ہے کہ دورِ جدید پر فتن ہے کیونکہ ہم اپنے اسلاف کی کوششوں پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں. انہوں نے جس نیک نیتی، دیانت داری اور دینی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف احادیث کو ہر جگہ سے اکھٹا کیا بلکہ اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی صحت کو پرکھنے کا بدرجہِ اتم انتظام بھی فرمایا. قران ہی کو کسوٹی مان کر اگر ان کی تحقیق کو مزید آگے بڑھایا جائے تو شاید فرقہ پرستی اور گروہ بندی سے نجات ممکن ہو سکے.
کسی بھی انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس تک دین اپنی مکمل اور اصل حالت میں پہنچے. قرآن ہمارے پاس اپنی مکمل اور اصل حالت میں موجود ہے. دیگر جو اختلافی مسائل ہیں وہ کہاں سے آئے ہیں. صرف نماز کو ہی لے لیجئے. کیا صف بندی نماز کا لازمی حصّہ ہے؟ نیّت کو زبان سے ادا کرنا بدعت ہے؟ رفع الدین کے بغیر کیا نماز نا مکمل ہے؟ کیا امام کے پیچھے سوره فاتحہ پڑھنی چاہیے یا نہیں؟ ہاتھ کہاں باندھنے ہیں ؟ تشہد میں انگلی اٹھانا یا مسلسل ہلاتے رہنا صحیح ہے؟ عورتوں اور مرد کے نماز ادا کرنے کے طریقہ کار میں آیا کوئی فرق ہے یا نہیں ؟ آمین کیا بلند آواز سے کہنی چاہیے؟ رکوع اور سجود کی درست پوزیشن کیا ہے؟ نماز ادا کرنے کے صحیح اوقات کیا ہیں، بالخصوص ظہر ، اور عصر کی اذانیں تو گھنٹہ گھنٹہ بھر کی تاخیر سے وقفے وقفے سے ہوتی رہتی ہیں. کئی مساجد میں جمعہ کی دو اذانیں کیوں ہوتی ہیں اور کئی میں ایک کیوں؟ یہ تو صرف نماز کا بیان ہے. حالانکہ یہ ایک متواتر عمل ہے. چودہ سو سال سے پریکٹس میں ہے. کسی زمانے میں رکا نہیں. دن میں 5 بار دہرایا جاتا ہے. کم از کم اس پر تو علماء کی رائے منقسم نہیں ہونی چاہیے تھی. دین کے دیگر شعبہ جات کی تو بات ہی رہنے دیجئے. آپ کو ہر مسئلے میں کئی قسم کے فتاویٰ ملیں گے. اور سبھی قرآن اور احادیث کے ہی حوالے دیں گے. کیا واقعی مزید تحقیق کے دروازے بند ہو چکے ہیں؟ آیا اب مذہب کو شیعہ، سنی، وہابی، بریلوی ، دیوبندی اور دیگر فرقوں میں بٹے رہنے دینا چاہیے؟ اگر نہیں تو ہمارے پاس جو بھی مذہبی مواد ہے اس پر مزید تحقیق کئے بغیر یہ کیسے ممکن ہے؟
 

ربیع م

محفلین
نجانے تحقیق کو مذہب کی اساس پر ایک ضرب کیوں خیال کیا جاتا ہے. کیا تحقیق کی ساری ذمہ داری آئمہ کرام کے کندھوں پر ڈال کر امتِ محمدی بری الذمہ ہو گئی ہے؟ اگر واقعتًا قرآن کے بعد احادیث کی کچھ کتب پر تمام علماء کا اجماع ہے. تو پھر یہ فرقہ واریت کہاں کی پیداوار ہے.
کیا کسی بھی مسلمان کی دینی غیرت اور حمیت اس بات کی اجازت دے گی کہ ادنٰی سے ادنٰی درجہ میں بھی کوئی روایت یا قول جو حضورؐ سے منقول نہیں حدیث کا درجہ پا جائے یا کسی بھی حدیث کو اس کا سیاق و سباق بیان کئے بغیر آگے بڑھا دیا جائے. یقیناً نہیں.
تحقیق بدعت کب سے ہو گئی. خدا تو اپنی کتاب میں بھی غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے. کہ خدا کے بندوں کو جب اللہ کی آیات سے یاد دہانی کرائی جاتی ہے تو وہ ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے. اس رو سے دین کے دیگر ماخذ تو زیادہ احتیاط اور تحقیق کا تقاضا کرتے ہیں.
یہ درست ہے کہ دورِ جدید پر فتن ہے کیونکہ ہم اپنے اسلاف کی کوششوں پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں. انہوں نے جس نیک نیتی، دیانت داری اور دینی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف احادیث کو ہر جگہ سے اکھٹا کیا بلکہ اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی صحت کو پرکھنے کا بدرجہِ اتم انتظام بھی فرمایا. قران ہی کو کسوٹی مان کر اگر ان کی تحقیق کو مزید آگے بڑھایا جائے تو شاید فرقہ پرستی اور گروہ بندی سے نجات ممکن ہو سکے.
کسی بھی انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس تک دین اپنی مکمل اور اصل حالت میں پہنچے. قرآن ہمارے پاس اپنی مکمل اور اصل حالت میں موجود ہے. دیگر جو اختلافی مسائل ہیں وہ کہاں سے آئے ہیں. صرف نماز کو ہی لے لیجئے. کیا صف بندی نماز کا لازمی حصّہ ہے؟ نیّت کو زبان سے ادا کرنا بدعت ہے؟ رفع الدین کے بغیر کیا نماز نا مکمل ہے؟ کیا امام کے پیچھے سوره فاتحہ پڑھنی چاہیے یا نہیں؟ ہاتھ کہاں باندھنے ہیں ؟ تشہد میں انگلی اٹھانا یا مسلسل ہلاتے رہنا صحیح ہے؟ عورتوں اور مرد کے نماز ادا کرنے کے طریقہ کار میں آیا کوئی فرق ہے یا نہیں ؟ آمین کیا بلند آواز سے کہنی چاہیے؟ رکوع اور سجود کی درست پوزیشن کیا ہے؟ نماز ادا کرنے کے صحیح اوقات کیا ہیں، بالخصوص ظہر ، اور عصر کی اذانیں تو گھنٹہ گھنٹہ بھر کی تاخیر سے وقفے وقفے سے ہوتی رہتی ہیں. کئی مساجد میں جمعہ کی دو اذانیں کیوں ہوتی ہیں اور کئی میں ایک کیوں؟ یہ تو صرف نماز کا بیان ہے. حالانکہ یہ ایک متواتر عمل ہے. چودہ سو سال سے پریکٹس میں ہے. کسی زمانے میں رکا نہیں. دن میں 5 بار دہرایا جاتا ہے. کم از کم اس پر تو علماء کی رائے منقسم نہیں ہونی چاہیے تھی. دین کے دیگر شعبہ جات کی تو بات ہی رہنے دیجئے. آپ کو ہر مسئلے میں کئی قسم کے فتاویٰ ملیں گے. اور سبھی قرآن اور احادیث کے ہی حوالے دیں گے. کیا واقعی مزید تحقیق کے دروازے بند ہو چکے ہیں؟ آیا اب مذہب کو شیعہ، سنی، وہابی، بریلوی ، دیوبندی اور دیگر فرقوں میں بٹے رہنے دینا چاہیے؟ اگر نہیں تو ہمارے پاس جو بھی مذہبی مواد ہے اس پر مزید تحقیق کئے بغیر یہ کیسے ممکن ہے؟
تحقيق سے کسی کو بھی انکار نہیں اعتراض ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے محقق بن کر فتاوی صادر کرنے پر ہے۔
 
ہمارے دادا کہتے تھے کہ جب کسی انسان میں شیطان حلول کر جائے تو پھر وہ ہدایت کے قابل نہیں رہتا. میں تو مزید اس لڑی میں آنے والا نہیں. یہ شخص کچھ ادھر اور کچھ ادھر سے لے کر آخر میں قادیانیت پر دلائل دے گا.
جناب قادیانیت کے حق میں وہی دلائل دے کہ جو چور دروازوں سے ختم نبوت میں ظلی بروزی کے نقب لگاتا ہو ہم تو اس دروازے کو مکمل طور پر مہر بند سمجھتے ہیں کہ آنجناب ﷺ کے بعد کسی بھی قسم کا کوئی بھی نبی رسول یا فرستادہ یا اوتار نہیں آنے کا۔ ہم آپ ﷺ کے بعد کسی کی بھی آمد کے قائل نہیں نہ کسی قسم کے مسیح کے اور نہ مہدی کے۔ ہمارے حضرتِ اقبال ان سب روایات کو عجمی بتکدوں کی پیداوار سمجھتے تھے۔ مثلا میری چچی کے والد چودھری محمد احسن علیگ (والد سینیٹر بیرسٹر اعتزاز احسن) کے نام علامہ اقبال کے مشہور مکتوب میں انہی خیالات کا اظہار ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چودھری صاحب علامہ اقبال کو اپنا پیر اور مجھے اپنا پیر بھائی فرمایا کرتے تھے
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نہ ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
 
تحقيق سے کسی کو بھی انکار نہیں اعتراض ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے محقق بن کر فتاوی صادر کرنے پر ہے۔
لاعلمی کی بھی حد ہوتی ہے کیا دیوبند کے استاذالاساتذہ مفتی علامہ حبیب الرحمان کاندھلوی مرحوم مصنف مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت، استاذالمفتیاں و علمائے دین مولانا عمر احمد عثمانی ابنِ مولانا ظفر احمد عثمانی صاحبِ فقہ القرآن اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحبِ تدبر قرآن سب کے سب آپ کے نزیک ایرے غیرے نتھو خیرے تھے جن نے ھشام بن عروہ بن زبیر بن عوام کو پاگل لکھا ہے اور ان کی جادو والی اور کمسنی میں سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا والی روایات پر سخت تنقید کی ہے اور ھشام سے روایت کرنے پر اور امام بخاری کو زیرِ نقد و نظر لائے ہیں ؟؟؟؟
میں نے اپنے پاس سے کچھ نہیں کہا تھا انہی بزرگوں کے حوالے دیئے تھے۔
 
اب بزرگوں پر مت چلیں مجھے اختلاط کی تعریف بتائیں۔
اور یہ روایت اس سند سے تو ہے ہی نہیں۔
"اختلاط"
آپ ہی بتائیے۔۔۔ ہم تو جانتے نہیں
"اختلاط" "بخاری شریف" وغیرہ
ما ھی الا اسماء سمیتمھا ۔۔۔ کچھ نہیں ہیں یہ اصطلاحات ما سوائے چند خود ساختہ ناموں کے جو تم لوگوں نے اور تمہارے بزرگوں نے گھڑ رکھی ہیں جن کی کوئی بھی سند خدا نے نازل نہیں کی نہ ان پر ایمان لانا تقاضہ مسلمانی ہے۔ ہمارے لئے اللہ کی کتاب ہی کافی ہے جو مفصل ہے یعنی ہر امر کے تفصیلی اور فیصلہ کن تبیان کو کافی ہے۔
قلندر جز دو حرفِ لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
میں تو طفلِ مکتب ہونے کے ناطے سے "اختلاط" کے خلط مبحث میں نہیں پڑنا چاہتا ۔ میرے لئے تو ہے اقرار باللساں بھی بہت۔۔ میں تو آپ سے بھی سیکھنے کا متمنی ہوں ۔۔۔ مگر سرسید، احمد امین مصری، پرویز، علامہ مشرقی، امین احسن اصلاحی، پروفیسر رفیع اللہ شہاب، عمر احمد عثمانی، حبیب الرحمان کاندھلوی وغیرھم تو علم و حکمت میں ہما شما اور ہرکس و ناکس سے بہت آگے تھے اور کئی زمانوں کے استاد تھے بلکہ ہیں۔ ان کی تحقیقات کی بابت ہما شما کی رائے زنی داخلِ شوخ چشمی نہیں تو اور کیا ہے۔ اصطلاحاتِ ادبیاتِ حدیث تو رہیں دور کی بات محمد بن قاسم سندھ تک اور طارق بن زیاد سپین تک فتح کرنے کے باوجود آئمہ اربعہ کے تفقہ اور بخاری و مسلم کی شرافت ہی سے کیا نام تک سے ناواقف تھے اور سندھ سے سپین تک محض قرآن کے سہارے ہی چل رہے تھے۔۔۔ اب ہمیں کیا مصیبت پڑی ہے کہ ہم بخاری و مسلم کو اپنے گلے کا ہار بنا کر پھرا کریں اور اسے ایمانیات کی طرح لازم و ملزوم اور حرزِجاں خیال کریں۔ میں بخاری و مسلم پر ایمان لانے کا مکلف تو نہیں۔ محققین کے مطابق 3 واسطوں سے کم کی کوئی ایک بھی حدیث نہیں ہے ۔ براہِ راست کسی نے نہ آنحضرت ﷺ سے کچھ سنا نہ وہ دور دیکھا نہ صحابہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم سے۔ محض معدودے چند احادیث ہی ہیں جو تین واسطوں کی ہیں دیگر تمام کم از کم 5 واسطوں کی ہیں۔ یہاں آجکل بھی جب حسین نواز، نواز شریف اور میاں شریف کے 3 واسطوں سے پہنچی ہوئی روایات کا عدالتوں میں بھی سر پیر نہیں ملتا بلکہ قطری شہزادے کا جعلی خط پیش کرنا پڑتا ہے تو چودہ صدیوں پہلے کون سے ایسے وسائل تھے جن سے روایات منضبط و مدون ہوئیں یا کون سی ایسی عدالتیں تھیں جہاں روایات پر باقاعدہ جرح و تعدیل ہوئی۔ تمام محدثین کے نزدیک بھی حدیث قولِ رسول نہیں یعنی روایت باللفظ ہے ہی نہیں بلکہ احادیث تو اقوالِ راوی ہیں منسوب الی الرسول ﷺ ہیں اور روایت بالمعنی ہیں ۔ عن فلاں عن فلاں عن فلاں کرتے ہوئے جب قاری راوی تک پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے قال کہ اس راوی کا قول ہے کہ قال رسول اللہ ﷺ کہ راوی کے قول کے مطابق رسول ﷺ نے یوں فرمایا وغیرہ۔ گزشتہ کئی صدیوں سےعرب دنیا میں سرسید، علامہ مشرقی، علامہ اقبال پرویز اور غامدی صاحبان جیسے اعلیٰ و ارفع نابغہ ہائے روزگار عبقری عنقاء ہیں۔ عربوں کا حافظہ جیسا آج ہے سب کو معلوم ہے لہذا ازمنہ رفتہ کے عربوں کا حافظہ بھی یقینا ان سے مختلف نہ ہو گا اوپر سے رہی سہی کسر عجمی بتکدے کے کسی نیشاپوری نے نکال دی تو کسی بخاری نے۔ امام بخاری نے تنہا کئی لاکھ احادیث میں سے جن چند کو محض اپنی دانست میں درست قرار دیا کیا وہ واقعی کسی مجلسِ محققین نے درست قرار دی تھیں ؟؟
ذرا سی بات تھی اندیشہ عجم نے جسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لئے

معذرت کے ساتھ ایک مرتبہ پھر عرض ہے کہ اقبال کے مندرجہ ذیل اشعار پر اس بحث کو اب ختم ہی سمجھیے کہ
تمدن تصوف شریعت کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
 
نجانے تحقیق کو مذہب کی اساس پر ایک ضرب کیوں خیال کیا جاتا ہے. کیا تحقیق کی ساری ذمہ داری آئمہ کرام کے کندھوں پر ڈال کر امتِ محمدی بری الذمہ ہو گئی ہے؟ اگر واقعتًا قرآن کے بعد احادیث کی کچھ کتب پر تمام علماء کا اجماع ہے. تو پھر یہ فرقہ واریت کہاں کی پیداوار ہے.
کیا کسی بھی مسلمان کی دینی غیرت اور حمیت اس بات کی اجازت دے گی کہ ادنٰی سے ادنٰی درجہ میں بھی کوئی روایت یا قول جو حضورؐ سے منقول نہیں حدیث کا درجہ پا جائے یا کسی بھی حدیث کو اس کا سیاق و سباق بیان کئے بغیر آگے بڑھا دیا جائے. یقیناً نہیں.
تحقیق بدعت کب سے ہو گئی. خدا تو اپنی کتاب میں بھی غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے. کہ خدا کے بندوں کو جب اللہ کی آیات سے یاد دہانی کرائی جاتی ہے تو وہ ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے. اس رو سے دین کے دیگر ماخذ تو زیادہ احتیاط اور تحقیق کا تقاضا کرتے ہیں.
یہ درست ہے کہ دورِ جدید پر فتن ہے کیونکہ ہم اپنے اسلاف کی کوششوں پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں. انہوں نے جس نیک نیتی، دیانت داری اور دینی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف احادیث کو ہر جگہ سے اکھٹا کیا بلکہ اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی صحت کو پرکھنے کا بدرجہِ اتم انتظام بھی فرمایا. قران ہی کو کسوٹی مان کر اگر ان کی تحقیق کو مزید آگے بڑھایا جائے تو شاید فرقہ پرستی اور گروہ بندی سے نجات ممکن ہو سکے.
کسی بھی انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس تک دین اپنی مکمل اور اصل حالت میں پہنچے. قرآن ہمارے پاس اپنی مکمل اور اصل حالت میں موجود ہے. دیگر جو اختلافی مسائل ہیں وہ کہاں سے آئے ہیں. صرف نماز کو ہی لے لیجئے. کیا صف بندی نماز کا لازمی حصّہ ہے؟ نیّت کو زبان سے ادا کرنا بدعت ہے؟ رفع الدین کے بغیر کیا نماز نا مکمل ہے؟ کیا امام کے پیچھے سوره فاتحہ پڑھنی چاہیے یا نہیں؟ ہاتھ کہاں باندھنے ہیں ؟ تشہد میں انگلی اٹھانا یا مسلسل ہلاتے رہنا صحیح ہے؟ عورتوں اور مرد کے نماز ادا کرنے کے طریقہ کار میں آیا کوئی فرق ہے یا نہیں ؟ آمین کیا بلند آواز سے کہنی چاہیے؟ رکوع اور سجود کی درست پوزیشن کیا ہے؟ نماز ادا کرنے کے صحیح اوقات کیا ہیں، بالخصوص ظہر ، اور عصر کی اذانیں تو گھنٹہ گھنٹہ بھر کی تاخیر سے وقفے وقفے سے ہوتی رہتی ہیں. کئی مساجد میں جمعہ کی دو اذانیں کیوں ہوتی ہیں اور کئی میں ایک کیوں؟ یہ تو صرف نماز کا بیان ہے. حالانکہ یہ ایک متواتر عمل ہے. چودہ سو سال سے پریکٹس میں ہے. کسی زمانے میں رکا نہیں. دن میں 5 بار دہرایا جاتا ہے. کم از کم اس پر تو علماء کی رائے منقسم نہیں ہونی چاہیے تھی. دین کے دیگر شعبہ جات کی تو بات ہی رہنے دیجئے. آپ کو ہر مسئلے میں کئی قسم کے فتاویٰ ملیں گے. اور سبھی قرآن اور احادیث کے ہی حوالے دیں گے. کیا واقعی مزید تحقیق کے دروازے بند ہو چکے ہیں؟ آیا اب مذہب کو شیعہ، سنی، وہابی، بریلوی ، دیوبندی اور دیگر فرقوں میں بٹے رہنے دینا چاہیے؟ اگر نہیں تو ہمارے پاس جو بھی مذہبی مواد ہے اس پر مزید تحقیق کئے بغیر یہ کیسے ممکن ہے؟
پس از مدت نوائے مرغِ زار از شاخسار آمد
بہار آمد نگار آمد نگار آمد قرار آمد
الحمدللہ
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
 
اب بزرگوں پر مت چلیں مجھے اختلاط کی تعریف بتائیں۔
اور یہ روایت اس سند سے تو ہے ہی نہیں۔
میری دانست میں اختلاط خلط ملط ہونے کی کیفیت کا نام ہے جس سے بات گڈ مڈ یا مشتبہ ہو جائے اور ایسا فعل جس سے صادر ہو اسے مخطلط کہا جائے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میری دانست میں اختلاط خلط ملط ہونے کی کیفیت کا نام ہے جس سے بات گڈ مڈ یا مشتبہ ہو جائے اور ایسا فعل جس سے صادر ہو اسے مخطلط کہا جائے گا۔
ڈاکٹر صاحب آپ کے علامہ غلام احمد پرویز صاحب کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟ سوال یوں پوچھ لیا کہ آپ کی فکر پر انکی گہری چھاپ سی دکھائی دے رہی ہے! :)
 
ڈاکٹر صاحب آپ کے علامہ غلام احمد پرویز صاحب کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟ سوال یوں پوچھ لیا کہ آپ کی فکر پر انکی گہری چھاپ سی دکھائی دے رہی ہے! :)
سرسید، علامہ مشرقی، علامہ اقبال پرویز اور غامدی صاحبان جیسے اعلیٰ و ارفع نابغہ ہائے روزگار عبقری عنقاء ہیں۔
:)
 

فرقان احمد

محفلین
بہتر یہ ہے کہ

1۔ اشتراکات پر ہم سب اکھٹے ہو جائیں۔ مثال کے طور پر ایک اللہ کو ماننا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی ماننا۔
2۔ اختلافی امور پر علمی بحث تک محدود رہیں، مکتبہء ہائے فکر کی حد تک معاملہ درست ہے، جتھے بندیاں اور فرقہ بازیاں درست نہیں۔
3۔ اپنی زیادہ تر توجہ جدید دور میں درپیش مسائل پر مرکوز رکھیں؛ فروعی مسائل پر بحث مباحثے کا زیادہ فائدہ نہیں ہے۔

زیادہ تر اختلاف احادیث کے حوالے سے ہی سامنے آتا ہے۔ بعض انہیں اگلے وقتوں کا افسانہ قرار دیتے ہیں؛ بعض انہیں قرآنی آیات کے برابر یا کسی قدر کم مقام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ آیات و احادیث کی مختلف تعبیرات کے باعث بھی اختلافی مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔ اگر معاملہ اختلافات تک محدود رہے تو کوئی ایشو نہ ہے تاہم جب اس بنیاد پر فرقے تشکیل پاتے ہیں، جتھہ بندیاں سامنے آتی ہیں تو پھر خود کو سمیٹ لینے کا ہنر بھی آنا چاہیے۔ اس وقت ہم مذہبی حوالے سے تقسیم در تقسیم ہو چکے ہیں۔ اس کا حل یہ نہیں ہے کہ خود کو خاص معنوں میں 'قرآنی طرز فکر' کا حامل قرار دے کر علمی و تاریخی سرمائے سے دامن چھڑا لیا جائے۔ شاید اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ خود کو قرآنی طرز فکر کا حامل قرار دے کر اسلاف کی دینی خدمات سے پہلو تہی کر لی جائے۔ کیسے کیسے ذہین و فطین افراد صرف اس ایک وجہ سے ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بناتے رہے اور اب ان کی زندگی کا مقصد ہی غالباً احادیث کو افسانہ قرار دلوانا ہے۔ کم از کم میرے خیال میں، یہ مناسب رویہ نہیں۔
 

فاخر رضا

محفلین
یہ سب کچھ اس لئے کہ رہا ہے کہ اہل بیت کے دامن کو چھوڑ دیا ہے. اگر اہل بیت علیہم السلام کو مان لیتا تو اتنا نہ بھٹکتا. علی کے در کی گدائی کے بغیر شہر علم تک پہنچا نہیں جاسکتا. سر سید تو تیرہ سو سال بعد حجت ہیں مگر ائمہ اہل بیت اور ائمہ اہل سنت جو نبی کے دو تین سو سال کے عرصے سے تعلق رکھتے ہیں معتبر نہیں. ایسا بھٹکا ہوا آدمی پرویز کا مقلد ہی ہوسکتا ہے. میں نے پہلے ہی لکھا تھا کہ شیطان جب حلول کرجائے تو پھر کوئی حدیث اور کوئی آیت ہدایت نہیں کرسکتی
 

فرقان احمد

محفلین
یہ سب کچھ اس لئے کہ رہا ہے کہ اہل بیت کے دامن کو چھوڑ دیا ہے. اگر اہل بیت علیہم السلام کو مان لیتا تو اتنا نہ بھٹکتا. علی کے در کی گدائی کے بغیر شہر علم تک پہنچا نہیں جاسکتا. سر سید تو تیرہ سو سال بعد حجت ہیں مگر ائمہ اہل بیت اور ائمہ اہل سنت جو نبی کے دو تین سو سال کے عرصے سے تعلق رکھتے ہیں معتبر نہیں. ایسا بھٹکا ہوا آدمی پرویز کا مقلد ہی ہوسکتا ہے. میں نے پہلے ہی لکھا تھا کہ شیطان جب حلول کرجائے تو پھر کوئی حدیث اور کوئی آیت ہدایت نہیں کرسکتی
بھیا! یہ آپ کی رائے ہے جس سے شاید کسی حد تک اختلاف کی گنجائش ممکن ہے۔ کم از کم میرا تبصرہ عمومی نوعیت کا ہے اور ضیاء اللہ ضیاء صاحب کے بارے میں حتمیت اور قطعیت کے ساتھ رائے دینا میری اوقات سے باہر کا معاملہ ہے۔ آپ سے بھی یہی گزارش ہے کہ تبصرہ کرتے ہوئے زیادہ سخت زبان استعمال نہ فرمائیں۔ اہل بیت سے اس قدر انسیت ہے تو پھر لہجہ بھی شیریں رکھیں تاکہ آپ کی بات میں زیادہ اثر پیدا ہو۔ شکریہ۔
 
ڈاکٹر صاحب آپ کے علامہ غلام احمد پرویز صاحب کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟ سوال یوں پوچھ لیا کہ آپ کی فکر پر انکی گہری چھاپ سی دکھائی دے رہی ہے! :)
پرویز صاحب ہر انسان کی طرح بہت سی غیرمعمولی خوبیوں اور کئی سنگین خامیوں کا مرقع تھے۔ آپ کی خوبیوں میں توحیدِ خالص ، محبتِ رسول ﷺ ، تحفظِ ناموسِ رسالت ،روایات و خرافات پر نقد ونظر، فرقوں سے آزاد تحقیقی زاویہ نگاہ، تبحرِ علمی و وسعتِ مطالعہ، رفعتِ خیال، ندرتِ فکر، ادبیات میں یدِ طولیٰ ، رجوع الی القرآن، علمبردارئ حاکمیتِ کتاب اللہ اور نظامِ ربوبیت سمیت کئی منفرد اور امتیازی خصائص تھے۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
آپ کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ خود قرآن کی قرآن سے تفسیر کا نام لے کر کئی مواقع پر اپنے زمانہ کی رعایت اور اپنی مطلب براری کے لئے آیاتِ الہی میں معنوی تحریف کے نادانستہ طور پر مرتکب ہوئے اور کئی قرآنی معجزات کو بھی غلط معانی پہنائے۔ یہی معاملہ آپ نے احادیث اور سنت کے معاملہ میں بھی روا رکھا۔ "نادانستہ" اس لئے کہا ہےکہ اسلام، قرآن، نبئ اکرم ﷺ اور پاکستان کے لئے جنابِ پرویز کی محبت اور خلوص تمام شکوک و شبہات سے ہمیشہ بالاتر رہا ہے۔
خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را
 
Top