ساجداقبال
محفلین
سب کا منہ کالا - حامد میر
پشاور کے ایک وکیل خورشید احمد کچھ دن پہلے سپریم کورٹ کے احاطے میں جنرل پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری کا منہ کالا کر کے داد سمیٹتے پھر رہے تھے۔ خورشید احمد کی اتنی زیادہ حوصلہ افزائی ہوئی کہ انہوں نے ایک پریس کانفرنس کرڈالی اور آئین و جمہوریت کے ہر دشمن کا منہ کالا کرنے کا اعلان کر دیا۔ خورشید احمد کی اس دھمکی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ پچھلے چند دنوں میں سیاسی مفاد پرستی اور جمہوریت دشمنی کی ایسی ایسی مثال قائم ہوئی کہ احمد رضا قصوری بہت پیچھے رہ گئے۔ چھ اکتوبر کو ہمیں کئی منہ کالے نظر آ رہے تھے۔ ان میں سے کسی بھی منہ پر خورشید احمد نے سیاہی نہیں پھینکی بلکہ یہ منہ خود بخود کالے ہو گئے۔ قصوری نے ذاتی فائدے کیلئے کبھی بدنامی کی پرواہ نہیں کی۔ اس نے جو کچھ بھی کیا کھلے عام کیا۔ 1970ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد اسے یقین تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اسے وزیر ضرور بنائیں گے۔ اس یقین کی وجہ بڑی دلچسپ تھی۔ انتخابات کے بعد بھٹو ایک دفعہ لاہور آئے تو فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرے۔ ایک شام قصوری ہوٹل جا پہنچا اور وزیر بننے کی ضد کرنے لگا۔ بھٹو صاحب فلیٹیر کے لان میں آ گئے اور ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے احمد رضا قصوری اور امان اللہ خان سے کہا کہ تم میں سے جو بھی اچھا ڈانس کرے گا میں اسے وزیر خارجہ بناؤں گا۔ ہوٹل کے ایک ویٹر نے میز کو طبلہ بنا کر بجانا شروع کر دیا اور وزارت خارجہ کے دونوں امیدواروں نے اندھا دھند ناچنا شروع کر دیا۔ بھٹو صاحب کافی دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔ آخر کار انہوں نے ناچنے کا یہ مقابلہ ختم کیا اور قصوری کو فاتح قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ وزارت خارجہ کا سب سے موزوں امیدوار ہے۔ اس دوران حکومت سازی میں تاخیر ہو گئی۔ قصوری کیلئے ایک ایک دن بھاری تھا۔ ایک دن اسے پتہ چلا کہ بھٹو صاحب مذاق کر رہے تھے۔ یہ پتہ چلنے پر قصوری آگ بگولا ہو گیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں بلایا جا چکا تھا اور شیخ مجیب الرحمان اس اجلاس میں اپنی مرضی کی ایک قرارداد کے ذریعہ پاکستان توڑنے پر تُلے بیٹھے تھے۔ بھٹو صاحب نے اس اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا لیکن احمد رضا قصوری ڈھاکہ پہنچ گیا تاکہ عوامی لیگ کے ساتھ مل کر وزیر بن جائے لیکن عوامی لیگ تو پاکستان کو خدا حافظ کہنے پر تلی ہوئی تھی لہذا قصوری واپس آ گیا۔ واپس آ کر اس نے بلا جھجک بھٹو صاحب کی دوبارہ خوشامد شروع کر دی۔ کوئی بات نہ بنی تو بھٹو پر اپنے باپ کے قتل کا جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا۔ پھر بھی کچھ فائدہ نہ ہوا تو یکم جنوری 1977ء کو قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کو عوام کا نجات دہندہ قرار دیدیا۔ چند ماہ کے بعد نجات دہندہ کی حکومت ختم ہوئی تو قصوری نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مل کر بھٹو صاحب کو سزائے موت دلوا دی۔ موصوف نے یہ سب کچھ کھلے عام کیا اور انہیں آج تک اپنے کئے پر کبھی ندامت نہیں ہوئی۔ شائد اسی لئے جب خورشید احمد نے قصوری کا منہ کالا کیا تو بہت سے لوگ خوش ہوئے تھے لیکن چھ اکتوبر کو کئی منہ کالے ہونے پر لوگوں کو خوشی نہیں بلکہ دکھ ہے۔ چھ اکتوبر کے دن متحدہ مجلس عمل کے بعض اراکین پارلیمنٹ نے اسلام آباد میں اپنی جماعت کے فیصلے کے برعکس صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالا لیکن حکومت کے ساتھ اپنی سودے بازی کا اعتراف کرنے کی بجائے ایم ایم اے کے اندرونی اختلافات کا رونا روتے رہے۔ پشاور میں وکلاء کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو 29 ستمبر کو اسلام آباد میں وکلاء اور صحافیوں کے ساتھ ہوا۔ ایک طرف پشاور کی سڑکوں پر ایم ایم اے کے وزیراعلیٰ کے حکم پر وکلاء کو پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور دوسری طرف وزیراعلیٰ ہاؤس میں سرحد اسمبلی کے اسپیکر بخت جہاں کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔ وزیراعلیٰ سرحد مولانا فضل الرحمان کے نمائندے ہیں اور اسپیکر سرحد اسمبلی قاضی حسین احمد کے نمائندے ہیں۔ دونوں میں لڑائی کی اصل وجہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے 6 / اکتوبر کو اپنے وعدے کے مطابق سرحد اسمبلی تحلیل نہیں کی اور 29 ستمبر کو استعفے دینے کی بجائے معاملہ 2 / اکتوبر تک لے گئے تاکہ تحریک عدم اعتماد آ جائے اور معاملہ موٴخر ہو جائے۔ بالکل ایسا ہی ہوا اور 6 / اکتوبر کو صدارتی الیکشن والے دن سرحد اسمبلی قائم تھی۔ مولانا فضل الرحمان نے ببانگ دہل اس کی ذمہ داری اسپیکر پر ڈال دی۔ شائد وہ پوری قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ معمولی فہم و فراست رکھنے والا شخص بھی یہ جانتا ہے کہ انہوں نے کس کے کہنے پر اور کس کے فائدے کیلئے سرحد اسمبلی تحلیل نہیں ہونی دی لیکن اب وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کا طرز عمل بھی کچھ مختلف نہیں۔ بے نظیر بھٹو نے صدارتی الیکشن سے صرف ایک دن قبل ایک باوردی صدر کے دستخطوں سے جاری ہونے والے آرڈی نینس کے ذریعہ کرپشن کے مقدمات سے نجات حاصل کی اور 6 / اکتوبر کی صبح باوردی صدر کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کردیا۔ بے نظیر بھٹو کو ان کے کئی ساتھیوں نے قومی مفاہمت کے نام پر آرڈی نینس قبول نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ لندن میں رضا ربانی، نوید قمر اور شیری رحمان کے علاوہ شاہ محمود قریشی بھی اس آرڈی نینس کے ذریعہ مقدمات ختم کرانے کی مخالفت کرتے رہے لیکن قاسم ضیاء اور راجہ پرویز اشرف اس آرڈی نینس کے حامی تھے۔ 5 / اکتوبر کی شام اسلام آباد میں جو لوگ صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے حامی تھے ان میں راجہ پرویز اشرف سرفہرست تھے لیکن اس آرڈی نینس کے خلاف شدید عوامی ردعمل کو سامنے رکھتے ہوئے 6 / اکتوبر کی صبح الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اس وقت مولانا فضل الرحمان اور بے نظیر بھٹو میں مقابلہ یہ ہے کہ کون غیر محسوس اور خفیہ طریقے سے جنرل پرویز مشرف کی زیادہ خوشنودی حاصل کرتا ہے۔ دونوں کو مشرف صاحب نے بہت سے خواب دکھا رکھے ہیں۔ بالکل ویسے ہی خواب جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے فلیٹیز ہوٹل لاہور کے لان میں احمد رضا قصوری کو دکھائے تھے۔ فرق یہ ہے کہ قصوری اپنے باس کو خوش کرنے کیلئے سر عام اور دیوانہ وار ناچتا تھا جبکہ آج کے یہ لیڈر سب کچھ بند کمروں میں کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور بے نظیر بھٹو دونوں وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ بے نظیر صاحبہ سے وعدہ کیا گیا ہے کہ آئندہ انتخابات کے بعد تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر پابندی کو ختم کروا دیا جائے گا لیکن یہ طے ہے کہ دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہوں گے۔ دونوں کی بقاء جنرل پرویز مشرف کی بقاء سے مشروط ہو چکی ہے۔ افسوس کہ آج پیپلز پارٹی، ایم ایم اے اور مسلم لیگ (ق) میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ وہ ق لیگی جو چند دن پہلے تک بے نظیر کو کرپشن کی دیوی کہہ رہے تھے، ” فروغ کرپشن آرڈی نینس “ جاری ہونے کے بعد بے نظیر کا دفاع کر رہے ہیں۔ اپنے آپ سے محبت اور اقتدار کے لالچ میں مبتلا ان سیاستدانوں میں فرق ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب معمولی فرق کی بنیاد پر صرف یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ چھوٹی برائی کون ہے اور بڑی برائی کون ہے؟ ان سب کے مقابلے پر احمد رضا قصوری ایک چھوٹی برائی نظر آتا ہے اور اسی لئے 6 / اکتوبر کے بعد سے ہمارے اردگرد کئی منہ کالے ہوچکے ہیں۔ اب تو آئینہ دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں اپنا منہ بھی کالا نہ لگے کیونکہ ہمارے لیڈروں نے پوری قوم کا منہ کالا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔