کچھ باتیں۔۔ میرے سکول کے حوالے سے:)

السلام علیکم۔ کافی عرصے سے کچھ لکھ نہیں پائی۔۔ اورسچ پوچھیں تو لکھنے کو دل ہی نہیں چاہا۔۔ بہت سی وجوہات ہیں۔۔ خیر آج لکھنے پہ مجبور ہوئی ہوں ۔۔ دل بہت پریشان ہے۔۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے۔۔ کیا کوئی مجھے بتا سکتا ہے ہم بچوں کی اخلاقی تربیت کس طرح سے کریں ۔۔ ؟ کہ ان کا ذہن بے حیائی اور برے خیالات سے پاک ہوجائے۔۔؟
میں سمجھتی تھی اگر اساتذہ اپنا فرض اچھے طریقے سے ادا کریں ۔۔بچوں کے ساتھ اخلاقی معاملات میں کوئی نرمی کا مظاہرہ نا کریں تو بہت سی معاشرتی برائیوں سے ہم بچوں کو بچا سکتے ہیں ۔۔لیکن ایسا نہیں ہے۔۔ بچے کچھ باتوں کو صرف سکول کی حد تک ہی فولو کرتے ہیں کیونکہ وہاں استاد کا ڈر ہوتا ہے ۔۔ لیکن گھر میں کوئی بھی تبدیلی نہیں ۔۔شاید ہم بچوں کو بہتر طریقے سے بتا نہیں پارہے یا ان کا ماحول انہیں بدل نہیں پا رہا ۔۔
بہنا جہاں تک میرا اس بارے میں خیال ہے کہ استاد سے زیادہ بچے کی روحانی اور اخلاقی تربیت میں سب سے زیادہ کردار والدین اور قریبی احباب کا ہوتا ہے ۔گھر کا ماحول اور حالات بچے پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔
 

ہادیہ

محفلین
آج کا واقعہ جس نے صحیح معنوں میں مجھے بہت ذہنی طور پہ ڈسٹرب کیا ۔۔ بریک تھی ۔۔ سب بچے پلے گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے۔۔ میں کل کلر ڈے ہوتا جمعے کو۔۔ تو اس کے لیے کلاس ورک کی کاپیوں میں ڈرائنگ کررہی تھی نرسری کے بچوں کے لیے۔۔ اول کلاس کی ایک بچی میرے پاس آئی ۔۔ کہتی ٹیچر دو بچیاں آپس میں باتیں کررہی ہیں کہ آؤ غلط ۔۔۔۔ ۔۔ میں نے نام پوچھا اور کہا انہیں کلاس میں بھیجو ۔۔ کیونکہ باہر سب بچے تھے ان کے سامنے مجھے مناسب نہیں لگا ۔۔ دو بار بچی گئی بلانے ۔۔ مگر وہ نہیں آئی۔۔ میں اٹھ کر گئی تو بچوں نے بتایا کہ یہ گندی گالیاں دے رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے کہا کلاس میں پہنچو ایک منٹ کے اندر اندر۔۔ایک نرسری کی بچی بھی ساتھ تھی ۔۔ اس سے پوچھا ہاں جی بتاؤ کیا کہہ رہی تھی یہ آپ کو ۔۔ اس بچی نے کہا ٹیچر یہ مجھے کہہ رہی تھی کہ آؤ ۔۔۔اس کے الفاظ سن کر مجھے غصے پہ کنٹرول نہیں رہا ۔۔ میں نے بچی کے تھپڑ مار دیا ۔۔ پھر اسے کافی ڈانٹا اور سمجھایا گیا ۔۔ مگر اس بچی کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اس کے نزدیک ہماری باتیں بے معنی ہیں۔۔ آپ تصور کرسکتے ہیں ۔۔ کہ اول کلاس کی بچی اور۔۔۔۔ یہ سب سوچتے انسان کانپ اٹھتا ہے ۔۔ ہم اپنی نسل کو کس طرف لے کر جارہے ہیں ۔۔ روزانہ کا مورل لیسن دینا ۔۔ اچھی باتیں بتانا ۔۔سمجھانا ۔۔ بچوں کے ساتھ مل کر خود سکول کو صاف کیا جھاڑو لگائے ۔۔۔ گراؤنڈ صاف کیے گئے ۔۔خود کوڑے کے ڈھیر اٹھائے تاکہ بچوں کو بتا سکیں کہ ہم نے کیسے اور کس ماحول میں رہنا ہے۔۔ لیکن آج کے اس واقعے کے بعد لگا کہ جسمانی تربیت تو ہم کرسکتے ہیں ۔۔ روحانی کے معاملے میں ہم زیرو کے زیرو یی رہے۔۔ بہت بہت افسوس اور دکھ ہورہا ۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
ہادیہ!
یہ صرف آپ کے مکتب کا واقعہ ہی نہیں ہے۔ کیا بتائیں کہ کہاں کہاں کیا کیا ہو رہا ہے۔ کیا حالات ہیں۔
استغفراللہ۔ استغفراللہ۔
اللہ ہمیں، ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں کوموجودہ دور کے فتنوں اور آنے والے فتنوں سے پناہ دے۔ بے داغ جوانی عطا فرمائے۔ ہر طرح کی بے حیائی اور برائی سے پناہ دے۔ آمین!
ایسے میں اپنے حصہ کے فرائض ادا کریں۔ اللہ سے دعا مانگیں۔
 
آج کا واقعہ جس نے صحیح معنوں میں مجھے بہت ذہنی طور پہ ڈسٹرب کیا ۔۔ بریک تھی ۔۔ سب بچے پلے گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے۔۔ میں کل کلر ڈے ہوتا جمعے کو۔۔ تو اس کے لیے کلاس ورک کی کاپیوں میں ڈرائنگ کررہی تھی نرسری کے بچوں کے لیے۔۔ اول کلاس کی ایک بچی میرے پاس آئی ۔۔ کہتی ٹیچر دو بچیاں آپس میں باتیں کررہی ہیں کہ آؤ غلط ۔۔۔۔ ۔۔ میں نے نام پوچھا اور کہا انہیں کلاس میں بھیجو ۔۔ کیونکہ باہر سب بچے تھے ان کے سامنے مجھے مناسب نہیں لگا ۔۔ دو بار بچی گئی بلانے ۔۔ مگر وہ نہیں آئی۔۔ میں اٹھ کر گئی تو بچوں نے بتایا کہ یہ گندی گالیاں دے رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے کہا کلاس میں پہنچو ایک منٹ کے اندر اندر۔۔ایک نرسری کی بچی بھی ساتھ تھی ۔۔ اس سے پوچھا ہاں جی بتاؤ کیا کہہ رہی تھی یہ آپ کو ۔۔ اس بچی نے کہا ٹیچر یہ مجھے کہہ رہی تھی کہ آؤ ۔۔۔اس کے الفاظ سن کر مجھے غصے پہ کنٹرول نہیں رہا ۔۔ میں نے بچی کے تھپڑ مار دیا ۔۔ پھر اسے کافی ڈانٹا اور سمجھایا گیا ۔۔ مگر اس بچی کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اس کے نزدیک ہماری باتیں بے معنی ہیں۔۔ آپ تصور کرسکتے ہیں ۔۔ کہ اول کلاس کی بچی اور۔۔۔۔ یہ سب سوچتے انسان کانپ اٹھتا ہے ۔۔ ہم اپنی نسل کو کس طرف لے کر جارہے ہیں ۔۔ روزانہ کا مورل لیسن دینا ۔۔ اچھی باتیں بتانا ۔۔سمجھانا ۔۔ بچوں کے ساتھ مل کر خود سکول کو صاف کیا جھاڑو لگائے ۔۔۔ گراؤنڈ صاف کیے گئے ۔۔خود کوڑے کے ڈھیر اٹھائے تاکہ بچوں کو بتا سکیں کہ ہم نے کیسے اور کس ماحول میں رہنا ہے۔۔ لیکن آج کے اس واقعے کے بعد لگا کہ جسمانی تربیت تو ہم کرسکتے ہیں ۔۔ روحانی کے معاملے میں ہم زیرو کے زیرو یی رہے۔۔ بہت بہت افسوس اور دکھ ہورہا ۔۔
نہایت افسوسناک۔
ایک مرتبہ اس کی وجہ کی ہم نے چھان بین کی۔ بہت چھوٹا سا بچہ تھا جو شاید ابھی قاعدہ پڑھتا تھا۔ اس کی ایسی شکایت آئی۔ ہم حیران تھے کہ اتنے چھوٹے بچے کی ایسی شکایت کیسے آ سکتی ہے۔ اس سے پوچھا کہ بیٹا آپ نے یہ کس سے سیکھا؟ وہ کہنے لگا بڑے بھائی سے۔ (وہ بھی کم عمر ہی تھا) بڑے بھائی سے تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ دراصل اس کے والدین ہی اس معاملے میں احتیاط نہیں کرتے تھے۔ جس سے دونوں بچوں پر برا اثر پڑا۔
 
نہایت افسوسناک۔
ایک مرتبہ اس کی وجہ کی ہم نے چھان بین کی۔ بہت چھوٹا سا بچہ تھا جو شاید ابھی قاعدہ پڑھتا تھا۔ اس کی ایسی شکایت آئی۔ ہم حیران تھے کہ اتنے چھوٹے بچے کی ایسی شکایت کیسے آ سکتی ہے۔ اس سے پوچھا کہ بیٹا آپ نے یہ کس سے سیکھا؟ وہ کہنے لگا بڑے بھائی سے۔ (وہ بھی کم عمر ہی تھا) بڑے بھائی سے تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ دراصل اس کے والدین ہی اس معاملے میں احتیاط نہیں کرتے تھے۔ جس سے دونوں بچوں پر برا اثر پڑا۔
عبید بھائی ہم بھی ایک ایسے ہی واقعے کے چشم دید گواہ ہیں جب سسرال میں ان کی محلے دار کم عمر بچی نے اپنے والدین کے راز کو اپنی والدہ کی موجودگی میں سب کے سامنے افشاء کیا تھا ۔ بے چاری خاتون ندامت سے زمین بوس ہوگئی تھی ۔ہماری زوجہ کی خالہ صاحبہ نے ان کو ڈانٹا بھی تھا اور سمجھایا بھی تھا ۔
 

لاریب مرزا

محفلین
عبید بھائی ہم بھی ایک ایسے ہی واقعے کے چشم دید گواہ ہیں جب سسرال میں ان کی محلے دار کم عمر بچی نے اپنے والدین کے راز کو اپنی والدہ کی موجودگی میں سب کے سامنے افشاء کیا تھا ۔ بے چاری خاتون ندامت سے زمین بوس ہوگئی تھی ۔ہماری زوجہ کی خالہ صاحبہ نے ان کو ڈانٹا بھی تھا اور سمجھایا بھی تھا ۔
عدنان بھائی!! ہمارے ناقص علم کے مطابق یہاں "زمین میں گڑ جانا" والا محاورہ استعمال ہو گا ،نہ کہ "زمین بوس ہونا" :)
 
عدنان بھائی!! ہمارے ناقص علم کے مطابق یہاں "زمین میں گڑ جانا" والا محاورہ استعمال ہو گا ،نہ کہ "زمین بوس ہونا" :)
بہنا ہمیں ابھی تک ان خاتون کی بے چارگی یاد ہے بس اس لیے ہمیں گاڑھنا زیادہ سخت ترین عمل لگا ، اس لیے ہم نےان کو زمین بوس کر دیا ۔:)
 

ہادیہ

محفلین
ہادیہ!
یہ صرف آپ کے مکتب کا واقعہ ہی نہیں ہے۔ کیا بتائیں کہ کہاں کہاں کیا کیا ہو رہا ہے۔ کیا حالات ہیں۔
استغفراللہ۔ استغفراللہ۔
اللہ ہمیں، ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں کوموجودہ دور کے فتنوں اور آنے والے فتنوں سے پناہ دے۔ بے داغ جوانی عطا فرمائے۔ ہر طرح کی بے حیائی اور برائی سے پناہ دے۔ آمین!
ایسے میں اپنے حصہ کے فرائض ادا کریں۔ اللہ سے دعا مانگیں۔
آمین ثم آمین۔۔۔
 

ہادیہ

محفلین
بچے کا فیملی بیک گراؤنڈ ماحول واقعی بہت اثر کرتا بچے کی ذہنی،جسمانی روحانی شخصیت پہ۔۔۔ یہی بات پہلے بھی کی میں نے ۔۔۔ کہ سکول میں بچے استاد کے ڈر سے بھی برائی کے راستے کو چھوڑ دیتے ۔۔ مگر سکول کے بعد پھر سے وہی صورتحال ۔۔۔ بچے بڑے ہوں تو انہیں سمجھانا میرے خیال میں زیادہ آسان ہے ۔۔ اتنےچھوٹے بچے جنہیں صحیح طرح سے منہ دھونے کا بھی پتہ نہیں۔۔ انہیں کیا اور کس طرح سے سمجھائیں ۔۔اور جس بچی کا میں ذکر کررہی ہوں ۔۔ وہ انتہائی بگڑی ہوئی بچی ہے جسے نا پیار سے بات سمجھ آتی نا ڈانٹ ڈپٹ سے۔۔ جیسا آج ہوا ۔۔ اس کے انداز سے یہی لگا اس کے لیے یہ بالکل نارمل بات ہے ۔۔۔ اصل پریشانی مجھے اس بات کی ہورہی ایسے بچے اپنے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کو بھی خراب کرتے ۔۔ ۔۔۔
 

ہادیہ

محفلین
ایسی سب باتوِں کا اثر دوسرے بچوں پہ پڑتا ۔۔ اور سکول کے ماحول پر بھی یقیناََ۔۔ :(
ایسے کیا اقدامات کیے جائیں کہ ہم بچوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کرسکیں۔۔ جس میں ان کی توجہ صرف علم حاصل کرنے اور اسی کو مزید حاصل کرنے کی جستجو کی طرف ہی ہو ۔۔
 
ایسی سب باتوِں کا اثر دوسرے بچوں پہ پڑتا ۔۔ اور سکول کے ماحول پر بھی یقیناََ۔۔ :(
ایسے کیا اقدامات کیے جائیں کہ ہم بچوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کرسکیں۔۔ جس میں ان کی توجہ صرف علم حاصل کرنے اور اسی کو مزید حاصل کرنے کی جستجو کی طرف ہی ہو ۔۔
بہنا آپ سچی نیت اور دیانت داری سے اپنی کوشش جاری رکھیں ۔ حقیقت حال سے اللہ کریم بخیر و خوبی واقف ہیں ۔جتنا ممکن ہوسکے بچوں کو اچھا اور بہترین تعلیمی ماحول فراہم کرنے کے اقدامات کرتی رہیں ۔
بچے کا فیملی بیک گراؤنڈ ماحول واقعی بہت اثر کرتا بچے کی ذہنی،جسمانی روحانی شخصیت پہ۔۔۔ یہی بات پہلے بھی کی میں نے ۔۔۔ کہ سکول میں بچے استاد کے ڈر سے بھی برائی کے راستے کو چھوڑ دیتے ۔۔ مگر سکول کے بعد پھر سے وہی صورتحال ۔۔۔ بچے بڑے ہوں تو انہیں سمجھانا میرے خیال میں زیادہ آسان ہے ۔۔ اتنےچھوٹے بچے جنہیں صحیح طرح سے منہ دھونے کا بھی پتہ نہیں۔۔ انہیں کیا اور کس طرح سے سمجھائیں ۔۔اور جس بچی کا میں ذکر کررہی ہوں ۔۔ وہ انتہائی بگڑی ہوئی بچی ہے جسے نا پیار سے بات سمجھ آتی نا ڈانٹ ڈپٹ سے۔۔ جیسا آج ہوا ۔۔ اس کے انداز سے یہی لگا اس کے لیے یہ بالکل نارمل بات ہے ۔۔۔ اصل پریشانی مجھے اس بات کی ہورہی ایسے بچے اپنے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کو بھی خراب کرتے ۔۔ ۔۔۔
اگر ایسی صورتحال کا سامنا ہے تو اس بچی کا نام اسکول سے خارج کر دیں کیونکہ دوسرے بچوں میں اخلاقی بگڑ پیدا ہونے کے امکانات روشن ہیں ۔
 

فرقان احمد

محفلین
ایسی سب باتوِں کا اثر دوسرے بچوں پہ پڑتا ۔۔ اور سکول کے ماحول پر بھی یقیناََ۔۔ :(
ایسے کیا اقدامات کیے جائیں کہ ہم بچوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کرسکیں۔۔ جس میں ان کی توجہ صرف علم حاصل کرنے اور اسی کو مزید حاصل کرنے کی جستجو کی طرف ہی ہو ۔۔
ہماری دانست میں ایسے بچوں کے والدین کی اسکول میں طلبی ہونی چاہیے۔ ایک آدھ بار سختی سے تنبیہ کی جائے، اور اگر معاملہ حل نہ ہو تو پھر اس بچے کا نام سکول سے خارج کر دینا بہتر ہے جس جانب عدنان بھیا نے بھی اشارہ کر دیا ہے۔ دیکھیے، یہاں بچوں کا قصور کم ہے اور والدین کا قصور زیادہ ہے۔ اسکول کو اپنے طور طریقوں اور قواعدو ضوابط پر چلنا ہوتا ہے۔ اگر ایسے واقعات کو برداشت کیا جائے گا تو پھر ایسے اسکول چلانے کا کیا فائدہ؟
 
ہماری دانست میں ایسے بچوں کے والدین کی اسکول میں طلبی ہونی چاہیے۔ ایک آدھ بار سختی سے تنبیہ کی جائے، اور اگر معاملہ حل نہ ہو تو پھر اس بچے کا نام سکول سے خارج کر دینا بہتر ہے جس جانب عدنان بھیا نے بھی اشارہ کر دیا ہے۔ دیکھیے، یہاں بچوں کا قصور کم ہے اور والدین کا قصور زیادہ ہے۔ اسکول کو اپنے طور طریقوں اور قواعدو ضوابط پر چلنا ہوتا ہے۔ اگر ایسے واقعات کو برداشت کیا جائے گا تو پھر ایسے اسکول چلانے کا کیا فائدہ؟
والدین کو بتانا بہترین طریقہ ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک افسوسناک حقیقت (جس کا مشاہدہ ایک زائد مرتبہ ہوا) یہ بھی ہے کہ والدین سے یہ توقع رکھنا مشکل ہے کہ وہ مسئلے کے سنجیدہ حل کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کریں۔ عام طور پر ایسی شکایت پر والدین جذبات میں بے قابو ہوجاتے ہیں اور اس بچوں کی شدید قسم کی "چھترول" کردیتے ہیں اور اصل سبب کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔
 

فرقان احمد

محفلین
والدین کو بتانا بہترین طریقہ ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک افسوسناک حقیقت (جس کا مشاہدہ ایک زائد مرتبہ ہوا) یہ بھی ہے کہ والدین سے یہ توقع رکھنا مشکل ہے کہ وہ مسئلے کے سنجیدہ حل کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کریں۔ عام طور پر ایسی شکایت پر والدین جذبات میں بے قابو ہوجاتے ہیں اور اس بچوں کی شدید قسم کی "چھترول" کردیتے ہیں اور اصل سبب کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔
صاحب! چھترول کر دیں تو بہتر ہے۔ سکول انتظامیہ کو بہرصورت اپنے قواعد پر سختی سے عمل درآمد کروانا چاہیے۔ اگر والدین اس معاملے میں سنجیدہ فکری کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں یا ایسا کرنے سے قاصر ہیں تو پھر اس میں اسکول انتظامیہ کا کیا قصور؟ ہر اسکول کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں؛ جو بچے ان پر عمل پیرا نہیں ہو سکتے، اُن کا نام اسکول سے خارج کر دینا بہتر ہے۔
 
صاحب! چھترول کر دیں تو بہتر ہے۔ سکول انتظامیہ کو بہرصورت اپنے قواعد پر سختی سے عمل درآمد کروانا چاہیے۔ اگر والدین اس معاملے میں سنجیدہ فکری کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں یا ایسا کرنے سے قاصر ہیں تو پھر اس میں اسکول انتظامیہ کا کیا قصور؟ ہر اسکول کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں؛ جو بچے ان پر عمل پیرا نہیں ہو سکتے، اُن کا نام اسکول سے خارج کر دینا بہتر ہے۔
جی ایسا ہی ہے۔
 

سید عمران

محفلین
یاد رکھیں اصلاح کرنا ایک طویل عمل کا نام ہے...
چند دن کی چند باتوں سے کبھی کوئی نہیں بدلتا...
پانی کے قطرے ایک دن میں پتھر میں سوراخ نہیں کرتے...
کیا یہ خوش آئیند بات نہیں ہے کہ ایک بچی نے غلط بات سنی تو شکایت لگادی...
مطلب اسے بری بات بری لگی...
ایک بچی پر تو ََکچھ اثر ہوا...
اگر وہ اسے برا نہ سمجھتی تو شکایت نہ کرتی درگزر کردیتی یا خاموش تماشائی بن جاتی...
اسی سے انبیاء کرام کی محنتوں کا اندازہ لگا لیں...
دن بھر کی محنت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کی اصلاح کے لیے خدا کے حضور کس کس طرح بلک بلک کے روتے تھے کہ خود اللہ کو انہیں منع کرنا پڑا...
آپ ان کی اصلاح کے غم میں اپنی جان ہلکان نہ کریں...
آپ کے ساتھ ساتھ شیطان بھی مسلسل محنت کررہا ہے...
آپ اس کی محنت توڑ رہی ہیں اور وہ آپ کی محنت...
آپ کا مقابلہ شیطان سے ہے...
اسے ہرائے بغیر پیچھے ہٹنے کا نہیں...
اس کے پاس آپ سے زیادہ طاقت نہیں...
وہ طاقت ہے خدا سے دعا کی...
سبب اختیار کرنا اور اللہ سے مانگنا...
ایک چیز بھی چھوٹ گئی تو کام نہیں بنے گا!!!
 

ہادیہ

محفلین
والدین کو بتانا بہترین طریقہ ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک افسوسناک حقیقت (جس کا مشاہدہ ایک زائد مرتبہ ہوا) یہ بھی ہے کہ والدین سے یہ توقع رکھنا مشکل ہے کہ وہ مسئلے کے سنجیدہ حل کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کریں۔ عام طور پر ایسی شکایت پر والدین جذبات میں بے قابو ہوجاتے ہیں اور اس بچوں کی شدید قسم کی "چھترول" کردیتے ہیں اور اصل سبب کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔
بالکل متفق ہوں آپ کی بات سے بھائی ۔۔ والدین نا صرف بچے کی پٹائی کرتے بلکہ اساتذہ کے بھی خلاف ہوجاتے ہیں ۔۔ ایک اور واقعہ بتاتی ہوں ۔۔
کچھ منتھ پہلے کی بات ہے ۔۔ ایک بچی نے چوری کی ۔۔ اور پکڑی گئی۔۔ مگر کسی طرح بھی اپنی غلطی نا مانے ۔۔ ٹیچرز نے فیصلہ کیا اس کی امی کو سکول بلاتے ہیں ۔۔ جب بچیاں بلانے کے لیے گئیں تو والدہ گھر نہیں تھی لیکن بچی کا باپ گھر تھا ۔۔اس نے بچیوں سے وجہ ہوچھی تو انہوں نے بتادیا کہ چوری کی ہے ۔۔ وہ خود سکول آگیا ۔۔ اس نے آکر نا کسی ٹیچر سے معاملہ پوچھا نا بات کی ۔۔ ڈائریکٹ بچی کو مارنا شروع کردیا ۔۔ سب اسے روکنے والی۔۔ کہتا نہیں باجی آپ سائیڈ پہ ہوجائیں اس کو چھوڑنا نہیں ۔۔ اس نے بچی کو زمین پہ پٹخ پٹخ کر مارا ۔۔ اب سمجھ نا آئے اسے روکیں کیسے ۔۔ اچھا خاصہ تماشہ بن گیا ۔۔ اس نے بچی کا دوپٹہ اس کے گلے کے گرد اس نیت سے باندھا کہ اسے جان سے ہی مار دینا ہے ۔۔تب سب کو ہوش آئی ۔۔ اس کی منتیں کی بھائی اس کو چھوڑ دو ۔۔ بچی مرجائے گی ۔۔ بچی بے ہوش ہوچکی تھی ۔۔ مگر اسے ترس نہیں آیا ۔۔ ہم تو خود رونے لگ گئیں ۔۔ اس کے بعد سب نے توبہ کی جو بھی معاملہ ہوا سکول تک رکھنا کسی بچی کے والدین کو شکایت نہیں لگانی ۔۔ سب کا خیال تھا کہ والدین سے بات کریں گے تو وہ بھی بچی کو سمجھائیں گے ۔۔ مگر معاملہ الٹ نکلا ۔۔ اگر خدانخواستہ بچی کو کچھ ہوجاتا تو سیدھا کیس اساتذہ پہ بننا تھا ۔۔۔ اب ایسے ماحول اور حالات کے مطابق سمجھ کر چلنا بہت مشکل کام ہے ۔۔
 

فرقان احمد

محفلین
والدین کو بتانا بہترین طریقہ ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک افسوسناک حقیقت (جس کا مشاہدہ ایک زائد مرتبہ ہوا) یہ بھی ہے کہ والدین سے یہ توقع رکھنا مشکل ہے کہ وہ مسئلے کے سنجیدہ حل کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کریں۔ عام طور پر ایسی شکایت پر والدین جذبات میں بے قابو ہوجاتے ہیں اور اس بچوں کی شدید قسم کی "چھترول" کردیتے ہیں اور اصل سبب کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔

بالکل متفق ہوں آپ کی بات سے بھائی ۔۔ والدین نا صرف بچے کی پٹائی کرتے بلکہ اساتذہ کے بھی خلاف ہوجاتے ہیں ۔۔ ایک اور واقعہ بتاتی ہوں ۔۔
کچھ منتھ پہلے کی بات ہے ۔۔ ایک بچی نے چوری کی ۔۔ اور پکڑی گئی۔۔ مگر کسی طرح بھی اپنی غلطی نا مانے ۔۔ ٹیچرز نے فیصلہ کیا اس کی امی کو سکول بلاتے ہیں ۔۔ جب بچیاں بلانے کے لیے گئیں تو والدہ گھر نہیں تھی لیکن بچی کا باپ گھر تھا ۔۔اس نے بچیوں سے وجہ ہوچھی تو انہوں نے بتادیا کہ چوری کی ہے ۔۔ وہ خود سکول آگیا ۔۔ اس نے آکر نا کسی ٹیچر سے معاملہ پوچھا نا بات کی ۔۔ ڈائریکٹ بچی کو مارنا شروع کردیا ۔۔ سب اسے روکنے والی۔۔ کہتا نہیں باجی آپ سائیڈ پہ ہوجائیں اس کو چھوڑنا نہیں ۔۔ اس نے بچی کو زمین پہ پٹخ پٹخ کر مارا ۔۔ اب سمجھ نا آئے اسے روکیں کیسے ۔۔ اچھا خاصہ تماشہ بن گیا ۔۔ اس نے بچی کا دوپٹہ اس کے گلے کے گرد اس نیت سے باندھا کہ اسے جان سے ہی مار دینا ہے ۔۔تب سب کو ہوش آئی ۔۔ اس کی منتیں کی بھائی اس کو چھوڑ دو ۔۔ بچی مرجائے گی ۔۔ بچی بے ہوش ہوچکی تھی ۔۔ مگر اسے ترس نہیں آیا ۔۔ ہم تو خود رونے لگ گئیں ۔۔ اس کے بعد سب نے توبہ کی جو بھی معاملہ ہوا سکول تک رکھنا کسی بچی کے والدین کو شکایت نہیں لگانی ۔۔ سب کا خیال تھا کہ والدین سے بات کریں گے تو وہ بھی بچی کو سمجھائیں گے ۔۔ مگر معاملہ الٹ نکلا ۔۔ اگر خدانخواستہ بچی کو کچھ ہوجاتا تو سیدھا کیس اساتذہ پہ بننا تھا ۔۔۔ اب ایسے ماحول اور حالات کے مطابق سمجھ کر چلنا بہت مشکل کام ہے ۔۔
آپ دونوں شخصیات کا اس حوالے سے عملی تجربہ ہم سے بہرصورت زیادہ ہے، اس لیے ہم اپنی رائے سے رجوع کرتے ہیں۔
 

لاریب مرزا

محفلین
کچھ منتھ پہلے کی بات ہے ۔۔ ایک بچی نے چوری کی ۔۔ اور پکڑی گئی۔۔ مگر کسی طرح بھی اپنی غلطی نا مانے ۔۔ ٹیچرز نے فیصلہ کیا اس کی امی کو سکول بلاتے ہیں ۔۔ جب بچیاں بلانے کے لیے گئیں تو والدہ گھر نہیں تھی لیکن بچی کا باپ گھر تھا ۔۔اس نے بچیوں سے وجہ ہوچھی تو انہوں نے بتادیا کہ چوری کی ہے ۔۔ وہ خود سکول آگیا ۔۔ اس نے آکر نا کسی ٹیچر سے معاملہ پوچھا نا بات کی ۔۔ ڈائریکٹ بچی کو مارنا شروع کردیا ۔۔ سب اسے روکنے والی۔۔ کہتا نہیں باجی آپ سائیڈ پہ ہوجائیں اس کو چھوڑنا نہیں ۔۔ اس نے بچی کو زمین پہ پٹخ پٹخ کر مارا ۔۔ اب سمجھ نا آئے اسے روکیں کیسے ۔۔ اچھا خاصہ تماشہ بن گیا ۔۔ اس نے بچی کا دوپٹہ اس کے گلے کے گرد اس نیت سے باندھا کہ اسے جان سے ہی مار دینا ہے ۔۔تب سب کو ہوش آئی ۔۔ اس کی منتیں کی بھائی اس کو چھوڑ دو ۔۔ بچی مرجائے گی ۔۔ بچی بے ہوش ہوچکی تھی ۔۔ مگر اسے ترس نہیں آیا ۔۔ ہم تو خود رونے لگ گئیں ۔۔ اس کے بعد سب نے توبہ کی جو بھی معاملہ ہوا سکول تک رکھنا کسی بچی کے والدین کو شکایت نہیں لگانی ۔۔ سب کا خیال تھا کہ والدین سے بات کریں گے تو وہ بھی بچی کو سمجھائیں گے ۔۔ مگر معاملہ الٹ نکلا ۔۔
استغفار!!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
آج کا واقعہ جس نے صحیح معنوں میں مجھے بہت ذہنی طور پہ ڈسٹرب کیا ۔۔ بریک تھی ۔۔ سب بچے پلے گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے۔۔ میں کل کلر ڈے ہوتا جمعے کو۔۔ تو اس کے لیے کلاس ورک کی کاپیوں میں ڈرائنگ کررہی تھی نرسری کے بچوں کے لیے۔۔ اول کلاس کی ایک بچی میرے پاس آئی ۔۔ کہتی ٹیچر دو بچیاں آپس میں باتیں کررہی ہیں کہ آؤ غلط ۔۔۔۔ ۔۔ میں نے نام پوچھا اور کہا انہیں کلاس میں بھیجو ۔۔ کیونکہ باہر سب بچے تھے ان کے سامنے مجھے مناسب نہیں لگا ۔۔ دو بار بچی گئی بلانے ۔۔ مگر وہ نہیں آئی۔۔ میں اٹھ کر گئی تو بچوں نے بتایا کہ یہ گندی گالیاں دے رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے کہا کلاس میں پہنچو ایک منٹ کے اندر اندر۔۔ایک نرسری کی بچی بھی ساتھ تھی ۔۔ اس سے پوچھا ہاں جی بتاؤ کیا کہہ رہی تھی یہ آپ کو ۔۔ اس بچی نے کہا ٹیچر یہ مجھے کہہ رہی تھی کہ آؤ ۔۔۔اس کے الفاظ سن کر مجھے غصے پہ کنٹرول نہیں رہا ۔۔ میں نے بچی کے تھپڑ مار دیا ۔۔ پھر اسے کافی ڈانٹا اور سمجھایا گیا ۔۔ مگر اس بچی کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اس کے نزدیک ہماری باتیں بے معنی ہیں۔۔ آپ تصور کرسکتے ہیں ۔۔ کہ اول کلاس کی بچی اور۔۔۔۔ یہ سب سوچتے انسان کانپ اٹھتا ہے ۔۔ ہم اپنی نسل کو کس طرف لے کر جارہے ہیں ۔۔ روزانہ کا مورل لیسن دینا ۔۔ اچھی باتیں بتانا ۔۔سمجھانا ۔۔ بچوں کے ساتھ مل کر خود سکول کو صاف کیا جھاڑو لگائے ۔۔۔ گراؤنڈ صاف کیے گئے ۔۔خود کوڑے کے ڈھیر اٹھائے تاکہ بچوں کو بتا سکیں کہ ہم نے کیسے اور کس ماحول میں رہنا ہے۔۔ لیکن آج کے اس واقعے کے بعد لگا کہ جسمانی تربیت تو ہم کرسکتے ہیں ۔۔ روحانی کے معاملے میں ہم زیرو کے زیرو یی رہے۔۔ بہت بہت افسوس اور دکھ ہورہا ۔۔
السلام علیکم ہادیہ
آپ کی پریشانی بجا ہے اور یہ سب پڑھ کر میں بھی بہت ڈسٹرب ہوں۔ آپ نے درست کہا کہ شاید ہم ان بچوں کی درست سمت میں رہنمائی کرنے میں ناکام ہیں۔ بطور والدین، بطور اساتذہ، بطور معاشرہ۔
جیسا کہ جاسمن اور باقی سب نے کہا یہ کسی ایک علاقے، سکول یا طبقے کا مسئلہ نہیں ہے۔ سرکاری، پرائیویٹ، امیر غریب، سکول مدرسہ ہر جگہ اساتذہ اور والدین کو ایسے مسائل درپیش ہیں۔ میرے ذاتی خیال میں اس کی وجہ ہمارے ہاں ان موضوعات کو بالکل نظر انداز کر دینا ہے۔ ہم بچے کو روح اور سوچ کی صفائی پر تو دو چار سال کی عمر سے ہی سبق دینا شروع کر دیتے ہیں لیکن اسے یہ نہیں بتاتے کہ روح اور سوچ کی پاکیزگی جسم کی پاکیزگی سے شروع ہوتی ہے۔ اسے یہ نہیں بتاتے کہ اس سلسلے میں کیا درست اور کیا غلط ہے۔ نتیجہ یہ بچہ جب ایسی کیسی صورتحال کا مشاہدہ کرتا ہے یا اس کے ساتھ کچھ غلط ہوتا ہے تو اسے اندازہ نہیں ہوتا کہ اس میں غلط کیا ہے۔ ہم اب بچوں کو الزام نہیں دے سکتے کہ ہم نے انھیں کچھ بتایا ہی نہیں۔
اب رہی بات اس مخصوص کیس کی۔ یقیننا بچی اس ماحول میں رہ رہی ہے جہاں اس مسئلے کی سنگینی کا کسی کو اندازہ نہیں ہے۔ فوری ایکشن کے لیے میرا مشورہ یہ ہو گا کہ:
1۔ بچوں کو اسمبلی یا ایسے ہی کسی وقت میں اکٹھا کریں اور انھیں ان ڈائریکٹ طریقے سے ان باتوں کے بارے میں بتائیں۔ ابھی کچھ جلدی میں ہوں۔ ہم سب مل کر اس کے content اور طریقے پر ڈسکس کر سکتے ہیں یہاں۔
2۔ بچی کے والدین کو بلانے اور ان کے ردعمل پر تو آپ بات کر چکی ہیں کہ کیا ہو سکتا ہے۔ آپ شروعات mothers' workshop سے کریں۔ ماوں کو سکول بلائیں۔ انھیں بتائیں وہ بچوں کو کیسے سپورٹ کر سکتی ہیں۔ شروعات کپڑوں سے کریں دھلائی، استری وغیرہ۔ پھر صبح تیار کر کے بھیجنے پر گائیڈ کریں۔ لنچ پر بات کریں۔ ہوم ورک کے بارے میں بتائیں اور ایسے ہی غیر محسوس طریقے سے اس موضوع کو سامنے لے آئیں۔ بچی کا نام لیے بغیر انھیں بتائیں کہ اس کے مسائل کا سامنا ہے اور یہ واقعہ ہوا ہے۔ پھر ان سے مشورہ مانگیں کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ سکول میں کیا کرنا چاہیے؟ گھر میں کیا کرنا چاہیے؟
اس کے بعد بتائیں کہ شروع میں تو آپ لوگ ایسے بچوں کو خود ڈیل کریں گے اور اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو بچوں کو سکول سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔ سرٹیفیکٹ پر اگر وجہ لکھ دی گئی تو کہیں داخلہ نہیں ملے گا وغیرہ۔
امید ہے اس سے کافی مدد ملے گی۔ ضروری سمجھیں تو بعد میں ماں باپ دونوں کی ورکشاپس کروائیں۔
ایک یا دو مہینوں کے بعد یہ ورکشاپ یا میٹنگ ضرور ہونی چاہیے۔
گاوں کے سرکردہ لوگوں اور جو مائیں کچھ سمجھدار اور میچور ہیں ان پر مبنی والدین کی کمیٹی بنا دیں۔ ایسے مسائل پر ان سے بات کریں اور ان کے ذریعے لوگوں کو approach and influence کریں۔
بچی کے ساتھ رویہ نارمل رکھیں اگرچہ یہ مشکل ہو گا۔ اسے دوسرے بچوں سے الگ کریں۔ کلاس میں اپنی میز یا بورڈ کے پاس کرسی لگوائیں۔ اسے زیادہ سے زیادہ مصروف رکھیں۔ کلاس کے کام اس سے کروائیں جیسے بورڈ صاف کرنا، کاپیاں درست کر کے رکھنا وغیرہ۔ اچھی بچیوں کے گروپس بنا کر ان سے کلاس کی رپورٹ لیں۔
اس وقت جلدی میں ہوں۔ بعد میں ان شاءاللہ مزید ڈسکس کرتے ہیں۔
پریشان نہیں ہوں۔ یہ سوچیں کہ اگر آپ کی مدد اور وجہ سے ایک بچہ بھی درست راہ پر چل پڑا تو کتنا بڑا صدقہ جاریہ ہو گا۔ ان شاءاللہ
 
Top