کوئی اچھا سا جملہ یا اقتباس - ایک تجویز

اکمل زیدی

محفلین
یہاں کے محفلین کس اعلیٰ ذوق اور میعار کے ہیں ( بلا شبہ ..اس میں کوئی دو رائے نہیں )..جاننے والے جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے وہ جان جاتے ہیں ... یہ ذوق اور معیار یقیناً . . ان کے مطالعہ کا بھی آینہ دار ہوتا ہے اسی مناسبت سے تجویز یہ تھی کے اگر آپ کچھ پڑھ رہے ہوں یا پڑھ چکے ہوں تو اس میں کوئی جملہ یا کوئی اقتباس جو آپ کو بہت اچھا لگا ہو ذہن میں رہ گیا ہو . . یہاں محفل میں شئر کریں ...ایک تحریک بھی ملے گی مذکورہ جملے یا اقتباس کے حامل مصنف کو پڑھنے کی اور ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوگا ....

آپ کے response کا منتظر . . .
 
آخری تدوین:

اکمل زیدی

محفلین
اصل میں مجھے تو آج کل کتب پڑھنے کا موقع نہیں مل رہا، کہ کوئی اقتباس پیش کر سکوں۔
اچھا سلسلہ ہے۔ :)
تابش بھائی صرف اقتباس ہی نہیں کوئی جملہ بھی کبھی پورا اقتباس بن جاتا ہے ..رہا سلسہ تو وہ ابھی چلا ہی کہاں . .. خیر آپ کی آمد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک جملہ آپ سے شئیر کرتا ہوں.

اگر خود کو سنوارنا ہے تو انسان "میں " کو سنوارے ...

ریفرنس یاد نہیں آرہا ...معذرت
 

نایاب

لائبریرین
اچھا سلسلہ ہے ۔۔۔۔۔۔
صاف گو ہونے اور منہ پھٹ ہونے میں بڑ افرق ہوتا ھے
یہ بات
ہم کسی ان پڑھ کو تو سمجھا سکتے ھیں
مگر
کسی پڑھے لکھے جاہل کو نہیں

بشکریہ فیس بک
 

یوسف سلطان

محفلین
بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ہے اکمل بھائی آپ نے ،میں بھی کئی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ ایک سلسلہ "کھٹے میٹھے مختصر اقتباسات "کے نام سے شروع کروں،مگر نہیں کر سکا- میں "فیس بک" پراکثر اقتباس پڑھتا رہتا ہوں،جواچھا لگا یہاں ارسال کردیا کروں گا-

آج کے انسان نے دفاعِ غم کے لئے ان گنت خوشیاں بنا لی ہیں ۔ جس طرح وہ صحت کے لئے ادویات ایجاد کرتا چلا جاتا ہے۔ ایسے ہی وہ غم سے نپٹنے کے لئے میڈیا،بازار،ہوٹل،سفر کواستعمال کررہا ہے۔ خوشیوں کابازارپھیلا ہے،وہ ان میں اپنے مطلب کی خوشی تلاش کرتا رہتا ہے لیکن پھر بھی خوشی دیر پا نہیں ہوتی ۔۔اسے رنگ برنگی ایلوپیتھک گولیوں کی طرح بار بار استعمال کرنا پڑتا ہے ۔ آنسوؤں کا رنگ کھبی تبدیل نہیں ہوتا۔ حادثہ،واقعہ،حالات بدل جائیں لیکن اندرعموماََبرسات یک رنگ ہوتی ہے ۔
(بانو قدسیہ)
 
حسن بھائی بڑی مشکل بات کردی آپ نے . . .اس کی application بہت مشکل ہے . ..
یہاں ساری عمر لوگوں کو راضی کرنے اور رکھنے میں کھپا دی جاتی ہے۔۔۔۔ بندہ تو مخلوق ہے اس نے آپ کو کیا دیا|عطا کیا ہے جو وہ راضی ہو۔ راضی تو وہ ہو جس نے عطا کیا اور اس کی عطا پر اس کا شکر بجا لایا جائے اور اس کا اظہار عملا اس کے احکام کی پیروی کر کے کیا جا سکتا ہے۔ رب کی رضا اس کی مخلوق کی بلا امتیاز خدمت میں ہے۔ ہاں انسان کو اس نے خود شرف دیا ہے تو اس اعتبار سے انسان کو فوقیت دی جا سکتی ہے۔ لہذا مخلوق کو راضی کرنے کی بجائے، رضائے مولا کے لیے مخلوق کی خدمت کر کے اسے خوشی دی جائے۔۔۔۔۔۔

جہاں تک اس بات کے مشکل ہونے کا تعلق ہے۔ تو جب کبھی میں یہ جملہ بول دوں تو قبلہ والد محترم ارشاد فرماتے ہیں۔ بیٹا کس نے کہا مشکل ہے۔ اس پر وہ یہ واقعہ اکثر سنایا کرتے ہیں۔۔۔

"حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا آپ نے یہ مقام کیسے حاصل کیا، آپ فرماتے ہیں ایک دن میری والدہ نے رات کو پانی مانگا میں نے دیکھا تو گھڑا خالی تھا۔ سردی کی یخ بستہ رات تھی، لیکن میں پانی لینے نہر پہ چلا گیا واپس آیا تو والدہ سو چکی تھیں۔ میں پیالہ ہاتھ میں تھامے وہیں کھڑا رہا کہ ناجانے کب ان کی دوبارہ آنکھ کھلے اور پانی مانگیں اور میں سو نہ جاؤں۔ آپکی والدہ کی جب آنکھ کھلی اور یہ ماجرا بیٹے سے سنا تو دعا کی یا باری تعالی میں اس سے راضی ہو تو بھی اس سے راضی ہوجا۔۔۔۔۔"
قبلہ والد محترم میری والدہ کی طرف اشارہ فرما کے کہتے ہیں جاؤ لے لو اپنی ولایت وہ سامنے کھڑی ہے۔۔۔۔۔
اب بتائيں کتنی مشکل ہے۔۔۔؟؟
 
کیسی انوکھی بات ہے انسان سیدھا سچا رہنا چاہتا ہے، دنیا اور اہلِ دنیا کے ساتھ مصالحت اور محبت کی زندگی گزارنے کا خواہشمند ہوتا ہے. لیکن بعض اوقات یہ دنیا والے اس کے پاس کچھ نہیں رہنے دیتے اس کا خلوص، اس کی محبت، اس کی سادگی، سچائی سب چھین لیتے ہیں.


(طالوت)
 

جاسمن

لائبریرین
نور! میرا خیال ہے کہ انگریزی کے سیکشن میں اقتباسات کا زمرہ بھی ہے شاید۔ یہ اگر وہاں ارسال کریں تو زیادہ اچھا لگے گا۔:)(دوستانہ)
 

نور وجدان

لائبریرین
لفظ کتنے مہنگے ھوتے ہیں لیکن بے حسوں کے بازار میں کتنے سستے۔ ۔ ۔ ۔ ! لفظوں کے بیوپاری اپنی گھٹیا سوچوں کا سودا لفظوں کے ہیر پھیر سے کرتے ہیں ، خوبصورت جذبوں کو بے مول کرنے والے لفظوں کے کھلاڑی، شائد جانتے نہیں کہ لفظ ہی چہروں کو مسکراہٹ بخشتے ہیں ، لفظ ہی چھین لیتے ہیں ۔۔ ۔ ۔ لفظوں کی ردا کسی کو تحفظ دیتی ہے تو لفظ ہی بے آبرو کر دیتے ہیں ، ۔ ۔ ۔ لفظ مصری کی ڈلی بھی ہوتے ہیں اور زہر کی پڑیا بھی ۔ ۔ ۔کسی کو سر تا پیر بدل بھی سکتے ہیں اور کسی کو جیتے جی مار بھی ڈالتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

لفظوں کے جال میں مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ ۔ ۔لفظوں کے سکے پھینک کے تماشا دیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔لفظوں کی آگ سے دھواں اٹھتا دیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔لفظوں کے خنجر سے سینہ چھلنی کر دیتے ہیں۔ ۔ ۔لفظوں کی ماچس سے گھر پھونک دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ لفظوں کے نشے سے مدہوشی طاری کر دیتے ہیں ۔ ۔ ۔لفظوں کے کھلاڑی لفظوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

سوچنے کی بات ہے کہ صرف منافع ہی نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ خسارہ بھی ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ عمریں بیت جاتی ہیں تاوان
بھرتے بھرتے ۔ ۔ ۔ ! بمع سود لوٹانا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ !!! ۔

فرح ظفر​
 
Top