آج کا واقعہ جس نے صحیح معنوں میں مجھے بہت ذہنی طور پہ ڈسٹرب کیا ۔۔ بریک تھی ۔۔ سب بچے پلے گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے۔۔ میں کل کلر ڈے ہوتا جمعے کو۔۔ تو اس کے لیے کلاس ورک کی کاپیوں میں ڈرائنگ کررہی تھی نرسری کے بچوں کے لیے۔۔ اول کلاس کی ایک بچی میرے پاس آئی ۔۔ کہتی ٹیچر دو بچیاں آپس میں باتیں کررہی ہیں کہ آؤ غلط ۔۔۔۔ ۔۔ میں نے نام پوچھا اور کہا انہیں کلاس میں بھیجو ۔۔ کیونکہ باہر سب بچے تھے ان کے سامنے مجھے مناسب نہیں لگا ۔۔ دو بار بچی گئی بلانے ۔۔ مگر وہ نہیں آئی۔۔ میں اٹھ کر گئی تو بچوں نے بتایا کہ یہ گندی گالیاں دے رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے کہا کلاس میں پہنچو ایک منٹ کے اندر اندر۔۔ایک نرسری کی بچی بھی ساتھ تھی ۔۔ اس سے پوچھا ہاں جی بتاؤ کیا کہہ رہی تھی یہ آپ کو ۔۔ اس بچی نے کہا ٹیچر یہ مجھے کہہ رہی تھی کہ آؤ ۔۔۔اس کے الفاظ سن کر مجھے غصے پہ کنٹرول نہیں رہا ۔۔ میں نے بچی کے تھپڑ مار دیا ۔۔ پھر اسے کافی ڈانٹا اور سمجھایا گیا ۔۔ مگر اس بچی کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اس کے نزدیک ہماری باتیں بے معنی ہیں۔۔ آپ تصور کرسکتے ہیں ۔۔ کہ اول کلاس کی بچی اور۔۔۔۔ یہ سب سوچتے انسان کانپ اٹھتا ہے ۔۔ ہم اپنی نسل کو کس طرف لے کر جارہے ہیں ۔۔ روزانہ کا مورل لیسن دینا ۔۔ اچھی باتیں بتانا ۔۔سمجھانا ۔۔ بچوں کے ساتھ مل کر خود سکول کو صاف کیا جھاڑو لگائے ۔۔۔ گراؤنڈ صاف کیے گئے ۔۔خود کوڑے کے ڈھیر اٹھائے تاکہ بچوں کو بتا سکیں کہ ہم نے کیسے اور کس ماحول میں رہنا ہے۔۔ لیکن آج کے اس واقعے کے بعد لگا کہ جسمانی تربیت تو ہم کرسکتے ہیں ۔۔ روحانی کے معاملے میں ہم زیرو کے زیرو یی رہے۔۔ بہت بہت افسوس اور دکھ ہورہا ۔۔
السلام علیکم ہادیہ
آپ کی پریشانی بجا ہے اور یہ سب پڑھ کر میں بھی بہت ڈسٹرب ہوں۔ آپ نے درست کہا کہ شاید ہم ان بچوں کی درست سمت میں رہنمائی کرنے میں ناکام ہیں۔ بطور والدین، بطور اساتذہ، بطور معاشرہ۔
جیسا کہ جاسمن اور باقی سب نے کہا یہ کسی ایک علاقے، سکول یا طبقے کا مسئلہ نہیں ہے۔ سرکاری، پرائیویٹ، امیر غریب، سکول مدرسہ ہر جگہ اساتذہ اور والدین کو ایسے مسائل درپیش ہیں۔ میرے ذاتی خیال میں اس کی وجہ ہمارے ہاں ان موضوعات کو بالکل نظر انداز کر دینا ہے۔ ہم بچے کو روح اور سوچ کی صفائی پر تو دو چار سال کی عمر سے ہی سبق دینا شروع کر دیتے ہیں لیکن اسے یہ نہیں بتاتے کہ روح اور سوچ کی پاکیزگی جسم کی پاکیزگی سے شروع ہوتی ہے۔ اسے یہ نہیں بتاتے کہ اس سلسلے میں کیا درست اور کیا غلط ہے۔ نتیجہ یہ بچہ جب ایسی کیسی صورتحال کا مشاہدہ کرتا ہے یا اس کے ساتھ کچھ غلط ہوتا ہے تو اسے اندازہ نہیں ہوتا کہ اس میں غلط کیا ہے۔ ہم اب بچوں کو الزام نہیں دے سکتے کہ ہم نے انھیں کچھ بتایا ہی نہیں۔
اب رہی بات اس مخصوص کیس کی۔ یقیننا بچی اس ماحول میں رہ رہی ہے جہاں اس مسئلے کی سنگینی کا کسی کو اندازہ نہیں ہے۔ فوری ایکشن کے لیے میرا مشورہ یہ ہو گا کہ:
1۔ بچوں کو اسمبلی یا ایسے ہی کسی وقت میں اکٹھا کریں اور انھیں ان ڈائریکٹ طریقے سے ان باتوں کے بارے میں بتائیں۔ ابھی کچھ جلدی میں ہوں۔ ہم سب مل کر اس کے content اور طریقے پر ڈسکس کر سکتے ہیں یہاں۔
2۔ بچی کے والدین کو بلانے اور ان کے ردعمل پر تو آپ بات کر چکی ہیں کہ کیا ہو سکتا ہے۔ آپ شروعات mothers' workshop سے کریں۔ ماوں کو سکول بلائیں۔ انھیں بتائیں وہ بچوں کو کیسے سپورٹ کر سکتی ہیں۔ شروعات کپڑوں سے کریں دھلائی، استری وغیرہ۔ پھر صبح تیار کر کے بھیجنے پر گائیڈ کریں۔ لنچ پر بات کریں۔ ہوم ورک کے بارے میں بتائیں اور ایسے ہی غیر محسوس طریقے سے اس موضوع کو سامنے لے آئیں۔ بچی کا نام لیے بغیر انھیں بتائیں کہ اس کے مسائل کا سامنا ہے اور یہ واقعہ ہوا ہے۔ پھر ان سے مشورہ مانگیں کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ سکول میں کیا کرنا چاہیے؟ گھر میں کیا کرنا چاہیے؟
اس کے بعد بتائیں کہ شروع میں تو آپ لوگ ایسے بچوں کو خود ڈیل کریں گے اور اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو بچوں کو سکول سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔ سرٹیفیکٹ پر اگر وجہ لکھ دی گئی تو کہیں داخلہ نہیں ملے گا وغیرہ۔
امید ہے اس سے کافی مدد ملے گی۔ ضروری سمجھیں تو بعد میں ماں باپ دونوں کی ورکشاپس کروائیں۔
ایک یا دو مہینوں کے بعد یہ ورکشاپ یا میٹنگ ضرور ہونی چاہیے۔
گاوں کے سرکردہ لوگوں اور جو مائیں کچھ سمجھدار اور میچور ہیں ان پر مبنی والدین کی کمیٹی بنا دیں۔ ایسے مسائل پر ان سے بات کریں اور ان کے ذریعے لوگوں کو approach and influence کریں۔
بچی کے ساتھ رویہ نارمل رکھیں اگرچہ یہ مشکل ہو گا۔ اسے دوسرے بچوں سے الگ کریں۔ کلاس میں اپنی میز یا بورڈ کے پاس کرسی لگوائیں۔ اسے زیادہ سے زیادہ مصروف رکھیں۔ کلاس کے کام اس سے کروائیں جیسے بورڈ صاف کرنا، کاپیاں درست کر کے رکھنا وغیرہ۔ اچھی بچیوں کے گروپس بنا کر ان سے کلاس کی رپورٹ لیں۔
اس وقت جلدی میں ہوں۔ بعد میں ان شاءاللہ مزید ڈسکس کرتے ہیں۔
پریشان نہیں ہوں۔ یہ سوچیں کہ اگر آپ کی مدد اور وجہ سے ایک بچہ بھی درست راہ پر چل پڑا تو کتنا بڑا صدقہ جاریہ ہو گا۔ ان شاءاللہ