کل کا کالم

ساجداقبال

محفلین
سب کا منہ کالا - حامد میر​
پشاور کے ایک وکیل خورشید احمد کچھ دن پہلے سپریم کورٹ کے احاطے میں جنرل پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری کا منہ کالا کر کے داد سمیٹتے پھر رہے تھے۔ خورشید احمد کی اتنی زیادہ حوصلہ افزائی ہوئی کہ انہوں نے ایک پریس کانفرنس کرڈالی اور آئین و جمہوریت کے ہر دشمن کا منہ کالا کرنے کا اعلان کر دیا۔ خورشید احمد کی اس دھمکی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ پچھلے چند دنوں میں سیاسی مفاد پرستی اور جمہوریت دشمنی کی ایسی ایسی مثال قائم ہوئی کہ احمد رضا قصوری بہت پیچھے رہ گئے۔ چھ اکتوبر کو ہمیں کئی منہ کالے نظر آ رہے تھے۔ ان میں سے کسی بھی منہ پر خورشید احمد نے سیاہی نہیں پھینکی بلکہ یہ منہ خود بخود کالے ہو گئے۔ قصوری نے ذاتی فائدے کیلئے کبھی بدنامی کی پرواہ نہیں کی۔ اس نے جو کچھ بھی کیا کھلے عام کیا۔ 1970ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد اسے یقین تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اسے وزیر ضرور بنائیں گے۔ اس یقین کی وجہ بڑی دلچسپ تھی۔ انتخابات کے بعد بھٹو ایک دفعہ لاہور آئے تو فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرے۔ ایک شام قصوری ہوٹل جا پہنچا اور وزیر بننے کی ضد کرنے لگا۔ بھٹو صاحب فلیٹیر کے لان میں آ گئے اور ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے احمد رضا قصوری اور امان اللہ خان سے کہا کہ تم میں سے جو بھی اچھا ڈانس کرے گا میں اسے وزیر خارجہ بناؤں گا۔ ہوٹل کے ایک ویٹر نے میز کو طبلہ بنا کر بجانا شروع کر دیا اور وزارت خارجہ کے دونوں امیدواروں نے اندھا دھند ناچنا شروع کر دیا۔ بھٹو صاحب کافی دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔ آخر کار انہوں نے ناچنے کا یہ مقابلہ ختم کیا اور قصوری کو فاتح قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ وزارت خارجہ کا سب سے موزوں امیدوار ہے۔ اس دوران حکومت سازی میں تاخیر ہو گئی۔ قصوری کیلئے ایک ایک دن بھاری تھا۔ ایک دن اسے پتہ چلا کہ بھٹو صاحب مذاق کر رہے تھے۔ یہ پتہ چلنے پر قصوری آگ بگولا ہو گیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں بلایا جا چکا تھا اور شیخ مجیب الرحمان اس اجلاس میں اپنی مرضی کی ایک قرارداد کے ذریعہ پاکستان توڑنے پر تُلے بیٹھے تھے۔ بھٹو صاحب نے اس اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا لیکن احمد رضا قصوری ڈھاکہ پہنچ گیا تاکہ عوامی لیگ کے ساتھ مل کر وزیر بن جائے لیکن عوامی لیگ تو پاکستان کو خدا حافظ کہنے پر تلی ہوئی تھی لہذا قصوری واپس آ گیا۔ واپس آ کر اس نے بلا جھجک بھٹو صاحب کی دوبارہ خوشامد شروع کر دی۔ کوئی بات نہ بنی تو بھٹو پر اپنے باپ کے قتل کا جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا۔ پھر بھی کچھ فائدہ نہ ہوا تو یکم جنوری 1977ء کو قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کو عوام کا نجات دہندہ قرار دیدیا۔ چند ماہ کے بعد نجات دہندہ کی حکومت ختم ہوئی تو قصوری نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مل کر بھٹو صاحب کو سزائے موت دلوا دی۔ موصوف نے یہ سب کچھ کھلے عام کیا اور انہیں آج تک اپنے کئے پر کبھی ندامت نہیں ہوئی۔ شائد اسی لئے جب خورشید احمد نے قصوری کا منہ کالا کیا تو بہت سے لوگ خوش ہوئے تھے لیکن چھ اکتوبر کو کئی منہ کالے ہونے پر لوگوں کو خوشی نہیں بلکہ دکھ ہے۔ چھ اکتوبر کے دن متحدہ مجلس عمل کے بعض اراکین پارلیمنٹ نے اسلام آباد میں اپنی جماعت کے فیصلے کے برعکس صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالا لیکن حکومت کے ساتھ اپنی سودے بازی کا اعتراف کرنے کی بجائے ایم ایم اے کے اندرونی اختلافات کا رونا روتے رہے۔ پشاور میں وکلاء کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو 29 ستمبر کو اسلام آباد میں وکلاء اور صحافیوں کے ساتھ ہوا۔ ایک طرف پشاور کی سڑکوں پر ایم ایم اے کے وزیراعلیٰ کے حکم پر وکلاء کو پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور دوسری طرف وزیراعلیٰ ہاؤس میں سرحد اسمبلی کے اسپیکر بخت جہاں کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔ وزیراعلیٰ سرحد مولانا فضل الرحمان کے نمائندے ہیں اور اسپیکر سرحد اسمبلی قاضی حسین احمد کے نمائندے ہیں۔ دونوں میں لڑائی کی اصل وجہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے 6 / اکتوبر کو اپنے وعدے کے مطابق سرحد اسمبلی تحلیل نہیں کی اور 29 ستمبر کو استعفے دینے کی بجائے معاملہ 2 / اکتوبر تک لے گئے تاکہ تحریک عدم اعتماد آ جائے اور معاملہ موٴخر ہو جائے۔ بالکل ایسا ہی ہوا اور 6 / اکتوبر کو صدارتی الیکشن والے دن سرحد اسمبلی قائم تھی۔ مولانا فضل الرحمان نے ببانگ دہل اس کی ذمہ داری اسپیکر پر ڈال دی۔ شائد وہ پوری قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ معمولی فہم و فراست رکھنے والا شخص بھی یہ جانتا ہے کہ انہوں نے کس کے کہنے پر اور کس کے فائدے کیلئے سرحد اسمبلی تحلیل نہیں ہونی دی لیکن اب وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کا طرز عمل بھی کچھ مختلف نہیں۔ بے نظیر بھٹو نے صدارتی الیکشن سے صرف ایک دن قبل ایک باوردی صدر کے دستخطوں سے جاری ہونے والے آرڈی نینس کے ذریعہ کرپشن کے مقدمات سے نجات حاصل کی اور 6 / اکتوبر کی صبح باوردی صدر کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کردیا۔ بے نظیر بھٹو کو ان کے کئی ساتھیوں نے قومی مفاہمت کے نام پر آرڈی نینس قبول نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ لندن میں رضا ربانی، نوید قمر اور شیری رحمان کے علاوہ شاہ محمود قریشی بھی اس آرڈی نینس کے ذریعہ مقدمات ختم کرانے کی مخالفت کرتے رہے لیکن قاسم ضیاء اور راجہ پرویز اشرف اس آرڈی نینس کے حامی تھے۔ 5 / اکتوبر کی شام اسلام آباد میں جو لوگ صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے حامی تھے ان میں راجہ پرویز اشرف سرفہرست تھے لیکن اس آرڈی نینس کے خلاف شدید عوامی ردعمل کو سامنے رکھتے ہوئے 6 / اکتوبر کی صبح الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اس وقت مولانا فضل الرحمان اور بے نظیر بھٹو میں مقابلہ یہ ہے کہ کون غیر محسوس اور خفیہ طریقے سے جنرل پرویز مشرف کی زیادہ خوشنودی حاصل کرتا ہے۔ دونوں کو مشرف صاحب نے بہت سے خواب دکھا رکھے ہیں۔ بالکل ویسے ہی خواب جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے فلیٹیز ہوٹل لاہور کے لان میں احمد رضا قصوری کو دکھائے تھے۔ فرق یہ ہے کہ قصوری اپنے باس کو خوش کرنے کیلئے سر عام اور دیوانہ وار ناچتا تھا جبکہ آج کے یہ لیڈر سب کچھ بند کمروں میں کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور بے نظیر بھٹو دونوں وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ بے نظیر صاحبہ سے وعدہ کیا گیا ہے کہ آئندہ انتخابات کے بعد تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر پابندی کو ختم کروا دیا جائے گا لیکن یہ طے ہے کہ دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہوں گے۔ دونوں کی بقاء جنرل پرویز مشرف کی بقاء سے مشروط ہو چکی ہے۔ افسوس کہ آج پیپلز پارٹی، ایم ایم اے اور مسلم لیگ (ق) میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ وہ ق لیگی جو چند دن پہلے تک بے نظیر کو کرپشن کی دیوی کہہ رہے تھے، ” فروغ کرپشن آرڈی نینس “ جاری ہونے کے بعد بے نظیر کا دفاع کر رہے ہیں۔ اپنے آپ سے محبت اور اقتدار کے لالچ میں مبتلا ان سیاستدانوں میں فرق ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب معمولی فرق کی بنیاد پر صرف یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ چھوٹی برائی کون ہے اور بڑی برائی کون ہے؟ ان سب کے مقابلے پر احمد رضا قصوری ایک چھوٹی برائی نظر آتا ہے اور اسی لئے 6 / اکتوبر کے بعد سے ہمارے اردگرد کئی منہ کالے ہوچکے ہیں۔ اب تو آئینہ دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں اپنا منہ بھی کالا نہ لگے کیونکہ ہمارے لیڈروں نے پوری قوم کا منہ کالا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
 

ساجداقبال

محفلین
کہیں وہ ناراض نہ ہوجائیں!,,,,قلم کمان …حامد میر
آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور لیاقت جتوئی موجود حکومت کے ”نیب زدہ“ وزیروں میں شمار ہوتے ہیں۔ان دونوں کے خلاف نیب نے سات سال قبل کرپشن کے الزامات میں مقدمات قائم کئے تھے لیکن ان مقدمات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جنرل پرویز مشرف کا خیال تھا کہ قومی مفاہمت کے نام پر جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس سے شیرپاؤ اور لیاقت جتوئی بہت خوش ہوں گے کیونکہ اس آرڈیننس کے طفیل بے نظیر بھٹو کے ساتھ ساتھ ان دونوں پرقائم مقدمات بھی غیرموثر ہوگئے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ آرڈیننس جاری کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جن وزراء کو صلاح مشورے کے لئے ایوان صدر بلایا ان میں شیرپاؤ اورلیاقت جتوئی بھی شامل تھے۔جنرل صاحب کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی جب شیرپاؤ اور لیاقت جتوئی کے علاوہ رضا حیات ہراج اور عمر ایوب خان نے بھی قومی مفاہمتی آرڈیننس کے خلاف انتہائی سخت لہجے میں گفتگو کی۔ جنرل پرویز مشرف نے ان وزراء کو اس لئے بلایا تھا کہ انہیں آرڈیننس کے بارے میں بریفنگ دی جائے اور پھر یہ وزراء میڈیا کے سامنے اس آرڈیننس کا دفاع کرسکیں۔ جنرل صاحب کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے اس آرڈیننس کی مخالفت شروع کردی اور کہاکہ ہمیں کوئی معافی نہیں چاہئے، نیب سے کہوکہ ہمیں مجرم ثابت کرے۔ لیاقت جتوئی کا لہجہ زیادہ سخت تھا انہوں نے کہاکہ میں نے اپنے خلاف مقدمات کا مقابلہ خود کیا ہے، کبھی آپ کو نہیں کہا کہ میری مدد کریں لیکن آج آپ نے ہمیں بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑا کیا ہے۔ رضا حیات ہراج کا کہنا تھا کہ جب سوئس عدالتیں بے نظیر بھٹو کو سزا دینے کے قریب پہنچیں تو آپ اسے معافی دے رہے ہیں۔نوجوان عمر ایوب خان نے بھی بڑھ چڑھ کر قومی مفاہمتی آرڈیننس کی مخالفت کررہا تھا اور پوچھ رہا تھا کہ آخر ہمیں ایسی کون سی مجبوری ہے کہ ہم دوسروں کے گناہوں کی سزا بھگتنے پر تیار ہوگئے ہیں۔ اپنے وزراء کی تندوتیز گفتگو سننے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اپنے لب کھولے اورکہاکہ وہ جانتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو ان کے ساتھ وفا نہیں کرے گی لیکن مجھ پر ”عالمی برادری“ کا بہت دباؤ تھا کہ بے نظیر بھٹو کو کچھ سہولتیں دوں۔ لیاقت جتوئی نے کہاکہ آپ ”عالمی برادری“ کوپاکستان کے زمینی حقائق کیوں نہیں بتاتے تو جنرل صاحب خاموش ہوگئے۔رضا حیات ہراج نے کہاکہ جناب ہم آپ کے سامنے کھل کر بات کرلیتے ہیں اور آپ ہمیں برداشت کرتے ہیں لیکن بے نظیر بھٹو کے سامنے کوئی ہماری طرح بات نہیں کرسکتا وہ ایک سویلین آمر ہے اور آپ اس کے ساتھ زیادہ عرصہ نہیں چل سکیں گے۔ اجلاس ختم ہوا تو یہ سب وزیر ”عالمی برادری“ کو کوستے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔یہ وہی ”عالمی برادری“ ہے جس کی خوشنودی کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے حوالے کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ اس عالمی برادری کو مطمئن کرنے کیلئے کہاجاتا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو امریکی فوج کو پاکستان میں کارروائی کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہی وہ بیانات ہیں جس کے سامنے آنے کے بعد ”عالمی برادری“ نے جنرل پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیا۔ 5 اکتوبر کو سمجھوتہ ہوا اور 6 اکتوبر کو پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے استعفے نہ دیکر صدارتی انتخاب کی کچھ نہ کچھ اہمیت قائم رکھی اوراگلے روز اس صدارتی انتخاب میں کامیابی پر جن شخصیات نے جنرل پرویز مشرف کو مبارکباد دی ان میں اسرائیل کے صدر شمعون پیریز بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی صدر نے جنرل پرویز مشرف کو باقاعدہ خط لکھا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مزید پانچ سال کے لئے صدر بننے پر مسرت کا اظہار کیا۔ جواب میں جنرل پرویزمشرف نے بھی اپنا شکریہ شمعون پیریز کو پہنچا دیا ہے لیکن جنرل مشرف ذرا سوچیں کہ اسرائیل اور پاکستان کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں، اسرائیلی صدر انہیں مبارکباد کا خط لکھ رہا ہے اور خط کا متن میڈیاکو بھی جاری کررہا ہے۔ آخر کیوں؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ پاکستان میں عام انتخابات قریب ہیں اور اس کا خط انتخابات میں جنرل پرویز مشرف کے اتحادیوں کے لئے مسائل پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے؟کیا یہ سوال اٹھانا درست نہیں کہ اسرائیلی صدر پاکستان میں فوج اور عوام کو ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کی خواہش تو نہیں رکھتا؟ آج صرف پاکستان نہیں بلکہ امریکہ کے اہل فکر ودانش کی اکثریت کو بھی یقین ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے امن کی کوئی خدمت نہیں ہورہی بلکہ مزید نفرتیں پھیل رہی ہیں لیکن اسرائیلی صدر چاہتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف اس جنگ کے نام پر اپنے ہی وطن کے لوگوں پربم اورگولیاں برساتے رہیں۔ امریکہ کے معروف جریدے ”فارن پالیسی“ نے حال ہی میں امریکہ کے معروف دفاعی ماہرین سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں ان کی آراء معلوم کیں۔ اس جریدے کے سروے کے مطابق امریکہ کی84 فیصد سیاسی و علمی اشرافیہ کے خیال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ناکام ہوچکی ہے کیونکہ اس جنگ نے دہشت گردی کو بڑھایا ہے، کم نہیں کیا۔ اس سروے کے مطابق عراق اور افغانستان کی جنگ نے مسلم ممالک کے نوجوانوں میں امریکہ کے خلاف نفرت کو بھڑکایا ہے اور اب اصل مسئلہ القاعدہ نہیں رہی بلکہ اصل مسئلہ مسلم ممالک میں امریکہ کے خلاف بھڑکنے والی نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہے۔ سروے کے نتائج میں کہاگیا ہے کہ امریکہ کو مسلم ممالک میں ایسے مذہبی رہنماؤں کی ضرورت ہے جو القاعدہ کی جنگ کو قرآنی تعلیمات کے خلاف قرار دیں۔سروے میں اعتراف کیاگیا کہ آج مسلم ممالک کے نوجوانوں کی اکثریت القاعدہ کی جنگ کو درست سمجھتی ہے کیونکہ ان نوجوانوں کے خیال میں القاعدہ کا مقابلہ صلیبیوں سے ہے اور یہ تاثرامریکہ کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ کاش کہ جنرل پرویز مشرف بھی امریکی جریدے ”فارن پالیسی“ کی سروے رپورٹ پڑھ لیں اور انہیں اندازہ ہوسکے کہ وہ جنگ جو امریکہ میں غیرمقبول ہے وہ پاکستان میں مقبول کیسے ہوسکتی ہے؟ آج اس جنگ کے نام پر شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں آئے دن بمباری کی جارہی ، اگر پانچ عسکریت پسند مارے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ پچاس بے گناہ عورتیں اور بچے بھی بمباری کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس بمباری سے صرف اور صرف مزید خودکش بمبار پیدا کئے جارہے ہیں اور یہ خودکش بمبار آنے والے عام انتخابات کے دوران جلسے جلوسوں سے خطاب کرنے والی ”امریکہ نواز“ قیادت کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ جس ”عالمی برادری“ کی خوشی کو جنرل مشرف ہر وقت مقدم رکھتے ہیں وہ پاکستان میں لگی ہوئی آگ بجھانے کی بجائے یہ آگ پھیلانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے کیونکہ اس برادری کی سرخیل عالمی طاقتوں کا اصل نشانہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے جب تک پاکستان کی فوج قائم ہے ایٹمی پروگرام بھی قائم ہے لہٰذا ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے فوج کو تباہ کیا جائے۔اس وقت پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں پر جوکھیل جاری ہے اس کا اصل مقصد پاکستانی فوج اورپاکستان کے ایٹمی پروگرام کو غیرمحفوظ بنانا ہے۔ان خطرات سے نکلنے کا واحد راستہ قبائلی علاقوں کے ناراض نوجوانوں سے مفاہمت ہے، اس مفاہمت کیلئے ”عالمی برادری“ کی ناراضی کو خاطر میں نہ لایا جائے کیونکہ یہ نام نہاد عالمی برادری پاکستانی قوم اور اس کے اثاثوں کو پاکستانی حکمرانوں کے ذریعے تباہ کرنا چاہتی ہے لہٰذا حکمرانوں کوچاہئے کہ غیروں کی نہیں بلکہ اپنوں کی ناراضی کا خیال کریں۔ عیدالفطر پر شمالی وزیرستان میں بمباری بند کردی جائے۔ قبائلی عمائدین اور علماء کے ذریعے جنگ بندی کی جائے اوربمباری سے تباہ شدہ علاقہ امدادی سرگرمیوں کیلئے کھولا جائے تاکہ شمالی وزیرستان کے باسیوں کو احساس ہو کہ کسی کو ان کی عید کی بھی فکر ہے۔ان کی ناراضی دور نہ کی گئی تو پھر ”امارات اسلامیہ وزیرستان“ کا راستہ ہموار ہوگا اور جب یہ ہوگا تو جنرل پرویز مشرف کی محبوب ”عالمی برادری“ خوشی سے پھولے نہ سمائے گی۔
 

ساجداقبال

محفلین
عذاب اور زوال کے اسباب
حرف راز ۔ اوریا مقبول جان
1100281030-2.gif
 

زیک

مسافر
نہیں پلیز پاکستان کو شمالی کوریا نہ بنائیں۔

اس شخص کا کیا قصور تھا اسی بارے میں ایک اور رپورٹ:

Good Friends, which provides aid to people in the communist country, said authorities executed a 75-year-old factory manager convicted of covering up his father's past anti-communist activities.

The manager was also convicted of illegally investing in a factory to arrange managerial jobs for his children and using unauthorized international and domestic telephone lines, the group said.

Ranking communist party officials who had taken bribes from the manager were dismissed from their posts, the group said.

In tightly-controlled North Korea, unauthorized communications with the outside world are subject to harsh punishment. Few homes have telephones and calls are connected mostly through operators.
 

ساجداقبال

محفلین
آغاز کی بجائے اختتام سے شروع ہونے والا کالم!,,,, روزن دیوار سے …عطاء الحق قاسمی
میرا یہ کالم بظاہر درج ذیل سطور سے شروع ہوگیا ہے مگر درحقیقت ابھی شروع نہیں ہوا۔ اصل آغاز کے لئے آپ کو اس کے اختتام تک جانا پڑے گا ۔ سو بر ادران اسلام وخوہران اسلام مجھے یاد ہے کہ اوائل جوانی میں اردو کے حق میں ایک تحریک چلی تھی جس کا سلوگن ”اردو پڑھو ،اردو لکھو،اردو بولو“تھا اردو سے محبت کرنے والے حلقوں میں اس تحریک کے لئے بہت جوش و خروش پایا جاتا تھا مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ سو اس سارے عرصے میں جس تحریک کو فروغ حاصل ہوا وہ”انگر یزی بولو، انگریزی پڑھو، انگریزی لکھو“ تحریک ہے۔ اس تحریک کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ان دنوں ٹی وی چینلوں کے بیشتر اردو پروگرام بھی انگریزی میں ہوتے ہیں۔ اینکر پرسن سوال کرتا ہے پروگرام کے شرکاء انگریزی میں جواب دیتے ہیں۔ اس دوڑ میں ہمارے سیاست دان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں وہ غالباً اپنی گفتگو کے متن سے اپنے عوام کو آگاہ نہیں کرنا چاہتے، ورنہ ان تک اپنا نقطہ نظر ان کی زبان میں پہنچاتے۔ اردو تو اب وہ بھی کم کم ہی بولتے ہیں جن کی مادری زبان بھی اردو ہے کہ معاملہ”اسٹیٹس“ کا ہے۔ اردو میڈیم ہونا کوئی قابل فخر بات تھوڑے ہی ہے ۔اردو یا اپنی علاقائی زبان میں بات تو وہ کرتا ہے جو انگریزی”افورڈ“ نہ کرسکتا ہو یا وہ کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو۔ میں نے ٹی وی پر ایرانی صدر کو دیکھا کہ وہ امریکا میں دانشور وں کی محفل میں اپنی قومی اور مادری زبان فارسی میں اظہار خیال کررہا تھا حالانکہ وہ انگریزی جانتا ہے مگر وہ ایسے مواقع کے لئے ترجمے پر مامور کسی مترجم کو حرام کی کھاتے نہیں دیکھ سکتا تھا سو اس نے اپنی بات اپنی زبان میں کی اور مترجم نے اسے حاضرین تک ان کی زبان میں یہ بات پہنچائی۔ اسی طرح کی حرکت دنیا کی تمام غیور اقوام کے صدر اور وزیر اعظم کرتے ہیں ان میں جاپان ، چین ،فرانس ، روس اور دوسری عالمی طاقتوں کے رہنما بھی شامل ہیں مگر ہمارے ”رہنما“اندرون ملک اور بیرون ملک جو بات کرتے ہیں وہ نہ اپنی زبان میں ہوتی ہے اور نہ اپنی بات ہوتی ہے البتہ جو مانگنا ہو وہ اپنے لئے مانگتے ہیں۔ انگریزی اور انگریزی تہذیب کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ہر کوئی اس کے رنگ میں رنگا نظر آتا ہے، تاہم اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے ”درجات“ بھی بلند ہوئے ہیں، چنانچہ آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ ان دنوں کیسا کیسا ابّا،پا پاکے درجے پر اور کیسی کیسی ”بے بے“ ما ما کے درجے پر فائز ہوگئی ہے۔ شلواروں اور پاجاموں کی جگہ جینز نے لے لی ہے اب منہ میں پان کی بجائے چیونگم ہوتی ہے، مہدی حسن اور غلام علی کہیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور ان کی جگہ حلق شگاف قسم کے سنگر ز نظر آتے ہیں۔ محفل موسیقی میں داد سبحان اللہ کہہ کر دی جاتی تھی آج کی محفل شور وشغب میں داد دونوں بازو ہوا میں پھیلا کر اور گردن کو دائیں بائیں حر کت کرنے کی صورت میں دی جاتی ہے۔ پرانے گانوں کو مشرف بہ جنکار کر دیا گیا ہے بلکہ اب نعت بھی اسی جھنکار کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس نوع کی نعتیہ محفلوں میں سامعین کا داد کا انداز بھی وہی ہوتا ہے جو ڈسکو محفلوں کا خاصا ہے اور جس کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے بلکہ اب جدید طرز کے نعت خوان حضرات شوبز نس کے فنکاروں ایسا شوخ و شنگ لباس بھی پہنتے ہیں۔ آج کے دور میں اگر ڈپٹی نذیر احمد زندہ ہوتے اور وہ خواتین کو اپنے ناولوں کے نسوانی کرداروں کی صورت دیکھنا چاہتے اور ان کی یہ خواہش پور ی نہ ہوتی تو وہ صدمے سے فوت ہوجاتے اور اگر ان کی خواہش پوری ہوجاتی تو یہ خواتین تقریباً اسی انجام سے دو چار ہوتیں کیونکہ ان دنوں لڑکے والے جب رشتہ دیکھنے آتے ہیں تو وہ لڑکی کا سگھڑ پن نہیں دیکھتے بلکہ اس کے انگریزی لب و لہجے کی خواہش کرتے ہیں۔ اسی طرح لڑکے کا کردار نہیں دیکھا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کہیں پینڈو تو نہیں لگتا، یہی وجہ ہے کہ اب والدین اپنے بچوں اور بچیوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں داخل کراتے ہیں جو گلی گلی محلے محلے قائم ہیں اور جن کی میٹرک یا ایف اے پاس یا فیل اردو میڈیم”استانیوں“ نے ان پڑھ والدین پر اپنی انگریزی دانی کا رعب ڈالنے کے لئے انگریزی کے تین چار جملے رٹے ہوتے ہیں جو وہ ان بچوں کو بھی رٹا دیتی ہیں۔ ان پڑھ والدین خوش ہوتے ہیں کہ ان کا بچہ فر فر انگریزی بول رہا ہے، چنانچہ وہ اس انگریزی کے ”صدقے“ میں ہر ماہ اپنی آدھی تنخواہ فیسوں کی صورت میں ادا کردیتے ہیں۔ لیکن اب آپ پوچھیں گے کہ ایساکیوں ہورہا ہے تو اس کے لئے کسی لمبی چوڑی تمہید یا کسی عمیق فلسفے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی دو سادہ سی وجوہ ہیں ۔ پہلی وجہ وہی ہے جو اقبال نے بیان کی ہے یعنی ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔دوسرے لفظوں میں مستقل رہنے والی چیز صرف تبدیلی ہے اور یہ تبدیلی لسانیات سے لے کر اخلاقیات تک تمام شعبوں میں آتی رہتی ہے مگر ان تبدیلیوں کو کچھ لوگ جلدی قبول کرلیتے ہیں اور کچھ ذرا زیادہ وقت لیتے ہیں ۔ دوسری وجہ بھی بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ قوموں کے ثقافتی اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی اس دور کی سپر پاور کے ثقافتی اور معاشرتی رویوں کے حوالے سے ہوتی ہے۔ جب مسلمان دنیا کی سپر پاور تھے اس وقت اسپین کے پادری اپنے ”خطبوں“ میں نوجوانوں کو کوسا کرتے تھے اور کہتے تھے تمہیں کیا ہوگیا ہے تم عربوں جیسا لباس پہنتے ہو، ان کی زبان بولنے کی کوشش کرتے ہو، ان کی موسیقی سنتے ہو، مگر جس طرح ان کے وعظ کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا اسی طرح جب تک ہم بھی اقوام عالم میں ایک قابل فخر مقام حاصل نہیں کریں گے اس و قت اس احساس کمتری سے نجات حاصل نہیں کرسکیں گے جو ہمیں زبان غیر میں شرح آرزو پر مجبور کرتی ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کب ہوگا اور کیونکر ہوگا تو میرا خیال ہے کہ جب ہم نے ”اردو بولو، اردو پڑھو اور اردو لکھو“ کی تحریک شروع کی تھی اگر اس وقت اس کی بجائے سچ بولو، سچ لکھو اور سچ پڑھو“ کی تحریک پورے زور شور سے شروع کی ہوتی تو اس کی کامیابی کی صورت میں نہ فوجی آمر اقتدار میں آتے نہ مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوتا، نہ بدقماش سیاستدان ہم پرمسلط ہوتے، نہ ہمیں مذہبی انتہاپسندی کا سامنا کرنا پڑتا اور نہ ہماری اخلاقیات اور معاشیات تباہ ہوتی بلکہ اس کے نتیجے میں آج پاکستان ایک بہت بڑی قوت کے طور اقوام عالم کی صف میں اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑا نظر آتا یہ تحریک ہم نے ماضی میں شروع نہیں کی کیا اس کاآغاز ہم آج بھی نہیں کریں گے۔؟
 

ساجداقبال

محفلین
جنگی مجرم قلم کمان…حامد میر
چوبیس اکتوبر 2007ء کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ایک حیران کن واقعہ پیش آیا۔ امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزارائس کانگریس کی فارن افیئرز کمیٹی کے سامنے بیان دینے آئیں۔ کمیٹی کے چیئرمین ٹام لینٹاس نے ان کا خیر مقدم کیا اور انہیں لیکر جیسے ہی کمیٹی کے اجلاس میں پہنچے تو وہاں امریکا کی امن تحریک کے کارکنوں نے میڈم رائس کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ واشنگٹن کی پولیس نے ان مظاہرین کو پکڑ پکڑ کر اس ہال سے باہر نکالنا شروع کردیا جہاں فارن افیئرز کمیٹی کا اجلاس ہونے والا تھا تاہم ایک سفید فام خاتون کرسیاں پھلانگ کر کنڈولیزا رائس کے بالکل قریب پہنچ گئی۔ اس خاتون نے اپنے دونوں ہاتھوں کو سرخ رنگ میں ڈبو رکھا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ اس کے ہاتھ خون آلود ہیں۔ اس خاتون نے اپنے رنگین ہاتھوں کو میڈم رائس کے سامنے لہرایا اور زور زور سے ” جنگی مجرم “ کے نعرے لگائے۔ ” جنگی مجرم “ کے نعرے سن کر امریکی وزیر خارجہ چند لمحوں کیلئے ٹھٹھک گئیں کیونکہ یہ نعرے کوئی مسلمان نہیں بلکہ ایک سفید فام مسیحی خاتون بلند کر رہی تھی جسے القاعدہ کا حامی قرار دینا ممکن نہ تھا۔ موقع پر موجود فوٹوگرافروں نے اس سفید فام خاتون کی بہادری اور میڈم رائس کی پریشانی کے لمحات کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر کے پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ امریکی وزیر خارجہ کو ” جنگی مجرم “ قرار دینے والی سفید فام عورت کو چند ہی لمحوں میں پولیس نے اٹھا کر ہال سے باہر پھینک دیا لیکن یہ عورت اپنا کام کر چکی تھی۔ اگلے روز دنیا بھر کے اخبارات میں اس کی تصویر شائع ہوئی اور یہ ثابت ہو گیا کہ تمام امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے جنگی ایجنڈے کی حمایت نہیں کرتے۔ میڈم رائس کو ” جنگی مجرم “ قرار دینے والی سفید فام عورت امریکا کی اس امن تحریک کا حصہ ہے جو پچھلے چھ سال سے افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کی جارحیت کو عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دے رہی ہے۔ امریکی میڈیا اس امن تحریک کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا لیکن اس تحریک کے بہادر کارکن وقفے وقفے سے نت نئے طریقوں کے ذریعہ دنیا کو یہ پیغام دینے میں کامیاب رہتے ہیں کہ صدر جارج ڈبلیو بش پوری امریکی قوم کے ترجمان نہیں ہیں اور پوری امریکی قوم بش کے جنگی جرائم کی ذمہ دار نہیں ہے۔ پچھلے سال مارچ میں کنڈولیزارائس آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ایک تقریب سے خطاب کرنے پہنچیں تو وہاں بھی اینٹی وار موومنٹ کے چند درجن حامیوں نے ان کے خلاف مظاہرہ کیا۔ پچھلے چند سال میں ایسے کئی واقعات پیش آئے جب یورپ کے مختلف ممالک میں جارج ڈبلیو بش، کنڈولیزا رائس اور برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے خلاف مظاہرے ہوئے جن میں مطالبہ کیا گیا کہ بش اور بلیئر کے خلاف عالمی عدالت برائے جنگی جرائم میں مقدمہ چلایا جائے۔ مسلم ممالک کے میڈیا میں امریکا اور یورپ کی اس امن تحریک کو نظر انداز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کے میڈیا کی اکثر خبروں کا انحصار مغربی ذرائع ابلاغ پر ہوتا ہے لیکن مغربی ذرائع ابلاغ 24 اکتوبر کو میڈم رائس کے سامنے سرخ رنگ میں ڈوبے ہوئے ہاتھ لہرانے والی عورت کی تصویروں کو غائب نہیں کر سکے۔ اس عورت کی تصویروں کی اشاعت پر مجھے سوات اور بنّوں سے کئی فون آئے۔ سوات سے فون کرنے والے نوجوان نے سوال کیا کہ اگر امریکا میں بش کی پالیسیوں کے مخالف موجود ہیں تو پھر ہم امریکا مردہ باد کی بجائے امریکی حکومت مردہ باد کے نعرے کیوں نہیں لگاتے؟ میں نے اس نوجوان سے کہا کہ آپ کے سوال میں جواب بھی موجود ہے۔ بنّوں سے فون کرنے والے نوجوان کا تعلق شمالی وزیرستان سے تھا۔ کہنے لگا کہ امریکی وزیر خارجہ کے سامنے مظاہرہ کرنے والی عورت مسلمان تھی یا مسیحی؟ میں نے بتایا کہ وہ مسلمان نہیں تھی ورنہ اس کی گرفتاری کے بعد یہ خبر ضرور جاری ہوتی کہ کنڈولیزارائس پر حملہ کرنے والی دہشت گرد مسلمان عورت کو پکڑ لیا گیا اور ویسے بھی امریکا کی امن تحریک میں اکثریت مسیحیوں کی ہے۔ یہ سننے کے بعد اس نوجوان نے دوسرا سوال یہ کیا کہ اگر امریکا میں بش کو ” جنگی مجرم “ قرار دیا جا سکتا ہے اور امریکی وزیر خارجہ کے سامنے کھڑے ہو کر حکومت کے خلاف نعرے لگائے جا سکتے ہیں تو پھر پاکستان میں امریکا کے خلاف نعرے بازی کیوں نہیں ہو سکتی؟ یہ نوجوان خود ہی بولتا گیا اور کہنے لگا کہ اگر خودکش حملوں میں بے گناہوں کو مارنے کی بجائے ہم بڑے شہروں میں دس پندرہ ہزار لوگوں کو اکٹھا کر کے بش کے خلاف مظاہرے کریں تو وہ زیادہ موٴثر ثابت ہو سکتے ہیں لیکن افسوس کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین یہ کام نہیں کرتے، یہ قائدین میڈیا میں امریکا پر تنقید کرتے ہیں اور اندر خانے امریکی سفارتکاروں سے خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں۔ آج ہمیں ایسے قائدین کی ضرورت ہے جو اقتدار کے لالچ میں نہ تو امریکا کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کیلئے تیار ہوں اور نہ ہی سیاسی مفادات کیلئے جگہ جگہ امریکا کو نیست و نابود کرنے کے دعوے کریں۔ ہمیں ضرورت ہے ایسی قیادت کی جو پاکستان کے قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے امریکا کی غلط حکومتی پالیسیوں پر بلا خوف و خطر تنقید کرے اور احتجاج کے انہی سیاسی طریقوں کو فروغ دے جو امریکا میں بھی موجود ہیں۔ آج پاکستان میں امریکا کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور خودکش حملوں کی اصل وجہ حکومت کی طرف سے طاقت کا بے جا استعمال ہے۔ حکومت نے دفعہ 144 کے ذریعہ سیاسی احتجاج کو دبا کر خود شدّت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ رہی سہی کسر اس ملک کے مٹھی بھر لبرل فاشسٹ پوری کر رہے ہیں جو فوج کو شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور سوات میں طاقت کے استعمال کی ترغیب دیکر جلتی پر تیل پھینکتے ہیں۔ یہ لبرل فاشسٹ حکومت سے کہتے ہیں کہ بھارت سے تو مذاکرات کرو لیکن اپنوں پر بم برساؤ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قبائلی علاقوں اور سوات کے اسلامی عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے قوم پرستوں کے ساتھ بھی مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ لبرل فاشسٹ فوج کو اپنے ہی نوجوانوں سے لڑانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ چند دن قبل ایک انگریزی اخبار نے لال مسجد کے نائب خطیب عامر صدیقی سے یہ بیان منسوب کیا کہ سوات میں فوج پر خودکش حملے درست ہیں۔ اگلے روز ایک اور انگریزی اخبار نے عامر صدیقی اور سوات والوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا مطالبہ کردیا۔ اس سلسلے میں جب سیکریٹری داخلہ سید کمال شاہ نے انکوائری کی تو پتہ چلا کہ عامر صدیقی نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی اور یوں انہوں نے عامر صدیقی کے خلاف جنم لینے والے ایک بہت بڑے طوفان کا راستہ روک لیا۔ غور کریں تو ہم دانستہ یا دانستہ طور پر اپنے دشمنوں کے ہاتھ میں خود ہی کھیلنے کیلئے تیار ہیں۔ دشمنوں نے بڑے خوبصورت طریقے سے آج پاکستان میں وہ حالات پیدا کر دیے ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک مقبوضہ کشمیر میں تھے۔ آج مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے لئے مشکلات کم ہو رہی ہیں لیکن پاکستان میں ہماری فوج کیلئے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ وہ جارج ڈبلیو بش اور کنڈولیزارائس جنہیں ان کے اپنے ملک میں ” جنگی مجرم “ قرار دیا جا رہا ہے انہیں راضی کرنے کیلئے ہم اپنے ملک میں جنگی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں اور مٹھی بھر لبرل فاشسٹ جنگی جرائم کی شرح میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جنگی جرائم مذہب کے نام پر کئے جائیں یا روشن خیالی کے نام پر، دونوں پاکستان کیلئے نقصان دہ ہیں۔ آج پاکستان میں دونوں طرح کے جنگی مجرموں کو بے نقاب کرنے اور ان کے خلاف تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ امریکا کے جنگی مجرم اور پاکستان کے جنگی مجرم ایک دوسرے کے ساتھی ہیں لہذا امریکا کے امن پسندوں اور پاکستان کے امن پسندوں کو بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ جنگی شدّت پسند اور جنگی مجرم اقلیت میں ہیں اور امن پسند اکثریت میں ہیں اگر یہ امن پسند متحد ہو جائیں تو ہم ان جنگی مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
 
آج 6 فروری 2008ء کے روزنامہ "جنگ" میں دو کالم پڑھنے کے لائق ہیں۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا "بالآخر رنگ لانا فاقہ مستی کا" اور عطاء الحق قاسمی کا "صدر پرویز کی والدہ ماجدہ اور اہلیہ محترمہ سے"
 

ساجداقبال

محفلین
نومسلم صحافی اور مسلمان مرد!!!,,,,آخر کیوں؟…رؤف کلاسرہ
لندن کی انڈر گراؤنڈ ٹرینوں کی ایک بڑی خوبصورتی ہے کہ صبح، دوپہر اور شام کے اخبارات مفت پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ صبح میٹرو، دوپہر کو دی لندن اور شام کو لندن نائٹ۔ لندن کی اس خوبصورت دوپہر جب میں کوئینز پارک ریلوے اسٹیشن سے ٹیوب میں بیٹھا تو سامنے دی لندن پڑا ہوا تھا۔ میں نے اسے اٹھایا اور لندن بھر کی خبروں پر سرسری سی نظر دوڑائی تو اچانک ایک خبر پر میری آنکھ رک سی گئی۔ میں نے اس خبر کو بار بار پڑھا اور جب مجھے یقین آ گیا کہ یہ وہی خبر تھی جو میں پڑھ رہا تھا تو میں نے چپکے سے وہ اخبار اٹھایا، اپنے اردگرد بیٹھے گورے مسافروں کو دیکھا اخبار کا وہ صفحہ پھاڑا اور اپنے ہاتھوں کو جیکٹ کی جیب میں ڈال دیا۔ پتہ نہیں کیوں سارا دن وہ خبر میرے ذہن پر سوار رہی اور میرا جی چاہ رہا تھا کہ واپس جلدی گھر پہنچوں اور اس خبر کو نئے سرے سے بیٹھ کر پڑھوں۔ مسز رڈلی 1959ء کو انگلینڈ میں پیدا ہوئی۔ اسے بچپن سے ہی صحافی بننے کا شوق تھا۔ اس نے پہلی شادی فلسطین کی تحریک آزادی کیلئے چلائی گئی تحریک PLO کے ایک کرنل سے کی۔ اس کرنل سے اس کی ملاقات قبرص میں ہوئی تھی جہاں وہ ایک برطانوی اخبار سنڈے سن کیلئے رپورٹنگ کرنے گئی ہوئی تھی۔ اس کرنل سے ایک بیٹی ڈیزی پیدا ہوئی۔ 1992ء میں اس نے دوسری شادی ایک عراقی بزنس مین رونی سے کر لی۔ یہ شادی 1999ء تک چلتی رہی۔ جب ستمبر 2001ء میں امریکہ نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا تو اس نے کابل جا کر اپنے اخبار سنڈے ایکسپریس کیلئے رپورٹنگ کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے بار بار طالبان حکومت سے ویزا مانگا جو اسے عورت ہونے کی وجہ سے نہیں دیا گیا۔ ایک دن اچانک اس نے ایک خبر پڑھی کہ کیسے بی بی سی کے رپورٹر جان سمپسن نے برقعہ پہن کر طالبان کی آنکھوں میں دھول جھونکی۔ اس نے بھی یہی کرتب کیا اور ایک مسلمان عورت کے روپ میں برقعہ پہن کر کابل داخل ہو گئی لیکن وہ وہاں زیادہ دیر نہیں چھپ سکی اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔ وہ گیارہ دن تک طالبان حکومت کی قید میں رہی۔ اس دوران طالبان نے اسے مسلمان ہونے کی دعوت دی جو اس نے مسترد کر دی۔ وہ ان طالبان سے لڑتی رہی۔ ان کے منہ پر تھوکتی رہی اور انہیں گالیاں دیتی رہی لیکن انہوں نے اس کے ساتھ کبھی سختی نہیں کی۔ ایک دن اس نے طالبان سے ایک وعدہ کیا کہ وہ ان سے رہائی پانے کے بعد ایک دفعہ ضرور قرآن کا مطالعہ کرے گی۔ جب گیارہ دن بعد وہ رہا ہوئی تو اس نے لندن جا کر طالبان کی قید میں گزرے ان دو ہفتوں پر ایک شاندار کتاب لکھی جو بہت زیادہ بکی۔ جب وہ لندن کی زندگی میں دوبارہ سے گھل مل سی گئی تھی تو اسے ایک دن یاد آیا کہ اس نے طالبان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ قرآن کا مطالعہ کرے گی۔ وہ سیدھی بک اسٹور پر گئی اور ایک انگریزی ترجمے والا قرآن خریدا اور اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ قرآن کا مطالعہ کرنے کی ایک اور وجہ بھی تھی کہ وہ یہ دیکھنا چاہ رہی تھی کہ قرآن میں عورت کے حقوق کے بارے میں کیا کہا گیا تھا اور طالبان عورتوں کے ساتھ جو برا سلوک کرتے تھے وہ اس میں کس حد تک حق بجانب تھے۔ جب وہ قرآن کا مطالعہ ختم کر چکی تو اسے یہ جان کر بڑا دھچکا لگا کہ قرآن کے اسلام اور طالبان کے اسلام میں بڑا فرق تھا اور خصوصاً طالبان عورتوں کے حوالے سے قرآن کی دی گئی ہدایات پر اس طرح عمل نہیں کر رہے تھے جس طرح کہ انہیں کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اسے یہ بھی احساس ہوا کہ دنیا میں اگر کسی مذہب نے عورت کو حقوق دیئے ہیں تو وہ اسلام ہے۔ 2003ء میں پوری دنیا حیران رہ گئی جب ایک دن اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ طالبان کی قید میں رہنے والی گوری صحافی نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ دنیا بھر کے مسلمان بڑے خوش ہوئے۔ مٹھائیاں بانٹی گئیں ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی گئیں اور طالبان کے سر پر اس فتح کا سہرا باندھا گیا۔ یورپی ماہرین نفسیات نے اسے اسٹاک ہوم سینڈورم کا نام دیا جس کے تحت کسی مغوی کو اپنے اغوا کاروں سے ہمدردی ہو جاتی ہے۔ اس کے مسلمان ہوتے ہی ساری مسلمان دنیا نے اسے اپنے سر پر بٹھا لیا۔ قطر کے ایک بڑے عربی ٹی وی نے اسے اپنی انگلش ویب سائٹ ڈیویلپ کرنے کیلئے سینئر ایڈیٹر کی جاب دے دی۔ وہ عربی اسے نوکری دیتے وقت یہ بات بھول گئے تھے کہ رڈلی مسلمان ضرور ہوئی تھی، لیکن وہ مشرق وسطیٰ اور ایشیائی ممالک کی مسلمان عورتوں کی طرح چپ چاپ، شرمیلی اور مردوں کے دباؤ میں آنے والی نہیں تھی۔ اس کی تربیت ایک ایسے جمہوری معاشرے میں ہوئی تھی جہاں عورت اور مرد برابر انسان سمجھے جاتے ہیں ۔وہاں مرد کو عورت پر کوئی برتری نہیں ہے ۔ عورت کی کسی بھی معاملے پر رائے کو اتنی ہی اہمیت دی جاتی ہے جتنی کسی مرد کو۔ عربی مسلمانوں کیلئے اس طرح کی گوری اور وہ بھی جو ابھی ابھی مسلمان ہوئی تھی ،کو برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔ وہ ان سے نہ صرف بحث و مباحثہ کرتی تھی بلکہ بعض دفعہ ان کے غلط فیصلوں کو بھی ماننے سے انکار کر دیتی۔ آخر ایک دن ان پڑھے لکھے مردوں نے یہ کہہ کر اسے نوکری سے نکال دیا کہ وہ ان سے بحث کرتی تھی۔ رڈلی بھی عرب اور ایشیائی عورتوں کی طرح چپ کر کے آنسو بہاتے ہوئے گھر جانے والی نہیں تھی۔ عورتوں کو مغرب کے دیئے گئے قانونی حقوق کے علاوہ، اب تو اسے اپنے اسلامی حقوق سے بھی آگاہی حاصل ہو چکی تھی لہٰذا اس نے ایک قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ دفتر سے اٹھی، سیدھی کورٹ میں گئی اور ٹی وی انتظامیہ پر کیس کر دیا۔ کیس چلتا رہا اور آخر وہ جیت گئی۔ قطر کی کورٹ نے ٹی وی چینل کو اسے بھاری ہرجانے کی ہدایت کی۔ اس چینل نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اس سے بڑی عدالت میں چیلنج کر دیا لیکن اس کورٹ نے بھی نچلی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ ان مردوں کی انا اور زیادہ مجروح ہوئی اور وہ سپریم کورٹ میں چلے گئے۔ ان کیلئے یہ برداشت کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ کوئی نو مسلم عورت ان کے مقابلے پر اتر سکتی تھی لیکن رڈلی بھی ان کے خلاف جنگ کو انجام تک پہنچانے کیلئے پوری طرح تیار تھی۔ سپریم کورٹ نے اس دفعہ ایک نیا فیصلہ دیا۔ ججوں نے نہ صرف قطر کے ٹی وی چینل کا دعویٰ مسترد کر دیا بلکہ ہرجانے کی رقم بھی دگنی کر دی۔ لندن واپس آ کر رڈلی نے سیاستدان بننے کا فیصلہ کر لیا اور Respect Party کی امیدوار بنی لیکن الیکشن ہار گئی۔ لندن میں برطانوی پولیس کی مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر اس نے شدید احتجاج کرنا شروع کردیا اور ایک موقع پر تو اس نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کو پولیس کے ساتھ تعاون بالکل نہیں کرنا چاہئے۔ وہ روایتی مسلمانوں سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ گئی جب اس نے کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق، چیچنیا اور ازبکستان میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔ ایک دفعہ کوپن ہیگن کی ایک کانفرنس میں اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے آگے مت جھکیں اور یہ ان کیلئے ممکن نہیں تھا کہ جو ہاتھ انہیں تھپڑ مارنے کیلئے اٹھ رہے تھے وہ اسے بوسہ دیں۔ وہ بہت جلد لندن میں اینٹی وار تحریک کے حامیوں کی سب سے بڑی فیورٹ بن کر ابھریں۔ اس دوران مسلمانوں کے خون نے ایک اور جوش کھایا اور چینل نے کرنٹ افیئر پروگرام کیلئے اسے بھرتی کر لیا۔ یہ پروگرام بہت جلد ہی مقبول ہو گیا لیکن روایتی مسلمان مرد ایک پڑھی لکھی، آزادانہ سوچ رکھنے والی ایک گوری مسلمان کو پھر زیادہ عرصے تک قبول نہ کر سکے اور اسے ایک دفعہ پھر نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ ایک دفعہ پھر رونے دھونے کے بجائے وہ سیدھی عدالت چلی گئی۔ جج نے پوچھا کہ اسے کیوں فارغ کیا گیا تھا تو اس نے اس دفعہ ایک نئی کہانی سنائی۔ اس چینل نے ایک شہزادے کو اپنے دفاتر کا دورہ کرانے کی غرض سے بلایا اور جب اسٹاف سے تعارف ہونے لگا تو سب نے اس سے ہاتھ ملائے لیکن جب رڈلی کی باری آئی تو اس نے یہ کہہ کر ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا کہ کسی مسلمان عورت کا غیر محرم سے ہاتھ ملانا جائز نہیں تھا۔ اس بات پر شہزادہ غصے میں آ گیا اور چند گھنٹوں بعد رڈلی کو فارغ کر کے گھر بھیج دیا گیا۔ 2003ء میں مسلمان ہونے سے پہلے رڈلی برسوں سے لندن کے کئی انگریزی اخباروں میں کام کرتی رہی تھی لیکن اسے آج تک کسی اخبار نے ان الزامات کی وجہ سے نوکری سے نہیں نکالا تھا جن کی وجہ سے اسے اب فارغ کیا گیا۔ میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے اس اخبار کے ٹکڑے کو ایک طرف پھینکا اور گہری ہوتی ہوئی رات میں کھڑکی کے قریب جا کھڑا ہوا۔ باہر بہت بارش ہو رہی تھی۔ میں سوچتا رہا کہ وہ کب تک مسلمان مردوں سے اپنے ان حقوق کیلئے لڑتی رہے گی جن کی تفصیل قرآن میں پڑھ کر وہ مسلمان ہوئی تھی ۔ شاید اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ اسلام میں دیئے گئے باقی حقوق تو چھوڑیں، ہم مسلمان اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو دو چار لاکھ کا جہیز بھی اس لیے دیتے ہیں تاکہ انہیں قرآن میں دیئے گئے اس حق سے محروم کریں جس کے تحت وہ جائیداد میں شریک ہیں۔
بحوالہ جنگ آن لائن
 
Top