عظیم اللہ قریشی
محفلین
اس بچی کی عمر لگ بھگ پانچ سال هے. میں نے اسے چوک میں پنسلیں بیچتے دیکھا. دس روپے کا ایک بال پوائنٹ. هر گاڑی والا حیران و پریشان هو کر اس بچی کی طرف دیکھتا تھا. اگر کوئی سوال کرتا تو یه فورا سے اگلی گاڑی کی طرف بھاگ کھڑی هوتی.
غور سے دیکھیں آپ کو پس منظر میں بڑی بڑی کرینیں نظر آرهی هوں گی. یهاں سے اگلے چند مهینوں میں عظیم الشان میٹروبس گزرے گی.ایک بهت بڑا فلائی اور بنے گا.اسلام آباد کی اس میٹرو پر چوبیس ارب روپے خرچ هورهے هیں یہ اسلام آباد کا مصروف ترین چوک پشاور موڑ هے.چند مهینوں آپ کو یهاں نظر نهیں آئے گی بلکہ اپنے باپ کی بےغیرتی اور معاشرے کی بے حسی کے باعث کسی اور چوک میں پنسلیں بیچتی دیکھی جائے گی. کیونکه یه چوک تو میٹرو کے نام هو چکا هوگا
اور یہ بھی کسی اور مصروف چوک کی تلاش میں چل نکلے گی جہاں پنسلیں بیچ سکے اور حکمران اخباروں میں اشتہارات سے اسی بھوکی عوام پر احسان جھاڑ رہے ہونگے کہ دیکھو ہم نے تمہیں میٹرو دی ہے
یہ تصویر اور تحریر عام پاکستانیوں کے لئے ہے .. ن لیگ کے ذہنی غلاموں کے لئے نہیں کیوں کہ انکو تو ہر حال میں شیر کے نعرے لگانے ہیں اور ویسے بھی مطمئن بے غیرتوں کا کوئی ضمیر کہاں ہوا کرتا ہے.