کنگ سعود یونیورسٹی کے امریکی لیکچرر کا قبول اسلام

درست فرمایا ، اگر مغرب کو ہجرت کرنے والے مسلمان اسلام کی صحیح تصویر بن جاتے تو کسی لیوپولڈ ویز کو علامہ محمد اسد بننے کے لیے مصر اور قاہرہ کا سفر نہ کرنا پڑتا۔
متفق
مغرب ہجرت کرنے والے کمپرومائزنگ مسلمز ہوجاتے ہیں ۔ اکشریت کی کوشش ہوتی ہے کہ نام بھی مخفف میں رکھیں کہ پتہ نہ چلے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو تیس برس پہلے انگلینڈ سے کینیڈا سیٹل ہوئے اس سے پہلے پاکستان میں تھے۔ نام تھا ایم اےجج یعنی محمد قاضی
 

arifkarim

معطل
متفق
مغرب ہجرت کرنے والے کمپرومائزنگ مسلمز ہوجاتے ہیں ۔ اکشریت کی کوشش ہوتی ہے کہ نام بھی مخفف میں رکھیں کہ پتہ نہ چلے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو تیس برس پہلے انگلینڈ سے کینیڈا سیٹل ہوئے اس سے پہلے پاکستان میں تھے۔ نام تھا ایم اےجج یعنی محمد قاضی
مغرب میں ہر شخص کو مکمل مذہبی آزادی ہے۔ انکو بھی جو دیگر ممالک میں اپنے مذہب پر آزادی کیساتھ عمل نہیں کر سکتے۔ یہاں مغرب میں مساجد، گرجا گھر، یہود کی عباد گاہیں،مندر وغیرہ ایک ہی شہر اور ایک ہی محلے میں پائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں نے مغرب میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا ہوا۔ یہاں ہماری مساجد ہیں، مسلم کونسلز ہیں جہاں مسلمانوں کے ایشوز اٹھائے جاتے ہیں اور ہم مغربی جمہوریت کا حصہ ہیں۔ جو لوگ سمجھوتہ کرتے ہیں وہ ڈرپوک مسلمان ہیں۔
 

arifkarim

معطل
بجا فرمایا آپ نے ۔۔۔ ہماری معصومیت کا عالم یہ ہے کہ ہم سب کے اپنے اپنے علماء ہیں ۔ اور عارف کریم کے ہاتھ یہی ایک ہماری دکھتی رگ بھی ہے ۔ جسے وہ گاہے بہ گاہے یہاں وہ چھیڑتا رہتا ہے ۔ :)
مجھے اسلامی علماء پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ صرف ان مُلاؤں پر ہے جو اسلام کی آڑ میں نفرت پھیلاتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
درست فرمایا ، اگر مغرب کو ہجرت کرنے والے مسلمان اسلام کی صحیح تصویر بن جاتے تو کسی لیوپولڈ ویز کو علامہ محمد اسد بننے کے لیے مصر اور قاہرہ کا سفر نہ کرنا پڑتا۔
یہ بہتان ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو کسی لیوپولڈ ویز کو خواب میں بشارت نہیں ہوتی کہ وہ مصر کا سفر کرے ۔ یہ یہاں کے مسلمان ہیں ۔ جو اس طرح کے سنگین حالات میں بھی اسلام اور مسجد سے ناطہ نہیں توڑتے ۔ ہماری بہنیں حجاب پہن کر جاب اور پبلک پلیسز پر لوگوں کے طنز اور دیگر غیر اخلاقی حرکتیں برداشت کرتیں ہیں ۔ یہ وہ استقامت ہے جو یہاں کے لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کون سی طاقت ہے ۔ جو ان لوگوں کو ان حالات میں بھی اپنے مذہب سے متنفر ہونے نہیں دیتی ۔ پھر وہ " مغرب کو ہجرت کرنے والے مسلمانوں " کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ اس کے بعد کوئی لیوپولڈ ویز مصر کی طرف سفر کرنے کا اہل ہوتا ہے ۔ صرف اپنےحجرے میں بیٹھ کر اردگرد کے مسلمانوں کو مذید مسلمان کرنا اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہے ۔ بہ نسبت کہ ایک غیر مسلم معاشرے میں نہ صرف اپنے دین کا انسان دفاع کرنا بلکہ اپنے عمل و تلقین سے اپنے مذہب کے لیئےبے انتہا نفرت لیئے لوگوں کے دل میں اسلام کے لیئے محبت پیدا کی جائے ۔ آپ اپنا ویژن وسیع کجیئے ۔ آپ پر واضع ہوگا کہ یہاں مسلمان ان حالات میں بھی کس طرح اسلام کی ترویح و اشاعت کے لیئے کام کر رہے ہیں ۔ اردو محفل پر کئی محفلین نے امریکہ یا مغرب میں تیزی سے پھیلنے والے اسلام کی کئی خبریں یہاں شئیر کیں ہیں ۔
آپ نے جس شخصیت کا حوالہ دیا ہے ۔ ذرا اس کے حالات کا بغور جائزہ لیجیئے ۔ جب وہ علامہ محمد اسد بنا تو مسلم معاشرے نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔ ذرا اس پر بھی روشنی ڈالیئے ۔ پتا نہیں بعد میں اس نے اپنے مصر کی طرف سفر کو کوسا بھی یا نہیں ۔

ذرا اس وڈیو پر بھی نظر ڈالیئے کہ کس طرح اسلام سے متنفر ایک یوتھ کرسچین منسٹر نے ساؤتھ کیرولائنا کی ایک چھوٹی سی مسجد میں اپنے دل میں اسلام کی شمع روشن کی ۔
 

ظفری

لائبریرین
متفق
مغرب ہجرت کرنے والے کمپرومائزنگ مسلمز ہوجاتے ہیں ۔ اکشریت کی کوشش ہوتی ہے کہ نام بھی مخفف میں رکھیں کہ پتہ نہ چلے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو تیس برس پہلے انگلینڈ سے کینیڈا سیٹل ہوئے اس سے پہلے پاکستان میں تھے۔ نام تھا ایم اےجج یعنی محمد قاضی
ہمت علی پہلے تمہاری باتوں پر غصہ آتا تھا ۔۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ ہنسی آنے لگی ۔۔۔۔ پھر افسوس ہونے لگا ۔۔۔۔ پھر خاموشی کو فوقیت دی ۔ اب تم ہی بتا دو کہ تمہاری بےسروپا باتوں کا کیا جواب دیا جائے ۔ اللہ تمہارے حال ہر رحم کرے ۔ ;)
 
کئی ایک مرتبہ نو مسلمز سے ملنے کا اتفاق ہوا۔
ایک مرتبہ ایک امریکی فوجی سے ملاقات ہوئی جو حال ہی میں مسلمان ہوا تھا۔ وہ ایک بلیک امریکن تھا۔ اپنی بڑی سی پک اپ پر مسجد ایا مگر اندر داخل ہونے میں ڈر رہا تھا۔ میں نے اس کو کہا کہ وضو کرکے مسجد میں نماز پڑھے۔ نماز کے بعد اس سے گب شپ لگی۔ وہ اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوا تھا۔ کہنے لگا کہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا ہے کہ ہمارے گھر میں اب کوئی پورک نہیں کھائے گا۔
کچھ لوگ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں کہ غیر مسلم ملک میں رہتے ہوئے بھی حق پالیتے ہیں۔
 
مغرب میں ہر شخص کو مکمل مذہبی آزادی ہے۔ انکو بھی جو دیگر ممالک میں اپنے مذہب پر آزادی کیساتھ عمل نہیں کر سکتے۔ یہاں مغرب میں مساجد، گرجا گھر، یہود کی عباد گاہیں،مندر وغیرہ ایک ہی شہر اور ایک ہی محلے میں پائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں نے مغرب میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا ہوا۔ یہاں ہماری مساجد ہیں، مسلم کونسلز ہیں جہاں مسلمانوں کے ایشوز اٹھائے جاتے ہیں اور ہم مغربی جمہوریت کا حصہ ہیں۔ جو لوگ سمجھوتہ کرتے ہیں وہ ڈرپوک مسلمان ہیں۔

یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ ہر ایک کو مذہبی ازادی حاصل ہو۔ مگر ایسا ہے نہیں۔ یورپ کے بہت سے ممالک میں حجاب پر پابندی لگ چکی ہے اورمساجد بنانے پر بھی مسائل ہیں۔
بہر حال تیسری دنیا کے لوگ مغربی ممالک میں مزدوری کرتے ہیں اور روزی کماتے ہیں۔
ہر انسان کو اپنی زندگی گزارنے کا حق ہے جیسی مرضی گزارے۔
 

ظفری

لائبریرین
کئی ایک مرتبہ نو مسلمز سے ملنے کا اتفاق ہوا۔
ایک مرتبہ ایک امریکی فوجی سے ملاقات ہوئی جو حال ہی میں مسلمان ہوا تھا۔ وہ ایک بلیک امریکن تھا۔ اپنی بڑی سی پک اپ پر مسجد ایا مگر اندر داخل ہونے میں ڈر رہا تھا۔ میں نے اس کو کہا کہ وضو کرکے مسجد میں نماز پڑھے۔ نماز کے بعد اس سے گب شپ لگی۔ وہ اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوا تھا۔ کہنے لگا کہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا ہے کہ ہمارے گھر میں اب کوئی پورک نہیں کھائے گا۔
کچھ لوگ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں کہ غیر مسلم ملک میں رہتے ہوئے بھی حق پالیتے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح موصوف کا اسٹیٹمنٹ پھر تبدیل ہوگیا ۔۔۔۔۔ :notworthy:
 
مجھے اسلامی علماء پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ صرف ان مُلاؤں پر ہے جو اسلام کی آڑ میں نفرت پھیلاتے ہیں۔

اسلام اور نفرت دو الگ چیزیں۔ اسلام کی اڑ میں کوئی نفرت نہیں پھیلاسکتا
نفرت کسی اور چیز سے پھیلتی ہے۔ فرقہ واریت سے یا قوم پرستی سے، یا لسانیت سے

ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے ایک مغرب سیکولر معاشرے میں رہتے ہوئے اور جہموریت کا حصہ ہوتے ہوئے ، بغیر کمپرومائزنگ کے کوئی شخص اسلام کی روح پر عمل کرے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ قدم قدم پر کمپرومائزنگ کرنی پڑے گی۔ اسی پر چلنا پڑے گا جس کو جہمور درست مانتی ہے۔ سیکولر معاشرے میں لوگوں کا مذہب وہی ہوگا جس کی اکثریت ہے۔ نماز روزہ سے کوئی روکے گا نہیں۔ اگرچہ کبھی کبھا راسپر بھی کمپرومائز کرنا ہی پڑے گا۔ یہی حقیقت ہے۔

اللہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
 
ویسے سعودی میں کافی لوگ مسلمان ہوتے ہیں

مگر پھر بھی یہ تعداد کم ہے۔ میرے خیال میں مزید کام ہونا چاہیے
 
بجا فرمایا آپ نے ۔۔۔ ہماری معصومیت کا عالم یہ ہے کہ ہم سب کے اپنے اپنے علماء ہیں ۔ اور عارف کریم کے ہاتھ یہی ایک ہماری دکھتی رگ بھی ہے ۔ جسے وہ گاہے بہ گاہے یہاں وہ چھیڑتا رہتا ہے ۔ :)
چلیں ہمارے تو صرف اپنے اپنے علما ہیں ، ان کے تو اپنے الگ ’نبی‘ اور موروثی خلفا ہیں ۔ اصطلاحات مسلمانوں کی چرائی ہیں اور اصرار خانہ ساز معنی پر ہے ۔
 
مجھے اسلامی علماء پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ صرف ان مُلاؤں پر ہے جو اسلام کی آڑ میں نفرت پھیلاتے ہیں۔
جی بالکل ، اب یہی دیکھ لیجیے :
مرزا كا خليفہ مرزا بشير الدين بن غلام احمد قاديانى كہتا ہے:
" ہر وہ مسلمان جو مسيح (يعنى اس كا والد غلام احمد قاديانى ) كى بيعت نہ كرے، خواہ وہ ان كے بارے ميں سنے نہ سنے وہ كافر اور دائرہ ء اسلام سے خارج ہے۔"
آئينہ ءصداقت : ص 35

مزيد اپنے باپ مرزا كے حوالے سے كہتا ہے :
" ہم ہر چیز ميں حتى كہ اللہ ، رسول ، قرآن ، نماز، روزہ، حج، اور زكوة كے بارے ميں مسلمانوں سے اختلاف ركھتے ہیں، ان ميں سے ہر چيز كے بارے ميں ہمارے اور مسلمانوں كے درميان جوہرى اختلاف ہے۔
اخبار الفضل ، مجريہ : 30 جولائى 1931ء
 
یہ بہتان ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو کسی لیوپولڈ ویز کو خواب میں بشارت نہیں ہوتی کہ وہ مصر کا سفر کرے ۔ یہ یہاں کے مسلمان ہیں ۔ جو اس طرح کے سنگین حالات میں بھی اسلام اور مسجد سے ناطہ نہیں توڑتے ۔ ہماری بہنیں حجاب پہن کر جاب اور پبلک پلیسز پر لوگوں کے طنز اور دیگر غیر اخلاقی حرکتیں برداشت کرتیں ہیں ۔ یہ وہ استقامت ہے جو یہاں کے لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کون سی طاقت ہے ۔ جو ان لوگوں کو ان حالات میں بھی اپنے مذہب سے متنفر ہونے نہیں دیتی ۔ پھر وہ " مغرب کو ہجرت کرنے والے مسلمانوں " کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ اس کے بعد کوئی لیوپولڈ ویز مصر کی طرف سفر کرنے کا اہل ہوتا ہے ۔ صرف اپنےحجرے میں بیٹھ کر اردگرد کے مسلمانوں کو مذید مسلمان کرنا اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہے ۔ بہ نسبت کہ ایک غیر مسلم معاشرے میں نہ صرف اپنے دین کا انسان دفاع کرنا بلکہ اپنے عمل و تلقین سے اپنے مذہب کے لیئےبے انتہا نفرت لیئے لوگوں کے دل میں اسلام کے لیئے محبت پیدا کی جائے ۔ آپ اپنا ویژن وسیع کجیئے ۔ آپ پر واضع ہوگا کہ یہاں مسلمان ان حالات میں بھی کس طرح اسلام کی ترویح و اشاعت کے لیئے کام کر رہے ہیں ۔ اردو محفل پر کئی محفلین نے امریکہ یا مغرب میں تیزی سے پھیلنے والے اسلام کی کئی خبریں یہاں شئیر کیں ہیں ۔
آپ نے جس شخصیت کا حوالہ دیا ہے ۔ ذرا اس کے حالات کا بغور جائزہ لیجیئے ۔ جب وہ علامہ محمد اسد بنا تو مسلم معاشرے نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔ ذرا اس پر بھی روشنی ڈالیئے ۔ پتا نہیں بعد میں اس نے اپنے مصر کی طرف سفر کو کوسا بھی یا نہیں ۔

ذرا اس وڈیو پر بھی نظر ڈالیئے کہ کس طرح اسلام سے متنفر ایک یوتھ کرسچین منسٹر نے ساؤتھ کیرولائنا کی ایک چھوٹی سی مسجد میں اپنے دل میں اسلام کی شمع روشن کی ۔
آپ کو کچھ زیادہ ہی برا لگ گیا ۔ یہاں مغرب سے آنلائن مسلمان اکثر بلاد اسلامیہ میں بیٹھے مسلمانوں کو خوب کوستے رہتے ہیں، اور ہم خندہ پیشانی سے اپنی کوتاہی کا اعتراف کر لیتے ہیں لیکن تصویر کا یہ دوسرا رخ ان مہاجرین مغرب سے برداشت نہیں ہوا۔ میں نے ہر مغربی مسلم کے متعلق کوئی اصول وضع نہیں کیا تھا ایک عام بات کہی تھی ۔
۔ ہماری بہنیں حجاب پہن کر جاب اور پبلک پلیسز پر لوگوں کے طنز اور دیگر غیر اخلاقی حرکتیں برداشت کرتیں ہیں ۔ یہ وہ استقامت ہے جو یہاں کے لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کون سی طاقت ہے ۔ جو ان لوگوں کو ان حالات میں بھی اپنے مذہب سے متنفر ہونے نہیں دیتی ۔
کاش کہ بہنوں کی بجائے آپ اپنی کوئی مثال دیتے ۔ اور یہ حجاب وجاب، سر ڈھانپنا ، دوپٹہ لینا وغیرہ علامہ جاوید احمد غامدی کے نزدیک غیر ضروری ہے ۔ خوامخواہ اتنی مشقت کرتی ہیں بے چاریاں ۔
صرف اپنےحجرے میں بیٹھ کر اردگرد کے مسلمانوں کو مذید مسلمان کرنا اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہے ۔ بہ نسبت کہ ایک غیر مسلم معاشرے میں نہ صرف اپنے دین کا انسان دفاع کرنا بلکہ اپنے عمل و تلقین سے اپنے مذہب کے لیئےبے انتہا نفرت لیئے لوگوں کے دل میں اسلام کے لیئے محبت پیدا کی جائے ۔ آپ اپنا ویژن وسیع کجیئے ۔ آپ پر واضع ہوگا کہ یہاں مسلمان ان حالات میں بھی کس طرح اسلام کی ترویح و اشاعت کے لیئے کام کر رہے ہیں ۔ اردو محفل پر کئی محفلین نے امریکہ یا مغرب میں تیزی سے پھیلنے والے اسلام کی کئی خبریں یہاں شئیر کیں ہیں ۔
:):) کس حجرے کی بات ہو رہی ہے بھئی ؟
 

ظفری

لائبریرین
آپ کو کچھ زیادہ ہی برا لگ گیا ۔ یہاں مغرب سے آنلائن مسلمان اکثر بلاد اسلامیہ میں بیٹھے مسلمانوں کو خوب کوستے رہتے ہیں، اور ہم خندہ پیشانی سے اپنی کوتاہی کا اعتراف کر لیتے ہیں لیکن تصویر کا یہ دوسرا رخ ان مہاجرین مغرب سے برداشت نہیں ہوا۔ میں نے ہر مغربی مسلم کے متعلق کوئی اصول وضع نہیں کیا تھا ایک عام بات کہی تھی ۔
مجھے برا نہیں لگا ۔ مگر آپ نے چند آنلائن "مسلم"( واللہ علم ) کی وجہ سے اجتماعی طور پر مغرب میں رہنے والے مسلمانوں ( مہاجرین) کی طرف انگلی اٹھائی تھی ۔ اس لیئے مجھے یہ سب کہنا پڑا ۔ اور آپ سے زیادہ مجھے علم ہے کہ یہاں تصویر کا دوسرا رخ کیا ہے ۔ تصویر کے تیسرے ، چوتھے ، پانچوں اور دیگر رخ اگرمیں نے انصاریوں کے دکھا دیئے تو آپ سے برداشت نہ ہوسکے گا ۔

کاش کہ بہنوں کی بجائے آپ اپنی کوئی مثال دیتے ۔ اور یہ حجاب وجاب، سر ڈھانپنا ، دوپٹہ لینا وغیرہ علامہ جاوید احمد غامدی کے نزدیک غیر ضروری ہے ۔ خوامخواہ اتنی مشقت کرتی ہیں بے چاریاں ۔
معاف کجیئے ۔۔۔۔ مجھے آپ کو نہیں اللہ کو جواب دینا ہے ۔ اس لیئے میری مثال کی بات چھوڑیئے ۔ اور آپ نے صحیح ہی کہا بےچاری اتنی مشقت بیکار میں ہی کرتیں ہیں ۔انہیں آپ کا یہ جملہ پڑھ کر یقیناً تقویت پہنچے گی ۔ ( تعصب اور تنگ نظری کی بھی ایک حد ہوتی ہے )
:):) کس حجرے کی بات ہو رہی ہے بھئی ؟
اس کو اتنی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ :)
 
مغرب میں ہر شخص کو مکمل مذہبی آزادی ہے۔ انکو بھی جو دیگر ممالک میں اپنے مذہب پر آزادی کیساتھ عمل نہیں کر سکتے۔ یہاں مغرب میں مساجد، گرجا گھر، یہود کی عباد گاہیں،مندر وغیرہ ایک ہی شہر اور ایک ہی محلے میں پائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں نے مغرب میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا ہوا۔ یہاں ہماری مساجد ہیں، مسلم کونسلز ہیں جہاں مسلمانوں کے ایشوز اٹھائے جاتے ہیں اور ہم مغربی جمہوریت کا حصہ ہیں۔ جو لوگ سمجھوتہ کرتے ہیں وہ ڈرپوک مسلمان ہیں۔
پاکستان میں بھی اسلام کے سوا دوسرا مذہب رکھنے کی آزادی ہے مسئلہ صرف ان قادیانیوں کے ساتھ ہے جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور محمد عربی ﷺ کے ماننے والوں کو کافر کہتے ہیں ۔
پاکستان میں ہر مذہب کے لوگ برملا اپنے مذہب کا اعتراف کرتے ہیں صرف قادیانی اسے چھپاتے ہیں ۔ یہ بات آپ کو اس دھاگے میں کئی ارکان بخوبی سمجھا چکے ہیں لیکن آپ باربار دہرانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔
کافر فیکٹری از محمد حنیف (بی بی سی اردو)
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/کافر-فیکٹری-از-محمد-حنیف-بی-بی-سی-اردو.30103/#post-666172

اطلاعا عرض ہے عیسائی بھی نارمن فرقے کو عیسائی نہیں مانتے اور یہ اسی مغرب میں ہے جس کے آپ گن گاتے ہیں ۔ اس دسکرمینیشن پر کبھی آواز بلند کریں ؟
 

arifkarim

معطل
پاکستان میں بھی اسلام کے سوا دوسرا مذہب رکھنے کی آزادی ہے مسئلہ صرف ان قادیانیوں کے ساتھ ہے جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور محمد عربی ﷺ کے ماننے والوں کو کافر کہتے ہیں ۔
پاکستان میں ہر مذہب کے لوگ برملا اپنے مذہب کا اعتراف کرتے ہیں صرف قادیانی اسے چھپاتے ہیں ۔ یہ بات آپ کو اس دھاگے میں کئی ارکان بخوبی سمجھا چکے ہیں لیکن آپ باربار دہرانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔
آپ ہر دھاگے میں بات گھما پھرا کر قادیانی مذہب پر لے جاتی ہیں۔ یہاں مغرب میں قادیانیوں کی عبادت گاہیں بھی موجود ہیں۔ وہ یہاں پر مسلمان کمیونیٹی کی حیثیت سے رجسٹر ہوتے ہیں نہ کہ مولویان پاکستان کے فتاویٰ کے مطابق غیر مسلم۔ مغربی یورپ کی سب سے بڑی عبادت گاہ بھی انہی قادیانیوں کی ہے اور یہ وہاں ایک اسلامی عبادت گاہ کے طور پر مانی جاتی ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Baitul_Futuh

اور جہاں تک قادیانی مسئلہ کی بات ہے تو یہ مسئلہ دیگر ممالک بشمول بھارت میں کیوں نہیں ہے؟ صرف اسلامی ممالک ہی میں کیوں یہ مسئلہ درپیش ہو تا ہے؟

اطلاعا عرض ہے عیسائی بھی نارمن فرقے کو عیسائی نہیں مانتے اور یہ اسی مغرب میں ہے جس کے آپ گن گاتے ہیں ۔ اس دسکرمینیشن پر کبھی آواز بلند کریں ؟
اگر کوئی عیسائی فرقہ کسی دوسرے فرقہ کو عیسائی نہیں مانتا تو کیا ریاست کو یہ خدائی حق حاصل ہے کہ وہ مختلف فرقوں کے درمیان جج کا رول ادا کر تے ہوئے ایک فرقے کو دائرہ عیسائیت سے خارج کر دے؟ یہاں مغرب میں جر فرقہ اپنے آپکو عیسائی کہتا ہے وہ عیسائی ہی رجسٹرڈ ہوتا ہے۔ یہاں پاکستان جیسی صورت حال نہیں ہے کہ قادیانی اپنے آپکو مسلمان کہیں لیکن مُلا کے فتوے پر غیر مسلم رجسٹر ہو جائیں!
 

arifkarim

معطل
ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے ایک مغرب سیکولر معاشرے میں رہتے ہوئے اور جہموریت کا حصہ ہوتے ہوئے ، بغیر کمپرومائزنگ کے کوئی شخص اسلام کی روح پر عمل کرے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ قدم قدم پر کمپرومائزنگ کرنی پڑے گی۔ اسی پر چلنا پڑے گا جس کو جہمور درست مانتی ہے۔ سیکولر معاشرے میں لوگوں کا مذہب وہی ہوگا جس کی اکثریت ہے۔ نماز روزہ سے کوئی روکے گا نہیں۔ اگرچہ کبھی کبھا راسپر بھی کمپرومائز کرنا ہی پڑے گا۔ یہی حقیقت ہے۔
یعنی بقول آپکے حقیقی اسلامی معاشرہ وہیں قائم ہو سکتا ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو؟ اگر یہ سچ ہوتا تو آج دنیا کے 57 اسلامی ممالک جنت کی تصویر بن چکے ہوتے۔ حقیقت اسکے بر عکس ہے!
 

arifkarim

معطل
یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ ہر ایک کو مذہبی ازادی حاصل ہو۔ مگر ایسا ہے نہیں۔ یورپ کے بہت سے ممالک میں حجاب پر پابندی لگ چکی ہے اورمساجد بنانے پر بھی مسائل ہیں۔
بہر حال تیسری دنیا کے لوگ مغربی ممالک میں مزدوری کرتے ہیں اور روزی کماتے ہیں۔
ہر انسان کو اپنی زندگی گزارنے کا حق ہے جیسی مرضی گزارے۔
بہت سارے نہیں صرف فرانس میں پبلک میں مکمل چہرے کا پردہ کرنے پر پابندی لگی ہے۔ جبکہ صرف سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے منارے بنانے کی اجازت نہیں کیونکہ یہ اسلامی نہیں بلکہ ترکی و فارسی کلچر ہے۔
 
Top