جھٹ پٹا سا ہو گیا ہے شام کا
اب کہاں باقی ہے موقع کام کا
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
قصد چڑیوں نے بسیرے کا کیا
ڈھونڈتی ہیں اپنا اپنا گھونسلہ
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
دیکھنا سورج ہے چھپنے کے قریب
تھم گئے چلتے مسافر بھی غریب
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
لو ؛ کبوتر بھی گر پڑے پر جوڑ کر
لیں گے اپنے چھوٹے بچوں کی خبر
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
شام کو بستی سے باغوں کی طرف
اڑ چلے کوے بھی مل کر صف بہ صف
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
کھلبلی جو دن میں تھی مدھم پڑی
بھنبھناہٹ مکھیوں کی کم پڑی
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
جانور دن بھر قلانچیں بھر چکے
اپنا اپنا کام پورا کر چکے
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٠٤)
یہ جو کٹ کٹ کر رہی ہیں مرغیاں
ڈھونڈتی ہیں اپنے دڑبے کا نشاں
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
بھیڑ ۔ بکری ۔ اونٹ ۔ گھوڑا ۔ گاؤ ۔ خر ]
آن پہنچے اپنے اپنے تھان پر
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
اب ہوا کے تیز جھونکے رک گئے
سو گئے پیڑ اور پتے جھک گئے
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
لو سویرے تک ہمارا بھی سلام
وقت ہے نا وقت کیا کیجئے کلام
صاحبو یہ وقت ہے آرام کا
مربع
اچھا زمانہ آنے والا ہے
١
تنے گا مسرت کا اب شامیانہ
بجے گا محبت کا نقار خانہ
حمایت کا گائیں گے مل کر ترانہ
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٢
نہ ہم روشنی دن کی دیکھیں گے لیکن
چمک اپنی دکھلائیں گے اب بھلے دن
رکے گا نہ عالم ترقی کئے بن
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٠٥)
٣
ہر اک توپ سچ کی مددگار ہو گی
خیالات کی تیز تلوار ہو گی
اسی پر فقط جیت اور ہار ہو گی
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٤
زبان قلم سیف پر ہو گی غالب
دبیں گے نہ طاقت سے پھر حق کے طالب
کہ محکوم حق ہو گا دنیا کا قالب (١)
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٥
زمانہ نسب کو نہ پوچھے گا ہے کیا
مگر وصف ذاتی کا ڈنکا بجے گا
اسی کو بڑا سب سے مانے گی دنیا
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٦
لڑائی کو انسان سمجھیں گے ڈائن
تفاخر پے ہو گی نہ قوموں میں ان بن
مشیخت کی خاطر اڑے گی نہ گردن
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
٧
عقیدوں کی مٹ جائے گی سب رقابت
مذاہب کو ہو گی تعصب سے فرصت
مگر ان کی بڑھ جائے گی اور طاقت
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
(١) اصل میں بالفتح ہے مگر روزمرہ اردو کا بالکسر ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٠٦)
٨
کریں سب مدد ایک کی ایک مل کر
یہی بات واجب ہے ہر مرد و زن پر
لگے ہاتھ سب کا تو اٹھ جائے چھپر
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
مخمس
(١) اک چھوٹی چیونٹی
بڑی عاقلہ ہے بہت دور بیں ہے
کہ فکر اپنی روزی کا تیرے تئیں ہے
اسی دھن میں پہنچی کہیں سے کہیں ہے
کبھی اپنے دھندے سے غافل نہیں ہے
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
نہیں کام سے شام تک تجھ کو فرصت
ذرا سی تو جان اور اس پر یہ محنت
بہت جھیلتی ہے مشقت مصیبت
نہیں ہارتی پر کبھی اپنی ہمت
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
کبھی کام تو نے ادھورا نہ چھوڑا
کبھی تو نے تکلیف سے منہ نہ موڑا
بہت کام تو نے کیا تھوڑا تھوڑا
ذخیرہ یہ جاڑے کی خاطر ہے جوڑا
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
جو گرمی کی رت میں نہ کرتی کمائی
تو جاڑے کے موسم میں مرتی بن آئی
تجھے ہوشیاری یہ کس نے سکھائی
سمجھتی ہے اپنی بھلائی برائی
نہ کھو وقت سستی میں مہلت ہے تھوڑی
وہی کام کر جس سے مالک ہو راضی
کہ جس نے تجھے زندگانی عطا کی
یہ عمدہ سبق ہم کو دیتی ہے چیونٹی
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے
(٢) کوشش کئے جاؤ
دکاں بند کر کے رہا بیٹھ جو
تو دی اس نے بالکل ہی ناؤ ڈبو
نہ بھاگو کبھی چھوڑ کر کام کو
توقع تو ہے خیر جو ہو سو ہو
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
جو پتھر پے پانی پڑے متصل
تو بے شبہ گھس جائے پتھر
رہو گے اگر تم یوہیں مستقل
تو اک دن نتیجہ بھی جائے گا مل
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
یہ مانا مشکل بہت ہے سبق
برا ہے مگر اضطراب اور قلق
دوبارہ پڑھو پھر پڑھو ہر ورق
پڑھے جاؤ جب تک ہے باقی رمق
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
اگر طاق میں تم نے رکھ دی کتاب
تو کیا دو گے کل امتحاں میں جواب
نہ پڑھنے سے بہتر ہے پڑھنا جناب
کہ ہو جاؤ گے ایک دن کامیاب
۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔
(١٠٨)
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
نہ تم ہچکچاؤ نہ ہر گز ڈرو
جہاں تک بنے کام پورا کرو
مشقت اٹھاؤ مصیب بھرو
طلب میں جیو ۔ جستجو میں جیو
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
جو تم شیر دل ہو تو مارو شکار
کہ خالی نہ جائے گا مردوں کا وار
مشقت میں باقی نہ رکھنا ادھار
جو ہمت کرو گے تو بیڑا ہے پار
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
نہ بھاگو اگر مشکل آ جائے پیش
خوشی سے گوارا کرو نوش و نیش
بنو کاہلی سے نہ گو بر گنیش
وہی دے گا مرہم دیا جس نے نیش
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
جو بازی میں سبقت نہ لے جاؤ تم
خبردار ؛ ہرگز نہ گھبراؤ تم
نہ ٹھٹکو نہ جھجکو نہ پچھتاؤ تم
ذرا صبر کو کام فرماؤ تم
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
مقابل میں خم ٹھوک کر آؤ ہاں
پچھڑنے سے ڈرتے نہیں پہلواں
کرو پاس تم صبر کا امتحاں
نہ جائے گی محنت کبھی رائیگاں
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
زباں میں بھی ہے فائدہ کچھ نہ کچھ
تمہیں مل رہے گا صلہ کچھ نہ کچھ
۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٠٩)
ہر ایک درد کی ہے دوا کچھ نہ کچھ
کبھی تو لگے گا پتا کچھ نہ کچھ
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
تردد کو آنے نہ دو اپنے پاس
ہے بیہودہ خوف اور بیجا ہراس
رکھو دل کو مضبوط قایم حواس
کبھی کامیابی کی چھوڑو نہ آس
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
کرو شوق و ہمت کا جھنڈا بلند
کوداؤ اولوالعزمیوں کا سمند
اگر صبر سے تم سہو گے گزند
تو کہلاؤ گے ایک دن فتح مند
کئے جاؤ کوشش میرے دوستو
(٣) میرا خدا میرے ساتھ ہے
ہے ہمیشہ میری خدا پے نظر
رات ہو دن ہو شام ہو کہ سحر
نہ اجالے میں ہے کسی کا ڈر
نہ اندھیرے میں کوئی خوف و خطر
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
شام کا وقت ہو یا سویرا ہو
چاندنی ہو کہ گپ اندھیرا ہو
مینہ نے آندھی نے مجھ کو گھیرا ہو
لیک پر ہول دل نہ میرا ہو
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
جب کہ طوفان کو ہو سناٹا
سخت اندھیاؤ کا چلے جھونکا
۔۔۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١١٠)
جڑ سے پیڑوں کو دے اکھیڑ ہوا
میرے دل میں نہ خوف ہو اصلا
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
ٹوٹ کر آسمان سے تارے
شب کو گرتے ہیں جیسے انگارے
وہم کرتے ہیں لوگ بے چارے
میں نہ گھبراؤں خوف کے مارے
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
چاند سورج کا دیکھ کر گہنا
میرے ہمجولیوں کو ہے کھٹکا
لوگ کرتے ہیں خوف کا چرچا
پر مجھے اس کی کچھ نہیں پروا
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
جب ستارہ طلوع ہو دم دار
دم ہو ایسی کہ چھوٹتا ہے انار
سب پے طاری ہوں خوف کے آثار
میرے بھاویں مگر نہ ہو زنہار
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
میرے رستہ میں ہو اگر میداں
یا پرانا کوئی کھنڈر سنساں
کوئی مرگھٹ ہو یا ہو قبرستاں
نہ خطا ہوں وہاں مرے اوساں
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
ہو بیاباں میں گزر میرا
یا سمندر پے ہو سفر میرا
دور رہ جائے مجھ سے گھر میرا
رہے پھر بھی قوی جگر میرا
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
۔۔۔۔،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١١١)
جب کہ دریا میں آئے طغیانی
اور ہاتھی ڈباؤ ہو پانی
پار کھیوا نہ ہو بآسانی
مجھ کو اندیشہ ہو نہ حیرانی
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
لشکروں کی جہاں چڑھائی ہو
شہ سواروں نے باگ اٹھائی ہو
اور گھمسان کی لڑائی ہو
واں بھی ہیبت نہ مجھ پہ چھائی ہو
کیونکہ میرا خدا ہے میرے ساتھ
(٤) صبح کی آمد
خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں
اجالا زمانہ میں پھیلا رہی ہوں
بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں
پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
میں سب کاربہوار کے ساتھ آئی
میں رفتار و گفتار کے ساتھ آئی
میں باجوں کی جھنکار کے ساتھ آئی
میں چڑیوں کی چہکار کے ساتھ آئی
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
اذاں پر اذاں مرغ دینے لگا ہے
خوشی سے ہر اک جانور بولتا ہے
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں غل مچاتی
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی
دموں کو ہلاتی پروں کو پھلاتی
میری آمد آمد کے ہیں گیت گاتی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
جو طوطے نے باغوں میں ٹیں ٹیں مچائی
تو بلبل بھی گلشن میں ہے چہچہائی
اور اونچی منڈیروں پہ شاما بھی گائی
میں سو سو طرح سے دی رہی ہوں دہائی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہر ایک باغ کو میں نے مہکا دیا ہے
نسیم اور صبا کو بھی لہکا دیا ہے
چمن سرخ پھولوں سے دہکا دیا ہے
مگر نیند نے تم کو بہکا دیا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہوئی مجھ سے رونق پہاڑ اور بن میں
ہر ایک ملک میں دیس میں ہر وطن میں
کھلاتی ہوئی پھول آئی چمن میں
بجھاتی چلی شمع کو انجمن میں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
جو اس وقت جنگل میں بوٹی جڑی ہے
سو وہ نولکھا ہار پہنے کھڑی ہے
کہ پچھلے کی ٹھنڈک سے شبنم پڑی ہے
عجب یہ سماں ہے عجب یہ گھڑی ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہرن چونک اٹھے چوکڑی بھر رہے ہیں
کلولیں ہرے کھیت میں کر رہے ہیں
ندی کے کنارے کھڑے چر رہے ہیں
غرض میرے جلوہ پہ سب مر رہے ہیں
۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١١٣)
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
میں تاروں کی چھاں آن پہونچی یہاں تک
زمیں سے ہے جلوہ مرا آسماں تک
مجھے پاؤ گے دیکھتے ہو جہاں تک
کرو گے بھلا کاہلی تم کہاں تک
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
پوجاری کو مندر کے میں نے جگایا
موذن کو مسجد کے میں نے اٹھایا
بھٹکتے مسافر کو رستہ بتایا
اندھیرا گھٹایا ۔ اجالا بڑھایا
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
لدے قافلوں کے بھی منزل میں ڈیرے
کسانوں کے ہل چل پڑے منہ سویرے
چلے جال کندھے پہ لے کر مچھیرے
دلدر ہوئے دور آنے سے میرے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
بگل اور طنبور سنکھ اور نوبت
بجانے لگے اپنی اپنی سبھی گت
چلی توپ بھی دن سے حضرت سلامت
نہیں خوب غفلت ۔ نہیں خوب غفلت
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
لو ہشیار ہو جاؤ اور آنکھ کھولو
نہ لو کروٹیں اور نہ بستر ٹٹولو
خدا کو کرو یاد اور منہ سے بولو
بس اب خیر سے اٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
بڑی دھوم سے آئی میری سواری
جہاں میں ہوا اب میرا حکم جاری
۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،۔۔۔
(١١٤)
ستارے چھپے رات اندھیری سدھاری
دکھائی دئے باغ اور کھیت کیاری
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
میں پورب سے پچھم پہ کرتی ہوں دھاوا
زمیں کے کرہ پر لگاتی ہوں کاوا
میں طے کر کے آئی ہوں چین اور جاوہ
نہیں کہتی کچھ تم سے اس کے علاوہ
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
(٥) خدا قیصرہ الہند کو سلامت رکھے
عیش و طرب کے ہیں یہاں چہچہے
کون بھلا جبر کسی کا سہے
کیوں نہ تہ دل سے رعایا کہے
جب تک اس اقلیم میں گنگا بہے
قیصرہ الہند سلامت ریے
ہند کا اس عہد میں بدلا مزاج
عدل نے اس دور میں پایا رواج
جملہ مفاسد کا ہوا ہے علاج
سب کی تمنا ہے کہ با تخت و تاج
قیصرہ الہند سلامت ریے
بس کہ رعایا پے ہے وہ مہرباں
کرتی رعایا ہے نثار اس پے جاں
شرق سے تا غرب کراں تا کراں
ملک اس آہنگ میں ہے نغمہ خواں
قیصرہ الہند سلامت ریے
فتنہ تو اس دور سے بس دور ہے
صلح سے اور امن سے معمور ہے
۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔
(١١٥)
عافیت اس وقت کا دستور ہے
اس لئے افواہ میں مذکور ہے
قیصرہ الہند سلامت ریے
شرق میں ہے فوج مظفر پڑی
غرب میں ہے سد سکندری کھڑی
نظم و سیاست میں نہیں گلجھڑی
سلطنت ہند نہ کیوں ہو بڑی
قیصرہ الہند سلامت ریے
ہرچم اقبال ہے اس کا بلند
دولت و حشمت کا رواں ہے سمند
دھاک ہے تا چین و خطا و یار قند
ہند کو ہو کس لئے خوف گزند
قیصرہ الہند سلامت ریے
زور قلم یا دم صمصام ہے
مد نظر منفعت عام ہے
نیکیوں کا نیک سر انجام ہے
سب کی دعا صبح تا شام ہے
قیصرہ الہند سلامت ریے
نظم بے قافیہ
(١) چڑیا کے بچے
دوتین چھوٹے بچے چڑیا کے گھونسلے میں
چپ چاپ لگ رہے ہیں سینہ سے اپنی ماں کے
چڑیا نے مامتا سے پھیلا کے دونو بازو
اپنے پروں کے اندر بچوں کو ڈھک لیا ہے
اس طرح روزمرہ کرتی ہے ماں حفاظت
سردی سے اور ہوا سے رکھتی ہے گرم ان کو
لیکن چڑا گیا ہے چگا تلاش کرنے
دانی کہیں کہیں سے پوٹے میں اپنے بھر کر
جب لائے گا ۔ تو بچے منہ کھول دیں گے جھٹ پٹ
ان کو بھرائے گا وہ ۔ ماں اور باپ دونوں
بچوں کی پرورش میں مصروف ہیں برابر
اور چھوٹے بچے خوش ہیں تکلیف کچھ نہیں ہے
اے چھوٹے چھوٹے بچو ۔ تم اونچے گھونسلے سے
ہر گز نہیں گرو گے ۔ پر اور پرزے اب تک
نکلے نہیں تمھارے اس واسطے ابھی تم
اونچے نہ اڑ سکو گے ۔ ہاں جب تمھارے بازو
اور پر درست ہوں گے تو دن کی روشنی میں
سیکھو گے تم بھی اڑنا ۔ کرتے پھرو گے چیں چیں
اڑتے پھرو گے پھر پھر اے چھوٹے بچو لیکن
کوا بری بلا ہے اس سے خدا بچائے
۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔
(١١٧)
(٢) تاروں بھری رات
ارے چھوٹے چھوٹے تارو
کہ چمک دمک رہے ہو
تمہیں دیکھ کر نہ ہووے
مجھے کس طرح تحیر
کہ تم اونچے آسماں پر
جو ہے کل جہاں سے اعلی
ہوئے روشن اس روش سے
کہ کسی نے جڑ دئے ہیں
گہر اور لعل گویا
جو ہیں آفتاب تاباں
نے چھپایا اپنا چہرہ
وہیں جلوہ گر ہوئے تم
یہ تمھاری جگمگاہٹ
ہے مسافروں کے حق میں
بڑی نعمت اور راحت
اگر اتنی روشنی بھی
نہ میسر آتی ان کو
تو غریب جنگلوں میں
یونہیں بھولتے بھٹکتے
نہ تمیز راس و چپ کی
نہ طرف کی ہوتی اٹکل
نہ نشان راہ پاتے
وہ غریب کھیت والے
وہ امیدوار دہقاں
کہ کھڑی ہے جن کی کھیتی
کہیں کھیت کٹ رہا ہے
کہیں گہہ رہا ہے خرمن
نہیں آنکھ ان کی جھپکی
۔،،،،،،۔۔۔۔۔
(١١٨)
یونہیں شام سے سحر تک
ہیں تمام رات جاگے
نہ گھڑی ہے واں نہ گھنٹہ
نہ شمار وقت و ساعت
مگر اے چمکنے والو
ہو تمہیں انھیں سجھاتے
کہ گئی ہے رات اتنی
وہ جہاز جن کے آگے
ہے وسیع بحر اعظم
انھیں ہولناک موجوں
سے مقابلہ ہے کرنا
کوئی ہے چلا وطن
کوئی آ رہا ہے واپس
انھیں کچھ خبر نہیں ہے
کہ کدھر ہے ان کی منزل
نہ تو مرحلہ نہ چوکی
نہ سراغ راہ کا ہے
نہ کوئی دلیل رہبر
مگر اے فلک کے تارو
تمہیں ان کے رہنما ہو
مسدس
(١) ماں کی مامتا
مامتا ماں کی جانتے ہیں سب
ماں ہے بچے کی پرورش کا سبب
بھوک بچے کو ہے ستاتی جب
ماں سے کرتا ہے رو کے دودھ طلب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،۔۔۔۔۔۔۔۔
(١١٩)
دودھ دیتی ہے پیار کرتی ہے
جان اس پہ نثار کرتی ہے
بچہ سینے سے جو رہا ہے چمٹ
نہیں لے سکتی بے دھڑک کروٹ
پانو کی بھی نہ ہو ذرا آہت
کبھی ننھے بچے کی نیند جائے اچٹ
اوں اوں کرتی تھپکتی جاتی ہے
ہولے ہولے سرکتی جاتی ہے
جب رہا وہ نہالچہ پر سو
چھوٹے تکیے لگا دئے دو دو
کئے سب کام تھے ضروری جو
پر نہیں بھولتی بچے کو
لیتی رہتی ہے ماں خبر ہر دم
اپنے بچے پہ ہے نظر ہر دم
ماں کو آرام کی فرصت کہاں
سوئی بے ڈھب تو آ گئی شامت
کپڑے لتوں کی ہو گئی کیا گت
ہے بچھونا بھی تر بتر لت پت
صبح اٹھ کر کھنگالتی ہے تمام
جاڑے پالے کا وقت اور یہ کام
بچہ اتنے میں چونک اٹھا سو کے
ناک میں دم کیا ہے رو رو کے
ماں نے پھر لے لیا ہے خوش ہو کے
نیا کرتہ بدل کے منہ ہاتھ دھو کے
باتیں کرتی ہے پیار سے جوں جوں
۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٢٠)
بولتا ہے جواب میں آغوں
رات کو لوریاں سناتی ہے
گود میں لے کے بیٹھ جاتی ہے
کس قدر زحمتیں اٹھاتی ہے
بچہ ہے اور ماں کی چھاتی ہے
کبھی کنڈی بجا کے بہلایا
کبھی کندھے لگا کے ٹہلایا
ماں کوداتی ہے اچھالتی ہے اسے
دیکھتی اور بھالتی ہے اسے
ہر طرح پر سنبھالتی ہے اسے
اللہ آمین سے پالتی ہے اسے
دیکھ کر اس چاند سا مکھڑا
بھول جاتی ہے اپنا سب دکھڑا
جب لگایا ہے آنکھ میں کاجل
پڑا بچہ کی تیوری پر بل
دونوں ہاتھوں سے آنکھیں ڈالیں مل
بچہ بے چین ہے تو ماں بے کل
چپ کیا جھنجنا بجا کے اسے
سوئی خود پیشتر سلا کے اسے
ماں پکائے تو کھانا پکتا ہے
اور بچہ ادھر بلکتا ہے
کبھی پرچھائیں ماں کی تکتا ہے
کبھی روتا کبھی ٹھٹکتا ہے
کھانا پکتا ہے نام ہی کو بس
لگے ہاتھوں لیا ہے بھون بھلس
اس کا ہپا جدا پکاتی ہے
انگلیوں سے اسے چٹاتی ہے
باتیں کرنا اسے بتاتی ہے
پانوں چلنا اسے سکھاتی ہے
ماں کو بچہ سے جو محبت ہے
درحقیقت خدا کی رحمت ہے
اتفاقا جو ہو گیا بیمار
پھوڑا پھنسی ہے یا زکام بخار
پھر تو ہر وقت ہے گلے کا ہار
ماں کو اس سے زیادہ ہے آزار
اپنے آپے کا کچھ نہیں ہے ہوش
بیٹھی ہے بت بنی ہوئی خاموش
وہم سے دل ہے کانپتا تھر تھر
اڑ رہی ہیں ہوائیاں منہ پر
ہے فقط فضل پر خدا کے نظر
مانگتی ہے دعائیں رو رو کر
پڑ گئی کان میں کچھ اور بھنک
لگی ہونے کلیجہ میں دھک دھک
دشمنوں کا نہیں ہے جی اچھا
ماں کو اک ہول ہو گئی پیدا
پھر تو دنیا جہاں کی ہے دوا
ٹوم چھلے کا منہ ذرا نہ کیا
ہوت آن ہوت کا نہیں کچھ غم
رہے بچہ کی خیریت جم جم
چاؤ اور چونچلوں سے پلتا ہے
آخرش پاؤں پاؤں چلتا ہے
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷۔۔۔۔۔۔۔۔÷÷÷÷÷÷
(١٢٢)
گھر سے باہر بھی جا نکلتا ہے
کھیلتا کودتا ۔ اچھلتا ہے
جب کہیں چوٹ پھینٹ ہے کھاتا
ماں ہی ماں کہہ کے ہے وہ چلاتا
چیخ کو سن کے دوڑی بیچاری
آنسر ٹپ ٹپ ہیں آنکھ سے جاری
ہوئی بچہ پے صدقے اور واری
کون کرتا ہے یوں خبرداری
جھٹ کلیجے سے لگا لیا ماں نے
جھاڑا ۔ پونچھا اٹھا لیا ماں نے
اب تو اک اور ہو گیا کھٹکا
جا کے اونچی منڈیر پر لٹکا
ماں نے بہتیرا اپنا سر پٹکا
گر پڑا تو نہ کھائے گا پٹکا
پھر دبے پاؤں جا کے لائی اتار
دیا آہستہ ایک طمانچہ مار
خیر سے اب تو کام کرتا ہے
روز مکتب میں شام کرتا ہے
کیا ادب سے کلام کرتا ہے
سب کو جھک کر سلام کرتا ہے
ماں چٹاچٹ بلائیں لیتی ہے
پیار کرتی دعائیں دیتی ہے
(٢) مرثیہ سید اقبال احمد مرحوم (١)
شب کو تھی تپ کے سبب سے مجھے آشفتہ سری
جب سحر ہونے کو آئی تو ہوئی بے خبری
(١) سید اقبال احمد ہمشیرہ زادہ مصنف نے یکایک بعمر ٢٢ سال ١٩٠٣ عیسوی میں انتقال کیا ۔ مصنف کو اس عزیز سے خاص الفت تھی ۔ اس مرثیہ کا مسودہ بھی گم ہو گیا ۔ یہ چند بیت جو یاد تھے یہاں لکھے گئے ۔
۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٢٣)
ناگہاں آئی صدا کان میں وحشت بھری
برق جاں سوز تھی وہ تار کی پیغام بری
ہائے اقبال ترے نام کے تھے ساتھ لکھے
ایسے الفاظ کہ کٹ جائے اگر ہاتھ لکھے
آنکھ اے کاش نہ آتے تجھے وہ حرف نظر
کان بہرا نہ ہوا کیوں کہ نہ سنتا یہ خبر
عقل کھوئی نہ گئی کیوں کہ نہ کرتی باور
دل ہی اے کاش نہ ہوتا تو نہ ہوتا مضطر
ہائے اقبال ؛ سنا گو کہ ترے مرنے کو
جی نہیں چاہتا زنہار یقیں کرنے کو
تیرے بچوں کو نہیں حادثہ غم کی خبر
گو کہ سیلاب بلا سر سے گیا ان کے گزر
جب بڑے ہوں گے کڑھائے گی انھیں یاد پدر
تو ہی بتلا کہ تسلی انھیں ہو گی کیونکر
اس مصیبت کی نہیں انھیں پہچان ابھی
پوچھتا پھرتا ہے سب سے تجھے احسان ابھی
تیری کشتی میں کئی ایک مسافر تھے غریب
حیف ؛ پہنچا نہ گیا ان کو تو ساحل کے قریب
کشتی ٹوٹی ہوئی اور جوش پہ طوفان مہیب
ڈھونڈتے ہیں تجھے گھبرا کے وہ برگشتہ نصیب
آہ منجدھار میں چھوڑا ہے سفینہ تو نے
کئی بد بختوں کا کٹوایا ہے سینہ تو نے
(یہ دو شعر دستیاب نہیں ہوئے )
۔۔۔۔۔۔،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٢٤)
جو ابھی حلقہ ماتم کو سمجھتے ہیں برات
ان کہ چہرے پہ جمی گرد یتیمی ہیہات
سینہ کہتا ہے شعلے مجھے بھڑکانے دو
آہ کہتی ہے مج کو بھی نکل جانے دو
آنکھیں کہتی ہیں آنسو ہمیں برسانے دو
دل کی خواہش ہے کہ چپ چاپ ہی غم کھانے دو
صبر کہتا ہے کہ لو میںتو چلا ہاتھوں سے
منہ کو آتا ہے کلیجہ مرا ان باتوں سے
(٣) مرثیہ پلیونا (١)
تھی صبح شب تار کی مانند کہر سے
آتی تھی نظر فوج ادھر سے نہ ادھر سے
جو چیز کہ تھی سامنے غائب تھی نظر سے
دشوار تھا اس وقت گزر راہ گزر سے
ناگاہ قدم روس کے لشکر نے بڑھایا
جنگاہ میں لشکر کو ہر افسر نے بڑھایا
اس معرکہ سخت میں تھا زار بھی موجود
اور لشکر روسی کا سپھدار بھی موجود
رومانیہ کا والی غدار بھی موجود
جنرل تھے بڑے نامی و جرار بھی موجود
رومانیہ اور روس کے لشکر ہوئے باہم
دو بحر تھے اک کوہ کی جنبش پہ فراہم
رشیا نے کئے جمع سوا لاکھ سپاہی
تھی شاق زبس حملہ اول کی تباہی
(١) اس مرثیہ کے بہت سے بند تھے جو اتفاق سے گم ہو گئے یہ چند متفرق بند ان لوگوں سے دستیاب ہوئے جن کو یاد تھے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٢٥)
نقصان گزشتہ کی مکافات جو چاہی
دکھلائی بڑی دھوم سے اب شوکت شاہی
باقی نہ رہی جائے بجز خیمہ و خرگاہ
صحرائے پلونہ میں ہوئی بند گزرگاہ
میداں میں ہوئی تین طرف فوج مقرر
جنگ آور و جرار مقرر ہوئے افسر
تھا سلسلہ توپوں کا ہر اک سمت برابر
یوں وادی و کہسار میں پھیلے تھے ستمگر
پلٹن پہ تھی پلٹن تو رسالہ پہ رسالہ
روسی تھے پلونا پہ کہ مہتاب پہ ہالہ
اس وقت دیا دمدمہ ترک نے پیغام
ہے مستعد جنگ صف لشکر اسلام
او روس خبردار بس آگے نہ بڑھے گام
یہ توپ کا گولہ ہے تمھارے لئے انعام
عثمان دلاور کے وہی شیر کہڑے ہیں
پہچانتے ہو حملہ اول میں لڑے ہیں
جب زار نے عثمان پہ کی تاخت دوبارہ
جو زور تھا لشکر کا وہ ڈالا وہیں سارا
اور آن کے میداں میں ہوا خود بھی صف آرا
لیکن نہ دیا قسمت واژوں نے سہارا
ہر حملہ میں اوندھا ہی پڑا زار کا لشکر
قسمت نہ لڑی گرچہ لڑا زار کا لشکر
براقی سنگین سے تھی آنکھ جہپکتی
شمشیر بھی تھی صاعقہ کردار لپکتی
اور گولیہ گولی متواتر تھی ٹپکتی
میداں میں قضا پھرتی تھی کشتوں کو تھپکتی
بندوق شرربار سے جلتا تھا بیاباں
توپوں کے گرجنے سے دھلتا تھا بیاباں
لشکر کی چڑھائی تھی کہ دریا کی چڑھائی
تھی کوہ و بیاباں پہ گھٹا سی امنڈ آئی
دھوں دھاں کے سوا کچھ بھی نہ دیتا تھا سنائی
فوجوں کے سوا کچھ بھی نہ دیتا تھا دکھائی
ہتھیار ہر اک سمت چمکتے تھے جھما جھم
اور حادثہ جنگ تھا تیزی پہ دما دم
(٤) متفرقات
ضعیفوں پے زور آزمایا تو کیا
ستائے ہوؤں کو ستایا تو کیا
کسی دل جلے کو جلایا تو کیا
فساد فتنہ اٹھایا تو کیا
نہ پکڑا کبھی دل کے اندر کا چور
نہ توڑا کبھی نفس سرکش کا زور
۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٢٧)
(١) مثمن مشعر کیفیت قلعہ اکبر آباد موسوم بہ آثار سلف
یا رب ؛ یہ کسی مشعل کشتہ کا دھواں ہے
یا گلشن برباد کی یہ فصل خزاں ہے
یا برہمی بزم کی فریاد و فغاں ہے
یا قافلہ رفتہ کا پس خیمہ رواں ہے
ہاں دور گزشتہ کی مہابت کا نشاں ہے
بانی عمارت کا جلال اس عیاں ہے
اڑتا تھا یہاں پرچم جم جاہی اکبر
بجتا تھا یہاں کوس شہنشاہی اکبر
باہر سے نظر ڈالئے اس قلعہ پہ یک چند
برپا ہے لب آب جمن صورت الوند
گویا کہ ہے اک سورما مضبوط تنو مند
یا ہند کا رجپوت ہے یا ترک سمرقند
کیا بارہ سنگین کا پہنا ہے قزاگند
رینی کا قزاگند پہ باندھا ہے کمر بند
مسدود ہے خندق سے رہ فتنہ و آشوب
ارباب تمرد کے لئے برج ہیں سرکوب
تعمیر در قلعہ بھی البتہ ہے موزوں
پر شوکت و ذی شان ہے اس کا رخ بیروں
کی ہے شعرا نے صفت طاق فریدوں
معلوم نہیں اس سے وہ کمتر تھا کہ افزوں
گو ہم سر کیواں ہے نہ ہم پلہ گردوں
محراب کی ہیئت سے ٹپکتا ہے یہ مضموں
پیلان گراں سلسلہ با ہودج زرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٢٨)
اس در سے گزرتے تھے بصد رونق و تزئیں
اکبر سا کبھی مخزن تدبیر یہاں تھا
یا طنطنہ دور جہاں گیر یہاں تھا
یا شاہ جہاں مرجع توقیر یہاں تھا
یا مجمع ذی رتبہ مشاہیر یہاں تھا
القصہ کبھی عالم تصویر یہاں تھا
دنیا سے سوا جلوہ تقدیر یہاں تھا
بہتا تھا اسی کاخ میں دولت کا سمندر
تھے جشن ملوکانہ اسی قصر کے اندر
وہ قصر معلی کہ جہاں عام تھا دربار
آئینہ نمط صاف ہیں جس کے در و دیوار
اور سقف زراندود ہے مانند چمن زار
اور فرش ہے مرمر کا مگر چشمہ انوار
اب بانگ نقیب اس میں نہ چاؤش کی للکار
سرہنگ کمر بستہ نہ وہ مجمع حضار
کہتا ہے کبھی مرکز اقبال تھا میں بھی
ہاں ؛ قبلہ گہہ عظمت و اجلال تھا میں بھی
جب تک کہ مشیت کو مرا وقر تھا منظور
نافذ تھا زمانہ میں مری جاہ کا منشور
شاہان معاصآر کا معین تھا یہ دستور
کرتے تھے سفیران ذوی القدر کو مامور
تا میری زیارت سے کریں چشم کو پرنور
آوازہ میری شان کا پہونچا تھا بہت دور
اکناف جہاں میں تھا مرا دبدبہ طاری
تسلیم کو جھکتے تھے یہاں ہفت ہزاری
وہ چتر وہ دیہم وہ سامان کہاں ہیں
وہ شاہ وہ نوئین ۔ وہ خاقان کہاں ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٢٩)
وہ بخشی و دستور ۔ وہ دیوان کہاں ہیں
خدام و ادب اور وہ دربان کہاں ہیں
وہ دولت مغلیہ کے ارکان کہاں ہیں
فیضی و ابوالفضل سے اعیان کہاں ہیں
سنسان ہے ، وہ شاہ نشین آج صد افسوس
ہوتے تھے جہاں خان و خوانین زمیں بوس
وہ بارگہہ خاص کی پاکیزہ عمارت
تاباں تھے جہاں نیر شاہی و وزارت
بڑھتی تھی جہاں نظم و سیاست کی مہارت
آتی تھی جہاں فتح ممالک کی بشارت
جوں شحنہ مغرول پڑی ہے وہ اکارت
سیاح کیا کرتے ہیں اب اس کی زیارت
کہتا ہے سخن فہم سے یوں کتبہ دروں کا
تھا مخزن اسرار یہی تاج وروں کا
اورنگ سیہ رنگ جو قائم ہے لب بام
بوسہ جسے دیتا تھا ہر اک زبدہ عظام
اشعار میں ثبت اس پہ جہاں گیر کا ہے نام
شاعر کا قلم اس کی بقا لکھتا ہے ما دام
پر صاف نظر آتا ہے کچھ اور ہی انجام
سالم نہیں چھوڑے گی اسے گردش ایام
فرسودگی دھر نے شق اب تو کیا ہے
آیندہ کی نسلوں کو سبق خوب دیا ہے
ہاں ؛ کس لئے خاموش ہے او ؛ تخت جگر ریش
کس غم میں سیہ پوش ہے ؟ کیا سوگ ہے درپیش
کملی ہے تیرے دوش پہ کیوں صورت درویش
جوگی ہے ترا پنتھ ۔ کہ صوفی ہے ترا کیش
بولا کہ زمانہ نے دیا نوش کبھی نیش
صدیاں مجھے گزری ہیں یہاں تین کم و بیش
۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٣٠)
صدقے کبھی مجھ پر گہر و لعل ہوئے تھے
شاہان معظم کے قدم میں نے چھوئے تھے
وہ رنگ محل برج مثمن کا وہ انداز
صفت میں ہے بے مثل تو رفعت میں سرافراز
یاں مطرب خوش لہجہ کی تھی گونجتی آواز
گہہ ہند کی دھرپت تھی کبھی نغمہ شیراز
اب کون ہے بتلائے جو کیفیت آغاز
زنہار کوئی جاہ و حشم پر نہ کرے ناز
جن تاروں کے پرتو سے تھا یہ برج منور
اب ان کا مقابر میں تہ خاک ہے بستر
اس عہد کا باقی کوئی ساماں ہے نہ اسباب
فوارے شکستہ ہیں تو سب حوض ہیں بے آب
وہ جام بلوریں ہیں نہ وہ گوہر نایاب
وہ چلمن زرتار نہ وہ بستر کمخواب
ہنگامہ جو گزرا ہے سو افسانہ تھا یا خواب
یہ معرض خدام تھا وہ موقف حجاب
وہ بزم نہ وہ دور نہ وہ جام نہ ساقی
ہاں طاق و رواق ۔ اور در و بام ہیں باقی
مستور سرا پردہ عصمت میں تھے جو گل
سو دودہ ترک اور مغل ہی نہ تھے کل
کچھ خیری فرغانہ تھے ۔ کچھ لالہ کابل
پھر مولسری ہند کی ان میں گئی مل جل
تعمیر کے انداز کو دیکھو بہ تامل
تاتاری و ہندی ہے بہم شان و تجمل
سیاح جہاں دیدہ کے نزدیک یہ تعمیر
اکبر کے خیالات مرکب کی ہے تصویر
(١٣١)
درشن کے جھروکے کی پڑی تھی یہیں بنیاد
ہوتی تھی تلا دان میں کیا کیا دہش و داد
وہ عدل کی زنجیر ہوئی تھی یہیں ایجاد
جو سمع شہنشاہ میں پہونچاتی تھی فریاد
وہ نوجہاں اور جہاں گیر کی افتاد
اس کاخ ہمایوں کو بہ تفصیل ہے سب یاد
ہر چند کہ بے کار یہ تعمیر پڑی ہے
قدر اس کی مورخ کی نگاہوں میں پڑی ہے
اب دیکھئے وہ مسجد و حمام زنانہ
وہ نہر ۔ وہ حوض اور وہ پانی کا خزانہ
صنعت میں ہر اک چیز ہے یکتا و یگانہ
ہے طرز عمارت سے عیاں شان شہانہ
کیا ہو گئے وہ لوگ کہاں ہے وہ زمانہ؟
ہر سنگ کے لب پر ہے غم اندوز ترانہ
چغتائیہ گلزار کی یہ فصل خزاں ہے
ممتاز محل ہے نہ یہاں نورجہاں ہے
وہ قصر جہاں جودھپوری رہتی تھی بائی
تھی دولت و ثروت نے جہاں دھوم مچائی
دیکھا اسے جا کر تو بری گت نظر آئی
صحنوں میں جمی گھاس تو دیواروں پہ کائی
گویا درو دیوار پہ دیتے ہیں دہائی
ممکن نہیں طوفان حوادث سے رہائی
جس گھر میں تھے نسریں و سمن یا گل لالہ
اب نسل ابابیل میں ہے اس کا قبالہ
وہ مسجد زیبا کہ ہے اس بزم کی دلہن
خوبی میں یگانہ ہے ولے سادہ و پر فن
محراب و در و بام ہیں سب نور کا مسکن
موتی سے ہیں دالان تو ہے دود سا آنگن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٣٢)
کافور کا تودہ ہے کہ الماس کا معدن
یا فجر کا مطلع ہے ۔ کہ خود روز ہے روشن
بلور کا ہے قاعدہ یا نور کا ہے راس
باطل سی ہوئی جاتی ہے یاں قوت احساس
ہاتھوں نے ہنرمند کے اک سحر کیا ہے
سانچہ میں عمارت کو مگر ڈھال دیا ہے
یا تار نظر سے کہیں پتھر کو سیا ہے
مرمر میں مہ و مہر کا سا نور و ضیا ہے
گو شمع نہ فانوس نہ بتی نہ دیا ہے
ہاں ؛ چشمہ خورشید سے آب اس نے پیا ہے
چلئے جو یہاں سے تو نظر کہتی ہے فی الفور
نظارہ کی دو مجھ کو اجازت کوئی دم اور
مسجد نے اشارہ کیا پتھر کی زبانی
اس قلعہ میں ہوں شاہجہاں کی میں نشانی
کچھ شوکت ماضی کی کہی اس نے کہانی
کچھ حالت موجودہ بایں سحر بیانی
ان حجروں میں ہے شمع نہ اس حوض میں پانی
فواروں کے دل میں بھی ہے اک درد نہانی
تسبیح نہ تہلیل نہ تکبیر و اذاں ہے
بس گوشہ تنہائی ہے اور قفل گراں ہے
جمگھٹ تھا کبھی یاں وزرا و امرا کا
مجمع تھا کبھی یاں صلحا و علما کا
چرچا تھا شب و روز یہاں ذکر خدا کا
ہوتا تھا ادا خطبہ سدا حمد و ثنا کا
اک قافلہ ٹھیرا تھا یہاں عز و علا کا
جو کچھ تھا ۔ گذر جانے میں جھونکا تھا ہوا کا
ہیں اب تو نمازی میرے باقی یہی دو تین
۔۔۔۔۔۔۔۔،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٣٣)
یا دھوپ ہے یا چاندنی یا سایہ مسکیں
وہ دور ہے باقی نہ وہ ایام و لیالی
جو واقعہ حسی تھا سو ہے آج خیالی
ہر کوشک و ایوان ہر اک منزل عالی
عبرت سے ہے پر اور مکینوں سے ہے خالی
آقا نہ خداوند ۔ اہالی نہ موالی
جز ذات خدا کوئی نہ وارث ہے نہ والی
یہ جملہ محلات جو سنسان پڑے ہیں
پتھر کا کلیجہ کئے حیران کھڑے ہیں
جب کند ہوئی دولت مغلیہ کی تلوار
اور لوٹ لیا جاٹ نے ایوان طلاکار
تب لیک جو تھا لشکر انگلش کا سپہدار
افواج مخالف سے ہوا بر سر پیگار
یہ بارہ و برج اور یہ ایوان یہ دیوار
کچھ ٹوٹ گئے ضرب سے گولوں کی بہ ناچار
ہے گردش ایام کے حملوں کی کسے تاب
پھر قلعہ اکبر ہی میں تھا کیا پر سرخاب
آخر کو لٹیروں کی شکستہ ہوئی قوت
اونچا ہوا سرکار کے اقبال کا رایت
لہرانے لگا پھر علم امن و حفاظت
آثار قدیمہ کی لگی ہونے مرمت
یہ بات نہ ہوتی تو پہونچتی وہی نوبت
دیوار گری آج ۔تو کل بیٹھ گئی چھت
حکام زماں کی جو نہ ہوتی نگرانی
رہ سکتی نہ محفوظ یہ مغلیہ نشانی
ارباب خرد چشم بصیرت سے کریں غور
اکبر کی بنا اس سے بھی پائندہ ہے اک اور
۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٣٤)
سردی کی جفا جس پہ نہ گرمی کا چلے جور
ہر چند گزر جائیں بہت قرن بہت دور
برسوں یونہیں پھرتے رہیں برج حمل و ثور
اس میں نہ خلل آئے کسی نوع کسی طور
انجینیروں کی بھی مرمت سے بری ہے
وہ حصن حصیں کیا ہے ؟ فقط ناموری ہے
او اکبر ذیجاہ ؛ تیری عزت و تمکیں
محتاج مرمت ہے نہ مستلزم تزئیں
کندہ ہیں دلوں میں تری الفت کی فرامیں
ہے تیری محبت کی بنا اک دژ رو میں
پشتوں سے رعایا میں بہ آئین وراثت
قائم چلی آتی ہے تیرے نام کی عظمت
بکرم کی سبھا کو تیری صحبت نے بھلایا
اور بھوج کا دورہ تیری شہرت نے بھلایا
ارجن کو تیری جرات و ہمت نے بھلایا
کسری کا ترے دور عدالت نے بھلایا
اسکندر و جم کو تری شوکت نے بھلایا
پچھلوں کو غرض تیری عنایت نے بھلایا
آتے ہیں زیارت کو تو اب تک ہے یہ معمول
زائر تری تربت پہ چڑھا جاتے ہیں دو پھول
ہو کہنہ و فرسودہ ترا قلعہ تو کیا غم
شہرت ہے تیرے نام کی سو قلعوں سے محکم
بھرتا ہے ہر اک فرقہ محبت کا تری دم
لکھتے ہیں مورخ بھی تجھے اکبر اعظم
رتبہ ہے ترا ہند کے شاہوں میں مسلم
یہ ٍفخر ترے واسطے زنہار نہین کم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٣٥)
گو خاک میں مل جائے ترے عہد کی تعمیر
ہے کتبہ عزت ترا ہر سینہ میں تحریر
ہاں ؛ قوم کے نو عمر جوانو ادھر آؤ
ہے دیدہ بینا تو اسے کام میں لاؤ
آثار صنادید کی عینک کو لگاؤ
عبرت کی نگاہوں کو پس و پیش پھراؤ
راہ طلب و شوق میں اک شمع جلاؤ
گنجینہ اعزاز کو پانا ہے تو پاؤ
یہ نقش و نگار در و دیوار شکستہ
دیکھو تمہیں دکھلاتے ہیں آیندہ کا رستہ
اسلاف نے اگر کی تھی ملکوں پہ چڑھائی
یا کاخ حکومت کی تھی بنیاد اٹھائی
یا طرح کئے کوشک سیمیں و طلائی
یا بحر میں کشتی تجارت تھی چلائی
یا کشور تہذیب میں کی قلعہ کشائی
کس برتے پہ یہ کام تھے آخر میرے بھائی
جب بحر مصائب کو شنا کر کے ہوئے پار
تب دہر مخالف بھی ہوا غاشیہ بردار
عزت کی ملی تھی انھیں جاگیر دوامی
دولت کے طرفدار تھے اور دین کے حامی
خصلت میں خوشامد تھی نہ عادت میں غلامی
رسموں میں خرابی تھی نہ اطوار میں خامی
گر فہم و فراست کی مجالس میں تھے نامی
تدبیر ممالک میں تھے وہ صدر گرامی
گر فتح و ظفر میں تھے سکندر سے بھی زیادہ
تھے دانش و حکمت میں ارسطو کے بھی دادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کیا طلب علم میں کرتے تھے جگر خوں
لیلی تھا اگر علم تو وہ لوگ تھے مجنوں
کچھ بو علی سینا ہی نہ تھا رشک فلاطوں
بہتوں نے کدایا یوہیں تحقیق کا گلگوں
مدت کی کہانی ہے اگر سیرت ماموں
تاریخ میں دیکھو سبب مرگ ہمایوں
اکبر بھی تھا آخر اسی تہ جرعہ کا مخمور
تھا فیضی علامہ اس کام پہ مامور
یہ کہنہ عمارات کہ ہیں وقف تباہی
اسلاف کے اوصاف پہ دیتی ہیں گواہی
صرف اصل و نسب ہی پہ نہ تھے اپنی مباہی
مکتب میں تھے استاد ریاضی و آلہی
میدان مساعی میں تھے اک مرد سپاہی
زیبا تھا انھیں چتر جہاں بانی و شاہی
کنیاتے تھے محنت سے نی آلام سے تھکتے
کوشش کی گھٹا میں تھے وہ بجلی سے کڑکتے
وہ عیش کے مملوک تھے نے بندہ راحت
گلگشت چمن زار تھی گویا انھیں عزت
برداشت جفا کرتے تھے سہتے تھے صعوبت
اوروں کے بھروسے پہ نہ کرتے تھے معیشت
دنیا کے کسی کام میں ہیٹی نہ تھی ہمت
بے غیرتی زنہار نہ تھی ان کی جبلت
ہمت میں تھے شاہین تو جرات میں تھے شہباز
عزت کی بلندی پہ کیا کرتے تھے پرواز
وہ صولت و سطوت میں تھے جوں شیر نیستاں
عزت کے لئے جاں بھی کیا کرتے تھے قرباں
تھا انجمن عیش سے خوشتر انھیں میداں
محنت کے بودے تھے نہ مشقت سے گریزاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٣٧)
دشوار تھی بے حرمتی اور ننگ مگر ہاں
آسان تھی نیزہ کی انی ۔ تیر کا پیکاں
خیرات کے ٹکڑے پہ نہ گرتے تھے وہ حاشا
تھا نعل بہا ان کو یہ دولت کا تماشا
وہ کعبہ مقصود تھے یا قبلہ حاجات
کس منہ سے بزرگوں پہ کریں فخر و مباہات
سر اپنے گریباں میں ذرا ڈالئے ہیہات
اوصاف اضافی سے نہیں کچھ شرف ذات
تلوار میں جب کوئی اصالت کی نہ ہو بات
گاہگ تو نہ پوچھے گا ۔ یہ کس کان کی ہے دھات
بندوق دم صید گر اچھی نہ چلی ہو
مردود ہے گو لندن و پیرس میں ڈھلی ہو
دل اپنی ستایش سے نہ بہلائیے حضرت
اس راہ میں دھوکا نہ کہیں کھائیے حضرت
شیخی کو بہت کام نہ فرمائیے حضرت
شعلہ کو تعلی کے نہ بھڑکائیے حضرت
آبا کی بزرگی پہ نہ اترائیے حضرت
یہ گو ہے یہ میدان ۔ ادھر آئیے حضرت
اب بھی تو وہی خیر سے نسل شرفا ہے
آخر سبب اس نیک سر انجام کا کیا ہے
کیوں قوم کی حالت میں تنزل کا پڑا ڈھنگ
کیوں انجمن عیش پرستی کا جما رنگ
کیوں تیخ شرافت کو دنائت کا لگا زنگ
مغلوب سفاہت ہوئے کیوں دانش و فرہنگ
روباہ بنے کس لئے شیران صف جنگ
کیوں بارگی عزم ہوا دون خر لنگ
کیوں ٹوٹ گئے باز عمل کے پر و بازو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٣٨)
کیوں ذروہ عزت پہ لگا بولنے الو
جڑ پہلے زمانہ میں جمی جیسے شجر کی
لذت ہمیں چکھنی ہے ضرور اس کے ثمر کی
بے شک ہے یہ پاداش اسی شور کے شر کی
ہاں مستحق اولاد ہے میراث پدر کی
تفتیش کرو دوستو ۔ اخبار و سیر کی
فہرست مرتب کرو ہر عیب و ہنر کی
دو ڈیڑھ صدی پہلے سے جو اپنا ڈھچر تھا
انصاف سے دیکھو اسے کیا پوچ و پچر تھا
جو راہنمائی کو چلے آپ تھے گمراہ
حالات سے واقف نہ مقامات سے آگاہ
شیروں کی جگہ جمع ہوا گلہ روباہ
ہر کرمک شب تاب بنا مدعی ماہ
ہر شخص کو تھی خود غرضی سے طلب جاہ
ویسے ہی امیرالامرا جیسے شہنشاہ
رسم حسد و بغض و عداوت ہوئی تازہ
آخر کو اٹھا دولت و عزت کا جنازہ
وہ غور کے غزنیں کے دلیران ظفر مند
وہ شاہ سواران بخارا و سمرقند
جو ہند کے خطے میں ہوئے خاک کے پیوند
جی اٹھتے دوبارہ اگر ان میں سے تنے چند
ہاں ہلہ اول میں تو ہوتے ہی وہ خرسند
پھولے نہ سماتے کہ ہمارے ہیں یہ فرزند
پر دیکھتے جب ان کے برے فعل برے قول
جا بیٹھتے قبروں ہی میں پڑھتے ہوئےلاحول
کیا حال تھا حضرات ملوک اور امرا کا
انبوہ تھا بیہودہ مشاغل کی بلا کا
۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٣٩)
یا فوج کنیزوں کی تھی اک قہر خدا کا
یا بولتا طوطی تھا کسی خواجہ سرا کا
یا شور خوشامد کا تھا یا مدح و ثنا کا
سفلے تھے مشیر اور مصاحب تھے چھچھورے
وہ عقل کے دشمن تو حضور ان سے بھی کورے
کاسد (١) ہوا بازار ہر اک طرز عمل کا
عالم نظر آتا ہے بتر آج سے کل کا
مفلس ہیں تو پیشہ ہے فریب و دغل کا
اندیشہ نہیں کچھ انھیں ایماں کے خلل کا
مدت سے ڈھانچ بگڑا اہل دول کا
چکھا ہے مزہ خوب ہی اسراف کے پھل کا
اب کوئی اگر دولت قومی کی کرے جانچ
ٹٹ پونجیئے البتہ نکل آئیں گے دس پانچ
اب نام کو ہم میں جو گروہ شرفا ہے
سو حالت افلاس میں جینے سے خفا ہے
یا شامت اعمال سے پامال جفا ہے
کچھ حسن معیشت نہ کہیں صدق و صفا ہے
کچھ دولت دنیا ہے تو بے مہر و وفا ہے
کچھ دین کا چرچا ہے تو وہ روبہ قفا ہے
چھائے گی تنزل کی ابھی ہم پہ گھٹا اور
ہم اور ہوا میں ہیں ۔ زمانہ کی ہوا اور
جو لوگ یہ سمجھے کہ ہیں صرف اپنے لئے ہم
اغراض و مقاصد ہیں فقط اپنے مقدم
یاروں کی انھیں فکر نہ غیروں کا انھیں غم
ہمدرد عشیرت ہیں نہ ہمسائیوں کے ہمدم
وہ فہم و فراست میں بہایم سے بھی ہیں کم
یا سنگ ہیں یا خشت ہیں جائیں بہ جہنم
(١) پہلے ایڈیشن میں یہ پانچ بند غلطی سے شائع نہیں ہوئے ۔
۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٤٠)
ان مردہ دلوں سے تو کرو قطع نظر بس
لے ڈوبیں گے تم کو بھی چلے ان کا اگر بس
جو قوم کے اوصاف تھے ۔ سو ان میں سے اکثر
آپس کی کشاکش میں گلا گھٹ کے گئے مر
غمخواری و احسان و مروت کا لٹا گھر
انصاف کا اور دین دیانت کا کٹا سر
نیکوں سے ہوئے بد ۔ تو بدوں سے ہوئے بدتر
کاشانہ دولت کی جگہ رہ گئے چھپر
جو کام تھے یاروں کے سو گردن زدنے تھے
خود اپنے لئے مستعد بیخ کنی تھے
جرات تھی سو آپس کی عداوت میں ہوئی صرف
قوت تھی ۔ سو رشک اور رقابت میں میں ہوئی صرف
شوکت تھی ۔ سو خودبینی و نخوت میں ہوئی صرف
فرصت تھی سو بیکاری و غفلت میں ہوئی صرف
عزت تھی ۔ سو افلاس و فلاکت میں ہوئی صرف
دولت تھی سو عیاشی و عشرت میں ہوئی صرف
اس وقت ہمیں عاقبت الامر ہوا ہوش
جب رہ گئے ہم لوگ بیک بینی و دو گوش
مدت سے زمانہ میں ترقی کا پھنکا صور
عالم میں بجا اور ہی تحقیق کا طنبور
آفاق میں پھیلا نئی ایجاد کا منشور
خورشید برآمد ہوا بھاگی شب دیجور
ہم دے کے ڈھئی کلبہ احزاں میں بدستور
سوتے رہے غفلت میں پڑے بے خود و مخمور
نا وقت کھلی آنکھ تو حیراں ہیں اب ہم
ہم کون ہیں کیا چیز ہیں اے وائے عجب ہم
ہم چاہتے ہیں عیش بھی اور ناموری بھی
دولت بھی ہمیں چاہئے اور بے ہنری بھی
اعزاز بھی مطلوب ہے بیہودہ سری بھی
آوارگی منظور ہے اور راہبری بھی
مقصود رفو بھی ہے مگر جامہ دری بھی
گر پستی ہمت ہے تو عالی نظری بھی
یہ بات تو ہو گی نہ ہوئی ہے کبھی آگے
پھرتے ہیں محالات کے پیچھے یونہیں بھاگے
خیر اب کوئی تدبیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کفارہ تقصیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کچھ چارہ تاخیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
اس حال کو تغیئر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
فریاد مین تاثیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
اس خواب کی تعبیر بھی ہے یا کہ نہیں ہے
کچھ بھی نہیں دشوار اگر ٹھان لو جی میں
گھنٹوں میں ہو وہ کام جو ہوتا ہو صدی میں
بے کوشش و بے جہد ثمر کس کو ملا ہے
بے غوطہ زنی گنج گہر کس کو ملا ہے
بے خون پئے لقمہ تر کس کو ملا ہے
بے جورکشی تاج ظفر کس کو ملا ہے
بے خاک کے چھانے ہوئے زر کس کو ملاہے
بے کاوش جاں علم و ہنر کس کو ملا ہے
جو رتبہ والا کے سزاوار ہوئے ہیں
وہ پہلے مصیبت کے طلبگار ہوئے ہیں
کوشش ہی نے اجرام سماوی کو ہے تولا
کوشش ہی نے طبقات زمیں کو ہے ٹٹولا
کوشش ہی نے رستہ نءی دنیا کا ہے کھولا
کوشش ہی نے گوہر ہے تہہ بحر سے رولا
۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٤٢)
کوشش ہی کا طوطی ہے سدا دہر میں بولا
کوشش ہے غرض طرفہ طلسمات کا گولا
قدرت نے فتوحات کی رکھی ہے یہی راہ
سعی اپنی طرف سے ہو تو اتمام من اللہ
ہیں آج کل اسکول کے کمرے صف ہیجا
سرمائیہ عم و ہنر و فضل ہے یغما
ہر قوم کا پر مال غنیمت سے ہے کیسا
لیکن تمہیں کچھ سود و زیاں کی نہیں پروا
کیوں قوم کے اعزاز کی لٹیا کو ڈبویا
کیوں کسب کمالات میں تم ہو گئے پس پا
اوروں سے تو بودے نہ تھے مانا کہ تم ایسے
میدان سے کیوں بھاگ گئے نوک دم ایسے
ہر چند کہ دعوی تھا تمھیں سیف و قلم کا
تھا فخر تمھیں نسل عرب و عجم کا
لیکن نہ رہا طرز وہ عادات و شیم کا
سیکھا نہ وتیرہ کوئی ارباب ہمم کا
ناچار ہر اک قوم نے تم کو لیا دھمکا
بے سعی کسی کا بھی ستارہ نہیں چمکا
تم راہ طلب میں ہو اگر اب بھی شتاباں
ہو کوکب عزت افق دہر پہ تاباں
اب تک بھی سکت ہے وہی ہڈی میں تمھاری
اب تک بھی وہی خوں ہے شرائین میں جاری
افغانی و ترکی و حجازی و تتاری
ایرانی و تورانی و بلخی و بخاری
اے دوستو ؛ ہمت ہی مگر تم نے تو ہاری
اس واسطے بس کرکری شیخی ہوئی ساری
مد علما دفتر قومی میں ہے خالی
۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٤٣)
فارابی و طوسی ہیں نہ رازی و غزالی
تلواروں کا سایہ تھا جنھیں سایہ طوبی
جولان گہہ ہمت تھی جنھیں وسعت دنیا
تھا ریگ رواں جن کے لئے بستر دیبا
اور خیمہ اطلس تھا یہی قبہ خضرا
ہے تم کو اگر ان کے خلف ہونے کا دعوے
دکھلاؤ حریفوں کے مقابل ہنر اپنا
ترتیب سے جم جاؤ قرینہ بقرینہ
میدان ترقی میں لڑو سینہ بہ سینہ
یہ جنگ نہیں توپ کی یا تیغ و تبر کی
اس جنگ میں کچھ جانن کی جوکھوں ہے نہ زر کی
یہ جنگ ہے اخلاق کی اور علم و ہنر کی
یہ جنگ ہے تحصیل عمل اور نظر کی
اس جنگ میں آسودگی ہے نوع بشر کی
آزادی ہے ملکوں کی تو آبادی ہے گھر کی
یہ جنگ نہیں وضع مروت کے منافی
اس جنگ سے مافات کی ممکن ہے تلافی
ہے جنگ سے مقصود بلندی ارادہ
وہ ہم سے زیادہ ہوں تو ہم ان سے زیادہ
رستہ ہو تعصب کا نہ کینہ کا ہو جادہ
نقش حسد و بعض سے افعال ہوں سادہ
دل صاف رہے اور طبیعت بھی کشادہ
اس طور سے حاصل کرو عزت کا وسادہ
گر جوہر ہمت ہے تو سبقت میں کرو کد
نامردی و مردی قدمے فاصلہ دارد
باقی ہے اگر جوش حمیت کا حرارہ
تو معرکہ علم میں ہو جاؤ صف آرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٤٤)
جاں ڈال دو ناموس کے قالب میں دوبارا
پیچھے نہ ہٹاؤ قدم عزم خدارا
ذلت نہیں ہوتی کبھی مردوں کو گوارا
چمکو فلک جاہ پہ تم بن کے ستارا
آبا نے کیا فتح جو بنگال و دکن کو
تسخیر کرو تم عمل و علم کو فن کو
ادنی سا بھی ہر کام ہے اب علم کا محکوم
بے علم ہے جو قوم سو حال اس کا ہے معلوم
دولت سے ہے بیگانہ تو عزت سے ہے محروم
اقوال کمینہ ہیں تو افعال ہیں مذموم
ارباب ہنر کی کرہ ارض پہ ہے دھوم
سب حلقہ بگوش ان کے ہیں وہ سب کے ہیں محکوم
دنیا میں اسی قوم کا گلزار ہے پھولا
جو رکھتی ہے دانش میں ہنر میں ید طولا
تم جانتے ہو خوب کہ انسان ہے فانی
فانی ہے بلا شبہ مگر اس کی نشانی
کیا اس کی نشانی ہے سنو میری زبانی
امثال میں مذکور ہے پچھلوں کی کہانی
خوش بخت تھے وہ ۔ کر گئے جو فیض رسانی
بدبخت تھے مغلوب صفات حیوانی
گر تم بھی یوہیں اٹھ گئے حیوان سے رہ کر
آیندہ کی نسلیں تمھیں کیا روئیں گی کہہ کر
پھل خدمت قومی ہے اگر نخل ہیں اقوال
تن خدمت قومی ہے اگر جامہ ہیں افعال
جان خدمت قومی ہے اگر جسم ہیں اعمال
ملحوظ رکھو خدمت قومی کو بہر حال
پر نفع یہ ہی شغل ہے من جملہ اشغال
جو زندہ جاوید ہیں ان کی ہے یہی چال
۔۔۔۔۔۔،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٤٥)
پر الفت قومی سے ہے جن کا رگ و ریشہ
مرنے کو تو مرتے ہیں ۔ پر جیتے ہیں ہمیشہ
قوت ہے اگر دل میں دماغوں میں ہے طاقت
پہنچاؤ بہم حسن بیاں اور طلاقت
اصلاح معائب میں کرو صرف لیاقت
دکھلاؤ مریضوں کو مداوا میں حداقت
رکھو نہ غریبوں پہ روا طعن حماقت
قومی ضعفا کی نہ کرو ترک رفاقت
کیا دولت ہستی ہے پئے نفس پرستی
آباد کرو قوم کی اجڑی ہوئی بستی
ہے قوم اگر باغ تو تم اس کے شجر ہو
ہے قوم اگر نخل تو تم اس کے ثمر ہو
ہے قوم اگر آنکھ تو تم نور بصر ہو
ہے قوم اگر چرغ تو تم شمس و قمر ہو
ہے قوم اگر کاں تو تم لعل و گہر ہو
نظارگی ہے قوم ۔ تو تم مدنظر ہو
موسی بنو اور قوم کو ذلت سے بچاؤ
گوسالہ غفلت کی پرستش کو چھڑاؤ
او باغ خزاں دیدہ کے نوخیز نہالو ؛
او ساحت ہستی کے نئے دوڑنے والو
مضبوط کرو دل کو طبیعت کو سنبھالو
کچھ دور نہیں ۔ منزل مقصود کو جا لو
ہاں ؛ مد مقابل بنو ہتھیار نہ ڈالو
میداں ترقی کی زمیں سر پہ اٹھا لو
زنہار گوارا نہ کرو ننگ ہزیمت
موقع ہے ابھی گرم کرو رخش عزیمت
غیرت ہو تو گر کر بھی سنبھلنا نہیں مشکل
جرات ہو تو نرغہ سے نکلنا نہیں مشکل
ہو صبر تو آفات کا ٹلنا نہیں مشکل
ہو آنچ تو پتھر کا پگھلنا نہیں مشکل
ہمت ہو تو حالت کا بدلنا نہیں مشکل
انجن ہو تو گاڑی کا بھی چلنا نہیں مشکل
گرمی سے کرو پہلے بخارات مہیا
پیدا حرکت ہو تو لگے گھومنے پہیا
ہمت ہی حرارت ہے وہی ہے حرکت بھی
ہمت ہی سے ہر قوم نے پائی ہے ترقی
گر چیونٹی تیمور کی ہمت نہ بندھاتی
ہتھیار بھی بے کار تھے اور فوج نکمی
ہمت ہے سر انجام مہمات کی کنجی
ہمت ہی حقیقت میں ہے توفیق آلہی
ہمت ہی بنا دیتی ہے مفلس کو تونگر
ہمت کے سفینہ کا اٹھادیجئے لنگر
ہمت ہے اگر تم میں تو میدان لیا مار
ڈٹ جاؤ کمر باندھ کے ہشیار ؛ خبردار
اوروں ہی کے گنڈے پہ نہ رہنا کبھی زنہار
ہونے نہ دو اعزاز کے جھنڈے کو نگونسار
لو ہاتھ میں اب تم بھی کوئل پین کی تلوار
اس معرکہ سخت میں مردانہ کرو وار
ہاں قوت بازو سے بلا شرکت غیرے
آگے کو بڑھو کھولدو نصرت کے پھریرے
قسمت کی برائی ہے نہ تقدیر کا ہے پھیر
خود اپنے ہی کرتوت سے برپا ہے یہ اندھیر
تحصیل فضائل میں جوانو ؛ نہ کرو دیر
فرصت کو اگر اور مگر میں نہ کرو تیر
۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٤٧)
بزدل نہ بنو حق نے بایا ہے تمھیں شیر
کہسار بھی ہو تو اسے کر دو زبر و زیر
یلغار کرو علم کے میداں میں عزیزو
آخر تو ہو تم قوم مسلماں میں عزیزو
جس (١) بستی میں دیکھو نحوست ہے برستی
غالب ہے کہ ہو گی وہ اسی قوم کی بستی
گرتی چلی جاتی ہے ابھی جانب پستی
چلتی ہے فضولی کی سند ؛ تیغ و دوستی
لے دے کے یہی جنسا ہے اس دور میں سستی
فاقہ پہ ہے فاقہ مگر اب تک وہی ہستی
مل بیٹھ کے اندیشہ انجام نہ کرنا
روٹی ملے جس کام سے وہ کام نہ کرنا
خیل علما کی بھی حمیت ہوئی زائل
تبدیل رذائل سے ہوئے جملہ فضائل
مرتے ہیں مشیخت پے تفاخر پے ہیں مائل
چھپتے ہیں فریقین سے پر زہر مسائل
لاکھوں ہیں پڑے خنجر تکفیر کے گھائل
باعث ہیں جدل کے یہی فقیہہ مسائل
برپا ہے شب و روز یہاں چپقلش ایسی
عالم ہے لقب اور بہم کش مکش کیسی
(١) یہ دو بند بھی منجملہ ان پانچ بندوں کے ہیں جو اب تک آثار سلف کے کسی اڈیشن میں شائع نہیں ہوئے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٤٨)
انسان (١)
میں بھی کیا خوب ہوں مجھ پہ نہ کھلا راز اپنا
نہ تو انجام ہے معلوم نہ آغاز اپنا
شاید اس بزم میں ہے مرتبہ ممتاز اپنا
لیکن اوروں سے نرالا ہے کچھ انداز اپنا
ہوں تو بے قدر پہ مجموعہ کل عالم ہوں
میں ہی مسجود ملائک ہوں اگر آدم ہوں
ابرو باد و مہ و خورشید میرے کام میں ہیں
مرغ و ماہی و دو و دام میرے دام میں ہیں
آب و آتش میری خدسمت کے سر انجام میں ہیں
کل جمادی و نباتی مرے خدام میں ہیں
مجھ میں قدرت نے عجب فضل و شرف رکھا ہے
میں نے فردوس کے میووں کا مزہ چکھا ہے
(١) صرف دو بند ایک مسودہ میں ملے جا یہاں درج کئے گئے ۔ مرتبہ ١٨٨٠ عیسوی
۔۔۔۔،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
(١٤٩)
ترجیع بند
(١) نالہ چند در فراق شیخ
اے ؛ شاہ یگانہ زمانہ
اے ؛ بحر محیط بے کرانہ
کیوں اہل نیاز کے سروں سے
خالی ہے یہ سنگ آستانہ
وہ محفل انس اب کدھر ہے
یارب ہے؛ کہاں وہ کارخانہ
وہ بزم نہ وہ جمال ساقی
وہ جام نہ وہ مئے خانہ
وہ طور ہے اب نہ وہ تجلی
وہ وقت ہے اب نہ وہ زمانہ
کیا ہو گیا ؛ جلوہ سحر گاہ
کیا ہو گئی ؛ صحبت شبانہ
ہے دل میں ابھی وہی تصور
ہے یاد ہنوز وہ فسانہ
وہ فصل نہ وہ بہار باقی
وہ گل نہ چمن نہ آشیانہ
رہتی ہے اچاٹ سی طبیعت
ملتا ہی نہیں کہیں ٹھکانہ
جان حسرت دید میں طپاں ہے
دل تیر فراق کا نشانہ
ساحل پر پڑے ہیں سب مسافر
کشتی کس طرف ہوئی روانہ
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
اے ؛ کعبہ خاص و قبلہ عالم
تھی تیری گلی مقام احرام
۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٥٠)
تھا امن جاں حریم اقدس
آغاز کا غم نہ خوف انجام
سب محو تھے ظل عاطفت میں
خطرات و خیال و فکر و اوہام
اس بحر محیط میں تھے سب گم
نیکی و بدی و کفر و اسلام
پر شور تھے بے لب و دہاں ہم
سر مست بدون بادہ و جام
مشغول جمال بے سر و چشم
مصروف سفر بغیر اقدام
دریا ہوا اک عطا سے قطرہ
پختہ ہوا اک نگاہ سے خام
کیخسرو و کیقباد سے بھی
تھے بخت بلند تیرے خدام
دیکھا اب ہجر چار ناچار
دیکھی فرقت بھی کام نا کام
کہہ دیجیو اے نسیم ؛ یہ بات
لے جائیو اے صبا ؛ یہ پیغام
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
ہوتی ہے جہاں میں کم کوئی ذات
بے علت و نسبت و اضافات
خورشید تھا وہ وجود با جود
دریا تھی وہ ذات فیض آیات
دیرینہ نہنگ بحر توحید
مردانہ قلندر خرابات
سلطان جہاں ترک و تجرید
شہباز معارف نہایات
نے میل مراتب و مدارج
نے رغبت کشف نے کرامات
ملتی تھی مراد طالبوں کو
اس در سے بدون عرض حاجات
اس بات کی ہو گئی گرہ وا
دل میں بھی نہ تھی ہنوز جو بات
خلوت میں ترا جمال مفتاح
جلوت میں ترا کلام مشکواہ
کیا تھی ؟ وہ نظر سحاب رحمت
کیا تھا ؟ وہ زمانہ فصل برسات
وہ وقت نہ وہ زمانہ افسوس
وہ لطف نہ وہ بہار ہیہات
اک آن کی آن تھی حضوری
اک بات کی بات تھی ملاقات
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
اے بحر حقیقت خدائی
اے جلوہ شان کبریائی
باقی نہیں کوئی مشغلہ اب
رندی ہی رہی نہ پارسائی
شاہی کا نہیں خیال سر میں
جی میں نہیں حسرت گدائی
نے بند قفس نہ شوق پرواز
باقی ہے نہ قید نے رہائی
نے حرص و ہوا نہ کچھ توکل
نے برگ و نوا نہ بے نوائی
نے فکر قصیدہ ہائے عطار
نے ذکر حدیقہ سنائی
نے قرب نوافل و فرائض
نے تنگ دلی نہ دلکشائی
بندہ نہ خدا نہ دین و دنیا
کی آپ نے خوب ہی صفائی
لیکن نہ مٹا غبار فرقت
ہر چند کہ طاقت آزمائی
مشکل ہوا کاٹنا دنوں کا
دشوار ہوئی تری جدائی
۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٥٢)
دل سینہ میں ہے کہ برق بیتاب
اندوہ کی اک گھٹا ہے چھائی
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
ایام وصال بھی تھے کیا دن
راتیں تھیں مراد مدعا دن
محسوس نہ تھا کہاں کٹی رات
معلوم نہ تھا کدھر گیا دن
کیا جلد گزر گئے وہ دن حیف
ہوتا کوئی اور بھی سوا دن
تھی رات بہت دنوں سے اچھی
راتوں سے زیادہ خوب تھا دن
تھی بزم وصال دن ہو یا رات
تھی دید جمال ۔ شب ہو یا دن
دنیا میں بزرگ تھی وہی رات
تھا عمر میں بس وہی بڑا دن
ہر صبح عجیب ۔ شام نادر
ہر رعات جدید ۔ اور نیا دن
تھی دن کو خوشی کہ اب ہوئی رات
تھی شب کو مسرت اب ہوا دن
عالم کو زبس کہ ہے تغیر
رہتے نہیں ایک سے سدا دن
تھا خواب و خیال وہ زمانہ
بجلی ہوئی رات اور ہوا دن
دن رات یہی فغاں ہے لب پر
وہ رات رہی نہ وہ رہا دن
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
اے قبلہ عالم معانی
سلطان جہان بے نشانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٥٣)
اے بحر معارف و حقائق
شاہنشہ ملک جاودانی
آگاہ مقاصد برونی
دانائے خواطر نہانی
یک رنگ و یگانہ و یک آئیں
بے فرق مکانی و زمانی
خصلت میں عجیب دلنوازی
عادت میں کمال مہربانی
تھی آپ پہ ختم بذلہ سنجی
تھی آپ پہ ختم نکتہ دانی
باتوں میں طریق دلکشائی
لفظوں میں ادائے خوش بیانی
تھے گوہر قدس وہ اشارات
اور غیب سے تھی درفشانی
القصہ وہ احسن القصص تھی
جو بات سنی تری زبانی
آیا نہ پسند یاں کا رہنا
برباد ہو یہ سرائے فانی
جو کچھ گزرا سو تھا فسانہ
جو کچھ دیکھا سو تھی کہانی
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
اے بحر کرم کے محیط نایاب
لب تشنہ ہیں ماہیان بے آب
اے لوح سفینہ مسرت
طوفان زدہ ہیں تمام اصحاب
پانی پت تھا بقا کا چشمہ
اب کیا ہے غم و الم کا گرداب
روتے ہیں یہاں کے سب در و بام
حوض و حجرہ ۔ ستون و محراب
آتے تھے مدام تیرے مہمان
بنگالہ سے لے کے تا بہ پنجاب
۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٥٤)
جلوہ تھا یہ تیرے دم قدم کا
اب کیا ہے کہ مجتمع ہوں احباب
وحشت زدہ پھرتا ہے غلامی
اور غم زدہ مضطرب ہے نو آب
ملفوظ مبارک و گرامی
ہے زندگی حسن کا اسباب
ساحل ہے کہیں نہ تھل نہ بیڑا
سب بحر فراق میں ہیں غرقاب
افسوس ہوا نظر سے پہناں
وہ شمس منور جہاں تاب
اے ملک بقا کے جانے والو
کہہ دیجیو بعد عرض آداب
ہے جوش میں ہجر کا سمندر
یا غوث علی شہ قلندر
(٢) ہفت درود محمود
١
خلیل حق کی تھی جو اشارت
اور ابن مریم کی جو بشارت
ظہور احمد سے تھی عبارت
سمجھ گئے صاحب بصارت
کہ اب گری کفر کی عمارت
گھٹے گی فارس کی اب حرارت
مٹے گی روما کی اب شرارت
لٹے گی اب مصر کی امارت
خزانہ ہرقل کا ہو گا غارت
بڑھے گا تقوی بھی اور طہارت
ہے باغ اسلام کو نضارت
نیا ہے سلطان نئی وزارت
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل باصفا پر
۔÷÷÷÷÷÷÷÷÷۔۔۔۔۔۔
(١٥٥)
اور اس کے اصحاب باوفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
٢
وہ اوج پیغمبری کا تارا
ہوا ہے مکہ میں جلوہ آرا
کرے گا جو ماہ کو دو پارا
وہ امتوں کے لئے سہارا
وہ جس نے اخلاق کو سنوارا
کرے جو صورت کوئی نظارا
مہابت اس پر ہو آشکارا
ہے زلزلہ میں جہان سارا
محل کسرے و ملک دارا
نہیں اطاعت سے اس کی چارا
یہود ہو یا کوئی نصاری
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل باصفا پر
اور اس کے اصحاب باوفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
٣
وہ جلوہ نور کبریائی
وہ صاحب دعوت خدائی
وہ عین تقوی و پارسائی
بنا بت خانہ اس نے ڈھائی
وہ قرب حق میں جسے رسائی
بمجتبائی و مصطفائی
ہے دھوم توحید کی مچائی
کہ خود بتوں نے بھی دی دہائی
عرب کو انسانیت سکھائی
دلوں سے کینہ کی کی صفائی
ہر ایک برائی کی جڑ مٹائی
مری ہوئی قوم پھر جلائی
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل باصفا پر
اور اس کے اصحاب باوفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٥٦)
٤
وہ علم و حکمت سکھانے والا
پیام حق کا وہ لانے والا
کلام حق کا سنانے والا
عذاب حق سے ڈرانے والا
وہ رسم بد کا چھڑانے والا
وہ جھل و بدعت مٹانے والا
وہ بت پرستی اٹھانے والا
وہ سیدھا رستہ چلانے والا
خدا پرستی بتانے والا
وہ عاصیوں کا بچانے والا
مقام محمود پانے والا
وہ بیت اقصی کو جانے والا
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل باصفا پر
اور اس کے اصحاب باوفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
٥
وہ جلوہ ہے نور کبریا کا
وہ صدر ہے بزم اصطفا کا
امام ہے خیل انبیا کا
ہے پیشوا مسلک ہدی کا
معین انصاف او وفا کا
مٹانے والا وہ جفا کا
طبیب ہے شرک و ریا کا
کہ خاص بندہ ہے وہ خدا کا
ہے آئینہ صدق اور صفا کا
وہ شاہ تسلیم و رضا کا
وہ قبلہ ہر شاہ کا گدا کا
وہ کعبہ ابرار و اصفیا کا
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل باصفا پر
اور اس کے اصحاب باوفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
٦
نبی امی لقب ہے اس کا
نسب میں خورشید ہاشمی تھا
۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٥٧)
نہ کچھ کسی سے پڑھا نہ لکھا
وہ ان پڑھوں میں ہوا تھا پیدا
نہ اس کے سر پر پدر کا سایا
نہ اس کو استاد نے پڑھایا
کہ اس پے روح الامین آیا
کلام ربی اسے سکھایا
وہ بحر اعظم تھا علم حق کا
نہ تھا وہ محتاج علم اشیا
اسے تھا مکشوف رمز اولی
اسے تھا معلوم سر اخری
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل باصفا پر
اور اس کے اصحاب باوفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
٧
وہ فخر آدم امان عالم
امین محکم رسول اکرم
محیط اعظم زغیب ملہم
بوحی محرم شہ مسلم
عرب کے اندر وہی معظم
عجم کے اندر وہی مکرم
لگا کے آدم سے تابہ ایں دم
ظہور اس کا ہے بعد آدم
وجود اس کا مگر مقدم
وہ نورحق تھا ولے مجسم
کیا مدینہ کو سبز و خرم
درود محمود بھیج پیہم
صلوۃ اس پر سلام اس پر
اور اس کے سب آل باصفا پر
اور اس کے اصحاب باوفا پر
اور اس کے احباب اتقیا پر
۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٥٨)
قصائد
قصیدہ (١)
قید سخت اور خانہ بے در
نکلوں کیوں کر جہان سے باہر
تنگ تر ہیں حدود خطہ خاک
نہیں دنیا میں کوئی شکل گزر
سعی بے کار فکر لاحاصل
نہ دوا میں نہ کچھ دعا میں اثر
نا شکیبا دل و پریشاں دل
پاؤں کا ہوش ہے نہ سر کی خبر
ایسا حیراں کہ میں سمجھتا ہوں
آئنہ کو بھی سد اسکندر
کبھی مثل سحاب ہوں گریاں
گاہ مانند برق ہوں مضطر
کیوں نہ شکوہ کروں نصیبوں کا
کیوں نہ افسوس آئے قسمت پر
میں ہوں شمشیر لیک زنگ آلود
کوئی مل جائے قدردان اگر
اس پہ کھل جائیں کچھ مرے اوصاف
اس پہ ظاہر ہوں کچھ مرے جوہر
آرزوئے زماں ہوں سرتاپا
حسرت روزگار ہوں یکسر
اپنے جوہر دکھائے کس کو
نہ رہی آہ قدر تیغ و سپر
یہ ہی الفاظ تھے زباں پر رات
کہ کہا مجھ سے عقل نے آ کر
نہیں شایاں شکایت تقدیر
نا مناسب ہے شکوہ اختر
جتنے گزرے ہیں آگے عالی فہم
رکھتے تھے روئے خاک پر بستر
(١) یہ قصیدہ شیخ یعقوب علی مرحوم کی فرمایش سے ١٨٦٩ عیسوی میں لکھا گیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٥٩)
جتنے گذرے ہیں صاحب اوصاف
مورد طعن خلق تھے اکثر
وہی ہو گا جو ہو لیا پہلے
یعنی کیا چارہ قضا و قدر
جس کو چاہے بنائے وہگم نام
جس کو چاہے کرے وہ نام آور
رنج و محننت ہے گو زمانہ میں
ہے تجھے تو مقام شکر مگر
بخت ناکام کا تجھے کیا خوف
گردش چرغ کا تجھے کیا ڈر
تو نہ دنیا کے غم میں ہو پابند
تو زمانہ کا ہو نہ دست نگر
کہ ترا دست گیر ہے موجود
اور ترا سرپرست ہے سر پر
وہ سخاوت منش سخاوت کیش
وہ کرم پیشہ وہ کرم گستر
وہ شرف دوست وہ شریف نواز
وہ ہنر دوست وہ ہنر پرور
کوہ جس پر کرے تصدق لعل
بحر جس پر کرے نثار گہر
وہ زمانہ میں صاحب شمشیر
وہ رئیسوں میں قابل افسر
جس کو دکھلائے اشرفی خورشید
جس کو مریخ دے نذر خنجر
پیش کش ہے یہ مطلع ثانی
کہ قلم ہے رواں بطرز دگر
مطلع ثانی
اے قمر چہرہ آفتاب افسر
اے فلک مرتبہ زمیں کشور
اے ترا فہم رونق تدبیر
اے تری رائے عقل کا زیور
۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٦٠)
تیرے دم سے جہاں کا باغ امید
سبز و شاداب اور تازہ و تر
تیرے فیض کرم سے ارزانی
فقرا کو بھی دولت قیصر
بانگ پر قہر سے تری پیدا
ایک سناٹا دشت کے اندر
مژدہ مہر سے ترے برپا
شہر میں غلغل طرب گھر گھر
جب کہ بجتی ہے تیری نوبت صبح
گونج اٹھتا ہے گنبد بے در
ذکر انصاف کا ترے سن سن
ظلم خود کانپتا ہے اب تھر تھر
ٹھیرے انسان ملزم دز دی
گر ترے عہد میں چرائے نظر
ہے ترے احتساب کے ڈر سے
شکل خونناب بادہ احمر
غیر واجب بیاں نہ تم کو پسند
ظاہر آرائی کا نہ میں خوگر
مدعا عرض فن شعر نہیں
شرح احوال واقعی ہے مگر
ہو گیا اتفاق سے مجبور
کیا میں نے جو اختیار سفر
ورنہ دوری کسے گوارا تھی
مجھ سے اور چھوٹ جائے تیرا در
میں نمک خوار تو ولی نعمت
میں تہی دست تو کرم گستر
ہی وہی آستاں مرا مرکز
آسماں گرچہ لاکھ دے چکر
کہ رہا بندہ وار مدت تک
الفت خاص سے ترے در پر
اب ترے التفات بے حد کی
یاد میں کر رہا ہوں عمر بسر
طوطی ہند ہے زباں میری
اور ترا ذکر خیر ہے شکر
نہ مجھے حرص درہم و دینار
نہ مجھے آرزوئے لعل و گہر
چاہتا ہوں فقط یہی کہ رہے
گوشہ چشم التفات ادھر
پھر یہی کہہ رہی ہے کثرت شوق
کہ پے ہم رہوں ثنا گستر
نہ کوئی بذل میں ترا ہمتا
نہ کوئی عدل میں ترا ہمسر
بر پیادہ ترا تہمتن تن
ہر سپاہی ترا مظفر فر
سر دشمن بنے گل نیزہ
خون اعدا ہو جوہر خنجر
رہے جب تک جہاں میں زیبائش
رہے جب تک جہاں کو زیب دگر
تو ہو فرماں روائے اہل جہاں
اور اہل جہاں ہوں فرماں بر
دوستوں کو مدام عیش و نشاط
دشمنوں کو ہمیشہ خوف و خطر
(٢) قصیدہ نا تمام (١)
دکھاؤں شاید مضموں کی چین پیشانی
کہ ہووے چشمہ آئینہ غرق حیرانی
جو دیکھے جنبش لب ہائے جاں فزا اس کی
تو فرط شرم سے آب حیات ہو پانی
چمن میں گر وہ سراپا بہار جا نکلے
تو خار خار چمن بھی کرے گلستانی
جمال حسن یہی ہے تو ایک دن میں بھی
بلا کے خلوت دل میں بہ رسم مہمانی
(١) بمقام سہارنپور ١٨٦٩ عیسوی میں لکھا گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٦٢)
حضور عالی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خاں صاحب
کہوں کہ آج دکھا جوہر ثنا خوانی
کہ جس کی را سے بہ آئین ملکی و مالی
معین رسم جہاں داری و جہاں بانی
اب اس کے عہد عدالت میں ظلم ہی نہ رہا
غلط ہے یہکہ نیا یدز گرگ چو پانی
سنا جو شہرہ انصاف و داد خود آئی
عدالت از پئے پابوس ۔ ہو کے دیوانی
بوقت صولت و سطوت ۔ نگاہ برق و ماں
دم سخا و کرم ۔ ہاتھ ابر نیسانی
طریق داد میں پیدا ہے عدل فاروقی
امور دین میں ظاہر ہے حیاے عثمانی
(٣) قصیدہ
ایک پرانے مسودے میں سے یہ چند اشعار مل گئے جو یہاں درج ہیں ۔
یہ قصیدہ میرے مرحوم دوست ڈپٹی نجم الدین صاحب دہلوی کی فرمائش سے لکھا گیا تھا ۔ مرتبہ ١٨٧٠ عیسوی
رنگ فریب سادگی دل میں ہے نہاں
افزائش یقین نہیں ہے بے کا ہش گماں
دل تنگ ہے کثافت چار آخشیج سے
باطن میں گو لطائف ستہ ہوئے رواں
ہے پردہ پوش ویو بد آموز آشکار
فرخ سروش اٹھائے اگر برقع نہاں
خاطر نشاں ہے غفلت عیش معاصریں
گر دل نشین ہے عبرت حال گزشتگاں
وہاں دست برد جہل بھی وہم آفریں نہیں
جس میکدہ میں پائے خرد ہو نہ درمیاں
آسائش کدورت باطن ہے وہ بلا
سعی صفائے قلب کو سمجھے بلائے جاں
۔۔،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔
(١٦٣)
دل میں ہجوم وسوسہ پیدا کرے خطر
خاطر پر گر سرایر مکتومہ ہوں عیاں
ہو تیرگی جسم کو یہ خاک داں فضا
زنداں ہو بہر روح جو یہ تیرہ خاکداں
غفلت کو ہو بقیہ و دروزہ پر غرور
اندیشہ کو اگر ہو غم عمر رائگاں
تھا دل میں حشر و نشر تخیل یہی کہ جہل
بالیں پہ میرے بیٹھ گیا آ کے ناگہاں
کہنے لگا تجھے نہ دکھاؤں گا تا بہ حشر
علم و کمال و فضل کے ثمرہ میں غروشاں
اے خفتہ بخت طالع بیدار کی طرح
تجکو ملے نہ دولت بیدار کا نشاں
سرمہ ہو یا ہو خال مگر تیرہ روزگار
تجھ سا نہ نکلے ہند سے لے تاباصفہاں
ملجائیں خاک میں ترے افکار دوربیں
ثابت بھی گرچہ کردے تو خرق آسماں
شعلہ کی طرح تجکو میں بے تاب ہی رکھوں
اور آگ کی مثال تہ ظلمت و خاں
سینہ کو تیرے چاک کروں میں برنگ گل
لیکن بنا کے داغ تمنا سے گلستاں
شبنم کی طرح تجکو رولاؤں دم سحر
خونیں کفن بناؤں سر شام لالہ ساں
پایان کار ایسا بنے ننگ روزگار
بیٹھے جو تو کہیں تو اٹھے شور الاماں
رہ جائے ایسا بیکس و بے یارو بے دیار
ہو کوئی تیرا دوست نہ مونس نہ مہرباں
کیا تاب ہے کہ تو مرے چنگل سے چھوٹ جائے
اور چھوٹ جاے بھی تو بھلا جائیگا کہاں
امضا پریر جانب مغرب ہے میرا حکم
مشرق میں بھی ہے سکہ ترے نام کا رواں
سرحد خاک چین سے اقصائے روم تک
تیغ و نگین ہے مجکو مسلم بہر زماں
میں حالت سکوت میں سنتا رہا بغور
اس یاوہ گو کی ہرزہ و بے صرفہ داستاں
کافور ہو گئے وہ خیالات سابقہ
چلنے لگی زباں کہ مری طبع تھی رواں
اے جہل رو سیاہ و تبہ کار و لاف زن
گو بخت واژ گونہ و بے مہر آسماں
لیکن تجھے خبر بھی ہے یہ کس کا دور ہے
ہے آج کون داور دارائے داوراں
اے جہل اس کے ظل حمایت میں ہوں میں آج
ہے جس سے پرچم علم علم زرفشاں
آسودہ زیر سایہ فیض عمیم ہوں
وہ سایہ جس کے سامنے خورشید ہے کتاں
چمکا ہے یہ ستارہ علم ان دنوں کہ ہیں
جلباب لیل میں سبق آموز روشناں
کچھ روشنان چرخ ہی پر کیا مدار ہے
مرغان گلستاں میں بھی ہے درس بوستاں
اک درس بوستاں پہ نہیں منحصر سبق
نہر الفصاحت ان کے لئے جدول رواں
ہر جدول رواں میں ہے طغرائے دل فریب
یعنی کہ سبزہ تازگی افزائے جسم و جاں
سبزہ سے ہیں معانی بیگانہ آشکار
کیا متن گلز میں ہے پئے مرغ صبح خواں
لمعان آفتاب سے جوں رنگ شب اڑے
کھویا فروغ علم نے یوں جہل کا نشاں
پیدا ہے شوق علم کہ کرتا ہے روز و شب
خورشید بھی مساحت ساحات آسماں
شب گرچہ کم سواد ہے پر نور علم سے
اس نے بھی ہیں مسائل ہیئت کئے بیاں
بہر نبات نعش معلم ہے چرخ پیر
روشن اسی غرض سے ہے شمع ستارگاں
اب کر دیا ہے سیر کواکب نے آشکار
تھا راز علم گنبد افلاک میں نہاں
اے معدلت پناہ و پناہ جہانیاں
سرمائیہ فضلیت و علامہ زماں
خورشید مجدد شمع شبستاں مکرمت
نیسان جود و بر بہاران امتناں
۔۔۔۔۔،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٦٥)
عز و جلال میں بیداے بے قیاس
فضل و کمال و علم میں دریائے بے کراں
ہے تیرا دست جو دکف بحر سے وسیع
پائے زعلوئے مرتبہ بالائے فرقداں
تدبیر مملکت میں تری رائے معتبر
قانون سلطنت میں ترا فہم نکتہ داں
زیبا ہے تجکو طبل و علم پرچم و لوا
شایاں ہے تجکو خیل و خدم لشکر گراں
(٤) خشک سالی (١)
نہ آئی ۔ پر نہ آئی پر نہ آئی
گھٹا نے بولدی بالکل صفائی
اگر آئی تو کی لے دے ہوا نے
سواری اور جانب کو بڑھائی
گئے دریا اتر ۔ تالاب سوکھے
کجائی ابر دریا دل کجائی ؟
نہ صحرا میں دل آویزی کا انداز
نہ بستاں میں ادائے دل کشائی
نہ صحن باغ میں طوطی کا نغمہ
نہ شاخ گل پہ بلبل چہچہائی
زمین چٹیل ہے کورا آسماں ہے
ہوئی اب کے برس اچھی صفائی
نہ روئے مل کے ساون اور بھادوں
ہوئی ہے ترک باہم آشنائی
نہ تانا شامیانہ ابر تو نے
نہ اب کے رعد نے نوبت بجائی
نہ وہ جگنو نہ وہ راتیں اندھیری
نہ وہ کالی گھٹا گھنگور چھائی
نہ پرنالے چلے اب کے دھڑا دھڑ
نہ گزری کی سڑک رو نے بہائی
(مرتبہ ١٨٧٠ عیسوی )
۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٦٦)
نہ وہ سن سن نہ وہ جھونکے ہوا کے
نہ بجلی نے چمک اپنی دکھائی
نہ وہ برسات کے کیڑے پتنگے
نہ مینڈک نے زمیں سر پر اٹھائی
کہاں بادل کہاں بجلی کہاں مینہ؛
پریشانی سی ہے دنیا پہ چھائی
نہ اے بھادوں بھرن برسائی تو نے
نہ اے ساون جھڑی تو نے لگائی
نہ موروں نے کیا کچھ شور برپا
نہ کویل ہی نے دھوم اب کے مچائی
نہ ٹپکیں بوندیاں پتوں سے ٹپ ٹپ
نہ دل کش راگنی چڑیوں نے گائی
نہ رنگا رنگ بادل آسماں پر
نہ چھت پہ گھاس دیواروں پہ کائی
نہ کیچڑ ہے نہ پانی ہے نہ سبزہ
نہ مینہ برسا نہ کھیتی لہلہائی
ترستے ہیں برستا ہی نہیں مینہ
سسکتی ہے پڑی ساری خدائی
بہت رو کر دعائیں سب نے مانگیں
گھٹا روئی نہ بجلی مسکرائی
ہوئی برباد کھیتی تھک گئے بیل
گئی گزری کسانوں کی کمائی
نہیں بیچارے حیوانوں کو چارہ
ہے انسانوں کو فکر بینوائی
بہت مزدور بیٹھے ہیں نکمے
نہیں اب کوئی حیلہ جز گدائی
سمندر کیا ہوئے تیرے بخارات
صبا ؛ تو کیوں اڑا کر لے نہ آئی
بلائے قحط ہے ہندوستاں میں
ہے روم و روس میں برپا لڑائی
خدایا جلد قحط اور جنگ ہوں دور
ملے سب کو مصیبت سے رہائی
خدایا رحم کر ؛ جاں لب پہ آئی
تری مخلوق دیتی ہے دہائی
۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٦٧)
(٥) عیدی شب برات (١)
بگڑی ہے کیا انار پٹاخوں کی اب کے بات
ساون میں اتفاق سے آئی شب برات
بارود ہے خراب پٹاخے ہیں پھسپھسے
کم زور ہیں انار چھچوندر ہے واہیات
مہتاب میں مزہ ہے نہ کچھ پھلجھڑی میں لطف
پیسے ہمارے مفت گئے یوہیں آٹھ سات
پیسے گئے فضول تو خیر اس کا غم نہیں
ہے سال بھر کے کھیل کی یہی زکواۃ
پاتا ہے اس جہان میں کچھ کھو کے آدمی
آئیندہ ایسے کھیل پے ماریں گے ہم بھی لات
بس چھوڑو کھیل کود کہ حلوا ہے گرم گرم
شامل ہے جس میں ذائقہ قند اور نبات
شیریں ہے خوش قوام ہے چٹ کیجئے اسے
(١) ١٢٩٧ ہجری مطابق ٢٢ جولائی ١٨٨٠ عیسوی موافق ساون ١٩٣٧ بکرمی
۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٦٨)
حلوہ کی چاشنی سے ہے مصری بھی آج مات
بدعت کہو گناہ کہو یا چٹور پن
اچھا نہیں سمجھتا اسے زمرہ ثقات
بچوں کے واسطے ہے خوردونوش کھیل کود
اصحاب اتقا کے لئے صوم اور صلوات
جاگیں گے آج اہل عبادت تمام شب
درگاہ کبریا سے کریں گے طلب نجات
سرکار حق میں پیش حساب و کتاب ہے
تقسیم رزق اور رقم موت اور حیات
اس واسطے دعا و طلب میں مبالغہ
کرتے ہیں تاکہ ان پہ ہو زیادہ التفات
اہل نظر ہیں وہ کہ جنھیں یہ خیال ہے
کیا مانگئے کہ ہیچ ہے یہ جملہ کائنات
برکت ہے اپنے حال میں نے ماہ و سال میں
ہر دم عیاں ہے ذات وہی باہمہ صفات
کیا ذات کیا صفات نہیں فرق و امتیاز
ہے ایک حال ایک نظر اور ایک بات
صاحب نظر کو فرق شب و روز کچھ نہیں
ہر روز عید ہے ہر شب شب برات
جو کچھ کہ ہے خیال میں خواب و خیال ہے
لے کر ازل سے تا بہ ابد کل معاملات
سرکار کے بنائے ہوئے ہیں یہ سب عدد
اور عالم شہود ہے گویا شب برات
بارود ایک سی ہے مگر وزن ہیں جدا
ہیں مختلف ظہور میں آثار اور صفات
سہرہ ہو پھلجھڑی ہو پٹاخا ہو یا انار
سب میں بھری ہوئی ہے وہی ایک پاک ذات
ہر چیز کا ہے وزن معین جنچا تلا
اک آن کی نمود ہے بے اصل و بے ثبات
چھٹنے کے بعد پھر نہ رہا یہ نہ وہ رہا
آخر کو ڈھاک کے نظر آتے ہیں تین پات
جو زور و شور تھا سو حقیقت میں کھیل تھا
جب ہو چکا تمام یہ سرمائیہ حیات
دکھلا کے اپنا رنگ فنا ہو گئے تمام
۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٧٠)
عقل و قیاس و فکر و خیال و توہمات
ہے اصل نور و نار فقط ذات بے نشاں
دھوکا نگاہ کا ہے قیود تعینات
مستور ہے ظہور میں ظاہر بطون میں
بے رنگ و بے نشان ہے بے کیف و بے جہات
شانیں جدا جدا ہیں تجلی تو ایک ہے
کعبہ ہو ہردوار ہو یا دیر سومنات
عیدی ہو یا قصیدہ ۔ رباعی ہو یا غزل
معنی میں مشترک ہیں بکثرت ہیں گو لغات
ظاہر میں شاعری کا زٹل قافیہ سہی
فہم درست کو یہ لطائف ہیں اور نکات
حامد شب برات کی عیدی ہے با مزہ
لکھوانی چاہتے ہو ۔ تو لاؤ قلم دوات
(٦) عیدالفطر (١)
اب کے رویت میں آگیا ہے خلل
رمضان ایک اور عید ڈبل
یعنی انتیس تیس اٹھائیس
کیا تواریخ میں پڑا ہے بل
(١) مرتبہ ١٨٨٠ عیسوی
۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،
(١٧١)
آج چکھی کسی نے افطاری
کوئی روزہ ہی کو گیا ہے نگل
دی کسی نے شہادت کامل
کوئی سمجھا اسے کہ ہے یہ زٹل
نو بجے دن کے بج گیا دہونسہ
روزہ داروں میں پڑ گئی ہل چل
خشکی روزہ شدت گرمی
کر رہی ہے دماغ کو مختل
آج برپا ہے عام جوش و خروش
ہوئی آپس میں خوب ردو بدل
جا پڑا دیو بند میں پہلے
چاند کا بھی گیا تھا پانوں پھسل
ایک دن تک وہیں رہا ناچار
سب کی آنکھوں سے ہو گیا اوجھل
کہیں جھگڑا کہیں لڑائی ہے
ایک کو غصہ ایک کو جھونجھل
کوئی سمجھا رہا ہے ملا جی ؛
کس لئے کر رہے ہو جنگ و جدل
گو اٹاوہ میں چھپ گیا فتوی
علما کا نہیں ہے اس پہ عمل
بست و ہفتم کو چاند دیکھ لیا
خود غلط تھی شہادت اول
دیکھ کر ااختلاف دنیا کا
یاد آئی ہے مجھ کو ایک مثل
کون سی ہے مجھے بتا تو سہی
اونٹ رے اونٹ تیری سیدھی کل
چاند کے اختلاف نے اب کے
میری عیدی کو کر دیا مہمل
کیوں پڑے ہو تم اس بکھیڑے میں
ہوا جو کچھ یہی تھا حکم ازل
ہیں زمانے کے کام رنگا رنگ
نہ ہوا ہے نہ ہو یہ عقدہ حل
نہیں چون و چرا کی گنجایش
لنگ ہے اس جگہ پہ رخش علل
۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٧٢)
عید کے واسطے نہیں درکار
قمر و مشتری و شمس و زحل
مدت دھر آن واحد ہے
غلطی پر ہے دیدہ احول
ہے یہ نیرنگ کی نموداری
آسمان و زمین مکان و محل
ختم روزے ہوئے نماز پڑھو
بعد حمد خدائے عزوجل
عید ہی عید ہے کوئی دن ہو
ہم کو یکساں ہے پیر اور منگل
وہی ظاہر ہے اور وہی باطن
وہی آخر ہے اور وہی اول
(٧) نذرانہ پیر جی (١)
قعر دریا میں نہ طوفاں ہے نہ موج و گرداب
خشک ہے آب رواں بحر میں قطرہ نایاب
نہ تو حاصل میں طلب ہے نہ طلب میں حاصل
خبط ہیں جملہ سوال ۔ اور ہیں بیہودہ جواب
نہ پتا ہے نہ ٹھکانا نہ کوئی راہ و مقام
یعنی الآن کما کان نہ مبدا نہ مآب
نہ ادھر کوئی مزہ ہے نہ ادھر بدمزگی
رونق صومعہ باقی نہ خرابات خراب
ہیں تو ہر قسم کے مطلب مگر اس نسخہ میں
(١) پیر جی غلام محمد صاحب مرحوم وکیل و رئیس لدھیانہ
مصنف کے برادران طریقت میں سے تھے
جنکے واسطے یہ نذرانہ ١٨٨١ عیسوی میں مرتب کیا گیا ۔
نہ کوئی لفظ نہ جملہ ۔ نہ کوئی فصل نہ باب
بھوکے مرتے ہیں شکم سیر ۔ پیاسے ہیں غریق
خاک صحرا میں نہیں آب کے جویا تالاب
ایک ثمرہ ہے یہاں غفلت و آگاہی کا
خواب اعمی ہے مگر حالت بیداری و خواب
وہی ہوتا ہے جو پہلے سے ہوا رکھا ہے
نہ طریقہ ہے خطا کا نہ کہیں راہ صواب
نہ تو بے کار تسلی ہے نہ آرام بکار
نہ سفینہ ہی رواں ہو نہ یہ دریا پایاب
خواہش وصل غلط ۔ سعی تقرب بے سود
نہ کوئی واسطہ حائل ہے نہ پردہ نہ حجاب
نہ مکاں ہے نہ دروبام ہے ویرانہ میں
بتکدہ ہے نہ کلیسا ہے نہ طاق و محراب
نہ کوئی دوست دشمن نہ مخالف نہ رفیق
نہ کوئی قابل رحمت ۔ نہ سزاوار عتاب
یہ نہیں وہ بھی نہیں کہتے ہیں کہنے والے
اور جو پوچھو کہ وہ ہے کیا ؟ تو نہیں کچھ بھی جواب
۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٧٤)
آج نذرانہ بہ تعجیل کیا ہے تیار
منتظر ریل کے ہیں پیر معلی القاب
(٨) نذرانہ پیر جی (١)
نہ جدائی ہوئی کبھی نہ وصال
ہے یہ قرب و وصال وہم و خیال
کنج وحدت ہے غیر سے خالی
کہ گمان دوئی ہے امر محال
بحر وحدت میں سب ہیں مستغرق
روح و جسم و حواس و علم و کمال
جنبش موج ہے یہ ہنگامہ
شادی و رنج و خرمی و ملال
نقش بر آب ہیں یہ سب حرکات
ذکر و فکر و وظائف و اشغال
کیا ہے اس جدوجہد سے حاصل
ثمرہ و سبزہ نہر و نخل و نہال
نہ یہاں شاہدی و مشہودی
دست بے یار و پائے بے خلخال
ہے یہاں نسبت و اضافت ہیچ
ہستی و نیستی بھی ہے پامال
نہ بدایت ہے نے نہایت ہے
نہ امید بقا ۔ نہ بیم زوال
نہ تو مسلک ہے ۔ نہ منزل مقصود
نہ طریق و روش نہ راہ و مجال
آن واحد ہے جو ہوا سو ہوا
وقت ماضی یہاں نہ استقبال
جنس خود مشتری و خود قیمت
مشتری خود ہے جنس کا دلال
عشق گوہر نے کر دیا مفلس
ورنہ کان گہر ہے مالا مال
(١) پیر جی غلام محمد صاحب مرحوم وکیل و رئیس لدھیانہ
مصنف کے برادران طریقت میں سے تھے
جنکے واسطے یہ نذرانہ مرتب کیا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٧٥)
طلب و جستجو ہے گمراہی
شوق پرواز نے بچھایا جال
بے تعلق نہیں تلاش و طلب
بے تخیل نہیں ہے فکر مآل
رہنمائی ہے وجہ راہزنی
ہو گئے نامہ و پیام وبال
کی جو فکر و قیاس نے حرکت
ہوئی پیدا شبیہ و شکل و مثال
خالقیت ہے باعث مخلوق
موجب نقص ہو گیا ہے کمال
بعد ہے قرب کی طلبگاری
جمع نے تفرقہ دیا ہے ڈال
کامیابی ہے وجہ ناکامی
بحر و اشتیاق آب زلال
تپش آفتاب وحدت سے
جلتے ہیں مرغ عقل کے پر و بال
دل ہے گویا زبان ہے خاموش
سطع میداں فراخ و تنگ مجال
اس خرافات کو کریں منظور
پیر لدھیانوی گرو گھنٹال
(٩) جریدہ عبرت
عذر تقصیر ۔۔۔۔۔ ابتدائی اشعار سے ظاہر ہے کہ اس ناچیز قصیدہ کے موزوں کرنے کا خیال کس طرح میرے دل میں پیدا ہوا ۔ اس وقت طبیعت پر ایک ایسی کیفیت طاری تھی جس نے اس ہرزہ گوئی پر مجبور کیا ورنہ مجھکو نہ شعر و شاعری سے رغبت نہ اس فن کی مہارت نہ اتنی فرصت
۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سچ یہ ہے کہ نہ اس کام کی لیاقت جو کچھ لکھا گیا صرف مقتضائے طبیعت تھا ۔ اقتباس از دیباچہ طبع اول ۔ یکم نومبر ١٨٨٥ عیسوی
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
میں شاعرانہ روش پر نہیں قصیدہ نگار
یہ ایک سادہ سی گزارش ہے یا اولی الابصار
کہ اب کے ماہ محرم کی ساتویں تاریخ
گیا جو گھر سے قضارا ؛ بجانب بازار
تو دیکھتا ہوں کہ گزری میں ایک اکھاڑا ہے
اور اتنی بھیڑ کہ نہیں جس کا حساب و شمار
ہیں دو حریف مقابل لئے پھری گتکا
ہر ایک فن پھلیتی میں طاق اور طرار
جو اس نے پانوں بچایا تو اس نے سر تاکا
دکھایا چہرہ تو پہلو پے جا کیا ہے وار
عجیب ٹھاٹ نئے پیترے غضب پھرتی
نرالے ڈھنگ سے کرتب کا کرتے ہیں اظہار
چلا ہے ایک بنیٹی کا باندھ کا چکر
کھڑا ہے ایک لئے سیف لڑ رہا ہے گوہار
۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٧٧)
میں اپنے دل میں لگا کہنے کیا حماقت ہے
مٹے ہوئے ہیں جو اس فن پہ یہ خدائی خوار
یہ کھیل محض نکما ہے بلکہ بیہودہ
جو دیکھتا ہے ۔ سو ہنستا ہے زیر لب ناچار
سپہ گری کا یہ فن تھا کسی زمانہ میں
نہ وہ زمانہ رہا اب ۔ نہ صورت پیکار
کہاں ہیں اب وہ دلیران صف شکن باقی
کہ ان فنون پے ہوتے تھے جان و دل سے نثار
ہزار سے نہ دبے لاکھ سے نہ منہ موڑا
جو ڈٹ گئے کسی میداں میں کھینچ کر تلوار
نہ اب بکیت کو پوچھے کوئی ۔ نہ رادت کو
نہ تیر ہے نہ کماں ہے نہ بانک ہے نہ کٹار
نہ اس کمال کی پرسش نہ اس ہنر کی قدر
نہ جنگ کا یہ طریقہ رہا ۔ نہ یہ ہتیار
نہ جس میں دین کا ہو فائدہ نہ دنیا کا
تو پاس پھٹکے نہ اس کام کے کوئی ہشیار
جواب دل نےدیا یوں ۔ کہ مت تعجب کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٧٨)
میں اس سے بڑھ کر سناؤں زمانہ کے اطوار
شاعر
سخنوران زماں کی بھی ہے یہی حالت
کہ اس قدیم ڈگر کو نہ چھوڑے زنہار
سوائے عشق نہیں سوجھتا انہیں مضموں
سو وہ بھی محض خیالی گھڑت کا اک طومار
نہ لکھتے ہیں کبھی نیرنگ حکمت و قدرت
نہ واقعات کے وہ کھینچتے ہیں نقش و نگار
ہے شاعری میں یہ پہلا اصول موضوعہ
کہ جھوٹ موٹ کے بنجائیں ایک عاشق زار
تمام اگلے زمانہ کا ہے یہ پس خوردہ
کہ کر رہے ہیں جگالی وہ جس کی سو سو بار
نہ ننگ ہے نہ حیا ہے نہ شرم و غیرت و عار
جو اپنے فخر پہ آئیں ۔ تو بس کریں تسخیر
حدود ہند سے لے تابفارس و تاتار
ہے ایک غار میں پانی سڑا ہوا لبریز
۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٧٩)
پڑا ہے نیم کا پتہ اور اس پہ پشہ سوار
وہ پشہ آپ کو سمجھا ہے نا خدائے جہاز
اور اس سڑے ہوئے پانی کو لجہ زخار
اسی طرح ہمارے زمانہ کے شاعر
سمجھتے اپنی خرافات کو ہیں عین وقار
مبالغہ ہے تو بیہودہ عقل سے خارج
ہے استعارہ تو بے لطف اور دور از کار
کیا ہے نام زٹل قافیہ کا اپنے سخن
وہ کنکری ہے جسے کہتے ہیں در شہ وار
جو ان کے دیکھئے دیواں تو بور کے لڈو
غلیظ و گندہ و سراسر نتیجہ افکار
وہی ہے شاعر غرا جو بے تکی ہانکے
یہی ہے شعر کا اس دور میں بڑا معیار
یہ ان کی طبع بلند اور معنی رنگین
جو طبع گد ہے تو معنی سڑا ہوا مردار
نہ جس سے طبع کو تفریح ہو نہ دل کو خوشی
غزل ہے یا کوئی ہذیان ہے بوقت بخار
۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٨٠)
نمونہ غزل
صفت ہے دوست کی ضلاد و ظالم و غدار
اتم شعار ۔ دل آزار بے وفا ۔ مکار
ہے دلبروں کی بھی شامت نہ منہ رہا نہ کمر
بجائے زلف کے دو اژدھوں کی ہے پھنکار
یہ آپ کے گل عارض وہی ہیں باسی پھول
پڑی ہے نزع کی حالت میں نرگس بیمار
جو ٹون ہال کی محراب ہے خم ابرو
تو ہے مژہ بھی پولیس کے سپاہیوں کی قطار
زنخ کنواں ہے کہ جس میں ڈبو چکے لٹیا
بھنور ہے ناف ۔ کہ جس سے نہ ہو گا بیڑا پار
شب فراق کا دکھڑا اگر کریں تحریر
تو ایشیا کو ڈبو دیوے دیدہ خوں بار
وہی لنڈوری ہے قمری ۔ تو پر نوچی بلبل
وہی ہے سرو کا ٹھنٹھ اور طول قامت یار
جو ناصحوں سے ہے کھٹ پٹ تو زاہدوں سے چخٰ
جو ساقیوں سے لگاوٹ تو مغبچوں سے پیار