کلام ضیاء مجبوری

یہ سب کچھ اس لئے کہ رہا ہے کہ اہل بیت کے دامن کو چھوڑ دیا ہے. اگر اہل بیت علیہم السلام کو مان لیتا تو اتنا نہ بھٹکتا. علی کے در کی گدائی کے بغیر شہر علم تک پہنچا نہیں جاسکتا. سر سید تو تیرہ سو سال بعد حجت ہیں مگر ائمہ اہل بیت اور ائمہ اہل سنت جو نبی کے دو تین سو سال کے عرصے سے تعلق رکھتے ہیں معتبر نہیں. ایسا بھٹکا ہوا آدمی پرویز کا مقلد ہی ہوسکتا ہے. میں نے پہلے ہی لکھا تھا کہ شیطان جب حلول کرجائے تو پھر کوئی حدیث اور کوئی آیت ہدایت نہیں کرسکتی
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
کوئی بتاؤ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
برادرم! ہم اور آپ سب سے پہلے اولادِ آدم ہیں ۔اہلِ بیت بھی اولادِ آدم ہی ہیں ہما شما کے ہم جنس، لعبتانِ خاک۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ آدم سے بات شروع کریں تو ہم سب ایک ہی ہیں۔۔۔ خاک کے پتلے۔ دیگر ابنائے جنس سے کسی خاص گروہ کو نسلی بنیاد پر امتیاز دینا نسل پرستی ہے۔ جاہلیت کے یہ تمام غرور حجة الوداع کے موقع پر آنحضرتﷺ نے مٹا دیے تھے کہ عرب وعجم کی ایک دوسرے پر برتری کو اپنے مقدس قدموں تلے پیوندِ خاک کر دیا تھا۔ اگر نسل ہی کی تقدیم مقصود ہوتی تو یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیھم السلام کی نسل یعنی بنی اسرائیل سینکڑوں پیغمبروں کی نسل ہونے پر بنی اسماعیل سے نسبتوں میں کہیں زیادہ معتبر ہونے کے باعث افضل ٹھہرتی۔ جنابِ من قرآن اٹھا لیجیئے وہاں شعوب و قبائل کو صرف پہچان کا ذریعہ بتایا ہےتفاخر کا نہیں۔ اسی قرآن میں جہاں لفظ اہل بیت آیا ہے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ اس سے مراد نبئ محترم ﷺ کی گھروالیاں یعنی ازواجِ مطہرات یعنی آپ کی اور ہماری مائیں یعنی امہات المومنین ؓ مراد ہیں۔ اس سے کوئی بھی اور مطلب اخذ کرنا محض ضمناً ہی ہو سکتاہے۔ اگر اہلِ بیت سے مراد آپ آنحضرت ﷺ کی صاحبزادیوں کی اولاد بھی لیں تو پھر تو محققین کے مطابق ساداتِ بنی فاطمہ کے ساتھ ساتھ ساداتِ بنی رقیہ کا ذکر بھی لازم ہے کیونکہ محققین کے نزدیک سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا کے بطن سے سیدنا عثمان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے 2 صاحبزادے عبداللہ اکبر اورعبداللہ اصغر تھے جن میں سے ایک کی کمسنی میں وفات ہو گئی تھی جبکہ دوسرے سے جو نسل چلی انہیں ساداتِ بنی رقیہ کہا جاتا ہے۔ اگر سیدہ فاطمہ و سیدنا علی رضوان اللہ علیھما کی اولاد اہلِ بیت ہے تو پھر ساداتِ بنی رقیہ کو کیوں خارج کیا جائے۔ آخر کو عثمان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بھی تو قریش سے ہونے کے ناطے آنحضرت ﷺ ہی کے خاندان سے تھے۔ ہاشمیوں اور امویوں کا آخر کو ایک ہی سلسلہ نسب تھا۔ باقی رہی سیدنا علی ؓ کے مدینة العلم کےباب ہونے کا معاملہ تو محققین کے نزدیک یہ حدیث ہے ہی نہیں اور نہ کسی معتبر و مستند کتاب میں درج ہے بلکہ قطعا من گھڑت ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نسل پرستی ایک لعنت ہے اور ہم سب ایک ہی نسل سے اور ایک ہی مٹی سے ہیں۔ انسان اور انسان میں مٹی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ ارشاد ِ رسول ﷺ کا مفہوم یہ ہے کہ ہم سب اولادِ آدم ہیں اور آدم مٹی سے بے تھے۔ جس مٹی سے آپ اور ہم ہیں اسی مٹی سے ہمارے وہ سب بزرگ ہیں جنہیں ہم بت بنا کر پوجتے ہیں اور اکیسویں صدی میں پہنچ کر بھی ان بتوں کے طوق اپنی گردنوں میں نسل پرستی کی نشانی بنا کر ڈالے ہوئے ہیں۔
 
میرا خیال ہے کہ بزم سخن کو شاعری اور اس سے متعلقہ موضوع تک ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ اور اسلامی بحث کو کسی اور لڑی میں رکھا جائے تو بہتر ہے-

سب اولادِ آدم ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہر کوئی مرتبے کے لحاظ سے ایک جیسا ہے۔ کسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے کو کسی سے بہتر جانے اور ایسا بھی نہیں کہ سب ایک جیسے ہیں کہہ کر دوسروں کے مرتبے کا انکار کیا جائے۔
جسے آپ نسل پرستی کا نام دے رہیں ہیں وہ نسل پرستی نہیں ایمان کا حصہ ہے۔ سب برابر ہیں تو نماز میں آلِ محمد پر درود نہ پڑھا جائے تو نماز نہیں ہوتی۔ اور قرآن میں آلِ یسین پر سلام بھیجا گیا ہے۔
اس لئے مرتبے خدا کے ہاں طے ہوتے ہیں ۔ آپ ہرچیز سے انکاری نہیں ہو سکتے۔ برائے مہربانی ہر چیز کا فیصلہ آپ اپنے اوپر ہی فرض نہ کر لیں۔

اس بزم سخن مذہبی بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف سخنوری پر بحث ہو تو زیادہ بہتر ہے۔

بشمول میرے ہر کسی سے درخواست ہے کہ ایسی بحث سے پرہیز کریں جس سے دوسروں کی دل آزاری ہوتی ہے۔
اگر شاعر بھی دوسروں کی دل آزاری کر سکتا ہے تو پھر اس کے بعد اور کیا بات کرنے کو رہ جاتی ہے
 
میرا خیال ہے کہ بزم سخن کو شاعری اور اس سے متعلقہ موضوع تک ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ اور اسلامی بحث کو کسی اور لڑی میں رکھا جائے تو بہتر ہے-

سب اولادِ آدم ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہر کوئی مرتبے کے لحاظ سے ایک جیسا ہے۔ کسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے کو کسی سے بہتر جانے اور ایسا بھی نہیں کہ سب ایک جیسے ہیں کہہ کر دوسروں کے مرتبے کا انکار کیا جائے۔
جسے آپ نسل پرستی کا نام دے رہیں ہیں وہ نسل پرستی نہیں ایمان کا حصہ ہے۔ سب برابر ہیں تو نماز میں آلِ محمد پر درود نہ پڑھا جائے تو نماز نہیں ہوتی۔ اور قرآن میں آلِ یسین پر سلام بھیجا گیا ہے۔
اس لئے مرتبے خدا کے ہاں طے ہوتے ہیں ۔ آپ ہرچیز سے انکاری نہیں ہو سکتے۔ برائے مہربانی ہر چیز کا فیصلہ آپ اپنے اوپر ہی فرض نہ کر لیں۔

اس بزم سخن مذہبی بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف سخنوری پر بحث ہو تو زیادہ بہتر ہے۔

بشمول میرے ہر کسی سے درخواست ہے کہ ایسی بحث سے پرہیز کریں جس سے دوسروں کی دل آزاری ہوتی ہے۔
اگر شاعر بھی دوسروں کی دل آزاری کر سکتا ہے تو پھر اس کے بعد اور کیا بات کرنے کو رہ جاتی ہے
آپ نے درست فرمایا کہ سخنوری کو سخنوری ہی کی حد تک محدود رہنا چاہیے مگر اس کا کیا کیجیے کہ
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
نقد و نظر کا سلسلہ اسلوبِ زبان و بیان تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ بین السطور نظریات پر بحث بھی ہوتی ہے۔ شاعر کسی کی دلآزاری نہیں کرتا تو ہجو کس صنفِ سخن کا نام ہے اور اقبال بندہ گستاخ کیوں ہے کہ جس کی تلخ نوائی صوفی و ملا کے سرِ دامن کو چاک کئے دیتی ہے۔ دلآزاری نہ ہونے کا فلسفہ کیا باطل نظریات و عقائد پر آزادنہ تحقیق میں مانع تو نہیں ہے ؟
جس طرح قرآن میں آلِ فرعون سے مراد اولادِ فرعون نہیں بعینہ آلِ محمد ﷺ سے مراد بھی اہلِ علم و تحقیق اولادِ محمد ﷺ نہیں لیتے۔ ایسا محض عوام میں مشہور اور غلط العام ہے۔ جس طرح اہلِ بیت سے قرآن کے سیاق و سباق کے مطابق اصلا مراد امہات المومنین یعنی نبئ محترم ﷺ کی ازواجِ مطہرات ہیں اور آیتِ تطہیر بھی انہی کے ضمن میں ہے بعینیہ آلِ محمد ﷺ سے مراد محمد ﷺ کے تمام ساتھی درجہ بدرجہ موجودہ امتِ مسلمہ تک ہیں یعنی اس لفظ آل میں محدودیت نہیں بلکہ یہ جامعیت کا ایک استعارہ ہے۔ آپ اور ہم بھی اسی آلِ محمد ﷺ کا حصہ ہیں اور درود بھی نبئ محترم ﷺ کے تمام وابستگان پر ہے کہ آل سے یہی مراد ہے۔ از روئے قرآن توھوالذی یصلی علیکم و ملائکتہ وہ تو وہ ذات ہے کہ وہ اور اس کے فرشتے اے مومنوں تم پر صلوٰة بھیجتےہیں۔ حسنینِ کریمین رضی اللّٰہ تعالٰی علیھما تو اولادِ علیؓ ہونے کے ناطے سے آپ کے تصورِ آل کی رو سے آلِ ابوطالب ہیں۔ اگر آل کا یہی تصور ہے کہ عام دستورِ انسانیت کے برعکس اولاد بیٹی سے چلتی ہے تو پھر ساداتِ بنی رقیہ بھی تو آلِ محمد ﷺ ہی ہیں جن کی نسلِ مبارک حبشہ ، ملتان اور آزاد کشمیر میں اب تک بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔ مثلا مظفر آباد جن سلطان سید مظفرالدین کے نام پر ہے وہ بھی نبئ محترم ﷺ کی صاحبزادی سیدہ رقیہ ؓ کی اولاد تھے یعنی سیدنا عثمان ؓ کی نسل سے جن کو ذوالنورین کا لقب عطا ہوا۔
کتاب ساداتِ بنی رقیہؓ کے مطابق ملتان کے بزرگ شاہ رکن عالم وغیرہ کا سلسلہ بھی اسی ساداتِ بنی رقیہ ؓ سے ملتا ہے۔ اس تحقیقی کتاب میں تمام سلسلہ ہائے انساب بڑی شرح و بسط سے لکھے ہیں جو ان خاندانوں کے پاس آج تک محفوظ چلے آتے ہیں۔ لہذا نہ تو آل کا لفظ محدود ہے اور نہ سادات محض بنی فاطمہ ؓ ہیں کیونکہ ساداتِ بنی رقیہؓ بھی کرہ ارض پر جگمگا رہے ہیں۔
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگئ داماں بھی ہے
 
آپ نے درست فرمایا کہ سخنوری کو سخنوری ہی کی حد تک محدود رہنا چاہیے مگر اس کا کیا کیجیے کہ
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
نقد و نظر کا سلسلہ اسلوبِ زبان و بیان تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ بین السطور نظریات پر بحث بھی ہوتی ہے۔ شاعر کسی کی دلآزاری نہیں کرتا تو ہجو کس صنفِ سخن کا نام ہے اور اقبال بندہ گستاخ کیوں ہے کہ جس کی تلخ نوائی صوفی و ملا کے سرِ دامن کو چاک کئے دیتی ہے۔ دلآزاری نہ ہونے کا فلسفہ کیا باطل نظریات و عقائد پر آزادنہ تحقیق میں مانع تو نہیں ہے ؟
جس طرح قرآن میں آلِ فرعون سے مراد اولادِ فرعون نہیں بعینہ آلِ محمد ﷺ سے مراد بھی اہلِ علم و تحقیق اولادِ محمد ﷺ نہیں لیتے۔ ایسا محض عوام میں مشہور اور غلط العام ہے۔ جس طرح اہلِ بیت سے قرآن کے سیاق و سباق کے مطابق اصلا مراد امہات المومنین یعنی نبئ محترم ﷺ کی ازواجِ مطہرات ہیں اور آیتِ تطہیر بھی انہی کے ضمن میں ہے بعینیہ آلِ محمد ﷺ سے مراد محمد ﷺ کے تمام ساتھی درجہ بدرجہ موجودہ امتِ مسلمہ تک ہیں یعنی اس لفظ آل میں محدودیت نہیں بلکہ یہ جامعیت کا ایک استعارہ ہے۔ آپ اور ہم بھی اسی آلِ محمد ﷺ کا حصہ ہیں اور درود بھی نبئ محترم ﷺ کے تمام وابستگان پر ہے کہ آل سے یہی مراد ہے۔ از روئے قرآن توھوالذی یصلی علیکم و ملائکتہ وہ تو وہ ذات ہے کہ وہ اور اس کے فرشتے اے مومنوں تم پر صلوٰة بھیجتےہیں۔ حسنینِ کریمین رضی اللّٰہ تعالٰی علیھما تو اولادِ علیؓ ہونے کے ناطے سے آپ کے تصورِ آل کی رو سے آلِ ابوطالب ہیں۔ اگر آل کا یہی تصور ہے کہ عام دستورِ انسانیت کے برعکس اولاد بیٹی سے چلتی ہے تو پھر ساداتِ بنی رقیہ بھی تو آلِ محمد ﷺ ہی ہیں جن کی نسلِ مبارک حبشہ ، ملتان اور آزاد کشمیر میں اب تک بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔ مثلا مظفر آباد جن سلطان سید مظفرالدین کے نام پر ہے وہ بھی نبئ محترم ﷺ کی صاحبزادی سیدہ رقیہ ؓ کی اولاد تھے یعنی سیدنا عثمان ؓ کی نسل سے جن کو ذوالنورین کا لقب عطا ہوا۔
کتاب ساداتِ بنی رقیہؓ کے مطابق ملتان کے بزرگ شاہ رکن عالم وغیرہ کا سلسلہ بھی اسی ساداتِ بنی رقیہ ؓ سے ملتا ہے۔ اس تحقیقی کتاب میں تمام سلسلہ ہائے انساب بڑی شرح و بسط سے لکھے ہیں جو ان خاندانوں کے پاس آج تک محفوظ چلے آتے ہیں۔ لہذا نہ تو آل کا لفظ محدود ہے اور نہ سادات محض بنی فاطمہ ؓ ہیں کیونکہ ساداتِ بنی رقیہؓ بھی کرہ ارض پر جگمگا رہے ہیں۔
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگئ داماں بھی ہے
مزید برآں یہ کہ آل وال کہاں ایمانیات میں شامل ہے ؟ قرآنِ مجید میں اجزائے ایمان اصلا تمام انسانوں یعنی صابئین، نصاری و یہود وغیرہ کے لئے کم از کم ایمان باللہ اور ایمان بالآخرة ہیں جس پر لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون کا مژدہ جانفزا سب کو عمومی طور پر سنا دیا گیا ہے۔ جہاں ایمان کا تفصیلی ذکر اکٹھا ہے وہاں بھی اجزائے ایمان صرف اللہ ، یومِ آخرت، ملائکہ ، کتب اور رسالت ہی ہیں۔ باقی سب کچھ عجمی اختراعات ہیں
ذرا سی بات تھی اندیشہ عجم نے جسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لئے
 
مزید برآں یہ کہ آل وال کہاں ایمانیات میں شامل ہے ؟ قرآنِ مجید میں اجزائے ایمان اصلا تمام انسانوں یعنی صابئین، نصاری و یہود وغیرہ کے لئے کم از کم ایمان باللہ اور ایمان بالآخرة ہیں جس پر لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون کا مژدہ جانفزا سب کو عمومی طور پر سنا دیا گیا ہے۔ جہاں ایمان کا تفصیلی ذکر اکٹھا ہے وہاں بھی اجزائے ایمان صرف اللہ ، یومِ آخرت، ملائکہ ، کتب اور رسالت ہی ہیں۔ باقی سب کچھ عجمی اختراعات ہیں
ذرا سی بات تھی اندیشہ عجم نے جسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لئے
مزید برآں نماز کہاں آل پر درود کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ محققین کے نزدیک تشہد پر نماز کی تکمیل ہو جاتی ہے جس کے بعد آپ اٹھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امامِ کعبہ ابھی تشہد سے فارغ ہی ہوتے ہیں کہ اہلِ عرب نماز ختم ہونے سے پہلے ہی سرگرمِ طواف ہو جاتے ہیں۔
کمالِ جوشِ جنوں میں رہا میں گرمِ طواف
خدا کا شکر سلامت رہا حرم کا غلاف
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لئے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
 
مزید برآں نماز کہاں آل پر درود کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ محققین کے نزدیک تشہد پر نماز کی تکمیل ہو جاتی ہے جس کے بعد آپ اٹھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امامِ کعبہ ابھی تشہد سے فارغ ہی ہوتے ہیں کہ اہلِ عرب نماز ختم ہونے سے پہلے ہی سرگرمِ طواف ہو جاتے ہیں۔
کمالِ جوشِ جنوں میں رہا میں گرمِ طواف
خدا کا شکر سلامت رہا حرم کا غلاف
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لئے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
نماز میں درود ابراہیمی
نماز میں تشہد کے بعد پڑھے جانے والے درود ابراہیمی کی اصل حقیقت کیا ہے؟
درود ابراہیمی اللہ تعالیٰ کے حضور میں ایک دعا ہے جو ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کرتے ہیں۔ نماز میں چونکہ بہت سی دعائیں کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے، اس لیے آپ جو چاہیں دعا کریں۔ روایتوں میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم آپ کے لیے بھی دعا کرنا چاہتے ہیں تو کیا طریقہ اختیار کریں؟ آپ خاموش رہے۔ جب بار بار پوچھا تو پھر آپ نے کچھ کلمات ارشاد فرمائے اور کہا کہ میرے لیے اس طرح دعا کر لیا کرو۔ یہی کلمات درود ابراہیمی ہیں۔
درود ابراہیمی نماز کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ نماز اس کے بغیر بھی ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ تشہد بھی نماز کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ نماز کے لازمی اذکار سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ قرآن ملاکر پڑھنا ہے۔ اور خفض ورفع پر 'اللّٰه اکبر' کہنا، 'سمع اللّٰه لمن حمده 'کہنا 'السلام عليکم ورحمة اللّه ' کہنا ہے۔ باقی آپ کو اجازت ہے آپ اس میں جو دعا چاہیں کر سکتے ہیں۔ (اگست ٢٠٠٤)

answered by: Javed Ahmad Ghamidi
 

ربیع م

محفلین
نماز میں درود ابراہیمی
نماز میں تشہد کے بعد پڑھے جانے والے درود ابراہیمی کی اصل حقیقت کیا ہے؟
درود ابراہیمی اللہ تعالیٰ کے حضور میں ایک دعا ہے جو ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کرتے ہیں۔ نماز میں چونکہ بہت سی دعائیں کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے، اس لیے آپ جو چاہیں دعا کریں۔ روایتوں میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم آپ کے لیے بھی دعا کرنا چاہتے ہیں تو کیا طریقہ اختیار کریں؟ آپ خاموش رہے۔ جب بار بار پوچھا تو پھر آپ نے کچھ کلمات ارشاد فرمائے اور کہا کہ میرے لیے اس طرح دعا کر لیا کرو۔ یہی کلمات درود ابراہیمی ہیں۔
درود ابراہیمی نماز کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ نماز اس کے بغیر بھی ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ تشہد بھی نماز کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ نماز کے لازمی اذکار سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ قرآن ملاکر پڑھنا ہے۔ اور خفض ورفع پر 'اللّٰه اکبر' کہنا، 'سمع اللّٰه لمن حمده 'کہنا 'السلام عليکم ورحمة اللّه ' کہنا ہے۔ باقی آپ کو اجازت ہے آپ اس میں جو دعا چاہیں کر سکتے ہیں۔ (اگست ٢٠٠٤)

answered by: Javed Ahmad Ghamidi
آپ کا بھی یہی موقف ہے؟
 
آپ کا بھی یہی موقف ہے؟
میں نماز میں خود لازماً درود شریف پڑھتا ہوں اوراس کے بغیر ویسے بھی مجھے نماز ہو یا دعا دل سے ادھوری معلوم دیتی ہے۔ البتہ حقیقت وہی ہے جس کو غامدی صاحب نے بیان فرمایا ہے۔ مدتوں پہلے غالبا 1999 کے سال میں میں براہِ راست بھی غامدی صاحب سے اس ضمن میں استفادہ کر چکا ہوں۔ لیکن درود شریف کے بغیر نماز اور دعا وغیرہ میں مجھے ادھورے پن کا احساس دامن گیر رہتا ہے کیونکہ ہمیں قرآن اور رحمان جس ہستی کے توسط و توسل سے ملا اسی پر درود نہ بھیجا جائے توتشفی نہیں ہوتی ۔شاید یہ نکتہ نظر میرے والدین اور بزرگوں کے فیضانِ نظر اور تربیت کا نتیجہ ہے مگر پھر بھی حقیقت وہی ہے جو غامدی اور پرویز صاحب وغیرہ جیسے محققین کا موقف ہے۔
 

ربیع م

محفلین
میں نماز میں خود لازماً درود شریف پڑھتا ہوں اوراس کے بغیر ویسے بھی مجھے نماز ہو یا دعا دل سے ادھوری معلوم دیتی ہے۔ البتہ حقیقت وہی ہے جس کو غامدی صاحب نے بیان فرمایا ہے۔ مدتوں پہلے غالبا 1999 کے سال میں میں براہِ راست بھی غامدی صاحب سے اس ضمن میں استفادہ کر چکا ہوں۔ لیکن درود شریف کے بغیر نماز اور دعا وغیرہ میں مجھے ادھورے پن کا احساس دامن گیر رہتا ہے کیونکہ ہمیں قرآن اور رحمان جس ہستی کے توسط و توسل سے ملا اسی پر درود نہ بھیجا جائے توتشفی نہیں ہوتی ۔شاید یہ نکتہ نظر میرے والدین اور بزرگوں کے فیضانِ نظر اور تربیت کا نتیجہ ہے مگر پھر بھی حقیقت وہی ہے جو غامدی اور پرویز صاحب وغیرہ جیسے محققین کا موقف ہے۔
بہت سے تضاد ہیں خیر! جانے دیجئے۔
 

امان زرگر

محفلین
نماز میں درود ابراہیمی
نماز میں تشہد کے بعد پڑھے جانے والے درود ابراہیمی کی اصل حقیقت کیا ہے؟
درود ابراہیمی اللہ تعالیٰ کے حضور میں ایک دعا ہے جو ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کرتے ہیں۔ نماز میں چونکہ بہت سی دعائیں کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے، اس لیے آپ جو چاہیں دعا کریں۔ روایتوں میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم آپ کے لیے بھی دعا کرنا چاہتے ہیں تو کیا طریقہ اختیار کریں؟ آپ خاموش رہے۔ جب بار بار پوچھا تو پھر آپ نے کچھ کلمات ارشاد فرمائے اور کہا کہ میرے لیے اس طرح دعا کر لیا کرو۔ یہی کلمات درود ابراہیمی ہیں۔
درود ابراہیمی نماز کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ نماز اس کے بغیر بھی ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ تشہد بھی نماز کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ نماز کے لازمی اذکار سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ قرآن ملاکر پڑھنا ہے۔ اور خفض ورفع پر 'اللّٰه اکبر' کہنا، 'سمع اللّٰه لمن حمده 'کہنا 'السلام عليکم ورحمة اللّه ' کہنا ہے۔ باقی آپ کو اجازت ہے آپ اس میں جو دعا چاہیں کر سکتے ہیں۔ (اگست ٢٠٠٤)

answered by: Javed Ahmad Ghamidi
اوہ تو آپ غامدی المسلک ہیں۔
 
زمن بر صوفی و مُلا سلامے
کہ پیغامِ خُدا گفتند ما را
ولے تاویلِ شاں در حیرت انداخت
خُدا و جبرئیل ومصطفیٰ ﷺ را
ہر شخص اپنی پھیکی سوچ کی ترویج کے لیے اقبال کے کلام سے ہی چورن لیتا ہے۔ صوفیا کی تردید کے لیے بھی یار لوگوں کو بہت مواد ملا ہے، حالانکہ اقبال کی تنقید کا شکار صرف وہ صوفیا ہیں جن کا ظاہر شریعت سے متصادم ہو۔ متبع شریعت صوفیا کی مدح میں بھی ان کے اشعار کچھ کم نہیں۔ صرف چند ملاحظہ ہوں:
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب وگلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی

اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوزو ساز رومی، کبھی پیچ و تاب رازی

علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

دگر بمدرسہ ہائے حرم نمی بینم
دل جنید و نگاہ غزالی و رازی
 
اوہ تو آپ غامدی المسلک ہیں۔
اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرےکہ میں کسی مذہب و مسلک سے خود کو نتھی کر کے اپنی خودی کی تذلیل کروں۔ ایک مسلمان کا تعلق اسی وقت نبئ محترم ﷺ سے منقطع ہو جاتا ہے جب وہ اپنے تئیں کسی خاص مسلک سے وابستہ کرتا ہے۔ میرا مسلک اگر کچھ ہے تو وہ صرف مسلکِ تفکر و تحقیق ہے۔ نہ غامدی صاحب نے کبھی مسلکی و گروہی عصبیت اختیار کی نہ پرویز نے۔ لوگ خواہ مخواہ ان کے بھی فرقے بنانے پر تل گئے۔ مجھے جہاں پرویز صاحب سے کئی اختلافات ہیں بعینہ غامدی صاحب سے بھی ہیں۔
من بندہ آزادم
 
ہر شخص اپنی پھیکی سوچ کی ترویج کے لیے اقبال کے کلام سے ہی چورن لیتا ہے۔ صوفیا کی تردید کے لیے بھی یار لوگوں کو بہت مواد ملا ہے، حالانکہ اقبال کی تنقید کا شکار صرف وہ صوفیا ہیں جن کا ظاہر شریعت سے متصادم ہو۔ متبع شریعت صوفیا کی مدح میں بھی ان کے اشعار کچھ کم نہیں۔ صرف چند ملاحظہ ہوں:
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب وگلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی

اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوزو ساز رومی، کبھی پیچ و تاب رازی

علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

دگر بمدرسہ ہائے حرم نمی بینم
دل جنید و نگاہ غزالی و رازی
سکھا دیئے ہیں اسے شیوہ ہائے خانقہی
فقیہِ شہر کو صوفی نے کر دیا ہے خراب
(اقبال)
اقبال نے اپنی نثر میں بھی کسی جگہ تصوف کو اسلام کی سرزمین میں اجنبی عجمی پودا قرار دے کر اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی تلقین کی ہے اور اپنی نظم ساقی نامہ میں اسے بتانِ عجم کا پجاری بتایا ہے۔ اقبال پر جو مختلف ذہنی تربیتی ادوار گزرے ان میں اولین عہدِ طفولیتِ علم اور آخری عہدِ پیری بر سبب قویٰ کے مضمحل ہونے کے کچھ حد تک تصوف کی بیماری کے حملوں سے متاثر ہوئے۔
آپ کے مذکورہ اشعارِ اقبال سے کہاں لازم آتا ہے کہ اقبال تصوف کا حامی تھا ؟۔۔۔ کسی باذوق انسان کا رومی و غزالی کی کچھ اچھی باتوں سے متاثر ہونا کیا بعید ہے۔ لیکن پھر بھی اقبال سوز و سازِ قلبیاتِ رومی کے ساتھ اکثر پیچ و تابِ عقلیاتِ رازی کو ہمراہ رکھتا ہے مبادا تصوف اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات کو اوجھل نہ کر دے۔
مجھ جیسے لوگوں کو صاحبِ کشف المحجوب اور صاحبِ فتوح الغیب کی فکرِ فلک پیما سے مستفید ہونے کے باوجود بھی بھائی عرفان کی اس بات نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ سیدِ ہجویر مخدومِ امم ہوں یا شیخِ بغداد تمام بزرگوں نے دینِ اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ (بھائی عرفان صاحب بچوں کے ماہر ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ علومِ دینیہ میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے ہیں اورانتہائی شریف النفس باعمل مسلمان ہیں بجز ایک خرابی کے کہ وہابی المسلک ہیں اور پروفیسر حافظ سعید صاحب کے حلقہ اثر کی گرفت میں ہیں اور مجھ سے میری وسیع المشربی خاص طور پر غامدی صاحب سے اعتقاد کے سبب قدرے نالاں رہتے ہیں۔ )
 
ساری بحث تو نہیں پڑھی بس تھوڑی بہت ہی پڑھنے پر اندازہ ہوا کہ یہاں بہت ہی بڑے بڑے علماء موجود ہیں۔


ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔
 
مجھے زیادہ علم نہیں ہے ۔ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ قرآن پاک میں آل نبی کے پیروکاروں کیلئے استعمال ہوا ہے جیسا کہ حضرت نوحؑ کے بیوی بچوں کے بجائے اُن کی کشتی میں سوار (ایمان لانے والے) آل کہلائے۔۔ آل محمدؐ = امت محمدؐ

اللہ معاف کرے گر کوئی غلطی ہو گئی ہو
 
Top