کم عمری کی شادی کی مخالفت کب تک؟
05/05/2019 تحریم عظیم
2019 کے پہلے چار ماہ ختم ہو چکے ہیں۔ اگلے آٹھ ماہ بھی دو عیدوں، شادی سیزن اور وزیرِ اعظم عمران خان کی ’سلپ آف ٹنگ‘ دیکھتے دیکھتے گزر جائیں گے۔ 2020 آ جائے گا تب بھی ہمارے ہاں کم عمری کی شادی پر بحث ہو رہی ہوگی۔ تاریخ لکھنے والے بھی پریشان ہوں گے کہ یہ کیسی قوم تھی جو اکیسویں صدی میں بھی ان مسائل میں الجھی ہوئی تھی جنہیں دیگر قومیں کب کا بھلا بھی چکی تھیں۔
یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال سے پہلے جبکہ 3 فیصد کی شادی 15 سال کی عمر سے بھی پہلے کر دی جاتی ہے۔ گذشتہ ہفتے سینیٹ نے کم عمری کی شادی پر پابندی کا بِل کثرتِ رائے سے منظور کیا جس کے مطابق شادی کی کم از کم عمر پاکستان بھر میں 18 سال مقرر کی گئی۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو 2 لاکھ روپے جرمانہ اور 3 سال قید کی سزا ہوگی۔ اگرچہ وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری صاحب اور وزیرِ مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے سینیٹ میں اس بِل کی شدید مخالفت کی اور اسے اسلام مخالف قرار دیا لیکن پھر بھی یہ بِل پاس کر دیا گیا۔
دل کو ابھی امید بندھی ہی تھی کہ قومی اسمبِلی سے اس بِل کی مخالفت کی خبریں سنائی دینے لگیں مگر یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ اس بِل کی حمایت میں بہت سے لوگوں نے اپنی آواز بلند کی۔ فواد چوہدری صاحب جن کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے کبھی اچھی ٹویٹ پڑھنے کو نہیں ملی، اس بِل کے حق میں انہوں نے بھی دو چار ٹویٹس کر دیں۔ اللہ انہیں آگے بھی ایسے ہی عقل کی باتیں کرنے کی توفیق دے۔
کم عمری کی شادی پر پابندی کے خلاف سب سے بڑی دلیل ہی یہ دی جاتی ہے کہ یہ اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی اور ملک میں مغربی تہذیب لانے کی سازش ہے۔ ہماری سفارش ہے کہ پاکستان میں جو بھی مغربی تہذیب کا مخالف ہے اس کا پاسپورٹ فوری طور پر ضبط کیا جائے تاکہ وہ بھولے سے بھی کبھی مغرب پہنچ کر وہاں کی تہذیب کا شکار نہ ہو جائے۔ جنہیں اسلام ہر وقت خطرے میں لگتا ہے ان سے اسلام کو بچایا جائے کیونکہ اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہی ہیں۔
سینیٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں چھوٹی عمر میں حمل کی وجہ سے ہر بیس منٹ میں ایک عورت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر غفور حیدری نے فرمایا کہ اس کی وجہ کم عمری کی شادی یا حمل نہیں بلکہ غیر مناسب صحت کی سہولیات ہیں۔
ہم ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ شیریں رحمٰن کو بتایا جائے کہ بچے کی پیدائش کے دوران فوت ہونے والی عورت کو ہمارا مذہب شہادت کا درجہ دیتا ہے۔ جتنی جلدی ہمیں خاتونِ خانہ کے پیروں تلے جنت لانے کی ہوتی ہے اتنی ہی جلدی اسے جنت میں پہنچانے کی بھی ہوتی ہے۔ ہماری بلا سے 20 فیصد عورتیں زچگی کے دوران مریں یا 50 فیصد، ہمارے اطمینان کے لیے تو یہی کافی ہے کہ جنت میں سب سے زیادہ شہداء پاکستان سے ہی ہوں گے۔
ٹویٹر پر ایک حجاب پوش لڑکی کی بھی ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں وہ کم عمری کی شادی کے حق میں اپنی عقل کے مطابق دلائل دے رہی ہے۔ اس لڑکی کا نام عائشہ ہے اور اس کے ٹویٹر ہینڈل کا نام عاشہ کا ایجنڈا ہے۔ اس کا ’بیسٹی‘ (بہترین دوست) موت کا فرشتہ ہے یعنی کہ بات ماننی ہے تو مانو ورنہ موت کا فرشتہ تمہارے پیچھے پیچھے۔
اپنی اس ویڈیو میں عائشہ کہتی ہیں کہ لڑکا جب بیوی کے اخراجات اٹھانے کے قابِل ہو جائے تو اس کی شادی کر دینی چاہیے اور لڑکی جب بِلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے نکاح میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ لڑکے کی مالی حالت کے متعلق وہ مزید واضح کرتی ہیں کہ اگر ایک لڑکا گرل فرینڈ کا خرچہ اٹھا سکتا ہے تو بیوی کا بھی اٹھا سکتا ہے یعنی ایک عورت کو مرد سے صرف پیسہ چاہیے ہوتا ہے۔ دوسری طرف لڑکی کی بلوغت سے ان کی مراد اس کا حیض کی عمر کو پہنچنا ہے۔ اب اسے حیض نو سال کی عمر میں ہوں یا پندرہ سال کی عمر میں، حیض کی خبر سنتے ہی اس کا رشتہ پکا کرنا اور شوہر کے بستر پر پہنچانا ماں باپ کا فرض ہے۔
عائشہ کی ویڈیو اس قابل نہیں کہ اسے توجہ دی جائے لیکن ان دلائل کا ایک لڑکی کی طرف سے آنا کافی پریشان کن ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو خواتین کے لیے خطرناک ترین ممالک سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں خواتین کو اپنی ہی زندگی پر اختیار نہیں دیا جاتا باقی کیا کہنا۔ عائشہ کم عمر ہے۔ شاید اسے زندگی کا اتنا تجربہ نہیں جتنا وہاڑی کی بسم اللہ کو ہے۔ چلیں اسے بسم اللہ کا قصہ سناتے ہیں۔
پیاری عائشہ، بسم اللہ کی عمر انتیس سال ہے۔ اس کی دونوں ٹانگیں گھٹنوں کے نیچے سے کلہاڑی کے وار کر کے کاٹ دی گئیں ہیں۔ بسم اللہ کی شادی چودہ سال کی عمر میں کر دی گئی تھی۔ چار بیٹیوں کی پیدائش کے بعد بسم اللہ کو سمجھ آیا کہ بچے پیدا کرنا جتنا آسان ہے انہیں پالنا اتنا ہی مشکل۔ شوہر کمانے پر راضی نہیں تھا اور من و سلویٰ ہم نے کسی کے گھر اترتے نہیں دیکھا۔ روز روز کے فاقوں اور شوہر کی مار پیٹ سے تنگ آ کر بسم اللہ نے عدالت میں خلع کا مقدمہ درج کر دیا۔ ایک دن عدالت سے واپس آ رہی تھی، شوہر نے بھائی اور بھابھی کے ساتھ مل کر اسے اغواء کیا۔ ایک ویرانے میں لے جا کر کلہاڑے کے پے درپے وار کر کے اس کی ٹانگیں توڑ ڈالیں۔ اب بسم اللہ دو مقدمے لڑ رہی ہے، ایک خلع کا، دوسرا اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا۔
کم عمری میں بیاہ دی جانے والی بسم اللہ انتیس سال کی عمر میں نہ صرف اپاہج ہو چکی ہے بلکہ زندگی سے بھی مایوس نظر آتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ میں 29 سالہ کیٹی بومن بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے والے الگورتھم بنانے پر دنیا بھر سے واہ واہ سمیٹ رہی ہے۔ کیٹی بومن بھی شادی شدہ ہے لیکن اس کی شادی کا مقصد شوہر کی جنسی ضروریات پوری کرنا اور بچے پیدا کرنا نہیں بلکہ اپنے ساتھی کے ساتھ اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگی بہتر بنانا ہے۔ کیٹی نے شادی اپنی مرضی سے اس وقت کی جب اسے ضرورت محسوس ہوئی۔ ہم پاکستان میں بھی خواتین کے لیے یہی حق چاہتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کریں اور جب چاہیں کریں تاکہ وہ بسم اللہ کی طرح انتیس سال میں ہی زندگی سے مایوس نہ ہو چکی ہوں بلکہ ہر لمحے کو جی رہی ہوں۔
پیاری عائشہ، ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر مہنگے موبائل پر کم عمری کی شادی کے حق میں ویڈیو بنانا بہت آسان ہے، گاؤں دیہاتوں میں جا کر کم عمر میں بیاہی جانے والی عورتوں کی زندگی میں جھانکنا اور ان کی روح تک کو مردہ دیکھنا بہت تکلیف دہ۔ کم عمری کی شادی ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔ دوسروں کو کم عمر میں ایسے مسائل میں دھکیلنا جنہیں وہ ابھی سمجھ بھی نہیں سکتے، اپنے آپ میں ایک بہت بڑا جرم ہے۔ ایسے جرم سے باز رہو۔