نایاب
لائبریرین
(١٨١)
غریب شیخ پہ ہر دم دلتیاں جھاڑیں
کریں مساجد و کعبہ سے فرار
کہاں ہے ان کا ٹھکانا ۔ کدھر ہے ان کا مقام
وہی ہے بیت صنم اور خانہ خمار
بگھارتے ہیں تصوف تو کون دے گا داد
کہاں ہیں سعدی و حافظ ۔ سنائی و عطار
کریں گے اس قدر ایمان و دین کی تفضیع
کہ گویا ہیں کوئی ہفتاد پشت کے کفار
اگرچہ ہاتھ میں تسبیح ہلب پہ ہو توبہ
بنینگے شعر میں ہاں مے پرست و بادہ گسار
ہے چرض پیر تو مدت سے شاعروں کا پیر
پہ کوستے ہیں اسے یہ مرید ناہنجار
جمال یوسف و اعجاز عیسی و موسی
ہیں ان کی گندہ دہانی کے سامنے سب خوار
نہ کچھ خدا کا لحاظ اور نہ انبیا کا ادب
یہ ان کی نور بھری شاعری ؛ ؛ خدا کی مار
ہے ان کی طبع دنی عنکبوت کا جالا
۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔
(١٨٢)
اور ان کی بندش مضموں ہے مکھیوں کا شکار
کسی عمارت رسی کا گر بیان کریں
محیط کون و مکان اس پہ تنگ ہو ناچار
جو اس کی نیو ہو گاؤ زمین کے سم سے پرے
تو اس کا کنگرہ بالائے گنبد دوار
وہ توڑتے نہیں لقمہ مبالغہ کے بدوں
بغیر بہنگی کی جس طرح چل سکے نہ کہار
سدا دروغ کی کرتی ہیں مکھیاں بھن بھن
چپک رہا ہے لبوں پر جو شیرہ گفتار
لکھیں جو قصہ تو دیو و پری کا افسانہ
لگا دیں کذب کے ڈھیر اور جھوٹ کے انبار
کریں چڑیل کو حوران خلد سے نسبت
بنائیں اونٹ کٹیلی کو گلشن بیخار
جب ان پہ ہوتے ہیں مضمون مبتذل وارد
تو گویا عرش سے اتری چمار کو بیگار
کریں جو مدح کسی چر کٹے کی وہ بالفرض
تو پھر سکندر و دارا ہیں اس کے باج گزار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(183)
بنائیں اس کے تئیں بر و بحر کا سلطاں
جو فی المثل ہو کسی کوردہ کا نمبردار
لکھیں وہ دھوم کہ ہو گرد جشن جمشیدی
جو رقعہ شادی کا لکھوائے کوئی ساہوکار
بنانا پر کا کبوتر تو ہے بہت آسان
سوئی کو پھاولہ کہنا تو کچھ نہیں دشوار
ہے سچ تو یہ کہ انھیں شاعروں کے قالب میں
لیا ہے جھوٹ نے کلجگ میں آن کر اوتار
مشاعرہ ہو ۔ تو لڑتے ہیں جیسے ٹینی مرغ
لہولہان ہیں پنجے شکستہ ہے منقار
وہ خود فروش بنے آج اوستاد زماں
کہ جن سے کوئی ٹکے سیکڑا نہ لے اشعار
اگر سنیں کہ ہوا ہے فلاں رئیس علیل
تو پہلے قطعہ تاریخ کر رکھیں تیار
اجڑ گئے ہیں وہ تھان اور لد گئے ڈیرے
جہاں کداتے تھے یہ بھانڈ کاغزیں رہوار
جہاں خوشامدیوں ۔ شاعروں کی تھی بھرتی
۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٨٤)
اب ایسی کاٹھ کی الو نہیں کوئی سرکار
تو اب وہ پھرتے ہیں ناچار مانگتے پھرتے
بنا کے کاسہ گدائی کا پرچہ اخبار
کسی کی مدح سرائی کسی کی بد گوئی
اڈیٹری کی بھی کرنے لگے ہیں مٹی خوار
کلام دیکھو تو صورت حرام سر تا سر
سلاح بر درد کس نیست درمیان حصار
فلسفی علما
نہ شاعروں ہی پہ تنہا پڑے ہیں یہ پتھر
کہ عالموں کا بھی اس دور میں یہی ہے شعار
وہیں ہیں آج ۔ جہاں تھے یہ دس صدی پہلے
گیا ہے قافلہ دور ۔ اب ٹٹولتے ہیں غبار
وہی ہیں یاد پورانے اصول یونانی
جنھیں علوم جدیدہ نے کر دیا بے کار
وہی قدیم زمانہ کا فلسفہ سڑیل
ہو جیسے کہنہ کھنڈر کی ڈھئی ہوئی دیوار
ہنوز فخر و مباہات اس پہ کرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٨٥)
وہ جن کے سر پر فضیلت کی ہے بندھی دستار
ہے درس میں وہی ترتیب مادہ اب تک
کہ پہلے خاک ہے پھر آب ۔ پھر ہوا پھر نار
اگرچہ ہو گئے تحلیل خاک و باد اور آب
مگر ہیں علم میں ان کے وہی عناصر چار
ہے آسمان طواف زمین میں مصروف
ہے آفتاب ابھی چرخ چار میں پہ سوار
وہی ہے ڈھانچ پرانا نظام ہیئت کا
جڑے ہوئے ہیں فلک میں ثوابت و سیار
وہی ہے مسلہ خرق والتیام ہنوز
کہ جس کا اب نہ کوئی مدعی نہ جانب دار
وہی حساب ہے لکھا ہے جو خلاصہ میں
گھٹے بڑھے گا نہ اک صفر تا بروز شمار
جو کہہ گئے ہیں فلاطوں اور بطلیموس
اسی کی بحث ہے اب تک اسی کی ہے تکرار
جو شرح چغمنی و میبذی میں لکھا ہے
زروئے کشف کھلے تھے وہ غیب کے اسرار
،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
غریب شیخ پہ ہر دم دلتیاں جھاڑیں
کریں مساجد و کعبہ سے فرار
کہاں ہے ان کا ٹھکانا ۔ کدھر ہے ان کا مقام
وہی ہے بیت صنم اور خانہ خمار
بگھارتے ہیں تصوف تو کون دے گا داد
کہاں ہیں سعدی و حافظ ۔ سنائی و عطار
کریں گے اس قدر ایمان و دین کی تفضیع
کہ گویا ہیں کوئی ہفتاد پشت کے کفار
اگرچہ ہاتھ میں تسبیح ہلب پہ ہو توبہ
بنینگے شعر میں ہاں مے پرست و بادہ گسار
ہے چرض پیر تو مدت سے شاعروں کا پیر
پہ کوستے ہیں اسے یہ مرید ناہنجار
جمال یوسف و اعجاز عیسی و موسی
ہیں ان کی گندہ دہانی کے سامنے سب خوار
نہ کچھ خدا کا لحاظ اور نہ انبیا کا ادب
یہ ان کی نور بھری شاعری ؛ ؛ خدا کی مار
ہے ان کی طبع دنی عنکبوت کا جالا
۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔
(١٨٢)
اور ان کی بندش مضموں ہے مکھیوں کا شکار
کسی عمارت رسی کا گر بیان کریں
محیط کون و مکان اس پہ تنگ ہو ناچار
جو اس کی نیو ہو گاؤ زمین کے سم سے پرے
تو اس کا کنگرہ بالائے گنبد دوار
وہ توڑتے نہیں لقمہ مبالغہ کے بدوں
بغیر بہنگی کی جس طرح چل سکے نہ کہار
سدا دروغ کی کرتی ہیں مکھیاں بھن بھن
چپک رہا ہے لبوں پر جو شیرہ گفتار
لکھیں جو قصہ تو دیو و پری کا افسانہ
لگا دیں کذب کے ڈھیر اور جھوٹ کے انبار
کریں چڑیل کو حوران خلد سے نسبت
بنائیں اونٹ کٹیلی کو گلشن بیخار
جب ان پہ ہوتے ہیں مضمون مبتذل وارد
تو گویا عرش سے اتری چمار کو بیگار
کریں جو مدح کسی چر کٹے کی وہ بالفرض
تو پھر سکندر و دارا ہیں اس کے باج گزار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(183)
بنائیں اس کے تئیں بر و بحر کا سلطاں
جو فی المثل ہو کسی کوردہ کا نمبردار
لکھیں وہ دھوم کہ ہو گرد جشن جمشیدی
جو رقعہ شادی کا لکھوائے کوئی ساہوکار
بنانا پر کا کبوتر تو ہے بہت آسان
سوئی کو پھاولہ کہنا تو کچھ نہیں دشوار
ہے سچ تو یہ کہ انھیں شاعروں کے قالب میں
لیا ہے جھوٹ نے کلجگ میں آن کر اوتار
مشاعرہ ہو ۔ تو لڑتے ہیں جیسے ٹینی مرغ
لہولہان ہیں پنجے شکستہ ہے منقار
وہ خود فروش بنے آج اوستاد زماں
کہ جن سے کوئی ٹکے سیکڑا نہ لے اشعار
اگر سنیں کہ ہوا ہے فلاں رئیس علیل
تو پہلے قطعہ تاریخ کر رکھیں تیار
اجڑ گئے ہیں وہ تھان اور لد گئے ڈیرے
جہاں کداتے تھے یہ بھانڈ کاغزیں رہوار
جہاں خوشامدیوں ۔ شاعروں کی تھی بھرتی
۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٨٤)
اب ایسی کاٹھ کی الو نہیں کوئی سرکار
تو اب وہ پھرتے ہیں ناچار مانگتے پھرتے
بنا کے کاسہ گدائی کا پرچہ اخبار
کسی کی مدح سرائی کسی کی بد گوئی
اڈیٹری کی بھی کرنے لگے ہیں مٹی خوار
کلام دیکھو تو صورت حرام سر تا سر
سلاح بر درد کس نیست درمیان حصار
فلسفی علما
نہ شاعروں ہی پہ تنہا پڑے ہیں یہ پتھر
کہ عالموں کا بھی اس دور میں یہی ہے شعار
وہیں ہیں آج ۔ جہاں تھے یہ دس صدی پہلے
گیا ہے قافلہ دور ۔ اب ٹٹولتے ہیں غبار
وہی ہیں یاد پورانے اصول یونانی
جنھیں علوم جدیدہ نے کر دیا بے کار
وہی قدیم زمانہ کا فلسفہ سڑیل
ہو جیسے کہنہ کھنڈر کی ڈھئی ہوئی دیوار
ہنوز فخر و مباہات اس پہ کرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٨٥)
وہ جن کے سر پر فضیلت کی ہے بندھی دستار
ہے درس میں وہی ترتیب مادہ اب تک
کہ پہلے خاک ہے پھر آب ۔ پھر ہوا پھر نار
اگرچہ ہو گئے تحلیل خاک و باد اور آب
مگر ہیں علم میں ان کے وہی عناصر چار
ہے آسمان طواف زمین میں مصروف
ہے آفتاب ابھی چرخ چار میں پہ سوار
وہی ہے ڈھانچ پرانا نظام ہیئت کا
جڑے ہوئے ہیں فلک میں ثوابت و سیار
وہی ہے مسلہ خرق والتیام ہنوز
کہ جس کا اب نہ کوئی مدعی نہ جانب دار
وہی حساب ہے لکھا ہے جو خلاصہ میں
گھٹے بڑھے گا نہ اک صفر تا بروز شمار
جو کہہ گئے ہیں فلاطوں اور بطلیموس
اسی کی بحث ہے اب تک اسی کی ہے تکرار
جو شرح چغمنی و میبذی میں لکھا ہے
زروئے کشف کھلے تھے وہ غیب کے اسرار
،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،