امجد علی راجا
محفلین
کھا کر ولیمہ، ہاتھ ملا کر نکل گئے
خالی لفافے دوست تھما کر نکل گئےمیرا بھی ایک کام منسٹر سے تھا مگر
جلسے کے بعد ہاتھ ہلا کر نکل گئے
جانے وہ کون سی ہے دوا، جس کے زور پر
اکثر وزیر ملک کو کھا کر نکل گئے
اکثر وزیر ملک کو کھا کر نکل گئے
کم ظرف ایک شعر بھی میرا سنے بغیر
دیوان اپنا سارا سنا کر نکل گئے
دیوان اپنا سارا سنا کر نکل گئے
دیگیں پکیں رقیب کی شادی کی اور ہم
ان میں جمال گھوٹا ملا کر نکل گئے
ان میں جمال گھوٹا ملا کر نکل گئے
رفتار آج کل کے جوانوں کی تیز ہے
پولیس کو پچاس تھما کر نکل گئے
پولیس کو پچاس تھما کر نکل گئے
چپل خدا کے گھر سے کوئی چور لے گیا
ہم بھی کسی کے بوٹ دبا کر نکل گئے
(استادِ محترم الف عین سے اصلاح کے بعد)
ہم بھی کسی کے بوٹ دبا کر نکل گئے
(استادِ محترم الف عین سے اصلاح کے بعد)