درست فرمایا ، اگر مغرب کو ہجرت کرنے والے مسلمان اسلام کی صحیح تصویر بن جاتے تو کسی لیوپولڈ ویز کو علامہ محمد اسد بننے کے لیے مصر اور قاہرہ کا سفر نہ کرنا پڑتا۔
یہ بہتان ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو کسی لیوپولڈ ویز کو خواب میں بشارت نہیں ہوتی کہ وہ مصر کا سفر کرے ۔ یہ یہاں کے مسلمان ہیں ۔ جو اس طرح کے سنگین حالات میں بھی اسلام اور مسجد سے ناطہ نہیں توڑتے ۔ ہماری بہنیں حجاب پہن کر جاب اور پبلک پلیسز پر لوگوں کے طنز اور دیگر غیر اخلاقی حرکتیں برداشت کرتیں ہیں ۔ یہ وہ استقامت ہے جو یہاں کے لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کون سی طاقت ہے ۔ جو ان لوگوں کو ان حالات میں بھی اپنے مذہب سے متنفر ہونے نہیں دیتی ۔ پھر وہ " مغرب کو ہجرت کرنے والے مسلمانوں " کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ اس کے بعد کوئی لیوپولڈ ویز مصر کی طرف سفر کرنے کا اہل ہوتا ہے ۔ صرف اپنےحجرے میں بیٹھ کر اردگرد کے مسلمانوں کو مذید مسلمان کرنا اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہے ۔ بہ نسبت کہ ایک غیر مسلم معاشرے میں نہ صرف اپنے دین کا انسان دفاع کرنا بلکہ اپنے عمل و تلقین سے اپنے مذہب کے لیئےبے انتہا نفرت لیئے لوگوں کے دل میں اسلام کے لیئے محبت پیدا کی جائے ۔ آپ اپنا ویژن وسیع کجیئے ۔ آپ پر واضع ہوگا کہ یہاں مسلمان ان حالات میں بھی کس طرح اسلام کی ترویح و اشاعت کے لیئے کام کر رہے ہیں ۔ اردو محفل پر کئی محفلین نے امریکہ یا مغرب میں تیزی سے پھیلنے والے اسلام کی کئی خبریں یہاں شئیر کیں ہیں ۔
آپ نے جس شخصیت کا حوالہ دیا ہے ۔ ذرا اس کے حالات کا بغور جائزہ لیجیئے ۔ جب وہ علامہ محمد اسد بنا تو مسلم معاشرے نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔ ذرا اس پر بھی روشنی ڈالیئے ۔ پتا نہیں بعد میں اس نے اپنے مصر کی طرف سفر کو کوسا بھی یا نہیں ۔
ذرا اس وڈیو پر بھی نظر ڈالیئے کہ کس طرح اسلام سے متنفر ایک یوتھ کرسچین منسٹر نے ساؤتھ کیرولائنا کی ایک چھوٹی سی مسجد میں اپنے دل میں اسلام کی شمع روشن کی ۔