کھیل ہی کھیل میں‌ اپنی املاء درست کریں۔

بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کے آخر میں الف ہے مگر لکھنے والے ان کے آخر میں ہ لکھ دیتے ہیں ایسے ہی کچھ الفاظ اس کے برعکس ہیں۔
وہ الفاظ جن کے آخر میں الف لکھنا درست ہے:
بھروسا ، پتا ، انڈا ، ناشتا ، رکشا ، مہینا ، پسینا ، دھبا ، ڈنڈا ، ذرَا ، مسالا ، چپا ، چرچا۔
وہ الفاظ جن کے آخر میں ہ لکھنا درست ہے:
مزہ ، بستہ ، ذرّہ ، فرشتہ ، رشتہ ، مصالحہ ، رسالہ ، گزارہ ، خرچہ ، خربوزہ ، سرکہ ، سرمہ ، سکہ۔
اس کی بے شمار مثالیں ہیں ، انھیں کسی قاعدے کے تحت لانے کی ضرورت ہے، ایک دو جگہ نظروں سے قاعدہ گزرا بھی ، مگر اطمینان نہیں ہوا، اگر اساتذاہ رہنمائی فرمادیں تو بہت نوازش ہوگی۔
 

الف عین

لائبریرین
اس کا اصول محض یہ ہے کہ اصل فارسی عربی الفاظ ہوں تو املا میں آخر میں ہ آتا ہے، اور ہندی الاصل ہوں تو آخر میں الف۔ جیسے محمد اسامہ سَرسَری کی فہرست کے الفاظ، لیکن ناشتہ میرے خیال میں ہ کے ساتھ ہی درست ہے
 
اس کا اصول محض یہ ہے کہ اصل فارسی عربی الفاظ ہوں تو املا میں آخر میں ہ آتا ہے، اور ہندی الاصل ہوں تو آخر میں الف۔ جیسے محمد اسامہ سَرسَری کی فہرست کے الفاظ، لیکن ناشتہ میرے خیال میں ہ کے ساتھ ہی درست ہے
ناشتا:
فیروز اللغات اردو سن اشاعت:۲۰۰۵ء۔ علمی اردو لغت۔
نیز:
http://www.clepk.org/oud/ViewWord.aspx?refid=10636
 
جناب شمشاد کے حکم کی تعمیل میں ۔۔

محمد اسامہ سَرسَری ایک جگہ لکھتے ہیں:
خواجہ صاحب (فرضی نام) کی نظم و نثر کے حوالے سے مفید باتیں یہاں (لنک) دیکھئے
اس جملے کے معانی میں اشکال واقع ہو گیا۔ دو امکانی مفہوم:
1۔ خواجہ صاحب کی نظم و نثر پر کچھ احباب نے گفتگو کی یا تبصرے کئے، وہ یہاں (لنک) دیکھئے۔
2۔ خواجہ صاحب نے نظم و نثر پر کچھ گفتگو کی یا تبصرے کئے، وہ یہاں (لنک) دیکھئے۔

مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ جناب سَرسَری کے پیشِ نظر مفہوم 2 ہے۔ میں سفارش کرتا ہوں کہ وہ منقولہ بالا جملے کو یوں لکھیں:
نظم و نثر کے حوالے سے خواجہ صاحب (فرضی نام) کی مفید باتیں یہاں (لنک) دیکھئے
بہت آداب۔
 
میں نے بھی اخبارات میں کافی کارروائیوں کا مطالعہ کیا ہے، مجھے تو دو رائیں نظر آتی ہیں۔:)

اصولی طور پر تو یہ ’’کار + روائی‘‘ ہے۔ میں اس پر لفظ ’’روداد‘‘ کو ترجیح دیتا ہوں بشرطے کہ کوئی اور مسئلہ پیدا نہ ہو رہا ہو۔
 
بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کے آخر میں الف ہے مگر لکھنے والے ان کے آخر میں ہ لکھ دیتے ہیں ایسے ہی کچھ الفاظ اس کے برعکس ہیں۔
وہ الفاظ جن کے آخر میں الف لکھنا درست ہے:
بھروسا ، پتا ، انڈا ، ناشتا ، رکشا ، مہینا ، پسینا ، دھبا ، ڈنڈا ، ذرَا ، مسالا ، چپا ، چرچا۔
وہ الفاظ جن کے آخر میں ہ لکھنا درست ہے:
مزہ ، بستہ ، ذرّہ ، فرشتہ ، رشتہ ، مصالحہ ، رسالہ ، گزارہ ، خرچہ ، خربوزہ ، سرکہ ، سرمہ ، سکہ۔
اس کی بے شمار مثالیں ہیں ، انھیں کسی قاعدے کے تحت لانے کی ضرورت ہے، ایک دو جگہ نظروں سے قاعدہ گزرا بھی ، مگر اطمینان نہیں ہوا، اگر اساتذاہ رہنمائی فرمادیں تو بہت نوازش ہوگی۔


اس کا اصول محض یہ ہے کہ اصل فارسی عربی الفاظ ہوں تو املا میں آخر میں ہ آتا ہے، اور ہندی الاصل ہوں تو آخر میں الف۔ جیسے محمد اسامہ سَرسَری کی فہرست کے الفاظ، لیکن ناشتہ میرے خیال میں ہ کے ساتھ ہی درست ہے

اس میں ایک نکتہ اور شامل کر لیجئے:
اگر ایسے الفاظ عربی الاصل ہیں تو الف یا ہاے اصل کے مطابق ہوں گے۔
دعا، دوا، حیا، فنا، بقا، ندا، ۔۔۔ سلسلہ، مراسلہ، حصہ، غصہ، وغیرہ

کچھ اور امور بھی دیکھنے ہوں گے۔ جو فوری طور پر ذہن میں آ رہے ہیں ان کا ذکر کرتا ہوں
 
کچھ اور امور بھی دیکھنے ہوں گے۔ جو فوری طور پر ذہن میں آ رہے ہیں ان کا ذکر کرتا ہوں

آپ نے وقت کیسے گزارا؟ (الف ۔۔ گزارنا اردو کا مصدر بن گیا اور فعل ماضی مذکر کی علامت الف لاگو ہوئی)۔
گزارہ کرو بھائی (ہاے ۔۔ فارسی مصدر سے گزارہ حاصل مصدر ہے)۔

اس وقت کیا بجا ہے؟ (وقت)، بجا ارشاد (بجا : درست، ب + جا)؛ ایک جیسی املاء سے گھبرائیے نہیں۔

اُس نے بہت روپیہ خرچا ۔۔۔ اس مکان پر کتنا خرچہ ہوا؟ ۔۔ اصل ایک ہی ہے۔
خرچا (فعل) اور خرچہ (اسم) کی طرف کنایہ ہے۔

کچھ دوست قوافی کی املاء میں غیرضروری مماثلت پیدا کرنے کی کوشش میں الف اور ہاے کو ادل بدل کر دیتے ہیں۔ مثلاً: ہمارا، اشارا، ستارا، اتارا، تارا، نکھارا، ۔۔۔ ایسا کرنے کی قطعی ضرورت نہیں، املاء جو ہے وہی لکھی جانی چاہئے: مثلاً: ہمارا، اشارہ، ستارہ، اتارا، تارا، نکھارا۔ یاد رہے کہ تارا اور ستارہ ہم معنی ہیں تاہم تارا میں الف اور ستارہ میں ہاے ہے، یعنی تارا دراصل ستارہ کی تحریف ہے۔

مزید پھر کبھی سہی۔
 
چندا (چاند کی تصغیر) اور چندہ (چندہ دیتے ہیں) ۔۔
چندے آفتاب چندے ماہتاب (فارسی ضرب المثل) لفظی معانی: ’’جیسا کہ سورج، جیسا کہ چاند‘‘ با محاورہ معانی: بہت خوب صورت
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
اختلافِ نکتۂ نظر ہونا اچھی بات ہے۔ اور ایسا نہیں کہ آپ کی تحریر یا نکتۂ نظر محفل میں پوسٹ کرنے کے قابل نہیں۔ آپ علمی حوالے سے بہت اچھی طرح اپنی بات کو احاطۂ تحریر میں لائیں۔ کم از کم میں اتنی جامع اور مربوط تحریر نہیں لکھ سکتا۔ اور بحث کرکے ہی ہم ایک دوسرے سے سیکھ سکتے ہیں۔ تو اپنے نکتۂ نظر کا ذکر کرنا کوئی ہچکچاہٹ کی بات نہیں۔ اچھا ہوا آپ نے ارسال کیا اسی بدولت ہمارے دماغ کی تھوڑی گرد تو جھڑی ورنہ ہم ایسے سطحی آدمی ہیں کہ جو جیسا ہے چلنے دو کیا ضرورت دماغ چلانے کی ۔۔۔​
نکتۂ نظرصحیح ہے یا نقطہنظر
(​
نکتۂ) نظر
؟​
 
لیکن میرا اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ:
ان دونوں کے بیچ جو ہمزہ لکھا جاتا ہے وہ اردو محفل کے کلیدی تختے (کی بورڈ) میں کہاں ہے؟
جناب محمد یعقوب آسی یا محترم شمشاد صاحب رہنمائی فرمائیں۔ دائرہء کار کا ء جو ہ کے اوپر ہو اس کی کلید بتادیں۔
 
جناب محمد یعقوب آسی یا محترم شمشاد صاحب رہنمائی فرمائیں۔ دائرہء کار کا ء جو ہ کے اوپر ہو اس کی کلید بتادیں۔

مثال: بازیچہءِ اطفال ہے دنیا مرے آگے
میرے کمپیوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال ہوا ہوا ہے۔ سکرین کے نچلے دائیں کونے میں EN یا UR کا toggle switch دکھائی دیتا ہے۔ وہاں اگر EN ہے تو shift-u سے ’’بڑا ہمزہ‘‘ بنتا ہے۔ یہ طریقہ در اصل ’’گزارہ برانڈ‘‘ میں آتا ہے۔ اسی طرح: دائرہء کار، سلسلہء کوہ، قصہء پارینہ۔

اس سوئچ کو UR کریں۔ shift-7 سے ’’چھوٹا ہمزہ‘‘ بنتا ہے۔ یوں:
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے۔ دائرۂ کار، سلسلۂ کوہ، قصۂ پارینہ۔

ؤ لکھنے کے لئے ۔۔ UR کی صورت میں مساوی کی علامت (=) والی کلید، اور EN کی صورت میں shift-w ۔

جناب محمد اسامہ سَرسَری ، جناب فارقلیط رحمانی ۔
 
اس سوئچ کو UR کریں۔ shift-7 سے ’’چھوٹا ہمزہ‘‘ بنتا ہے۔ یوں:​
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے۔ دائرۂ کار، سلسلۂ کوہ، قصۂ پارینہ۔​

اسی کے تسلسل میں: مۓ لالہ فام، والیٔ بطحا
اور EN کی صورت میں مےءِ لالہ فام، والیءِ بطحا

(میرے نزدیک مئے لالہ فام اور والئی بطحا درست املاء نہیں ہے)۔
 
Top