جاسم محمد
محفلین
کم عمری کی شادی کے بل پر تحریک انصاف کے وزراء میں ٹھن گئی
بل پیش کرنے کے بعد متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا، فوٹو: فائل
اسلام آباد: کمرعمری کی شادی سے متعلق ترمیمی بل سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جہاں اس معاملے پر تحریک انصاف کے وزراء میں آپس میں ہی ٹھن گئی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن ڈاکٹر رمیش کمار نے کم عمری میں شادی پر پابندی کا ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کیا تو وفاقی وزراء آمنے سامنے آگئے۔
وزیر داخلہ اعجاز شاہ، وزیر مذہبی امور نور الحق قادری اور وزیر پارلیمانی امور علی نے بل کی مخالفت کردی جب کہ وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور اپوزیشن کی بعض جماعتوں کے ارکان نے بل کی مخالفت کی۔
ڈپٹی اسپیکر نے بل پیش کرنے پر ووٹنگ کرائی تو 50 کے مقابلے میں 72 ووٹوں کی حمایت سے ’چائلڈ میرج ترمیمی بل‘ ایوان میں پیش کیا گیا۔
وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے کہا کہ بل کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجا جائے جس کی وزیر پارلیمانی امور علی محمد نے حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل اسلام سے متعلق ہے لیکن بل پیش کرنے کرنے والے اقلیتی ممبر ہیں ہم اسلام کے خلاف کوئی قانون منظور نہیں ہونے دیں گے، بل کی مخالفت کرتا ہوں چاہے وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔
وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون پاس نہیں کرسکتی جو اسلام کے خلاف ہے، 18 سال سے کم عمر کی شادی کی پابندی یو اے ای، ترکی، مصر اور بنگلہ دیش میں بھی ہے کیا وہ خلاف اسلام اقدام ہوا؟ ایسا ہی فتویٰ جامعہ الازہر نے دیا، کیا خلاف اسلام دیا؟ انہوں نے تجویز پیش کی کہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوایا جائے۔
(ن) لیگ کی شائستہ پرویز نے تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوایا جائے جب کہ ایم ایم اے کی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ ہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیں جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔
بعد ازاں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا لیکن افسوس ہوا کہ اپنی ہی جماعت کے ممبران نے مخالفت کی، ہمارے دو وزیروں نے جس طرح کی تقاریر کیں یہ نیا پاکستان نہیں، چند منفی ذہنیت رکھنے والوں کے باعث پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے۔
انہوں نے بل کی حمایت کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن حمایت نہ کرتی تو یہ بل کمیٹی میں نہ بھیجا جاتا، اقلیتی برادری سے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ میں انسانی حقوق پر بات نہیں کرسکتا۔
بل پیش کرنے کے بعد متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا، فوٹو: فائل
اسلام آباد: کمرعمری کی شادی سے متعلق ترمیمی بل سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جہاں اس معاملے پر تحریک انصاف کے وزراء میں آپس میں ہی ٹھن گئی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن ڈاکٹر رمیش کمار نے کم عمری میں شادی پر پابندی کا ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کیا تو وفاقی وزراء آمنے سامنے آگئے۔
وزیر داخلہ اعجاز شاہ، وزیر مذہبی امور نور الحق قادری اور وزیر پارلیمانی امور علی نے بل کی مخالفت کردی جب کہ وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور اپوزیشن کی بعض جماعتوں کے ارکان نے بل کی مخالفت کی۔
ڈپٹی اسپیکر نے بل پیش کرنے پر ووٹنگ کرائی تو 50 کے مقابلے میں 72 ووٹوں کی حمایت سے ’چائلڈ میرج ترمیمی بل‘ ایوان میں پیش کیا گیا۔
وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے کہا کہ بل کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجا جائے جس کی وزیر پارلیمانی امور علی محمد نے حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل اسلام سے متعلق ہے لیکن بل پیش کرنے کرنے والے اقلیتی ممبر ہیں ہم اسلام کے خلاف کوئی قانون منظور نہیں ہونے دیں گے، بل کی مخالفت کرتا ہوں چاہے وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔
وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون پاس نہیں کرسکتی جو اسلام کے خلاف ہے، 18 سال سے کم عمر کی شادی کی پابندی یو اے ای، ترکی، مصر اور بنگلہ دیش میں بھی ہے کیا وہ خلاف اسلام اقدام ہوا؟ ایسا ہی فتویٰ جامعہ الازہر نے دیا، کیا خلاف اسلام دیا؟ انہوں نے تجویز پیش کی کہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوایا جائے۔
(ن) لیگ کی شائستہ پرویز نے تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوایا جائے جب کہ ایم ایم اے کی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ ہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیں جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔
بعد ازاں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا لیکن افسوس ہوا کہ اپنی ہی جماعت کے ممبران نے مخالفت کی، ہمارے دو وزیروں نے جس طرح کی تقاریر کیں یہ نیا پاکستان نہیں، چند منفی ذہنیت رکھنے والوں کے باعث پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے۔
انہوں نے بل کی حمایت کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن حمایت نہ کرتی تو یہ بل کمیٹی میں نہ بھیجا جاتا، اقلیتی برادری سے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ میں انسانی حقوق پر بات نہیں کرسکتا۔