فرخ منظور
لائبریرین
شہر میں صبح
مجھے فجر آئی ہے شہر میں
مگر آج شہر خموش ہے!
کوئی شہر ہے،
کسی ریگ زار سے جیسے اپنا وصال ہو!
نہ صدائے سگ ہے نہ پائے دزد کی چاپ ہے
نہ عصائے ہمّتِ پاسباں
نہ اذانِ فجر سنائی دے ۔۔۔۔۔۔
اب وجد کی یاد، صلائے شہر،
نوائے دل
مرےہم رکاب ہزار ایسی بلائیں ہیں!
(اے تمام لوگو!
کہ میں جنھیں کبھی جانتا تھا
کہاں ہو تم؟
تمہیں رات سونگھ گئی ہے کیا
کہ ہو دور قیدِ غنیم میں؟
جو نہیں ہیں قیدِ غنیم میں
وہ پکار دیں!)
اسی اک خرابے کے سامنے
میں یہ بارِ دوش اتار دوں
ِِِمجھے سنگ و خشت بتا رہے ہیں کہ کیا ہوا
مجھے گرد و خاک سنا رہے ہیں وہ داستاں
جو زوالِ جاں کا فسانہ ہے
ابھی بُوئے خوں ہے نسیم میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں آن بھر میںخدا کی چیخ نے آلیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خدا کی چیخ
جو ہر صدا سے ہے زندہ تر
کہیں گونج کوئی سنائی دے
کوئی بھولی بھٹکی فغاں ملے،
میں پہنچ گیا ہوں تمہارے بسترِ خواب تک
کہ یہیں سے گم شدہ راستوں کا نشاں ملے!
مجھے فجر آئی ہے شہر میں
مگر آج شہر خموش ہے!
کوئی شہر ہے،
کسی ریگ زار سے جیسے اپنا وصال ہو!
نہ صدائے سگ ہے نہ پائے دزد کی چاپ ہے
نہ عصائے ہمّتِ پاسباں
نہ اذانِ فجر سنائی دے ۔۔۔۔۔۔
اب وجد کی یاد، صلائے شہر،
نوائے دل
مرےہم رکاب ہزار ایسی بلائیں ہیں!
(اے تمام لوگو!
کہ میں جنھیں کبھی جانتا تھا
کہاں ہو تم؟
تمہیں رات سونگھ گئی ہے کیا
کہ ہو دور قیدِ غنیم میں؟
جو نہیں ہیں قیدِ غنیم میں
وہ پکار دیں!)
اسی اک خرابے کے سامنے
میں یہ بارِ دوش اتار دوں
ِِِمجھے سنگ و خشت بتا رہے ہیں کہ کیا ہوا
مجھے گرد و خاک سنا رہے ہیں وہ داستاں
جو زوالِ جاں کا فسانہ ہے
ابھی بُوئے خوں ہے نسیم میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں آن بھر میںخدا کی چیخ نے آلیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خدا کی چیخ
جو ہر صدا سے ہے زندہ تر
کہیں گونج کوئی سنائی دے
کوئی بھولی بھٹکی فغاں ملے،
میں پہنچ گیا ہوں تمہارے بسترِ خواب تک
کہ یہیں سے گم شدہ راستوں کا نشاں ملے!