ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ
محفلین
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہےیہ سب کچھ اس لئے کہ رہا ہے کہ اہل بیت کے دامن کو چھوڑ دیا ہے. اگر اہل بیت علیہم السلام کو مان لیتا تو اتنا نہ بھٹکتا. علی کے در کی گدائی کے بغیر شہر علم تک پہنچا نہیں جاسکتا. سر سید تو تیرہ سو سال بعد حجت ہیں مگر ائمہ اہل بیت اور ائمہ اہل سنت جو نبی کے دو تین سو سال کے عرصے سے تعلق رکھتے ہیں معتبر نہیں. ایسا بھٹکا ہوا آدمی پرویز کا مقلد ہی ہوسکتا ہے. میں نے پہلے ہی لکھا تھا کہ شیطان جب حلول کرجائے تو پھر کوئی حدیث اور کوئی آیت ہدایت نہیں کرسکتی
کوئی بتاؤ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
برادرم! ہم اور آپ سب سے پہلے اولادِ آدم ہیں ۔اہلِ بیت بھی اولادِ آدم ہی ہیں ہما شما کے ہم جنس، لعبتانِ خاک۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ آدم سے بات شروع کریں تو ہم سب ایک ہی ہیں۔۔۔ خاک کے پتلے۔ دیگر ابنائے جنس سے کسی خاص گروہ کو نسلی بنیاد پر امتیاز دینا نسل پرستی ہے۔ جاہلیت کے یہ تمام غرور حجة الوداع کے موقع پر آنحضرتﷺ نے مٹا دیے تھے کہ عرب وعجم کی ایک دوسرے پر برتری کو اپنے مقدس قدموں تلے پیوندِ خاک کر دیا تھا۔ اگر نسل ہی کی تقدیم مقصود ہوتی تو یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیھم السلام کی نسل یعنی بنی اسرائیل سینکڑوں پیغمبروں کی نسل ہونے پر بنی اسماعیل سے نسبتوں میں کہیں زیادہ معتبر ہونے کے باعث افضل ٹھہرتی۔ جنابِ من قرآن اٹھا لیجیئے وہاں شعوب و قبائل کو صرف پہچان کا ذریعہ بتایا ہےتفاخر کا نہیں۔ اسی قرآن میں جہاں لفظ اہل بیت آیا ہے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ اس سے مراد نبئ محترم ﷺ کی گھروالیاں یعنی ازواجِ مطہرات یعنی آپ کی اور ہماری مائیں یعنی امہات المومنین ؓ مراد ہیں۔ اس سے کوئی بھی اور مطلب اخذ کرنا محض ضمناً ہی ہو سکتاہے۔ اگر اہلِ بیت سے مراد آپ آنحضرت ﷺ کی صاحبزادیوں کی اولاد بھی لیں تو پھر تو محققین کے مطابق ساداتِ بنی فاطمہ کے ساتھ ساتھ ساداتِ بنی رقیہ کا ذکر بھی لازم ہے کیونکہ محققین کے نزدیک سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا کے بطن سے سیدنا عثمان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے 2 صاحبزادے عبداللہ اکبر اورعبداللہ اصغر تھے جن میں سے ایک کی کمسنی میں وفات ہو گئی تھی جبکہ دوسرے سے جو نسل چلی انہیں ساداتِ بنی رقیہ کہا جاتا ہے۔ اگر سیدہ فاطمہ و سیدنا علی رضوان اللہ علیھما کی اولاد اہلِ بیت ہے تو پھر ساداتِ بنی رقیہ کو کیوں خارج کیا جائے۔ آخر کو عثمان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بھی تو قریش سے ہونے کے ناطے آنحضرت ﷺ ہی کے خاندان سے تھے۔ ہاشمیوں اور امویوں کا آخر کو ایک ہی سلسلہ نسب تھا۔ باقی رہی سیدنا علی ؓ کے مدینة العلم کےباب ہونے کا معاملہ تو محققین کے نزدیک یہ حدیث ہے ہی نہیں اور نہ کسی معتبر و مستند کتاب میں درج ہے بلکہ قطعا من گھڑت ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نسل پرستی ایک لعنت ہے اور ہم سب ایک ہی نسل سے اور ایک ہی مٹی سے ہیں۔ انسان اور انسان میں مٹی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ ارشاد ِ رسول ﷺ کا مفہوم یہ ہے کہ ہم سب اولادِ آدم ہیں اور آدم مٹی سے بے تھے۔ جس مٹی سے آپ اور ہم ہیں اسی مٹی سے ہمارے وہ سب بزرگ ہیں جنہیں ہم بت بنا کر پوجتے ہیں اور اکیسویں صدی میں پہنچ کر بھی ان بتوں کے طوق اپنی گردنوں میں نسل پرستی کی نشانی بنا کر ڈالے ہوئے ہیں۔