ایک دکھ جو عمر بھر ساتھ رہے گا ,,,,روزن دیوار سے…عطاء الحق قاسمی
مدرسہ حفصہ میں ہونے والی اختتامی کارروائی کی ایک جھلک میں نے اٹلی کے ایک قصبے ”تھیو نے دی ترنتو“ میں دیکھی۔ اس کے بعد سے میں مسلسل سفر میں ہوں اور یوں یہ کالم تاخیر سے شائع ہورہا ہے، تاہم اس دوران مجھے ایک پاکستانی بھی ایسا نہیں ملا جس کادل ٹی دی اسکرین پر دکھائی دینے والے مناظر پر خون کے آنسو نہ رویا ہو۔ آپریشن کے بعد اگرچہ ”ملبہ“ صاف کردیا گیا تھا مگر بچیوں کی ٹوٹی ہوئی چوڑیاں مدرسے کے فرش پر بکھری ہوئی نظر آرہی تھیں۔ یہ چوڑیاں ایک دن انہوں نے مہندی لگے ہاتھوں میں بھی پہننا تھیں اور قرآن کے سائے میں بابل کے گھر سے اپنے پیا کے گھر سدھارنا تھا مگر وہ اس سے بہت پہلے اپنے رب کے پاس پہنچ گئی ہیں جو انصاف کرنے والا ہے۔ میرے نزدیک اب بحث طلب مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والے حق پر تھے یا نہیں کہ صرف عام پاکستانیوں ہی نہیں بلکہ علماء کی بھی بہت بڑی اکثریت ان کے اختیار کردہ راستے کو درست تسلیم نہیں کرتی تھی، چنانچہ انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ راہ حق پر ہیں اور اس کے لئے وہ اپنی جانیں قربان کرنے پر بھی تلے ہوئے تھے اور انہوں نے ایسا کرکے بھی دکھادیا لیکن جو سوال ہر ذہن میں جنم لے رہا ہے وہ یہی ہے کہ ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم، جی ایچ کیو اور ایجنسیوں کے صدر دفاتر کے قریب واقع ایک مدرسے میں جدید ترین ہتھیار کیسے جمع ہوتے رہے۔ حکومتی دعوے کے مطابق ”غیر ملکی دہشت گرد“ وہاں کیسے جمع ہوگئے۔ لال مسجد اور مدرسہ حفصہ کے درمیان سرنگ کنکریٹ کے تہہ خانے اور بنکر کب اور کیوں تعمیر ہوئے ؟کیا ایسا کرنے والوں نے سیلمانی ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں کہ وہ ان نظروں سے بھی محفوظ رہے جو چشم زدن میں معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتی ہیں۔ بچیوں کے اس مدرسے میں کلاشنکوف ہاتھوں میں لئے اور گیس ماسک چہروں پر چڑھائے جوان کہاں سے آئے؟ان سب غیر قانونی سرگرمیوں کی پشت پناہی کون کررہا تھا اور کیوں کررہا تھا؟ایک اور سوال جو ذہنوں کو شدید اذیت دے رہا ہے، وہ یہ ہے کہ چھ ماہ تک اس افسوسناک صورتحال کو کیوں طول دیا گیا اور آخر میں ایک دم اتنا خوفناک آپریشن کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی جس میں دونوں طرف سے انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ خصوصاً اس صورت میں جبکہ حکومتی نمائندوں اور لال مسجد والوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا تھا ۔کیا مسئلے کے آغاز ہی میں بجلی ،پانی، گیس ،خوراک اور اسلحہ کی رسد بند ہونے کی صورت میں مدرسے میں محصور لوگ ہتھیار پھینک کر باہر نہیں آسکتے تھے۔ اس صورت میں نہ ہمارے فوجی جوان جاں بحق ہوتے اور نہ وہ خونی ڈرامہ آنکھوں کو دیکھنے کو ملتا جس کا درد پاکستانی قوم کو ہمیشہ پہلے دن کے درد کی طرح محسوس ہوگا۔ اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ خطرناک بات اس آپریشن کے ما بعد اثرات ہیں ۔ سو معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ اب شروع ہوا، گزشتہ چند روز کے دوران ہمارے فوجیوں کو جس طرح نشانہ بنایا گیا ہے کیا اس پر کوئی پاکستانی مسرت کا اظہار کرسکتا ہے؟ یہ وہ فوجی ہیں،پاکستانی مائیں جن کی بلائیں لیتی تھیں انہیں نفرت کی علامت بنانے والوں نے پاکستان کی سلامتی خطرے میں ڈال دی ہے۔ یہی وہ بزر جمہر ہیں جن کے کئے کی سزا پاکستان کے محسنوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔اور ابھی ابھی موصول ہونے والی وکیلوں کی ریلی میں پی پی پی کے کیمپ پر خود کش حملہ کی خبر ایک اور انجام کا آغاز ہے۔جب ایک شخص قوم کی اجتماعی ذہانت کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے محدودذہن اور اپنے محدود مفادات کو سامنے رکھ کر پوری قوم کے فیصلے کرتا ہے تو اس کے خطرناک نتائج1971ء میں پاکستان ٹوٹنے، 1977 ء میں مذہبی انتہا پسندی اور1999ء میں دنیا بھر میں پاکستان کی بے وقعتی کے دور کا آغاز ثابت ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور مسلم ممالک کے حکمران اس نوع کی ہر کارروائی کا انعام ملازمت میں توسیع کی صورت میں پاتے ہیں چنانچہ اس کا نتیجہ اس مزید دہشت گردی کی صورت میں نکلتا ہے جس کا نشانہ صرف وہ بے نوا عوام بنتے ہیں جو بلٹ پروف جیکٹس اور بلٹ پروف کاروں سے محروم ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پاکستانی قوم لال مسجد کا سانحہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھول جائے گی تو وہ غلطی پر ہے۔ یہ سانحہ قوم کے سینے کا ناسور بن چکا ہے۔ اس کا دکھ صرف دیندار طبقے کو نہیں بلکہ روشن خیال سیکولر اور لبرل لوگ بھی اس کا دکھ اسی طرح محسوس کررہے ہیں جس طرح ہر درد دل رکھنے والے انسان کو محسوس کرنا چاہئے کیونکہ ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ مسئلہ انسانی جانوں کے ضیاع کے بغیر بھی باآسانی حل کیا جاسکتا تھا لیکن اسے سیاسی ضرورتوں کے تحت لٹکایا گیا اور آخر میں اس کا ڈراپ سین ایک بدصورت خونریزی کی صورت میں کیا گیا۔ میرے ذہن میں ایسی کوئی تجویز نہیں ہے جس پر عمل کے نتیجے میں اس ڈراؤنے خواب کی یاد دلوں سے محو کی جاسکے مگر بجائے اس کے کہ مدرسہ حفصہ اپنی پرانی صورت میں نظروں کے سامنے رہے اور یوں دیکھنے والوں کے زخم تازہ ہوتے رہیں اسے منہدم کرکے اس کی جگہ ایک نہایت خوبصورت مدرسہ تعمیر کیا جائے جو اپنے رقبے میں ہو جتنا رقبہ اس کی قانونی ملکیت تھا۔ یہاں بچیوں کے لئے بہترین دینی اور دنیوی تعلیم کا انتظام ہو اور انہیں وہ تمام سہولتیں بھی مفت فراہم کی جائیں جو انہیں ملتی تھیں۔آخر میں ان تمام بچوں اور بچیوں کے لئے دعائے مغفرت جو اس سانحے میں جاں بحق ہوئے۔ مجھے ان کے طریق کار سے شدید اختلاف تھا اور ہے لیکن وہ لوگ قابل احترام ہوتے ہیں جو کسی موٴقف کو مبنی بر صداقت سمجھتے ہیں اور پھر اس کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہوجاتے ہیں حتی کہ اپنی جانیں بھی قربان کردیتے ہیں۔ میں مولانا عبدالعزیزوں کا نہیں غازی عبدالرشیدوں کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتا ہوں خواہ ان کے اختیار کئے ہوئے رستے سے میرا اختلاف کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو۔