کیا ورک شاپ بھی بھول گئے؟ کیا ہوا وہاں سعود؟
اور علی گڑھ کی کیا خبر ہےَ دو سال قبل میری وہاں کمپیوٹر سائنس کے استاد ارمان فریدی سے ملاقات ہوئی تھی اور ان سے میں نے کہا تھا کہ اردو ڈٖیجیٹل لائبریری کا کوئی پروجیکٹ بنائیں۔ یہاں ہم والنٹئرس کی بہ نست یونیورسٹیز میں ڑے پیمانے پر یہ کام ہو سکتا ہے، لییکن انہوں نے کوئ وعدہ تو نہیں کیا، میرے بار ہا فون کرنے پر بھی ٹالتے رہے، اور ای میلس کا تو آج تک جواب ہی نہیں دیا۔
اور ان کے لئے بھی یہ نئی خبر تھی کہ بغیر کسی سافٹ وئر کے اردو ممکن ہے!
کیا علی گڑھ میں بھی اردو مقامیانا ہی شامل تھا؟
خیال رہے کہ علی گڑھ میرا وطن ہی ہے سعود۔
ورکشاپ کے احوال گنوم کے دھاگے میں رقم کرتا ہوں باقی باتیں یہیں سہی۔
سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان کی (اسلامی) یونیورسٹیوں سے کم از کم مجھے ایسی کوئی توقع نہیں ہے جس کے کئی وجوہات ہیں۔
اول تو ہند میں اردو جاننے والے کمپیوٹر ٹیکنیشین عنقا ہیں۔ میرے ڈیپارٹمینٹ کے لوگ تعجب کرتے ہیں کہ سعود آپ کو اردو بھی آتی ہے!
تکنیکی اداروں میں مسلمانوں کا تناسب بہت کم ہے اور جو ایک آدھ لوگ ہیں ان کی اسکولنگ یا تو انگلش میڈیم میں ہوئی ہے یا ہندی۔
اساتذہ کو اردو کمپیوٹنگ میں کوئی مستقبل نظر نہیں آتا اس لیے بھی کسی کے آگے آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اور بھی بہت سے اسباب ہیں جن میں سے بیشتر آپ خود جانتے ہونگے، چونکہ میں ایسے ہی اداروں سے وابستہ ہوں اس لئے کسی قدر اعداد و شمار بھی رکھتا ہوں۔ خیر۔۔۔
اور آپ کے دوسرے بلکہ تیسرے سوال کے جواب میں عرض ہے کہ علیگڑہ میں میرا پیپر مقامیانے سے متعلق نہیں تھا بلکہ ڈاکومینٹ کمپریشن، اینکرپشن اور اسٹیگانو گرافی سے متعلق تھا۔
اگر پیپر دیکھنا چاہیں تو حکم کیجیے گا میں پی ڈی ایف فائل کہیں اپلوڈ کر دوںگا۔