ابن سعید
خادم
اجی ۔۔۔۔ اس آنے اور جانے میں کتنی قیامتیں گذر گئیں ۔۔۔ بقول غالب
بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے
کہاں گلی کوچوں میں پھرتے رہتے ہیں؟
اجی ۔۔۔۔ اس آنے اور جانے میں کتنی قیامتیں گذر گئیں ۔۔۔ بقول غالب
بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے
پھرتے ہیں کب سےدربدرکہاں گلی کوچوں میں پھرتے رہتے ہیں؟
اجی ۔۔۔۔ اس آنے اور جانے میں کتنی قیامتیں گذر گئیں ۔۔۔ بقول غالب
بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے
رجسٹر میں تو پکوڑے بیچےلگا لیتے ہیں۔
اور کون کون ہے جس کی حاضری لگانی ہے۔
لیکن حاضری کا رجسٹر تو جیہ کے پاس ہے۔
گدا سمجھ کے چپ تھا میری جو شامت آئی
اٹھا اور اٹھ کے ،قدم میں نے پاسبان کے لئے
سچ ہے خاموشی اچھی عادت ہے
رجسٹر میں تو پکوڑے بیچے