جھوٹی مائیں !,,,,,نیر زیدی…واشنگٹن
بائبل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے انصاف کی مثال کے طور پر ایک واقعہ درج ہے۔ دو عورتیں حضرت سلیمان کے دربار میں گئیں اور ایک بچے کی ماں ہونے کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے حکم دیا کہ بچے کو کاٹ کر آدھا، آدھا جسم دونوں عورتوں کے حوالے کر دیا جائے اس حکم پر عمل کرنے کے لئے جب تلوار بچے کے جسم پر چلائی جانیوالی تھی تو دعویداروں میں سے ایک عورت نے چلا کر یہ اعلان کیا کہ اس کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ یہ بچہ اس کا نہیں تھا اور اسے دوسری عورت کو دے دیا جائے۔ اس دوران دوسری عورت خاموش رہی تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ بچہ اس عورت کو دیا جائے جس نے بچے کی جان بچانے کے لئے اپنا دعویٰ واپس لے لیا تھا کیونکہ ایک اصل ماں کے دل میں ہی بچے کا درد ہو سکتا ہے۔ 1971ء میں پاکستان کی دو جھوٹی ماؤں نے اس ” بچے “ کے دو ٹکڑے منظور کر لئے تھے۔ ” تمہارا ٹکڑا اُدھر، ہمارا ٹکڑا اِدھر “۔ اب 1971ء کے بعد اس کے نوزائیدہ یا بقول شخصے Born Again پاکستان کی متعدد جھوٹی مائیں بار بار یہ کہہ رہی ہیں کہ اگر شفاف انتخابات نہ ہوئے یا شریعت نافذ نہیں ہوئی، یا میانہ رو سیاسی پارٹیاں اقتدار میں نہ آئیں تو ( خاکم بہ دہن ) اس ” بچے “ کے ایک بار پھر ٹکڑے ہو جائیں گے۔ اب یہ فیشن بن گیا ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان کی ساری ذمہ دار کا الزام ایک جملے میں پاکستان آرمی اور ان مغربی پاکستانیوں پر ڈال دیا جائے جنہوں نے مبینہ طور پر بنگالیوں کو ان کے جائز حصے سے محروم رکھا۔ اس کالم کا مقصد 36 سالہ گڑے مردے اکھاڑنا نہیں ہے۔ اس کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ ایک بار پھر پاکستان میں شفاف اور منصفانہ انتخاب کا مطالبہ اور چرچا ہے۔ 1971ء میں پاکستان کے تمام سیاسی لیڈر پاکستان میں موجود تھے اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ایوان اقتدار سے ہر خاص و عام یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ ” شفاف اور منصفانہ انتخاب کراؤ ورنہ ․․․․․ “ آج پاکستان کی دونوں بڑی پارٹیوں کے لیڈر ملک سے باہر ہیں۔ پاکستان کے انتخابات اور اس کے نتیجے میں اقتدار کسے سونپا جائے یا سونپا جائے گا۔ اس بارے میں سوائے امریکی عدلیہ کے حکومت کے تمام عناصر بول رہے ہیں۔ میں آنجہانی اندرا گاندھی کے پوتے راہول گاندھی کا مشکور ہوں کہ انہوں نے سقوط مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کا کھلے عام اعتراف کر لیا ہے۔ 1982ء میں امرتسر میں گولڈن ٹمپل پر بھارتی فوج کشی کے بعد ایک بھارتی ریٹائرڈ سکھ میجر جنرل واشنگٹن آئے۔ انہیں غالباً یہ خطرہ تھا کہ اندرا گاندھی انہیں کسی نہ کسی بہانے گرفتار کر لیں گی۔ ان کا نام تھا جسونت سنگھ بھلر۔ وہ مشرقی پاکستان پر بھارتی حملہ آور فوجی آپریشن میں لیفٹیننٹ جنرل Aurora کے Goc یا جنرل آفیسر کمانڈنگ تھے اور ڈھاکہ پر قبضہ انہوں نے کیا تھا۔ ایک ذریعہ سے مجھے پیغام ملا کہ وہ ملنا چاہتے ہیں۔ پہلا سوال انہوں نے مجھ سے یہ کیا کہ پاکستان کی فوج اگر دو یا تین ہفتے بھی لڑ لیتی تو پاکستان نہ ٹوٹتا کیوں کہ اس دوران بین الاقوامی کمیونٹی اقوام متحدہ کے فورم سے جنگ بندی کرادیتی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اندرا گاندھی طویل جنگ کے لئے تیار نہیں تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ یہ مختصر جنگ ہوگی اور پاکستانی نہیں لڑیں گے۔ دوسری بات انہوں نے بتائی کہ مکتی باہنی یا بنگالیوں کی فوج نجات کوئی اتنی بڑی گوریلا فورس نہیں تھی جو پاکستان آرمی سے لڑ کر مشرقی پاکستان کو الگ کرسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مکتی باہنی کے انچارج تھے اور وہ بھارتی سپاہیوں کو مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بنا کر بھیجا کرتے تھے ان کے مشرقی پاکستانی بنگالیوں سے صرف سامان اٹھوانے کا کام لیا جاتا تھا۔ تیسری بات انہوں نے آگرہ پر واحد پاکستانی بمبار طیارے کی بمباری کی بتائی۔ ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی۔ دونوں طرف کی فوجیں سرحد پر تیار کھڑی تھیں۔ جنرل بھلر کو احکام کا انتظار کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ نے اخبار نویسوں کو اپنے دفتر میں جمع کیا اور سب کسی اعلان کے منتظر تھے۔ بالآخر بھارتی خارجہ سیکریٹری اپنے کمرے سے باہر آئے اور منتظر اخبار نویسوں سے کہا کہ " Gentlemen ! We Are Under Attack" یعنی حضرات ! ہم پر حملہ ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ میجر جنرل بھلر کو مشرقی پاکستان پر جوابی حملہ کرنے کے احکامات مل گئے۔ جس حملے کا خارجہ سیکریٹری نے اعلان کیا تھا وہ پاکستان ائیر فورس کا تنہا بمبار طیارہ تھا جو غالباً سرگودھا سے اڑا تھا اور جو آگرہ پر بمباری کر کے بخیریت پاکستان واپس آ گیا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنرل آغا یحییٰ شراب کے نشے میں رہتے تھے یا انہیں فاحشہ عورتوں سے فرصت نہیں تھی۔ بمبار بھیجنے کا فیصلہ ائیر مارشل رحیم کا تھا جو چیف آف ایئر اسٹاف تھے۔ اس وقت مغربی پاکستان اور بھارت کی سرحد پر مکمل جنگی تیاری تھی۔ فوجیں اور طیارہ شکن توپیں نصب تھیں۔ ہنری کسنجر بتا چکے تھے کہ بھارتی جنگ کی تیاری کر چکے ہیں اور وہ بغیر جنگ کے نہیں مانیں گے تو پھر مغربی پاکستان سے یہ تنہا بمبار طیارہ بھیج کر جنگ میں پہل کیوں کی گئی ؟ اور آگرہ 500 میل سے زیادہ فاصلے پر ہے۔ مجھے علم نہیں ہے کہ یہ قسم کا بمبار طیارہ تھا، عموماً بمبار طیارے کے ساتھ لڑاکا طیاروں کا Escort جاتا ہے۔ دشمن کی سرحد پر طیارہ شکن بٹریوں Batteries کے باوجود یہ تنہا بمبار طیارہ آگرہ صحیح سلامت کیسے پہنچا ؟ اگر سرحد سے یہ بچ بھی نکلا تھا تو 500 میل کی مسافت طویل ہوتی ہے۔ آخر بھارتی فضائیہ نے اسے بھارتی علاقے میں دوران پرواز Intercept کیوں نہیں کیا ؟ اور اگر وہ سو رہے تھے تو پھر کم از کم آگرہ پر بمباری کے بعد تو بیدار ہو گئے ہوں گے ؟ تو جب یہ طیارہ واپس آ رہا تھا تو اور یہ دشمن کا طیارہ تھا اور اس نے بھارت پر بمباری کی تھی تو اسے کیوں نہ مار گرایا گیا ؟ اور اس نے پاک بھارت سرحد پر طیارہ شکن توپوں کے باوجود سرحد دوبارہ کس طرح عبور کی ؟ اور اگر یہ بھارتی فضائیہ کی نا اہلی تھی تو اس غفلت کے الزام میں بھارت کے کسی سینئر فضائی افسر کا کورٹ مارشل کیوں نہیں ہوا ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو حمود الرحمن کمشن کو اٹھانے چاہئیں تھے۔ لیکن یہ کمشن اس ” ماں “ نے بنایا تھا جو بچے کا آدھا جسم لیکر خوش تھی۔ مغربی پاکستان سے حملے میں پہل کیوں ہوئی ؟ پاکستان کا فائدہ اس میں تھا کہ وہ سانس روکے بیٹھا رہتا اور دنیا یہ دیکھتی کہ جارحیت میں پہل بھارت نے کی تھی۔ آگرہ پر طیارہ بھیجنے اور حملے میں پاکستان کی طرف سے پہل ایک سازش تھی۔ جنرل آغا یحییٰ چین سے امریکہ کی دوستی کرانے میں ایک اہم کردار ادا کر رہے تھے اور 1971ء میں امریکی اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ پاکستان سے منہ موڑ سکیں۔ جنرل یحییٰ نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ پر زور ڈالا تھا کہ اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ کو پاکستان سے معاہدوں کے تحت پاکستان کی مدد کرنا چاہئے تھی۔ وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ دفاعی معاہدے صرف اشتراکی جارحیت کے خلاف تھے۔ چنانچہ مجبوراً ریاست ہائے متحدہ کو پاکستان کی مدد کا وعدہ کرنا پڑا تھا بشرطیکہ حملے میں پہل بھارت کی طرف سے ہو اور آغا یحییٰ اس شرط کو مان گئے تھے کیوں کہ جنگ میں پاکستان کی طرف سے پہل کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ بغیر بھارتی حملے کے پاکستان نہیں توڑا جا سکتا تھا۔ بھارت کئی برس اپنی فوجیں مشرقی پاکستان کی سرحد پر نہیں رکھ سکتا تھا کہ پاکستان بے صبری میں حملہ کرنے میں پہل کرے۔ پاکستان کا کوئی ایسا ہدف نہیں تھا جس کے لئے بھارت پر حملہ کرنے میں پہل ضروری ہو۔ بھارت کا ہدف پاکستان کو توڑنا تھا جس سے جنگ کا آغاز ضروری تھا اور اس جنگ کے انتظار میں بھارت کا نقصان تھا۔ ایک تو فوجیں حالت جنگ میں رکھنے کا خرچ اور دوسرے بھارتی جنرل الیکشن جسے اندرا گاندھی جیتنا چاہتی تھیں۔ جن لوگوں نے آگرہ پر بمبار بھیجا وہ صرف ریکارڈ پر یہ دکھانا چاہتے تھے کہ جنگ کا آغاز پاکستان نے کیا تھا تاکہ ریاست ہائے متحدہ پاکستان کی مدد کے وعدے سے جان چھڑا سکے۔ ان حضرات کے نام تھے اییر مارشل رحیم خان جن کی اجازت کے بغیر بمبار جا نہیں سکتا تھا ․․․․ اور دوسرے صاحب تھے لیفٹیننٹ جنرل گل حسن جو اس وقت چیف آف جنرل اسٹاف تھے اور جنہوں نے آغا یحییٰ خان کو قیدی بنایا ہوا تھا۔ فیلڈ میں تمام احکامات Cgs کے ذریعہ جاتے ہیں اور وہ رابطے جنرل گل حسن کے کمانڈ میں تھے۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ آغا یحییٰ خان اقتدار منتقل کرنے کو تیار نہ تھے۔ وہ پاکستانی تاریخ کے واحد چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے جنہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مزید دس برس یا تاحیات اپنے ذاتی اقتدار کو محفوظ اور مضبوط کرنے کے لئے سیاستدانوں سے سازشیں شروع نہیں کی تھیں بلکہ دو برس کا عرصہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کی تیاری میں صرف کیا تھا۔انہوں نے سب سے پہلے ون یونٹ توڑا تاکہ انتخابات میں یہ نکتہ واحد نہ بنے۔ انہوں نے شفاف انتخابات کروائے لیکن 1979ء کے مارشل لاء کے قانونی تحفظ کی ڈیل انتخابات سے پہلے نہیں کی۔ شیخ مجیب الرحمن 1966ء میں یا اس سے قبل بھارت کے زرخرید ہو چکے تھے۔ اگر آغا یحییٰ محتاط ہوتے تو وہ اپنے مارشل لاء کے لئے قانونی تحفظ حاصل کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی ترپ کا پتہ رکھتے۔ جنرل ضیاء الحق نے اس وقت تک مارشل نہیں اٹھایا جب تک آٹھویں ترمیم منظور نہیں ہوئی۔ اور جنرل مشرف نے 2002ء میں ایسے انتخابات کروائے جن کے بعد سب لوگ شفاف انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس ہو جاتا تو شاید پہلے ہی اجلاس میں ایسے اقدامات ہو جاتے جن سے آغا یحییٰ تو ایک طرف مغربی پاکستان میں دوسرے سینئر جنرلوں پر بھی اثر پڑتا۔ بھٹو جو یہاں آرمی سے سازباز کئے ہوئے تھے انہوں نے ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس روکنے میں مدد کی۔ اندرا گاندھی پاکستان توڑنے پر تلی ہوئی تھیں وہ خواہ ڈھاکہ میں اسمبلی کے اجلاس کے بعد اسمبلی کے ذریعہ توڑا جاتا یا پھر اس بہانے کہ پاکستان آرمی نے بنگالیوں کی بغاوت کو کچلنے کی کوشش کی تھی۔ میں مارشل لاء کو Legal Cover دینے کی اصولی مخالفت کرتا ہوں۔ لیکن 1971ء میں اگر عوامی لیگ ایسا کردیتی تو شاید پاکستان کے پہلے شفاف انتخابات کے بعد جمہوریت پھر پٹری پر آجاتی۔ لیکن عوامی لیگ مکمل طور پر بھارتی ایجنٹ بن چکی تھی جب میں اپریل میں ڈھاکہ گیا تو سیاستدانوں نے بتایا کہ ان کے پاس صرف دو آپشن ہوتے ہیں۔ یا تو وہ بھارتی خفیہ ایجنسی Raw کے ساتھ ہوں یا پھر Isi کے ساتھ۔ 1971ء میں صرف Raw کا آپشن تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستان آرمی ایک دفعہ شفاف انتخابات کروا کر پچھتا چکی ہے۔ کیا وہ اب دوبارہ ایسا کریں گے ؟ میں گل حسن یا رحیم کی طرح کے افراد کی نہیں بلکہ ادارے کی بات کر رہا ہوں۔ میری رائے میں اب یہ ادارہ کسی سے کوئی ڈیل نہیں کرے گا۔ بھٹو صاحب کے اس کارنامے کا اکثر ذکر ہوتا ہے کہ وہ 90,000 پاکستانی چھڑا لائے تھے۔ وہ بھی اندرا گاندھی کے احسانات کا بدلہ تھا۔ 1972ء کے انتخابات میں اندرا گاندھی کو مسلم ووٹ چاہئے تھا۔ پاکستان توڑنے کے بعد اگر 90,000 مسلمان قیدی اندرا گاندھی کی جیلوں میں ہوتے مسلم ووٹ میں مشکلات ہوتیں جو مسلمان کرکٹ میں بھی پاکستان کے لئے تالیاں بجاتے ہیں وہ 90,000 پاکستانی قیدیوں کی موجودگی میں اندرا گاندھی کو ووٹ کیسے دیتے ؟ شملہ معاہدے کی روح یہ تھی کہ کشمیر میں اِدھر ہم اور اُدھر تم۔