عائشہ عزیز
لائبریرین
آرام کرنے کے بعد جیسے ہی ہم پنڈال میں دوبارہ داخل ہوئے۔۔ ہمیں ایک جگہ فورا حاضر ہونے کے لیے کہا گیا، پہنچے پر دیکھا کہ ہمارا پورا نام بڑے بڑے سرخ حروف میں لکھا ہوا ہے۔۔ پہلے تو ہم ڈر گئے لیکن پھر بہت سے دوسرے لوگوں کے نام بھی اپنے نام کے ساتھ لکھے دیکھے تو کچھ حوصلہ ہوا کہ ہم اکیلے مجرم نہیں ہیں۔۔ ابھی ہم قطار میں لگے کھڑے کہ دیکھئے کیا سزا ملتی ہے اتنے میں وہ سب لوگ جن کا نام سرخ اور زرد رنگوں میں لکھا گیا ہے وہ لکھنے والے کے لیے محبت کا اظہار کر نے لگے۔۔۔۔ ہم بہت حیران ہوئے لیکن کچھ ہی دیر میں یہ عقدہ کھل گیا اور ہم اپنی آنکھوں میں آئی نمی پر قابو نہ پا سکے۔ جی ہاں۔۔ یہ ہمارے پیارے بھیا ابن سعید ہی تھے جو اپنے سب مقتدین کے نام اپنے ہاتھ سے لکھ کر ان کو تحفہ پیش کر رہے تھے۔ اور یہی نہیں اس کے ساتھ ہی وہ ایک نئے خط کے موجد بھی بن گئے ہیں۔۔ خط قبیح کی تفصیل آپ ان ہی کی زبانی سنیے۔
ابھی تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ محفلین کے اوتار تبدیل ہونا شروع ہوگئے اور سرخ رنگ میں لکھے نام لوگوں نے اپنی پروفائل پر سجا کر سعود بھیا کی محبت کا جواب دیا۔۔ جس پر ہم نے چپکے سے ان اوتاروں کی تصاویر لے ڈالیں اور بغیر کچھ کہے ان کی انوکھی اوتار نگری بنا ڈالی۔۔ اور سب سے دلچسپ قصہ تو ہم آپ کو سنانا ہی بھول گئے ہمارے بڑے بھیا ( محمداحمد) جو شاید مقتدین میں شامل نہیں تھے، اپنا نام نہ پاکر بالکل بھی مایوس نہیں ہوئے اور انہوں نے اپنا اوتار دو الگ ناموں کی مدد سے خود تیار کر لیا جس کو سبھی نے سراہا اور ہمیں تو بے حد پسند آیا۔
ابھی تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ محفلین کے اوتار تبدیل ہونا شروع ہوگئے اور سرخ رنگ میں لکھے نام لوگوں نے اپنی پروفائل پر سجا کر سعود بھیا کی محبت کا جواب دیا۔۔ جس پر ہم نے چپکے سے ان اوتاروں کی تصاویر لے ڈالیں اور بغیر کچھ کہے ان کی انوکھی اوتار نگری بنا ڈالی۔۔ اور سب سے دلچسپ قصہ تو ہم آپ کو سنانا ہی بھول گئے ہمارے بڑے بھیا ( محمداحمد) جو شاید مقتدین میں شامل نہیں تھے، اپنا نام نہ پاکر بالکل بھی مایوس نہیں ہوئے اور انہوں نے اپنا اوتار دو الگ ناموں کی مدد سے خود تیار کر لیا جس کو سبھی نے سراہا اور ہمیں تو بے حد پسند آیا۔