مولانا زاھد الراشدی سے گفتگو !
ابوعمارمولانازاہدالراشدی
س: آپ مذاکراتی ٹیم کاحصہ رہے ہیں۔ یہ بتائیں کہ مذاکرات کیوں ناکام ہوئے؟
ج: مذاکرات کاسلسلہ اس وقت شروع ہوا جب جامعہ حفصہ کی طالبات نے چلڈرن لائبریری پرقبضہ کرلیا۔ لائبریری کاقبضہ چھوڑنے کے لئے طالبات نے جو مطالبات پیش کئے‘ سب ان سے آگاہ ہیں۔اس لئے میں ان کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ معاملہ چونکہ دینی مدرسہ کاتھا۔ اس لئے وفاق المدارس العربیہ کی ہائی کمان سے رجوع کیاگیا کہ وہ اس قضیہ کو نمٹانے کے لئے اپناکردارادا کرے۔ چنانچہ وفاق المدارس کے سربراہ مولانا سلیم اللہ خان‘ مولانا مفتی تقی عثمانی‘ مولاناڈاکٹر عبدالرزاق سکندر‘ مولاناحسن جان‘ مولانا قاری حنیف جالندھری اور دیگر سرکردہ علماءاسلام آباد تشریف لائے اور حکومت کے ذمہ دار حضرات سے ملاقات کرکے گرائی جانے والی مساجد کی فوری تعمیر کا مطالبہ کیا۔اس کے ساتھ مولاناعبدالعزیز اور مولاناعبدالرشید غازی سے بھی کہا کہ سرکاری عمارت پرقبضہ کرنے‘ قانون کو ہاتھ میں لینے اورحکومت کے ساتھ تصادم پیدا کرنے کی پالیسی سے وفاق المدارس کی قیادت کواتفاق نہیں ہے اور ملک بھرکے اکابر علماءکرام اس طریق کار کوغلط سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ لائبریری کا قبضہ چھوڑدیں اور اپنے مطالبات کے لئے قانونی طریق کار اختیار کریں مگردونوں بھائیوں نے یہ بات قبول نہ کی اور اپنے طریق کارپربرقراررہنے کااعلان کیا۔ جس پروفاق کی ہائی کمان نے وفاق المدارس العربیہ کے ساتھ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کاالحاق ختم کرنے کااعلان کردیا۔ اس کے چند روز بعد وفاق کی مجلس عاملہ نے ایک باضابطہ اجلاس میں اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ جامعہ حفصہ اورلال مسجد انتظامیہ کے مطالبات درست مگر طریق کارغلط ہے اس لئے اب دونوں اداروں کا وفاق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کے بعد تنازع میں شدت پیداہوئی‘سکیورٹی فورسز نے جامعہ حفصہ اور لال مسجد کوگھیرے میں لے لیا ۔ دونوں طرف سے فائرنگ اور مسلح تصادم کے واقعات میں اضافہ ہوا تو مزید خونریزی کوروکنے کے لئے وفاق المدارس کے سربراہ مولانا سلیم اللہ خان نے پیش رفت کافیصلہ کیا۔ چنانچہ مولانا سلیم اللہ خان‘مولانامحمدرفیع عثمانی‘ ڈاکٹرعبدالرزاق سکندر‘ مولانا ڈاکٹرمحمدعادل‘مولاناحنیف جالندھری اسلام آباد پہنچے۔ مولانا سلیم اللہ خان نے مجھے اسلام آباد پہنچنے کاحکم دیا۔اسلام آباد پہنچنے کاہمارابنیادی مقصد مذاکرات کے سلسلہ کوبحال کرنا تھا۔ ہم نے سب سے پہلے چودھری شجاعت حسین سے رابطہ کیا۔ ان کی رہائش گاہ پرپہنچے تووہاں وفاقی وزراء‘انجینئرامیرمقام‘ نصیر خان اوردیگربھی موجودتھے۔ ہمارے وفد کے متکلم مولانا مفتی رفیع عثمانی تھے۔انہوں نے وفاق المدارس سے وابستہ ہزاروں مدارس کی ترجمانی کرتے ہوئے چودھری شجاعت حسین کوبتایا کہ اس سے پہلے مولاناعبدالعزیز اورمولانا عبدالرشید ایک غلط طریق کارپر بے جااڑے ہوئے تھے اورحکومت نے صبروتحمل کاراستہ اختیارکرکے بہتر طرز عمل کا مظاہرہ کیالیکن اب حکومت نے طاقت استعمال کرکے اورمذاکرات کا راستہ بند کرکے جو رویہ اختیارکیا ہے‘ ہمارے نزدیک وہ بھی غلط ہے۔ لہٰذا آپریشن بند ‘ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے ‘ مسجد سے لاشیں اٹھانے‘ زخمیوں کوہسپتالوں میں منتقل کرنے‘مسجد ومدرسہ میں موجود طلباء وطالبات کوخوراک فراہم کرنے اور پانی کا کنکشن بحال کرنے کا اعلان کیاجائے۔ ہم نے چودھری شجاعت حسین کو بتایا کہ عبدالرشیدغازی چندشرائط پرہتھیارڈالنے کے لئے تیار ہیں اور وہ یہ ہیں:
٭.... مولاناعبدالرشیدغازی کوان کے خاندان اور ذاتی سامان سمیت ان کے آبائی گاؤں (روجھان‘ڈیرہ غازیخان) میں منتقل کردیاجائے اور ان کو گرفتار یا نظربند نہ کیا جائے۔
٭.... جامعہ حفصہ اورلال مسجدمیں مقیم طلباءوطالبات اور دیگر افرادمیں سے کسی کولال مسجد اورجامعہ حفصہ کے تنازعہ کے حوالے سے گرفتارنہ کیاجائے۔ البتہ ان میں سے کوئی فرد لال مسجد کے تنازع سے پہلے کے کسی کیس میں مطلوب ہے تواس کی گرفتاری پرکوئی اعتراض نہیں۔
٭.... وہ (عبدالرشید غازی) لال مسجد‘جامعہ فریدیہ اور جامعہ حفصہ تینوں سے دست بردارہونے کے لئے تیارہیں بشرطیکہ دونوں جامعات کاانتظام وفاق کے مشورے سے کیاجائے۔
واضح رہے کہ چودھری شجاعت حسین سے ہماری یہ ملاقات 8 جولائی کوہوئی ۔حکومت اس سے پہلے لال مسجد میں موجود افراد کے لئے عام معافی کااعلان کرچکی تھی۔ اس لئے ہم نے چودھری شجاعت حسین سے کہا کہ حکومت اگرعام معافی کے اعلان میں مخلص ہے توپھرمولاناعبدالرشید غازی کی شرائط کوعملی شکل کے طورپرقبول کرلے۔ مولانا قاری حنیف جالندھری نے اس بات کاحوالہ دیا کہ جنرل ضیاءالحق مرحوم کے دورمیں کابل ائیرپورٹ پرکھڑے پی آئی اے کے اغوا شدہ جہاز میں موجود 125مسافروں کی جانیں بچانے کے لئے پاکستان کی مختلف جیلوں سے تین سو کے لگ بھگ مجرموں کورہاکردیاگیاتھا۔
چودھری شجاعت حسین سے یہ گفتگوکرکے ہم اپنی قیام گاہ پرواپس آگئے اور ان سے یہ بھی عرض کی کہ ہم جواب کے منتظرہیں۔ مغرب کے بعد وفاقی وزیر مذہبی اموراعجازالحق ہماری قیام گاہ پر پہنچے توانہوں نے بتایا کہ چودھری شجاعت حسین سے ہماری ملاقات کی تفصیل شوکت عزیزاور پرویزمشرف تک پہنچ چکی ہے۔ 9جولائی کوڈھائی بجے وزیراعظم شوکت عزیز سے ہماری ملاقات ہوئی جس میں ہماری طرف سے مجھ سمیت 9علماء تھے اور وزیراعظم کے ہمراہ چودھری شجاعت حسین‘ اعجاز الحق‘ محمدعلی درانی‘طارق عظیم اور دیگر افرادتھے۔ خوشی کی بات یہ ہوئی کہ جن نکات پر چودھری شجاعت حسین کے ساتھ اتفاق ہوچکا تھا ‘ تھوڑی بہت وضاحت کے ساتھ وزیراعظم نے بھی ان نکات پراتفاق کرلیا۔
اس کے بعد علماء نے لال مسجد میں جانے کی بات کی۔ پہلے تووزیراعظم نے یہ کہہ کراجازت دینے سے انکار کردیا کہ ہم کوئی رسک نہیں لے سکتے مگربعد میں اجازت دے دی گئی۔ اس دوران فون پرغازی عبدالرشید سے ہمارا رابطہ بھی ہوگیا انہوں نے کہاکہ وہ ”لال مسجد میں چودھری شجاعت حسین اور علماءکاخیرمقدم کریں گے۔“ اس سارے پروگرام کی تفصیلات بھی طے ہوگئیں کہ ہم کون سے راستے سے جائیں گے۔ گاڑیاں کہاں کھڑی ہوں گی اور ہم کس دروازے سے اندرداخل ہوں گے۔ جب علماءکا وفد چودھری شجاعت حسین‘ اعجاز الحق‘ طارق عظیم‘ محمدعلی درانی اور عبدالستار ایدھی کی معیت میں پونے چھ بجے وہاں پہنچا تو وہاں پرموجود فورسز نے ہمیں لال مسجد میں جانے سے روک دیا اورکہا کہ آپ حضرات میں سے کسی کواندر جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
ٹاکنگ پوائنٹ پرگاڑی کے اندرلاؤڈ سپیکر نصب تھا‘ وہاں پرموجود فوجی حکام نے کہا کہ ہم لاؤڈ سپیکرپرلال مسجد کے اندر موجود افراد کوہتھیار ڈالنے کا کہیں ۔ ظاہر بات ہے ہم اس کام کے لئے نہیں بلکہ مذاکرات اور افہام وتفہیم کی فضا پیدا کرنے کے لئے گئے تھے۔اس لئے ہم نے انکارکردیا۔ ہمارا موقف تھا کہ اگر ہمیں اندرجانے کی اجازت ہے توہم براہ راست مسجد میں جاکر مولانا عبدالرشیدغازی سے بات چیت کریں گے اگر ایسا نہیں تو پھرفون پرہی رابطہ کافی ہے۔ اس دوران قریب ہی ایک خالی مکان میں ہمارے بیٹھنے کاانتظام کیا گیا اور ہم چودھری شجاعت حسین کے ساتھ اس مفاہمت کی تفصیلات طے کرنے بیٹھ گئے جووزیراعظم کے ساتھ دوران ملاقات طے پاگئی تھیں۔ اس رات لال مسجد کے حوالے سے 4 تحریریں لکھی گئی تھیں۔ پہلی تحریر تمہید تھی۔ دوسری تحریر طارق عظیم نے لکھی ‘ اس تحریرکوحتمی اورفارمولے کی شکل میں نے دی۔ جب اس پر ہم اتفاق کرچکے توہمیں بتایا گیا کہ یہ تحریر چودھری شجاعت حسین ‘ ایوان صدر لے کرجائیں گے اور وہاں سے اسے حتمی منظوری حاصل ہوگی۔ ہم یہ تحریر مولاناعبدالرشید غازی کوفون پر پڑھ کر سناچکے تھے اور انہوں نے بھی اس سے اتفاق کیا تھا۔ چودھری شجاعت حسین کی ایوان صدرسے آمد پرجب تاخیرہوئی تو ہمیں تشویش لاحق ہوگئی۔ چودھری شجاعت حسین کافی تاخیر سے واپس آئے توان کے ہاتھ میں ایک چوتھی تحریر تھی جو ایوان صدر سے لکھ کرلائی گئی تھی۔ اس تحریرمیں پہلی تحریر کے تینوں نکات غائب تھے۔
٭.... مولاناغازی عبدالرشید کے لئے لکھاگیاتھاکہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
٭.... لال مسجد میں موجودطلباءوطالبات کوگرفتارنہ کرنے کی بات بھی حذف کردی گئی تھی۔
٭.... جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کووفاق کی تحویل میں دینے کی بات بھی موجودنہ تھی۔
چودھری شجاعت حسین اوران کے ساتھیوں نے ایوان صدر سے لائی جانے والی تحریرہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا یہ آخری اورحتمی فیصلہ ہے ‘اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور اس کا جواب ہاں یا نہ میں دیں۔ وہ بھی صرف آدھے گھنٹے میں۔ جب یہ تحریر فون پرمولاناغازی عبدالرشیدکو پڑھ کر سنائی گئی تو انہوں نے کہا‘میرے لئے پہلی تحریر قابل قبول ہے ۔ دوسری نہیں۔ مولاناغازی عبدالرشید نے ہمیں کہا‘ آپ دوسری تحریر کو تبدیل کرانے کی کوشش کریں ‘ہم نے کہاہمارے لئے ایسا ممکن نہیں ہے تووہ کہنے لگے”ٹھیک ہے پھرآپ ان سے کہیں ہمارا قتل عام کریں۔“ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت میرے حواس قابو میں نہیں تھے۔ میں نے فون مولانافضل الرحمن خلیل کے ہاتھ میں دے دیا۔اس کے بعدمذاکرات کاحصہ دار بننا ہمارے لئے ممکن نہ تھا اس لئے ہم نے آپس میں مشورہ کیا اوروہاں سے چلے آئے۔
ماھنامہ ”
الدعوہ “