پہلی بات یہ کہ دہشت گردوں کے پاس مقاصد ہیں لیکن کوئی پابندی نہیں کہ ان پر کیسے عمل کرنا ہے۔ نہ ان کے طریقہ کار اور نہ ہی ان کے فنڈز کا کوئی مسئلہ ہے۔ ان کے خلاف لڑنے والوں یعنی ہمارے پاس نہ صرف مقاصد ہیں بلکہ اعلٰی اخلاقی اقدار بھی۔ آپ کوشش کرتے ہیں کہ ہر غیر ملکی جب ویزہ لینے آئے تو اس کی چھان پھٹک ہو۔ دوسری طرف آپ کے سفیر آپ کو بتائے بغیر سینکڑوں ویزے روز کے جاری کر رہے ہیں۔ بغیر کسی تصدیق کے۔ انہیں سیف ہاؤس حکومتی اشارے پر دیئے جا رہے ہیں۔ انہیں کھل کھیلنے کی چھٹی بھی دی جا رہی ہے۔ آپ انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو حکومتی وزیر اور مشیر آپ کو روک دیتے ہیں۔ ابھی حکومت کو اپنے پاجامے سنبھالنے پڑ رہے ہیں نا اس لئے ہمارے شیروں کو کام کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ اس لئے صفائی ہوگی اور بے رحمانہ ہوگی۔ گھیرا تنگ کرنے کا عمل دو سال قبل شروع ہوا تھا۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ اگر ہمیں اپنے ملک میں اپنے دشمنوں کے خلاف گھیرا تنگ کرتے دو سال کا عرصہ لگا ہے تو وہ نیٹ ورکس کتنے پھیلے ہوں گے اور ان کے سدباب کے منصوبے بنانے میں کتنا وقت لگا ہوگا
پاکستان میں قوانین ہی نہیں تھے کہ اگر دہشت گرد پکڑا جائے تو اس کے خلاف ای میل، فون کال اور کچھ دوسرا ثبوت قانونی مانا جائے۔ ہمارے اپنے چیف جسٹس صاحب کے ہاتھوں ان لوگوں کی اکثریت چھوٹی ہے جن کے خلاف ثبوت کو قانونی حیثیت نہیں دی گئی۔ اب موجودہ حکومت کے سر پر ڈنڈا رکھ کر ان قوانین کو منظور کرایا گیا ہے تاکہ ان ثبوتوں کی قانونی حیثیت ہو۔ اب "ماورائے عدالت" کوئی کام نہیں ہوگا کیونکہ چیف جسٹس جو عدل کے نام پر بہت بڑا دھبہ ہیں، سے جان چھوٹنے والی ہے۔ ان کے دم چھلے بھی انہی کے ساتھ تشریف لے جائیں گے۔ انصاف اب ہوتا دکھائی دے گا
ملک سے باہر ان کے حمایتی بے شمار ہیں۔ ہر وہ ملک اور ہر وہ ادارہ جس کے کاروباری مفادات کو پاکستان کی خودمختاری سے نقصان پہنچا ہے، وہ اس میں ملوث ہے۔ جرمن صدر کے استعفٰی کے پیچھے یہی ڈرامہ تھا جس کے دفاع میں بولنے کی پاداش میں انہیں صدارتی عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے
بے شک یہ جنگ پاکستان کی بقاء کی جنگ ہے اور یاد رکھیئے گا کہ عنقریب دنیا پاکستان کے فیصلے نہیں بلکہ پاکستان اپنے مفاد کے مطابق ان ممالک کے فیصلے کرے گا، ایک حد کے اندر رہتے ہوئے
ہو سکتا ہے کہ آپ کو میری باتوں سے الجھن ہو یا بری لگیں یا اس سے متفق نہ ہوں تو فکر نہ کیجئے گا۔ یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے۔ اس کے پس پردہ حقائق جو ہیں وہ میں جانتا ہوں، لیکن سامنے نہیں لا سکتا۔ تاہم کچھ عرصے بعد آپ یہ سب کچھ ہوتا دیکھیں تو میرے تجزیئے کو یاد کر لیجئے گا۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو عین ممکن ہے کہ میرے اندازے غلط ثابت ہوں۔ میں فیصلہ ساز تو نہیں، محض جو دیکھتا ہوں اس کے مطابق بات کر دیتا ہوں۔ البتہ یہ دعا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے