حسن بھائی بڑی مشکل بات کردی آپ نے . . .اس کی application بہت مشکل ہے . ..
یہاں ساری عمر لوگوں کو راضی کرنے اور رکھنے میں کھپا دی جاتی ہے۔۔۔۔ بندہ تو مخلوق ہے اس نے آپ کو کیا دیا|عطا کیا ہے جو وہ راضی ہو۔ راضی تو وہ ہو جس نے عطا کیا اور اس کی عطا پر اس کا شکر بجا لایا جائے اور اس کا اظہار عملا اس کے احکام کی پیروی کر کے کیا جا سکتا ہے۔ رب کی رضا اس کی مخلوق کی بلا امتیاز خدمت میں ہے۔ ہاں انسان کو اس نے خود شرف دیا ہے تو اس اعتبار سے انسان کو فوقیت دی جا سکتی ہے۔ لہذا مخلوق کو راضی کرنے کی بجائے، رضائے مولا کے لیے مخلوق کی خدمت کر کے اسے خوشی دی جائے۔۔۔۔۔۔
جہاں تک اس بات کے مشکل ہونے کا تعلق ہے۔ تو جب کبھی میں یہ جملہ بول دوں تو قبلہ والد محترم ارشاد فرماتے ہیں۔ بیٹا کس نے کہا مشکل ہے۔ اس پر وہ یہ واقعہ اکثر سنایا کرتے ہیں۔۔۔
"حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا آپ نے یہ مقام کیسے حاصل کیا، آپ فرماتے ہیں ایک دن میری والدہ نے رات کو پانی مانگا میں نے دیکھا تو گھڑا خالی تھا۔ سردی کی یخ بستہ رات تھی، لیکن میں پانی لینے نہر پہ چلا گیا واپس آیا تو والدہ سو چکی تھیں۔ میں پیالہ ہاتھ میں تھامے وہیں کھڑا رہا کہ ناجانے کب ان کی دوبارہ آنکھ کھلے اور پانی مانگیں اور میں سو نہ جاؤں۔ آپکی والدہ کی جب آنکھ کھلی اور یہ ماجرا بیٹے سے سنا تو دعا کی یا باری تعالی میں اس سے راضی ہو تو بھی اس سے راضی ہوجا۔۔۔۔۔"
قبلہ والد محترم میری والدہ کی طرف اشارہ فرما کے کہتے ہیں جاؤ لے لو اپنی ولایت وہ سامنے کھڑی ہے۔۔۔۔۔
اب بتائيں کتنی مشکل ہے۔۔۔؟؟