اب بزرگوں پر مت چلیں مجھے اختلاط کی تعریف بتائیں۔
اور یہ روایت اس سند سے تو ہے ہی نہیں۔
"اختلاط"
آپ ہی بتائیے۔۔۔ ہم تو جانتے نہیں
"اختلاط" "بخاری شریف" وغیرہ
ما ھی الا اسماء سمیتمھا ۔۔۔ کچھ نہیں ہیں یہ اصطلاحات ما سوائے چند خود ساختہ ناموں کے جو تم لوگوں نے اور تمہارے بزرگوں نے گھڑ رکھی ہیں جن کی کوئی بھی سند خدا نے نازل نہیں کی نہ ان پر ایمان لانا تقاضہ مسلمانی ہے۔ ہمارے لئے اللہ کی کتاب ہی کافی ہے جو مفصل ہے یعنی ہر امر کے تفصیلی اور فیصلہ کن تبیان کو کافی ہے۔
قلندر جز دو حرفِ لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
میں تو طفلِ مکتب ہونے کے ناطے سے "اختلاط" کے خلط مبحث میں نہیں پڑنا چاہتا ۔ میرے لئے تو ہے اقرار باللساں بھی بہت۔۔ میں تو آپ سے بھی سیکھنے کا متمنی ہوں ۔۔۔ مگر سرسید، احمد امین مصری، پرویز، علامہ مشرقی، امین احسن اصلاحی، پروفیسر رفیع اللہ شہاب، عمر احمد عثمانی، حبیب الرحمان کاندھلوی وغیرھم تو علم و حکمت میں ہما شما اور ہرکس و ناکس سے بہت آگے تھے اور کئی زمانوں کے استاد تھے بلکہ ہیں۔ ان کی تحقیقات کی بابت ہما شما کی رائے زنی داخلِ شوخ چشمی نہیں تو اور کیا ہے۔ اصطلاحاتِ ادبیاتِ حدیث تو رہیں دور کی بات محمد بن قاسم سندھ تک اور طارق بن زیاد سپین تک فتح کرنے کے باوجود آئمہ اربعہ کے تفقہ اور بخاری و مسلم کی شرافت ہی سے کیا نام تک سے ناواقف تھے اور سندھ سے سپین تک محض قرآن کے سہارے ہی چل رہے تھے۔۔۔ اب ہمیں کیا مصیبت پڑی ہے کہ ہم بخاری و مسلم کو اپنے گلے کا ہار بنا کر پھرا کریں اور اسے ایمانیات کی طرح لازم و ملزوم اور حرزِجاں خیال کریں۔ میں بخاری و مسلم پر ایمان لانے کا مکلف تو نہیں۔ محققین کے مطابق 3 واسطوں سے کم کی کوئی ایک بھی حدیث نہیں ہے ۔ براہِ راست کسی نے نہ آنحضرت ﷺ سے کچھ سنا نہ وہ دور دیکھا نہ صحابہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم سے۔ محض
معدودے چند احادیث ہی ہیں جو تین واسطوں کی ہیں دیگر تمام کم از کم 5 واسطوں کی ہیں۔ یہاں آجکل بھی جب حسین نواز، نواز شریف اور میاں شریف کے 3 واسطوں سے پہنچی ہوئی روایات کا عدالتوں میں بھی سر پیر نہیں ملتا بلکہ قطری شہزادے کا جعلی خط پیش کرنا پڑتا ہے تو چودہ صدیوں پہلے کون سے ایسے وسائل تھے جن سے روایات منضبط و مدون ہوئیں یا کون سی ایسی عدالتیں تھیں جہاں روایات پر باقاعدہ جرح و تعدیل ہوئی۔ تمام محدثین کے نزدیک بھی حدیث قولِ رسول نہیں یعنی روایت باللفظ ہے ہی نہیں بلکہ احادیث تو اقوالِ راوی ہیں منسوب الی الرسول ﷺ ہیں اور روایت بالمعنی ہیں ۔ عن فلاں عن فلاں عن فلاں کرتے ہوئے جب قاری راوی تک پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے قال کہ اس راوی کا قول ہے کہ قال رسول اللہ ﷺ کہ راوی کے قول کے مطابق رسول ﷺ نے یوں فرمایا وغیرہ۔ گزشتہ کئی صدیوں سےعرب دنیا میں سرسید، علامہ مشرقی، علامہ اقبال پرویز اور غامدی صاحبان جیسے اعلیٰ و ارفع نابغہ ہائے روزگار عبقری عنقاء ہیں۔ عربوں کا حافظہ جیسا آج ہے سب کو معلوم ہے لہذا ازمنہ رفتہ کے عربوں کا حافظہ بھی یقینا ان سے مختلف نہ ہو گا اوپر سے رہی سہی کسر عجمی بتکدے کے کسی نیشاپوری نے نکال دی تو کسی بخاری نے۔ امام بخاری نے تنہا کئی لاکھ احادیث میں سے جن چند کو محض اپنی دانست میں درست قرار دیا کیا وہ واقعی کسی مجلسِ محققین نے درست قرار دی تھیں ؟؟
ذرا سی بات تھی اندیشہ عجم نے جسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لئے
معذرت کے ساتھ ایک مرتبہ پھر عرض ہے کہ اقبال کے مندرجہ ذیل اشعار پر اس بحث کو اب ختم ہی سمجھیے کہ
تمدن تصوف شریعت کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی