کل کا کالم

سلامِ مسنون!
یہ ایک نئے دھاگے کا آغاز ہے۔ یہاں ایک دن پہلے کے اخبارات میں شائع ہونے والے مفید اور دلچسپ کالم پیش کیے جائیں گے۔ (میرا نہیں خیال کہ یہ غلط یا غیر قانونی ہوگا)۔
فقط
آپ سب کے پسندیدہ کالموں کا منتظر
 
1100195844-1.jpg

1100195844-2.gif

بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس" کراچی یکم جون 2007ء​
 
ساجد اقبال بھائی! آپ نے دونوں کالموں کے حوالہ نہیں دیے ہیں۔ سو، پڑھنے والے نوٹ کرلیں کہ دونوں کالم جاوید چوہدری کے ہیں جو روزنامہ ایکسپریس کی کل اور آج کی اشاعت میں شامل ہوئے۔


:!:
 

ساجداقبال

محفلین
شہید کے خون کی طاقت ,,,,کٹہرا…خالد مسعود خان
میں نے موبائل فون اٹھایا تو دوسری طرف راجہ تھا۔ اس کی آواز میں معمول کی شوخی اور زندہ دلی بالکل مفقود تھی۔ یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے مخصوص پہاڑی لہجے میں دو تین بے ضرر سی گالیاں دینے کے بعد بات کا آغاز کرتا تھا لیکن اس روز اس کی آواز میں عجیب طرح کی اداسی اور دُکھ کی آمیزش تھی۔ خلاف معمول اس نے نہایت عجیب سا سوال کیا۔ پوچھنے لگا کیا شہید کا خون ضائع جاتا ہے؟ میں نے اس سے پوچھا کہ اسے اس عمر میں اس شرعی مسئلے کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے۔ اس نے میرا سوال نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا کہ کیا کسی شہید کا خون ضائع یا بیکار جا سکتا ہے؟ میں نے اسے کہا کہ ایسا ممکن تو نہیں ہے۔ اس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا تو پھر یہاں اسلام آباد میں کیا ہوا ہے؟ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا میں خاموش ہو گیا۔ فون کے دوسری طرف بھی خاموشی چھا گئی۔ راجہ نے چند لمحے توقف کے بعد بولنے کی کوشش کی تو فرطِ غم سے اس سے بولا نہ گیا۔ میں نے کہا راجہ میں اس وقت اسلام آباد میں ہی ہوں اور تمہارے پاس آرہا ہوں۔ مجھے لگ رہا تھا کہ فون کی دوسری جانب راجہ اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ میں نے ٹیکسی پکڑی اور راجہ کی جانب روانہ ہو گیا۔ راستے میں سوچ رہا تھا کہ راجہ کے سوال کا جواب تو راجہ کے سوال میں ہی موجود ہے۔ وہ پوچھتا ہے کہ شہید کا خون ضائع ہو سکتا ہے؟ اب بندہ اسے کیا بتائے۔ جس شہادت نے راجہ جیسے روشن خیال، مذہب بیزار اور مولوی دشمن شخص کو رونے پر اور ایک ”مولوی“ کے خون ناحق پر یہ سوال کرنے پر مجبور کردیا ہے بھلا وہ شہادت اور وہ خون ضائع کہاں گیا ہے؟ جو خون اس جیسے شخص کو بھی گھسیٹ کر مذہبی نقطہ نظر سے سوچنے والوں کے دائرے میں لے آئے بھلا وہ بیکار کیسے جا سکتا ہے؟ راجہ میرا ایم بی اے کا کلاس فیلو ہے۔ دوران تعلیم ہم دو مختلف دنیاؤں کے باسی تھے۔ اس کی ساری دوستی، اٹھنا بیٹھنا، پڑھنا، تفریح کرنا ترقی پسندوں کے ساتھ تھا۔ بحیثیت کشمیری وہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا کٹر حامی اور خود مختار کشمیر کا پرجوش دعویدار تھا۔ مذہب اس کی ترجیحات میں اتنا پیچھے تھا کہ تقریباً نہ ہونے کے برابر باقی رہ گیا تھا۔ وہ اس زمانے میں پاکستان بلکہ دُنیا بھر کی تمام خرابیوں کا چھیانوے فیصد براہ راست ذمہ دار مولویوں کو سمجھتا تھا بقیہ چار فیصد خرابیوں کا ذمہ دار بھی وہ بالواسطہ طور پر مولویوں کو ہی سمجھتا تھا۔ ماہ رمضان میں ہوسٹل کا میس بند ہو جاتا تھا وہ پورا مہینہ ”جماعتیوں“ کو بُرا بھلا کہتے، چائے پیتے اور سگریٹ پھونکتے ہوئے گزار دیتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ روزہ زبردستی کا سودا نہیں ہے۔ جب اس سے پوچھا جاتا کہ آخر وہ روزے کیوں نہیں رکھتا تو وہ جواباً ہنس کر کہتا کہ وہ روٹی کے بغیر تو بڑی آسانی سے رہ سکتا ہے مگر سگریٹ کے بغیر اسے اندیشہ ہے کہ وہ فوت ہو جائے گا۔ میں نے اسے ایک بار اس بارے میں شرط لگانے کا کہا مگر وہ ہنس کر کہنے لگا، بھلا اب ایسی شرط کا مجھے کیا فائدہ جس میں جیتنے کی صورت میں مجھے مرنا پڑے اور تم ہارنے کے باوجود زندہ رہو۔ تم سگریٹ نہ پینے کی صورت میں میرے مرنے پر زیادہ سے زیادہ یہ کرو گے کہ پہلی صف میں کھڑے ہو کر میری نماز جنازہ پڑھو گے، میری مغفرت کیلئے گڑگڑا کر دُعا مانگو گے اور ثواب دارین حاصل کرو گے۔ مجھے تمہارے ان اعمال کیلئے مرنے کا کوئی شوق نہیں اور میں تمہارے ثواب کیلئے اپنی زندگی کا رسک لینے کیلئے تیار نہیں۔ یہ کہہ کر راجہ نے ایک اور سگریٹ سلگائی اور مجھ سے نہایت رازداری سے پوچھنے لگا۔ اوئے مولوی! تیرے پاس کچھ کھانے کیلئے پڑا ہے۔ میں راجہ کے دفتر میں داخل ہوا تو وہ سخت ڈپریشن کے عالم میں تھا۔ اس نے مجھ کو دیکھ کر سگریٹ ایش ٹرے میں بجھائی۔ اٹھ کر گلے لگایا اور بیٹھ کر پھر سگریٹ سلگائی۔ میں نے دیکھا کہ سگریٹ سلگاتے وقت اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ اس نے سگریٹ کا دھواں اوپر چھت کی طرف پھینکتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ یہ اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا یہ آپ لوگوں کا اسلام آباد ہے، ہم جنوبی پنجاب کے پسماندہ لوگ تو یہاں اپنے مسائل کے حل کی اُمید لیکر آتے ہیں اور نااُمید ہو کر واپس چلے جاتے ہیں۔ ہم نے اسلام آباد کی پہلی مسجد کو آباد کرنے کیلئے روجھان مزاری سے ایک مولوی بھیجا تھا، 42سال بعد اس کے بیٹے کی لاش واپس روجھان مزاری میں دفن ہونے کیلئے بھیج دی گئی۔ روجھان مزاری کے دیگر فرزندوں کی تو لاشوں کا بھی پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ چھ جولائی کو لال مسجد میں آخری جمعے کی امامت کرنے والے انعام اللہ کا تو پتہ ہی نہیں کہ وہ زندہ ہے یا شہید ہو گیا ہے۔ راجہ بولا ہم اسلام آباد والے کتنے بے حس اور بے رحم ہیں کہ اس آباد شہر کے وسط میں قتل عام ہوتا رہا اور ہم حسب معمول دفتروں میں آکر حاضری لگاتے رہے، چائے پیتے رہے، گپیں مارتے رہے، غازی برادران کی حماقتوں پر تبصرے کرتے رہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کا مطالبہ کرنے والوں کی مذمت کرتے رہے، سات دن تک محاصرے میں بھوکے پیاسے سیکڑوں یتیم و لاوارث بچوں بچیوں پر مشین گنوں اور مارٹروں سے ہونے والی گولہ باری اور فائرنگ کی آواز سن کر سکون سے سوتے رہے، عالم اسلام کے خواتین کے سب سے بڑے مدرسے کو بارود سے اڑانے کے دھماکے سنتے رہے، سیکڑوں طلبا وطالبات کے دھیرے دھیرے موت کے منہ میں جانے کا منظر دیکھتے رہے اور سیکڑوں ایسے طلبا وطالبات کی لاشوں کے صفحہ ہستی سے ناپید ہونے کا عمل دیکھتے رہے جن کے سینے حفظ قرآن سے منور تھے۔ میں تو ایک بے عمل، گناہ گار اور نام کا مسلمان ہوں مگر مجھے گزشتہ تین دِن سے نیند نہیں آرہی، جن لوگوں نے ان سینوں کو چھلنی کرکے وکٹری کا نشان بنایا تھا وہ کیسے سوئے ہوں گے؟ جنہوں نے ان فرشتہ صورت معصوموں کی لاشیں غائب کی ہوں گی، جامعہ حفصہ میں جلا کر خاکستر کی ہوں گی، بے نام قبروں میں ڈالی ہوں گی بھلا وہ روز حشر کس قسم کے نامہ اعمال کی اُمید لیکر زندگی کے بقیہ چند روز گزاریں گے؟ تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ محاصرے کے ان سات دِنوں میں محصور خواتین، بچوں، بچیوں اور نوجوانوں پر آنسو گیس کے کتنے شیل، کتنے مارٹر گولے، کتنے من بارود، کتنی ہزار گولیاں برسائی گئیں؟ پانی، بجلی، گیس اور کھانا بند کیا گیا۔ کس طرح ان پر خودکش جیکٹوں کی تقسیم، بارودی سرنگوں، راکٹ لانچروں، گرنیڈوں، دستی بموں، مشین گنوں اور دیگر تباہ کن ہتھیاروں کا الزام لگایا گیا جو آج اسی طرح غلط ثابت ہوا ہے جس طرح عراق پر حملے کیلئے امریکا کے گھڑے ہوئے تمام الزامات غلط ثابت ہوئے ہیں۔ تمہیں پتہ ہے جلیانوالہ باغ میں گورکھا رجمنٹ نے جنرل ڈائر کے حکم پر کل سولہ سو پچاس راؤنڈ فائر کئے تھے۔ ہمارے شیر جوانوں نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے محصورین پر کتنے فائر کئے ہیں؟ جلیانوالہ باغ میں ہلاک ہونے والوں کی سرکاری تعداد 279 تھی جبکہ غیر سرکاری تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی جبکہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں جاں بحق ہونے والوں کی سرکاری تعداد ایک سو تین ہے تاہم غیر سرکاری تعداد جلیانوالہ باغ کے سانحے کی غیر سرکاری تعداد کے برابر ہے۔ مجھے تو شرم آرہی ہے کہ میں ایسے شہر کا حصہ ہوں جو اپنے بچوں کے قتل عام پر نہایت بے حسی اور لاتعلقی سے روزمرہ کے کاموں میں مشغول رہا۔ یہ کہتے ہوئے راجہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ میں نے راجہ کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا تم اسلام آباد کے عام شہریوں کو روتے ہو، مدرسے اور مسجد کے ان محصورین کیلئے تو اسلام کے نام پر ووٹ لینے والوں نے بروقت کچھ نہ کیا۔ اگر قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن دو ٹکے کی اے پی سی پر جانے کی بجائے اپنے تمام ممبران اسمبلی اور سینیٹ کے ساتھ زیرو نائن پر دھرنا دیتے اور کہتے کہ مسجد پر گولی چلانے سے پہلے ان کی لاشوں کے اوپر سے گزرنا ہوگا تو میں دیکھتا کہ یہ قتل عام کس طرح ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی بات کو چھوڑیں وہ تو ڈیڑھ صوبوں کی حکومت کی لالچ میں کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر قاضی حسین احمد تو مجاہدین کے پُشتیبان اور شہداء کے وارث ہونے کے دعویدار ہیں۔ شہید ہونے والے بچوں کی اکثریت کشمیر، قبائلی علاقوں، شمالی علاقہ جات اور گلیات سے تعلق رکھتی تھی، ان کے ورثا اسلام آباد کی سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے ہیں اور صرف ایک سوال کرتے ہیں کہ ان کے بچے اگر زندہ ہیں تو کہاں ہیں اور اگر جاں بحق ہو گئے ہیں تو ان کی لاشیں کہاں ہیں؟ آنٹی شمیم کے اغوا پر واویلا کرنے والی این جی اوز اور انسانی حقوق کی پامالی کا شور مچانے والی تنظیموں کی روشن خیال اور ماڈرن خواتین اب کہاں گئی ہیں؟ قحبہ خانہ چلانے والی خاتون کے چند گھنٹوں کے اغواء بلکہ تلقین اور تبلیغ پر واویلا کرنے والی غیر ملکی ڈالروں پر چلنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں سیکڑوں طلبا وطالبات کی شہادت پر خاموش ہیں کہ ان کے سینے قرآن کی روشنی سے منور تھے اور ان کے لبوں پر اللہ اور اس کے رسول کا نام تھا۔ راجہ چار چھ ماہ قبل غازی عبدالرشید کا ناقد تھا مگر وہ غازی عبدالرشید شہید کیلئے بہت سے مولویوں سے زیادہ رنجیدہ ہے۔ راجہ پوچھتا ہے کہ کیا شہید کا خون ضائع جاتا ہے؟ شہید کے خون کی اس سے زیادہ طاقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ راجہ جیسا روشن خیال، مولوی بیزار اور لبرل آدمی بھی آج اسی طرح سوچ رہا ہے جس طرح کوئی بنیاد پرست مسلمان سوچتا ہے۔ اسے غازی عبدالرشید نے نہیں شہید عبدالرشید غازی نے متاثر کیا ہے۔ شہید کے خون کی اس سے زیادہ طاقت اور کیا ہو سکتی ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
شکرانے کے نفل ,,,,قلم کمان …حامد میر

10/جولائی کو سانحہ لال مسجد کے بعد سے پاکستانیوں کی بڑی اکثریت صدمے کا شکار تھی۔ اللہ کے گھر میں خونریزی کے بعد خودکش حملوں کی خوفناک لہر نے صدمہ زدہ مسلمانوں کو مزید پریشان کردیا تھا لیکن پریشانی کے اس وقت میں 20/جولائی کو سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ تازہ ہوا کا جھونکا بن گیا اس جھونکے نے پوری قوم میں خوشی کی ایک لہر دوڑا دی۔ فیصلہ سنانے سے قبل جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے بڑے پتے کی بات کہی، انہوں نے فرمایا کہ جس کو فیصلہ پسند نہ آئے وہ طیش میں نہ آئے اور جسے خوشی ہو وہ شکرانے کے دونفل ادا کرے۔ یہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا، پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں ایک اعلیٰ عدالت نے پہلی دفعہ فوج کے سربراہ کی مرضی کے خلاف فیصلہ دیا اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کردیا۔ یہ وہی افتخار محمد چوہدری تھے جنہوں نے کچھ سال قبل فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کی وردی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔9/ مارچ کو جنرل پرویز مشرف کے سامنے استعفےٰ دینے سے انکار کرکے جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کیا اور 20/جولائی کو سپریم کورٹ کے 13رکنی بنچ نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے اپنے چیف جسٹس پر فوج کے سربراہ کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرکے وہ داغ دھودیا جو بہت سال پہلے جسٹس منیر نے عدلیہ کی پیشانی پر لگایا تھا۔ اس فیصلے کا کریڈٹ یقیناً سپریم کورٹ کے ججوں اور چیف جسٹس کے حق میں تحریک چلانے والے وکلاء کو جاتا ہے۔ میڈیا نے صرف ایک پیشہ وارانہ ذمہ داری ادا کی اور اس ذمہ داری کی انجام دہی کے دوران میڈیا پر حملے ہوئے، پابندیا ں لگیں اور دھمکیاں دی گئیں۔ عوام کی اکثریت نے چیف جسٹس اور وکلاء کے ساتھ ساتھ میڈیا کی بھی حوصلہ افزائی کی لہذا سب سے زیادہ مبارکباد کے مستحق پاکستان کے عوام ہیں جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عدلیہ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرچکے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں 20/جولائی کے فیصلے پر اللہ تعالٰی کا شکر ضرور ادا کرنا چاہئے لیکن بہت زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے۔ 20/جولائی کا فیصلہ عدلیہ کی آزادی کی طرف پہلا قدم ہے۔ ابھی راستہ کافی لمبا ہے۔ عدلیہ کی آزادی کی حقیقی منزل تب آئے گی جب پوری قوم اپنے آپ کو آزاد محسوس کریگی اور پوری قوم کی آزادی ایک مضبوط اور خود مختار پارلیمنٹ کے قیام کے بغیر ناممکن ہے۔ مضبوط اور خودمختار پارلیمنٹ کے قیام کیلئے غیرجانبدار الیکشن کمیشن کا قیام ضروری ہے جو منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو ضروری بنائے۔ منصفانہ انتخابات کا انعقاد اسی وقت ممکن ہے جب فوج سیاست میں ملوث نہیں ہوگی، فوج کا سربراہ سیاسی جماعتوں کے جلسوں سے خطاب نہیں کرے گا اور خفیہ ادارے حکومت کے مخالفین کی بجائے ملک کے دشمنوں کی نگرانی شروع کریں گے۔ کوئی مانے یا نہ مانے،20/جولائی کو سپریم کورٹ نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حق میں فیصلہ دیکر دراصل ان خفیہ اداروں کو بھی غلط قرار دیا ہے جن کے سربراہوں نے چیف جسٹس کے خلاف عدالت میں بیان حلفی دیئے تھے۔ پاکستان کی سب سے اعلیٰ عدالت میں غلط قرار پانے خفیہ داروں کے ان سربراہوں سے کون حساب لے گا؟ انہی اداروں کی کچی پکی اطلاعات کی بنیاد پر چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا، انہی اداروں نے چیف جسٹس کو ان کے گھر میں نظر بند کیا، ان کے ٹیلی فون بند کیے، گاڑیاں غائب کیں، بالوں سے پکڑکر گھسیٹا اور کوٹ پھاڑ دیا، جب میڈیا نے اس ظلم کو بے نقاب کیا تو ٹی وی چینلز کے دفاتر پر حملے کیے گئے۔ چیف جسٹس اور میڈیا کے خلاف غیض و غضب کا مظاہرہ کرنے والے خفیہ اداروں کے بعض افسران سچائی کی نصرت کیلئے نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنی نصرت کیلئے سرگرم تھے لیکن ان اناء پسندوں کے پاس نام کی نصرت تو موجود ہے لیکن حقیقت میں یہ سب قوم کے مقابلے پر شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔ان سب اناء پسندوں نے مل کر صرف صدر پاکستان نہیں بلکہ آرمی چیف کے عہدے کی ساکھ کو بھی مجروح کیا ہے۔ انہی اناء پسندوں کی غلط حکمت عملی کے باعث لال مسجد میں چند درجن اسلحہ برداروں کے خلاف آپریشن ایک ایسے سانحے میں بدل گیا جو ایک ڈراؤنے خواب کی طرح پاکستانی قوم کو مدتوں ستاتا رہے گا۔ چیف جسٹس کی بحالی کے بعد پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے سامنے بہت سے چیلنجز کھڑے ہیں اور انہی میں سے ایک لال مسجد کا سانحہ بھی ہے۔ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کی ایک مسجد میں کئی دن تک جاری رہنے والی اس جنگ کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ قوم کو یہ پتہ چلنا چاہئے کہ اس سانحے میں کتنے گناہ گار اور کتنے بے گناہ مارے گئے؟ اس سانحے میں خفیہ داروں کا کیا کردار تھا؟ چوہدری شجاعت حسین اور عبدالرشید غازی کے مذاکرات کیوں ناکام ہوئے اور علمائے کرام ان مذاکرات کو ادھورا چھوڑ کر واپس کیوں چلے گئے۔16/جولائی کے ”قلم کمان“ میں خاکسار نے یہ لکھا تھا کہ علماء کی واپسی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت جامعہ حفصہ اور جامہ فریدیہ کو وفاق المدارس کے حوالے کرنے کو تیار نہ تھی۔ اس کالم میں بعض علماء کے غیر سنجیدہ رویے کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ میں نے لفظ بعض علماء اس لئے استعمال کیا کہ مذاکرات کرنے والے تمام علماء قصور وارنہ تھے۔ مفتی رفیع عثمانی صاحب بھی مذاکرات کرنے والوں میں شامل تھے انہوں نے ایک خط میں وضاحت کی ہے کہ مذاکرات چھوڑ کر واپس آنے کی پہلی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے عبدالرشید غازی کو ان کے اہل و عیال کے ہمراہ ان کے گاؤں بھجوانے اور وہاں قیام پر رضا مندی ظاہر کی تھی اور یہ بھی طے تھا کہ جن طلبہ پر جامعہ حفصہ کے نزاع سے پہلے کے مقدمات نہیں انہیں رہا کردیا جائے گا۔ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو وفاق المدارس کے حوالے کرنا تیسرا نکتہ تھا جس پر حکومت نے اتفاق کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک متفقہ تحریر بھی تیار ہوگئی تھی لیکن جب چوہدری شجاعت حسین یہ تحریر لیکر ایوان صدر گئے تو اسے تبدیل کردیا گیا۔ نئی تحریر میں پہلا نکتہ یہ تھا کہ عبدالرشید غازی کو ان کے گھر میں رکھا جائے گا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، دوسرا نکتہ یہ تھا کہ لال مسجد سے باہر آنے والے تمام لوگوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، تیسرا نکتہ یہ تھا کہ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا مستقبل محکمہ اوقاف، وفاق المدارس اور دیگر حکومتی اداروں کے مشورے سے طے کیا جائے گا۔ مفتی رفیع عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ ہمیں کہا گیا صرف پندرہ منٹ میں ہان یا ناں کریں۔ اسی دوران فوج کے ایک افسر نے ہمارے ساتھیوں سے کہا کہ اب آپ حضرات یہاں سے چلے جائیں چنانچہ ہم صدمے کی حالت میں ڈھائی بجے رات واپس چلے آئے۔ مفتی صاحب نے وضاحت کی ہے کہ اس دووران ہم نے جو کھانا کھایا وہ چوہدری شجاعت نے منگوایا۔ نیز یہ کہ اتنی طویل اور سنجیدہ گفتگو کے دوران اگر کسی نے کوئی ہنسی کی بات کہہ دی ہو تو اسے سب کی طرف سے قہقہے لگانے سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ مفتی رفیع عثمانی صاحب انتہائی قابل احترام عالم دین ہیں۔ میں انہیں غلط قرار دینے کی جرأت نہیں رکھتا۔ علماء کے کردار کے بارے میں سوالات اس وقت پیدا ہوئے جب مولانا فضل الرحمان خلیل اور چوہدری شجاعت حسین صبح چار بجے تک مذاکرات کرتے رہے اور ڈھائی بجے مذاکرات چھوڑ کر واپس آنے والے علماء نے اپنے فون بند کردیئے۔ مفتی محمد نعیم صاحب نے مذاکرات چھوڑ کر واپس آنے کی مخالفت کی تھی لیکن حنیف جالندھری کے اصرار پر نہ صرف علماء واپس آگئے بلکہ انہوں نے سب علماء کے فون بند کروائے اور خود پنجاب ہاؤس جاکر سوگئے۔ جب لال مسجد میں آپریشن شروع ہوا تو جالندھری سوئے ہوئے تھے تاہم اس موقع پر مفتی رفیع عثمانی اور مولانا زاہد الراشدی نے مذاکرات کی ناکامی کی کچھ وجوہات میڈیا کو بتاکر کچھ نہ کچھ فرض ادا کردیا۔ لال مسجد کا سانحہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات میں بہت سے چہرے بے نقاب ہوجائیں گے۔ مذہبی انتہاپسندی کے ساتھ ساتھ لبرل فاشزم کا پردہ بھی چاک ہوجائے گا، یہ پردہ صرف وہی جج چاک کرسکتے ہیں جو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور خوشخبری ملنے پر شکرانے کے نفل ادا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ میں نے 20/جولائی کے عدالتی فیصلے پر شکرانے کے نفل ادا نہیں کیے، میں یہ نفل ضرور ادا کروں گا لیکن اس دن جب عدلیہ سانحہ لال مسجد کے سب ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائے گی۔
 

ساجداقبال

محفلین
جھوٹی مائیں !,,,,,نیر زیدی…واشنگٹن

بائبل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے انصاف کی مثال کے طور پر ایک واقعہ درج ہے۔ دو عورتیں حضرت سلیمان کے دربار میں گئیں اور ایک بچے کی ماں ہونے کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے حکم دیا کہ بچے کو کاٹ کر آدھا، آدھا جسم دونوں عورتوں کے حوالے کر دیا جائے اس حکم پر عمل کرنے کے لئے جب تلوار بچے کے جسم پر چلائی جانیوالی تھی تو دعویداروں میں سے ایک عورت نے چلا کر یہ اعلان کیا کہ اس کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ یہ بچہ اس کا نہیں تھا اور اسے دوسری عورت کو دے دیا جائے۔ اس دوران دوسری عورت خاموش رہی تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ بچہ اس عورت کو دیا جائے جس نے بچے کی جان بچانے کے لئے اپنا دعویٰ واپس لے لیا تھا کیونکہ ایک اصل ماں کے دل میں ہی بچے کا درد ہو سکتا ہے۔ 1971ء میں پاکستان کی دو جھوٹی ماؤں نے اس ” بچے “ کے دو ٹکڑے منظور کر لئے تھے۔ ” تمہارا ٹکڑا اُدھر، ہمارا ٹکڑا اِدھر “۔ اب 1971ء کے بعد اس کے نوزائیدہ یا بقول شخصے Born Again پاکستان کی متعدد جھوٹی مائیں بار بار یہ کہہ رہی ہیں کہ اگر شفاف انتخابات نہ ہوئے یا شریعت نافذ نہیں ہوئی، یا میانہ رو سیاسی پارٹیاں اقتدار میں نہ آئیں تو ( خاکم بہ دہن ) اس ” بچے “ کے ایک بار پھر ٹکڑے ہو جائیں گے۔ اب یہ فیشن بن گیا ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان کی ساری ذمہ دار کا الزام ایک جملے میں پاکستان آرمی اور ان مغربی پاکستانیوں پر ڈال دیا جائے جنہوں نے مبینہ طور پر بنگالیوں کو ان کے جائز حصے سے محروم رکھا۔ اس کالم کا مقصد 36 سالہ گڑے مردے اکھاڑنا نہیں ہے۔ اس کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ ایک بار پھر پاکستان میں شفاف اور منصفانہ انتخاب کا مطالبہ اور چرچا ہے۔ 1971ء میں پاکستان کے تمام سیاسی لیڈر پاکستان میں موجود تھے اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ایوان اقتدار سے ہر خاص و عام یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ ” شفاف اور منصفانہ انتخاب کراؤ ورنہ ․․․․․ “ آج پاکستان کی دونوں بڑی پارٹیوں کے لیڈر ملک سے باہر ہیں۔ پاکستان کے انتخابات اور اس کے نتیجے میں اقتدار کسے سونپا جائے یا سونپا جائے گا۔ اس بارے میں سوائے امریکی عدلیہ کے حکومت کے تمام عناصر بول رہے ہیں۔ میں آنجہانی اندرا گاندھی کے پوتے راہول گاندھی کا مشکور ہوں کہ انہوں نے سقوط مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کا کھلے عام اعتراف کر لیا ہے۔ 1982ء میں امرتسر میں گولڈن ٹمپل پر بھارتی فوج کشی کے بعد ایک بھارتی ریٹائرڈ سکھ میجر جنرل واشنگٹن آئے۔ انہیں غالباً یہ خطرہ تھا کہ اندرا گاندھی انہیں کسی نہ کسی بہانے گرفتار کر لیں گی۔ ان کا نام تھا جسونت سنگھ بھلر۔ وہ مشرقی پاکستان پر بھارتی حملہ آور فوجی آپریشن میں لیفٹیننٹ جنرل Aurora کے Goc یا جنرل آفیسر کمانڈنگ تھے اور ڈھاکہ پر قبضہ انہوں نے کیا تھا۔ ایک ذریعہ سے مجھے پیغام ملا کہ وہ ملنا چاہتے ہیں۔ پہلا سوال انہوں نے مجھ سے یہ کیا کہ پاکستان کی فوج اگر دو یا تین ہفتے بھی لڑ لیتی تو پاکستان نہ ٹوٹتا کیوں کہ اس دوران بین الاقوامی کمیونٹی اقوام متحدہ کے فورم سے جنگ بندی کرادیتی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اندرا گاندھی طویل جنگ کے لئے تیار نہیں تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ یہ مختصر جنگ ہوگی اور پاکستانی نہیں لڑیں گے۔ دوسری بات انہوں نے بتائی کہ مکتی باہنی یا بنگالیوں کی فوج نجات کوئی اتنی بڑی گوریلا فورس نہیں تھی جو پاکستان آرمی سے لڑ کر مشرقی پاکستان کو الگ کرسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مکتی باہنی کے انچارج تھے اور وہ بھارتی سپاہیوں کو مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بنا کر بھیجا کرتے تھے ان کے مشرقی پاکستانی بنگالیوں سے صرف سامان اٹھوانے کا کام لیا جاتا تھا۔ تیسری بات انہوں نے آگرہ پر واحد پاکستانی بمبار طیارے کی بمباری کی بتائی۔ ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی۔ دونوں طرف کی فوجیں سرحد پر تیار کھڑی تھیں۔ جنرل بھلر کو احکام کا انتظار کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ نے اخبار نویسوں کو اپنے دفتر میں جمع کیا اور سب کسی اعلان کے منتظر تھے۔ بالآخر بھارتی خارجہ سیکریٹری اپنے کمرے سے باہر آئے اور منتظر اخبار نویسوں سے کہا کہ " Gentlemen ! We Are Under Attack" یعنی حضرات ! ہم پر حملہ ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ میجر جنرل بھلر کو مشرقی پاکستان پر جوابی حملہ کرنے کے احکامات مل گئے۔ جس حملے کا خارجہ سیکریٹری نے اعلان کیا تھا وہ پاکستان ائیر فورس کا تنہا بمبار طیارہ تھا جو غالباً سرگودھا سے اڑا تھا اور جو آگرہ پر بمباری کر کے بخیریت پاکستان واپس آ گیا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنرل آغا یحییٰ شراب کے نشے میں رہتے تھے یا انہیں فاحشہ عورتوں سے فرصت نہیں تھی۔ بمبار بھیجنے کا فیصلہ ائیر مارشل رحیم کا تھا جو چیف آف ایئر اسٹاف تھے۔ اس وقت مغربی پاکستان اور بھارت کی سرحد پر مکمل جنگی تیاری تھی۔ فوجیں اور طیارہ شکن توپیں نصب تھیں۔ ہنری کسنجر بتا چکے تھے کہ بھارتی جنگ کی تیاری کر چکے ہیں اور وہ بغیر جنگ کے نہیں مانیں گے تو پھر مغربی پاکستان سے یہ تنہا بمبار طیارہ بھیج کر جنگ میں پہل کیوں کی گئی ؟ اور آگرہ 500 میل سے زیادہ فاصلے پر ہے۔ مجھے علم نہیں ہے کہ یہ قسم کا بمبار طیارہ تھا، عموماً بمبار طیارے کے ساتھ لڑاکا طیاروں کا Escort جاتا ہے۔ دشمن کی سرحد پر طیارہ شکن بٹریوں Batteries کے باوجود یہ تنہا بمبار طیارہ آگرہ صحیح سلامت کیسے پہنچا ؟ اگر سرحد سے یہ بچ بھی نکلا تھا تو 500 میل کی مسافت طویل ہوتی ہے۔ آخر بھارتی فضائیہ نے اسے بھارتی علاقے میں دوران پرواز Intercept کیوں نہیں کیا ؟ اور اگر وہ سو رہے تھے تو پھر کم از کم آگرہ پر بمباری کے بعد تو بیدار ہو گئے ہوں گے ؟ تو جب یہ طیارہ واپس آ رہا تھا تو اور یہ دشمن کا طیارہ تھا اور اس نے بھارت پر بمباری کی تھی تو اسے کیوں نہ مار گرایا گیا ؟ اور اس نے پاک بھارت سرحد پر طیارہ شکن توپوں کے باوجود سرحد دوبارہ کس طرح عبور کی ؟ اور اگر یہ بھارتی فضائیہ کی نا اہلی تھی تو اس غفلت کے الزام میں بھارت کے کسی سینئر فضائی افسر کا کورٹ مارشل کیوں نہیں ہوا ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو حمود الرحمن کمشن کو اٹھانے چاہئیں تھے۔ لیکن یہ کمشن اس ” ماں “ نے بنایا تھا جو بچے کا آدھا جسم لیکر خوش تھی۔ مغربی پاکستان سے حملے میں پہل کیوں ہوئی ؟ پاکستان کا فائدہ اس میں تھا کہ وہ سانس روکے بیٹھا رہتا اور دنیا یہ دیکھتی کہ جارحیت میں پہل بھارت نے کی تھی۔ آگرہ پر طیارہ بھیجنے اور حملے میں پاکستان کی طرف سے پہل ایک سازش تھی۔ جنرل آغا یحییٰ چین سے امریکہ کی دوستی کرانے میں ایک اہم کردار ادا کر رہے تھے اور 1971ء میں امریکی اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ پاکستان سے منہ موڑ سکیں۔ جنرل یحییٰ نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ پر زور ڈالا تھا کہ اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ کو پاکستان سے معاہدوں کے تحت پاکستان کی مدد کرنا چاہئے تھی۔ وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ دفاعی معاہدے صرف اشتراکی جارحیت کے خلاف تھے۔ چنانچہ مجبوراً ریاست ہائے متحدہ کو پاکستان کی مدد کا وعدہ کرنا پڑا تھا بشرطیکہ حملے میں پہل بھارت کی طرف سے ہو اور آغا یحییٰ اس شرط کو مان گئے تھے کیوں کہ جنگ میں پاکستان کی طرف سے پہل کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ بغیر بھارتی حملے کے پاکستان نہیں توڑا جا سکتا تھا۔ بھارت کئی برس اپنی فوجیں مشرقی پاکستان کی سرحد پر نہیں رکھ سکتا تھا کہ پاکستان بے صبری میں حملہ کرنے میں پہل کرے۔ پاکستان کا کوئی ایسا ہدف نہیں تھا جس کے لئے بھارت پر حملہ کرنے میں پہل ضروری ہو۔ بھارت کا ہدف پاکستان کو توڑنا تھا جس سے جنگ کا آغاز ضروری تھا اور اس جنگ کے انتظار میں بھارت کا نقصان تھا۔ ایک تو فوجیں حالت جنگ میں رکھنے کا خرچ اور دوسرے بھارتی جنرل الیکشن جسے اندرا گاندھی جیتنا چاہتی تھیں۔ جن لوگوں نے آگرہ پر بمبار بھیجا وہ صرف ریکارڈ پر یہ دکھانا چاہتے تھے کہ جنگ کا آغاز پاکستان نے کیا تھا تاکہ ریاست ہائے متحدہ پاکستان کی مدد کے وعدے سے جان چھڑا سکے۔ ان حضرات کے نام تھے اییر مارشل رحیم خان جن کی اجازت کے بغیر بمبار جا نہیں سکتا تھا ․․․․ اور دوسرے صاحب تھے لیفٹیننٹ جنرل گل حسن جو اس وقت چیف آف جنرل اسٹاف تھے اور جنہوں نے آغا یحییٰ خان کو قیدی بنایا ہوا تھا۔ فیلڈ میں تمام احکامات Cgs کے ذریعہ جاتے ہیں اور وہ رابطے جنرل گل حسن کے کمانڈ میں تھے۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ آغا یحییٰ خان اقتدار منتقل کرنے کو تیار نہ تھے۔ وہ پاکستانی تاریخ کے واحد چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے جنہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مزید دس برس یا تاحیات اپنے ذاتی اقتدار کو محفوظ اور مضبوط کرنے کے لئے سیاستدانوں سے سازشیں شروع نہیں کی تھیں بلکہ دو برس کا عرصہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کی تیاری میں صرف کیا تھا۔انہوں نے سب سے پہلے ون یونٹ توڑا تاکہ انتخابات میں یہ نکتہ واحد نہ بنے۔ انہوں نے شفاف انتخابات کروائے لیکن 1979ء کے مارشل لاء کے قانونی تحفظ کی ڈیل انتخابات سے پہلے نہیں کی۔ شیخ مجیب الرحمن 1966ء میں یا اس سے قبل بھارت کے زرخرید ہو چکے تھے۔ اگر آغا یحییٰ محتاط ہوتے تو وہ اپنے مارشل لاء کے لئے قانونی تحفظ حاصل کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی ترپ کا پتہ رکھتے۔ جنرل ضیاء الحق نے اس وقت تک مارشل نہیں اٹھایا جب تک آٹھویں ترمیم منظور نہیں ہوئی۔ اور جنرل مشرف نے 2002ء میں ایسے انتخابات کروائے جن کے بعد سب لوگ شفاف انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس ہو جاتا تو شاید پہلے ہی اجلاس میں ایسے اقدامات ہو جاتے جن سے آغا یحییٰ تو ایک طرف مغربی پاکستان میں دوسرے سینئر جنرلوں پر بھی اثر پڑتا۔ بھٹو جو یہاں آرمی سے سازباز کئے ہوئے تھے انہوں نے ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس روکنے میں مدد کی۔ اندرا گاندھی پاکستان توڑنے پر تلی ہوئی تھیں وہ خواہ ڈھاکہ میں اسمبلی کے اجلاس کے بعد اسمبلی کے ذریعہ توڑا جاتا یا پھر اس بہانے کہ پاکستان آرمی نے بنگالیوں کی بغاوت کو کچلنے کی کوشش کی تھی۔ میں مارشل لاء کو Legal Cover دینے کی اصولی مخالفت کرتا ہوں۔ لیکن 1971ء میں اگر عوامی لیگ ایسا کردیتی تو شاید پاکستان کے پہلے شفاف انتخابات کے بعد جمہوریت پھر پٹری پر آجاتی۔ لیکن عوامی لیگ مکمل طور پر بھارتی ایجنٹ بن چکی تھی جب میں اپریل میں ڈھاکہ گیا تو سیاستدانوں نے بتایا کہ ان کے پاس صرف دو آپشن ہوتے ہیں۔ یا تو وہ بھارتی خفیہ ایجنسی Raw کے ساتھ ہوں یا پھر Isi کے ساتھ۔ 1971ء میں صرف Raw کا آپشن تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستان آرمی ایک دفعہ شفاف انتخابات کروا کر پچھتا چکی ہے۔ کیا وہ اب دوبارہ ایسا کریں گے ؟ میں گل حسن یا رحیم کی طرح کے افراد کی نہیں بلکہ ادارے کی بات کر رہا ہوں۔ میری رائے میں اب یہ ادارہ کسی سے کوئی ڈیل نہیں کرے گا۔ بھٹو صاحب کے اس کارنامے کا اکثر ذکر ہوتا ہے کہ وہ 90,000 پاکستانی چھڑا لائے تھے۔ وہ بھی اندرا گاندھی کے احسانات کا بدلہ تھا۔ 1972ء کے انتخابات میں اندرا گاندھی کو مسلم ووٹ چاہئے تھا۔ پاکستان توڑنے کے بعد اگر 90,000 مسلمان قیدی اندرا گاندھی کی جیلوں میں ہوتے مسلم ووٹ میں مشکلات ہوتیں جو مسلمان کرکٹ میں بھی پاکستان کے لئے تالیاں بجاتے ہیں وہ 90,000 پاکستانی قیدیوں کی موجودگی میں اندرا گاندھی کو ووٹ کیسے دیتے ؟ شملہ معاہدے کی روح یہ تھی کہ کشمیر میں اِدھر ہم اور اُدھر تم۔
 
Top